تحریر: سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) اسلام کا پیغام برصغیر میں صدیوں پہلے پہنچا۔ مسلمانوں نے اس سرزمین پر اپنے عالی اخلاق، رواداری اور پیار و محبت کی ایسی مثالیں اور عملی نمونے پیش کئے کہ خطے میں رہنے والے ہندو اور سکھ ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے ہزاروں سال پرانے اپنے ادیان کو ترک کیا اور جوق در جوق دائره اسلام میں داخل ہوئے۔ ہندوستان کے مسلمان باہمی اخوت اور محبت سے رہتے تهے۔ شیعہ اور سنی فکری و عقائدی اور فقهی اختلافات رکهنے کے باوجود آپس میں باہمی اخوت کے مضبوط رشتے میں ﺟﮍے ہوئے تهے۔ ایک ہی گهر میں ایک بهائی اہل سنت تها اور دوسرا شیعہ۔ گهروں میں گرما گرم بحث ہوتی تهی اور ہر شخص اپنے دلائل اور برهان بیان کرتا تها، لیکن یہ اختلاف، اختلاف نظر اور اختلاف رائے سے تجاوز نہیں کرتا تها۔ برصغیر کے شیعہ اور سنی دونوں بهائیوں نے ملکر آزادی کی تحریک چلائی اور انکی باہمی اخوت اور محبت کے جذبے اور شانہ بشانہ طولانی جدوجہد سے پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی اور دفاع کیلئے دونوں بهائیوں نے قربانیاں دیں اور وطن عزیز کو مستحکم کیا۔ یہاں تک کہ برطانوی جاسوس مسٹر ہمفر کا تخلیق کرده تکفیری اور متعصب و متشدد وہابی اسلام پاکستان کے مسلمانوں میں سرایت کرنے لگا، جو کہ مسٹر ہمفر کے شاگرد سعودی نژاد محمد بن عبدالوہاب کے نام سے منسوب ہے اور اس برطانوی جاسوس کے اعترافات دنیا کی مختلف زبانوں میں نشر ہوچکے ہیں۔ اس فکر کیمطابق شیعہ کافر اور سنی مشرک قرار دیئے گئے۔
آغاز تو کفر و شرک کے فتووں سے ہوا، لیکن جب روسی استعمار برادر ہمسائیہ ملک افغانستان میں وارد ہوا اور ادهر ایرانی مسلم عوام نے اڑهائی ہزاز سالہ شهنشاہیت سے نجات حاصل کی، تو اس فکر کے تعصب اور تشدد میں اضافہ ہوا۔ اس تکفیری لہر کو ہوا دینے کا مقصد پاکستانی مسلم عوام کے درمیان فاصلے پیدا کرنا تها، کیونکہ امریکہ کے ہر لحاظ سے تابعدار شخص شهنشاه ایران کی بساط لپٹی جا چکی تهی، اور دوسری طرف امریکہ کا دشمن روس افغانستان میں وارد ہوگیا تها۔ خطره یہ لاحق ہوا کہ جب اسلام حقیقی سے ایک بہت پرانی صدیوں پر محیط شهنشاہیت گرائی جاسکتی ہے تو اس دین کے ماننے والے پورے خطے میں جمهوریتیں ہوں یا بادشاہتیں یا ڈیکٹیٹرز حکومتیں سارے مسلمانوں کے ملک ہیں اور یقیناً ایران کے اسلامی انقلاب کے اثرات ان پر بهی مرتب ہونگے، اس لئے اس کا سدباب کیا جائے اور انقلاب کی فکر کو جو کہ حضرت محمد عربی کی فکر کا کرشمہ ہے، اسے محدود کیا جائے۔ امریکہ اور مغربی استعماری قوتوں نے متفقہ طور پر عرب بادشاہوں کو باور کروایا کہ آپکا اصل دشمن اسرائیل نہیں ایران ہے۔
اسرائیل جو کہ تمام مسلمانوں کا کهلا دشمن ہے، اس نے لاکهوں فلسطینی اور عرب مسلمانوں کو قتل کیا، انکی زمینوں پر قبضہ کیا اور انہیں انتہائی ذلت کیساتهـ اپنا وطن چهوڑنے پر مجبور کیا۔ پوری دنیا میں بسنے والے اربوں مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد الاقصٰی پر قابض ہو کر انکے جذبات کو مجروح کیا۔ مقبوضہ فلسطین کے ہمسائیہ ممالک مصر، اردن، شام اور لبنان کی زمینون پر بهی قبضہ کیا۔ ان تمام اسرائیلی جرائم کے باوجود مغربی استعمار بالخصوص امریکہ عرب بادشاہوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ انکا اصل دشمن اسرائیل نہیں ایران ہے۔ عربوں کو اکسایا کہ قبل اس کے کہ یہ نئی معرض وجود مین آنے والی حکومت طاقتور ہو جائے اس پر فوراً حملہ کر دو۔ عربوں نے عراقی ڈیکٹیٹر صدام حسین کو اکسایا کہ وه فوراً ایران پر حملہ کر دے، اور سب خلیجی بادشاہوں نے اسکی بهرپور مدد کی اور آٹھ سال مسلسل یہ جنگ مسلط رکهی گئی، لیکن اسلام دشمن قوتیں ناکام ہوئیں۔
دوسری طرف پاکستان میں روسی مداخلت کو روکنے کیلئے فقط اور فقط تنگ نظر فرقے کے افراد کو مسلح ٹرینگ دی گئی اور انہیں عسکری لحاظ سے مضبوط کیا گیا۔ انہیں کشمیر کی آزادی اور روس کا مقابلہ کرنے کے لئے طاقتور کیا گیا۔ ہر قسم کی عسکری تربیت اور جنگی اسلحہ فراہم کیا گیا، جس کا اعتراف خود سابقہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے امریکن کانگریس سے خطاب کے دوران کیا۔ "کہ ہم نے وہابی تکفیری گروہوں کو طاقتور اور مسلح کیا۔" روس کے پسپا ہونے کے بعد اب یہ گروه پاکستان کے وسیع و عریض علاقون پر قابض ہیں۔ کشمیر تو آزاد نہ ہوا لیکن مختلف ممالک کے امریکی اور سعودی فنڈڈ لوگ فقط پاکستان کے وسیع و عریض علاقون پر قابض ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا امن و امان خراب کر رہے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ، قتل و غارت، بم دهماکے اور خودکش حملے کرنا انکا وطیره بن چکا ہے۔ ملکی سرحدوں کی امین پاک فوج اپنے ہی گهر میں ذبح ہو رہی ہے۔ اسی طرح پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز بهی نہتے عوام کیطرح آئے دن انکے ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں۔
حقیقی اسلامی انقلابی فکر کو روکنے کیلئے اور مسلم امت کی وحدت کو پاره پاره کرنے کیلئے تکفیری وہابی تنگ نظر سوچ کو پهیلانے کیلئے سعودی عرب کی لامحدود مالی مدد سے پاکستان میں ﺑﮍے پیمانے پر سرمایہ گزاری کی گئی۔ جس کے لئے سعودی فنڈڈ مدارس کا وسیع جال پهیلایا گیا ہے، جن میں طلبہ کی تعداد بیس لاکھ سے زیاده ہے اور وہاں پر مسلمانوں کو کافر اور مشرک ثابت کرنے اور پهر انہیں قتل کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ پاکستان میں ایسے ہزاروں سنی اور شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا، جن کا کہیں دور سے بهی ایران سے کوئی رابطہ اور تعلق نہیں تها۔ انہیں سعودی فنڈڈ مسلح گروہوں کی طرف سے ملک کے سکیورٹی مراکز اور پاک آرمی بیسز اور جی ایچ کیو پر بهی حملہ ہوا، جن کا ایران سے کوئی تعلق نہیں تها۔ سعودیہ اور امریکہ نے ایرانی حدود کو ناامن کرنے اور مسافرین اور زائرین کی نقل وحرکت کو روکنے کے لئے ہمارے صوبہ بلوچستان کی حساس سرزمین استعمال کی اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ پاکستان سے کبهی پاکستان میں زیر تعلیم کیڈٹ کے جنازے جاتے ہیں اور کبهی ایرانی ڈپلومیٹس کے جنازے، اور اب تو یہ دہشتگرد ایرانی سرحدی محافظ فورس کے افراد کو اغواء اور قتل کر رہے ہیں۔
جب ان دہشت گردوں کے جرائم کا ذکر کیا جاتا ہے تو کچھ لوگ فوراً بڑی سادگی سے فرما دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار ہو رہی ہے، اگر تعصب کی عینک اتار کر گذشتہ تیس سال سے پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی کا جائزه لیا جائے اور 80 فیصد آبادی پر مشتمل شیعہ اور سنی کے خلاف بر سرعام چوکوں اور بازاروں میں کفر و شرک کے فتووں کی یلغار ہو یا مساجد و امام بارگاہوں اور اولیاء کرام کے درباروں میں یا گلی کوچوں اور بازاروں میں خودکش حملے، ان سب کے ماوراء سعودی ایڈ اور فکر کارفرما ہے۔ سعودی ہمیں اربوں ڈالرز ایڈ نہ دیں، فقط ملک کے امن و اقتصاد کو تباه کرنے والے دہشت گردوں کی ایڈ روک لیں تو پاکستان خود بخود بغیر خارجی ایڈ کے اپنے پاوں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔ ہم پاکستانی سب جانتے ہیں کہ یہاں پراکسی وار نہیں سعودی یلغار ہے اور اس ملک کے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں سعودی بادشاه ہمارے پاک وطن کو اپنے قصروں اور محلوں کا پیچھـے والا لان سمجهتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اس ایٹمی طاقت کے مالک ہم ہیں۔ اب پاکستانی قوم کی ذمہ داری ہے کہ وه متحد ہو کر استقلال کی جنگ ﻟﮍے اور مملکت خداداد کو آزاد و خود مختار بنائے۔