شیعہ نسل کشی،احتجاج،دھرنا اور بھوک ہڑتال

21 June 2016

وحدت نیوز (رپورٹ: ناصر رینگچن) حال ہی میں شیعہ نسل کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور شیعہ نسل کشی پر ریاستی و عسکری اداروں کی خاموش تماشائی کو دیکھتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے ملک بھر میں احتجاج اور بھوک ہڑتال کی کال دے دی۔ مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بھوک ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جاری شیعہ نسل کشی کے خلاف ہر حربہ آزما چکے ہیں ، مظاہرہ، دھرنے سب کچھ کر چکے ہیں مگر بے حس حکمران پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام میں ناکام ہوچکے ہیں اور ان کرپٹ اور نالائق حکمرانوں سے کوئی اچھائی کی امید نہیں رکھی جا سکتی لہذا اب میں مجبور ہو چکا ہوں کہ اس وقوم اور ملک کی مفاد کی خاطر بھوک ہڑتال کروں۔

یاد رہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں مضبوط سیاسی و مذہبی جماعت ہے جنہوں نے ۲۰۱۳ میں سانحہ علمدار چوک کوئٹہ کے بعد ملک بھر میں شیعہ نسل کشی کے خلاف دھرنے دے کر بلوچستان کے وزیر اعلی اسلم رئیسانی کو استعفی پر مجبور کیا تھا اور ملک بھر میں کراچی سے لیکر گلگت بلتستان تک اور بیرونی ملک امریکہ، کینیڈا ،لندن سمیت کئی غیر ممالک میں پاکستانی سفارت خانہ کے باہر دھرنا دیا گیا تھا اس طرح ملک کے تمام اہم شاہراہوں کو بند کر کے ملک کو مفلوج کر دیا گیا تھا۔ مگر انتہائی اہم بات یہ ہے کہ ملک کے کسی کونے میں بھی کوئی پتہ نہیں ٹوٹا کہی کوئی ناخوشگوار واقع رونما نہیں ہوا اور مطالبات کی منظوری کے بعد عوام پور امن طریقہ سے منتشر ہوئے تھے۔

سانحہ پاراچنار، ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی کے بعد مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ کی کال پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور اسلام آباد میں بھی مظاہرہ G-6 امام بارگاہ سے نکال کر نیشنل پریس کلب اسلام آباد تک لایا گیا جس کے بعد مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے عوام کو پر امن منتشر ہونے کی تلقین کرتے ہوئے خود پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال کرنے کا علان کیا جس کے بعد آج اس پور امن بھوک ہڑتال کا نواں روز ہے۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ وہ احتجاجی مظاہرہ اور دھرنے دے کر تنگ آچکے ہیں لہذا اب وہ اپنے دس نکاتی مطالبہ کی باقاعدہ منظوری تک بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے ۔مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ"پاکستان کے حکمرانوں نے ملک میں ظلم و بربریت ، کرپشن اور لاقانونیت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔اس ظلم کے خلاف اگر ایک سال بھی بھوک ہڑتال کرنا پڑی تو کریں گے"

ان کا مزید کہنا تھا "اگر حکومتی رویہ میں تبدیلی نہ آئی تو احتجاج کے لئے آگے کی طرف بھی بڑھا جا سکتا ہے"
خیبر پختونخواہ کی حکومت اور عمران خان کے بارے میں کہنا تھا " کے پی کے کی حکومت کو عمران خان مثالی حکومت کہتے ہیں مگر حقیقت میں کے پی کے میں عمران خان مکمل ناکام ہو چکی ہے، اس صوبے میں تعلیمی ادارے، مساجد،بزنس مین،وکلا اور مختلف شعبوں کے ماہرین سمیت کوئی بھی شہری محفوظ نہیں، تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اس قتل و غارت پر حکومت کی طرف سے تعزیت تک کرنا گوارہ نہیں کیا جاتا،انہوں نے کہا کہ پارہ چنار میں قتل ہونے والے بے گناہ افراد پر ایف سی کمانڈر کی طرف سے گولیاں چلائیں گئی، وہاں کے سیکورٹی اداروں اور پولیٹیکل ایجنڈوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایف سی اور لیویز کے اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کے لئے کمیشن تشکیل دیا جائے"

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ملک میں امن کے قیام اور شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کے لئے حکومت کے سامنے اپنے دس نکات پر مشتمل مطالبات پیش کر دیے ہیں۔مجلس وحدت مسلمین کے مطالبات یہ ہیں ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ شیعہ نسل کشی میں ملوث دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ملک گیر آپریشن شروع کیا جائے۔ ریاستی اور عسکری ادارے شیعہ مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف فوری کاروائی کریں اور مجرمانہ خاموشی ختم کریں۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف فوری کاروائی کا آغاز کیا جائے اور نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم جماعتوں کی سر گرمیوں کو روکا جائے۔ملک میں شیعہ مسلمانوں پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں بالخصوص سانحہ شکارپور، سانحہ جیکب آباد، سانحہ چلاس، سانحہ بابوسر، سانحہ حیات آباد، سانحہ عاشور اور سانحہ راولپنڈی سمیت تمام سانحات کے مقدمات کو ملٹری کورٹس میں بھیجا جائے۔ پاکستان میں موجود تمام مسالک اور مذہب کے لوگوں کو تکفیری دہشت گردوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔پنجاب حکومت اپنی شیعہ دشمنی فوری ختم کرے۔ عزاداری سید الشہداپر غیر اعلانیہ پابندیاں، شیعہ عمائدین اور بانیان مجالس کے خلاف ایف آئی آر ختم کی جائیں۔ علما و ذاکرین پر عائد پابندیوں کا مکمل خاتمہ اور جن لوگوں کا نام بلاوجہ شیڈول فور میں ڈالا گیا ہے اسے نکالا جائے۔ خیبر پختونخواہ حکومت شیعہ قتل عام پر مجرمانہ خاموشی ختم کرے اور دہشت گردوں کے خلاف سنجیدہ کاروائی کی جائے۔پاراچنا کرم ایجنسی میں ایف سی کے ہاتھوں شہید ہونے والے بے گناہ مظاہرین کے لئے تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے اور کمانڈیٹ کرم ایجنسی ، پولٹیکل ایجنٹ اکرام اللہ اور اسسٹنٹ پولٹیکل یجنٹ شاہد علی کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔گلگت بلتستان اور پارا چنار کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کی سازش اور حکومتی سر پرستی میں شیعیان حیددر کرار کی زمینوں پر قبضہ فوری ختم کیا جائے۔ مسلکی بنیادوں پر پاکستان کی تقسیم کی سازش کے خلاف عملی اقدامات کئے جائیں۔

ان مطالبات کی حق میں مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے اسلام آباد میں شروع ہونے والا بھوک ہڑتال آہستہ آہستہ ملک کے دوسرے صوبوں میں پھیل رہی ہے اور شیعہ نسل کشی کے خلاف مجلس وحدت کی حمایت میں کراچی، لاہور،حیددآباد، کوئٹہ اور گلگت بلتستان سمیت ملک کے ۳۷ مختلف جگہوں پر علامتی بھوک ہڑتال کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ وطن عزیز میں جاری دہشت گردی قتل و غارت گری کے خلاف اس بھوک ہڑتال کی اثرات بیرونی ملک میں بھی پڑرہی ہے اور لندن واشنگٹن میں بھی شیعہ علمائے کرام اور محب وطن پاکستانی شہریوں نے پاکستانی ہائی کمشن کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا ۔
ادھر بھوک ہڑتال نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں تہلکہ مچا دی ہے اور کوئی دبے لفظوں میں حمایت کررہے ہیں تو کوئی دن کی اجالوں میں وفد کے ہمراہ نیشل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے بھوک ہڑتال کیمپ میں آکر ظلم و ناانصافی کے خلاف اس احتجاج میں اظہار یکجہتی کر تے نظر آرہے ہیں۔اس احتجاجی کیمپ میں اب تک پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی،پاکستان عوامی تحریک،سنی اتحاد کونسل ،جماعت اسلامی، ملی یکجہتی کونسل، سول سوسائٹی،انسانی حقوق کے تنظیموں ،تمام شیعہ تنظیموں اور انجمنوں سمیت ہندو، مسیحی اور دیگر مذاہب کے اہم رہنما اور وفد نے شرکت کی اور علامہ راجہ ناصر عباس کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ تنظیموں کے علاوہ علمائے کرام اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے شخصیات اور جوانوں کا بھوک ہڑتال کیمپ میں آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد نے نائب صدر شیری رحمان کی سربراہی میں احتجاجی کیمپ میں علامہ راجہ ناصر عباس سے ملاقت کی اور بھوک ہڑتال کی مکمل حمایت کر تے ہوئے اعلان کیا کہ " ہم ملت جعفریہ کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ آج سے ہم آپ کی آواز قومی اسمبلی اور سینیٹ سمیت ہر فورم پر اٹھائیں گے اور اس مشکل وقت میں اہل تشیع کے ساتھ کھڑے ہیں".

پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے بھی نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے مجلس وحدت مسلمین کے بھوک ہڑتال کیمپ میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے اظہار یکجہتی کے لئے تشریف لائے جہاں دونوں رہنماں کے درمیان مجلس وحدت کے مطالبات اور ملکی صورتحال پہ بات چیت ہوئی۔ تحریک انصاف کے چیرمین نے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے ہمراہ پریس بریفنگ میں کہا کہ مذہب کے نام پر کسی مخصوص مسلک کو ٹارگٹ کرنا ظلم و نا انصافی کی انتہا ہے میں خیبر پختوانخواہ میں ہونے والے ان واقعات کی مذمت کرتا ہوں اور آپ کے تحفظات دور کرنے کا یقین دلاتا ہوں، ہم اس معاملے کو اپیکس کمیٹی میں بھی لے کر جائیں گے۔ مجھے ان معاملات سے لا علم رکھا گیا ہے ، ہماری جماعت کے وزیر شہدا کے گھروں میں جا کر تعزیت کریں گے اس کے ساتھ ساتھ ایم ڈبلیو ایم سے مستقل رابطہ رکھا جائے گا تاکہ دونوں جماعتوں کے درمیان بہترین تعلقات بر قرار رہیں،شیعہ نسل کشی کے واقعات پر افسوس ہے اور قاتلوں کی گرفتاری کے لئے اپنی جماعت کے مکمل تعان کا یقین دلا یا"۔

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر زاہد خان نے بھی بھوک ہڑتال کیمپ کی حمایت اور اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا "دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف مجلس وحدت مسلمین اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ہی موقف ہے اور ہم شیعہ نسل کشی پر ایم ڈبلیو ایم کے مطالبات کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں گے"

ملی یکجہتی کونسل کے وفد کونسل کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی قیادت میں بھوک ہڑتال کیمپ میں علامہ راجہ ناصر سے ملاقات کی اور اظہار یکجہتی کیااس وفد کے ہمراہ جماعت اسلامی کے مرکزی نائب صدر میاں اسلم بھی موجود تھے۔
سنی اتحاد کونسل کے چیئر مین صاحبزادہ حامد رضا نے میڈیا سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ" جس ملک میں اپنے جائز حقوق کے لئے ایک ملک گیر مذہبی و سیاسی جماعت کے قائد کو بھوک ہڑتال کرنی پڑے وہاں عام آدمی کو اپنے مسائل کو حل کرنے لے لئے کتنی مشکلات کا سامنا ہوگا، نون لیگ حکومت دہشت گردی کے خلاف جاری ضرب عضب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے".

پاکستان عوامی تحریک کے سیکریٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے مجلس وحدت مسلمین کے احتجاجی کیمپ میں علامہ راجہ ناصر عباس سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا"لا قانونیت اور ریاستی اداروں کی بر بریت کے خلاف جنگ میں مجلس وحد ت مسلمین تنہا نہیں بلکہ پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہیں"

اسی طرح جمعیت علما ئے پاکستان نیازی کے سربراہ پیر معصوم شاہ نے بھی مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ کے ساتھ اظہار یکجہتی اور دس نکاتی ایجنڈے پر فوری عمل داری کا مطالبہ کیا۔

آخر یہ فرقہ وارانہ فسادات کیوں شروع ہوئے ؟ آخر یہ نوبت کیوں آئی کی بھوک ہڑتال کرنا پڑا؟اگر ہم تھوڑی سی تاریخ دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جب وطن عزیز پاکستان آزاد ہوا تھا تو اس ملک میں کوئی فرقہ واریت کوئی نسل مذہب کی لڑائی نہیں تھی شیعہ ، سنی ہندو، مسیحی سب آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہتے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر کے شریک رہتے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح خود شیعہ تھے اور اسی طرح علامہ اقبال سنی تھے امگر ان سب نے مل کر پیار و محت سے یہ وطن بنایا تھا، وطن عزیز کی آزادی کے وقت پاکستانی معیشت کو مضبوط کرنے والا شخص نواب آف محمود آباد خود شیعہ تھے اور قائد اعظم کا دوست بھی تھا جنہوں نے اُس دور میں کروڑوں روپے نقدی اور مالی امداد کی اسی طرح تاریخ میں بے شمار واقعات موجود ہیں ۔مگرکچھ قوتیں ایسی تھی جن کو پاکستان کے امن و سکون اور سلامتی بر داشت نہیں ہوتی تھی انہی قوقتوں نے وطن عزیز پاکستان میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانا شروع کیا اور ایک خاص فکر کے حامل لوگوں کو اپنا ہم نوا بنایا تاکہ وطن عزیز پاکستان کے امن سکون کو برباد کر سکیں اور پاکستان میں فرقہ واریت کو فروغ دے سکیں۔

فرقہ واریت کا پہلا سانحہ خیرپور میں 1963 کو پیش آیا جس میں 118شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا،اس کے بعد اس تکفیری فکر کے حامل لوگوں کو سیاسی اور مذہبی پشت پناہی حاصل ہوتی رہی اور یوں جنرل ضیالحق 1977-1988 کے دور میں تکفیری فکر کے حامل جماعت ایک خاص قوت کی شکل میں سامنے آئی اورپورے پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑک اٹھی اور سانحات در سانحات رونما ہوتے گئے کبھی گلگت بلتستان پر یلغار ہوئی تو کبھی مسجدامام بارگاہوں میں دھماکے تو کبھی جلوسوں پر خودکش حملہ ، تو کبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات، ڈاکٹرز، وکیل، انجئنیرز پر ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے، تو کبھی بسوں سے اتار کر بے گناہ محب وطن پاکستانیوں کو شناختی کارڑ چیک کر کے مارا جاتا رہا۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
یوں وطن عزیز پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا، ایک سروے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا بیس فیصد شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ شیعہ آبادی پاکستان میں ہے اور اسی طرح دوسرے نمبر پر سب سے بڑا سنی مسلمان ملک بھی پاکستان ہے۔ پاکستان کے سینٹ پارلیمنٹ سے لیکر ہر ادارے کے ہر شعبہ میں شیعہ مسلمان پاکستان کی ترقی کے لئے دن رات محنت کر رہے ہیں خصوصا پاک فوج میں ایک کثیر تعداد شیعہ جوان اپنے جان اس وطن عزیز کی حفاظت پر قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اور ہزاروں جوانوں نے وطن عزیز کی سالمیت اور حفاظت کی خاطر اپنے جانوں کے نذرانے دے چکے ہیں کرگل،سیاچن سے لیکر سندھ کے سحراوں تک ہر سرحد پر شیعہ جوان وطن کی حفاظت کے لئے تیار کھڑے ہیں، مگر افسوس کی وطن عزیز کے اس محب وطن شہریوں کو آئے روز قتل کیا جارہا ہے ہے کبھی گولیوں سے مارا جاتا ہے تو کبھی بم دھماکوں سے اور انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے مطابق 1968سے اب تک ۲۳ہزار کے قریب شیعہ جوانوں ، بچوں، خواتین، ڈاکٹرز، فوج کے آفیسرز، وکیل، ٹیچرز اور عام شہریوں کومذہبی بنیادوں پر قتل کیا جا چکا ہے۔

2003 سے 2015 تک کے اگر اہم واقعات کو ہم دیکھیں توسینکڑوں مسلمانوں کو بے گناہ شہید کیا گیا ہے مندرجہ زیل میں جن وقعات کا ذکر ہو راہا ہے یہ صرف بڑے سانحات ہے جو ان تیرہ سالوں میں رونما ہوئے اس کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ اور چھوٹے موٹے واقعات الگ ہے جن کی ایک لمبی فہرست ہے جن سب کایہاں ذکر ممکن نہیں ، اس کے علاہ اس سروے کے مطابق ۲۰۱۰ سے ۲۰۱۵ کے پانچ سال کے عرصہ میں ۴۰ ڈاکٹرز کو بھی قتل کیا ہے جس سے ہم اچھی طرح اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ ان سانحات سے قوم و ملت کو کس قدر نقصانات ہوئے۔پچھلے تیرہ سالوں میں جو اہم واقعات ہوئے ہیں مثلا محرم کے جلوس ،امام بارگاہوں اور مساجد پر بم دھماکوں اور خودکش حملوں سمیت زائرین اور عام مسافروں کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڑ چیک کر کے جو قتل کیا گیا ہے جیسے ،پشاور کے قصہ خوانی بازار میں محرم کے جلوس پر خودکش حملہ ،لاہور میں حضرت امام علی ؑ کے یوم شہادت پر نکالے گئے ایک جلوس پر خودکش حملہ، سانحہ کوہستان ،سانحہ چلاس ،فاٹا کرم ایجنسی کے مرکزی بازار میں ایک مسجد کے قریب خودکش دھماکہ، بلوچستان کے علاقے تربت میں زیارات پر جانے والے زائرین کی بس پر فائرنگ ،سانحہ مستونگ میں زائرین کی بس پر حملہ ،کوئٹہ علمدار روڑ کا سانحہ جس میں ۱۰۵ شہیدہوئے، ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ ، عباس ٹاؤن بم دھماکوں ، سانحہ شکارپور صرف ان بڑے سانحات میں شہید ہونے والوں کی تعداد تقریبا ۸۰۲ کے قریب ہیں۔ اس کے علاوہ نامور ادیب،وکیل ،ڈاکٹرز علماء،ذاکرین اور عام شہریوں کو شہید کرنے کہ ایک داستان اور طویل فہرست موجود ہیں۔

حکومت نے سانحہ پشاور اسکول کے بعد دہشت گردوں کے خلاف بھر پور آپریشن شروع کی جو بعض علاقوں میں کامیاب رہی ،مگر پنجاب ، سندھ سمیت دیگر شہروں میں بے گناہ اور معصوم لوگوں کی شہادت کو نہ روک سکی ، نہ ہی شہروں میں موجود دہشت گردوں کے پناہ گاہوں اور سہولت کاروں کے خلاف کوئی موثر کاروائی نہیں ہو سکی۔ نیشنل ایکشن پلان تو بنا یا گیا مگر اس کا نتیجہ صفر رہا بلکہ ملک بھر میں نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں بے گناہ لوگوں کو گرفتار اور جلوس و عزاداری پر پابندیاں لگا کر آئینی مذہبی حقوق اور آزادی کو پامال کیا جا رہا ہے۔

ابھی حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ہی دن میں چار پروفشنلز کو شہید کیا گیا جن میں سے ۲ وکیل اور ۲ ٹیچرز تھے جن کو بے گناہ سر عام شہید کیا گیا اور ان کی سی سی فوٹیج بھی موجود ہیں، اس کے بعد کراچی میں سول سوسائٹی کے سر گرم کارکن خرم زکی کو شہید کیا گیا جن کا جرم یہ تھا کہ وہ حق اور مظلوموں کی آواز کو دبنے نہیں دیتے تھے اور ہر مظلوم کی حمایت کرتے تھے خواہ وہ کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں اور ہر ظالم سے نفرت کرتے تھے خواہ اس کے لئے اسے جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ خرم زکی نے وطن عزیز کو مضبوط بنانے اور دہشت گردوں کے خلاف عوام کو متحد کرنے میں نہایت اہم کر دار ادا کیا انھوں نے اسلام آباد میں موجود لال مسجد کے خطیب مولوی عبد العزیز کے خلاف بھی بھر پور تحریک چلائی اور اسی جرم میں ان کی گرفتاری بھی ہوئی۔ ابھی سانحہ کراچی کا غم کم نہیں ہوا تھا کہ پاراچنار میں ایک اور سانحہ پیش آیا ، پاراچنا میں ۳ شعبان کو جشن ولادت امام حسین ؑ منعقدکیاجا رہا تھا جس میں شرکت کے لئے ملک کے مختلف حصوں سے شعراء اور علما ئے کرام کو بطور مہمان دعوت دی گئی تھی مگر ایف سی اور پولیٹیکل انتظامیہ کے اہلکاروں نے پاراچنار جانے والے مہمانوں کو بلا وجہ کے روک دیا گیا اور ان کی پاراچنار داخلہ پر پابندی لگا دی گئی جس کی وجہ سے پاراچنار میں عوام سراپا احتجاج بن گئے اور عوام نے پر امن احتجاج کرتے ہوئے ایف سی اور سیکورٹی اہلکاروں سے مہمانوں کو پاراچنار داخل ہونے کی اجازت طلب کی لیکن ایف سی کے اہلکاروں نے عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے ان کو منتشر کرنے لئے اسٹریٹ فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں جس میں ۴ شیعہ مسلمان شہید اور ۱۷ زخمی ہوئے۔

اس ظلم و بربریت کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کی بھوک ہڑتال نے نہ صرف عوامی ،حکومتی اور سیاسی حلقوں میں ہل چل مچا دیا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی احتجاجی آواز کو بلند کیا ہے ۔ ٹویٹر، فیس بک، وٹس ایپ سمیت دیگر سوشل میڈیا زرائع پر بھی ہش ٹیک کا سلسلہ عروج پر ہیں سب سے زیادہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پہلے پوزیشن میں آنے والا ہش ٹیک #HungerStrike4Justice ہے جو نو دنوں سے مسلسل سوشل میڈیا پر نمایاں ہے ٹیویٹر پر موجود اہم شخصیات، سماجی سیاسی اور مذہبی کارکن اور تنظیموں نے مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے ہے اس ٹرینڈ کو اپنا رہے ہیں۔

مجلس وحدت کا یہ احتجاجی بھوک ہڑتال کیمپ روز بہ روز شدت پکڑتا جا رہا ہے جمعہ کو مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے ملک گیر میں"یوم جمعتہ الوفا" منایا گیا اور ملک بھر میں بعد از نماز جمعہ احتجاجی ریلیاں نکالی گئی اور اسلام آباد کا مرکزی جمعہ نیشنل پریس کلب سے سامنے علامہ راجہ ناصر کی اقتدار میں منعقد ہوا۔ جس میں سینکڑوں لوگوں نے شر کت کی اور شیعہ نسل کشی پر ریاستی وعسکری اداروں کی مجرمانہ خاموشی کے خلاف بھوک ہڑتال کی مکمل حمایت کی گئی۔ لیکن نیند اور عیش و عشرت میں غافل حکمرانوں کو ٹس مس نہیں ہوئے جو ان کی بے حسی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔حکومت کو خواب غفلت سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں مظلومین کے مطالبات اور حق پر فوری عمل درآمداور جرآت مندانہ کاروائی کر نے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن نظر نہیں آرہا جب تک فوج، سیاسی حکومت اور لوگوں کے درمیان بہتر تعاون اور اشتراک قائم نہ ہو۔وطن عزیز میں سیکورٹی کی مجموعی صورتحال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ملک کو لاحق اہم سیکورٹی چیلنچز اب بھی حل طلب ہے آپریشن ضرب عضب کے بعد بھی ملک میں مسلسل ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے لہذا ملک کے تمام سیاسی جماعتیں، عسکری ادارے اور دیگر سیکورٹی اداروں کو ملک کر کوئی ایسے لائحہ عمل تر تیب دینے کی ضرورت ہے جس میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے ساتھ ساتھ ان کی پشت پناہی کرنے والے اور سہولت کاروں کے خلاف بھی فوری اور بر وقت کاروائی ہو تاکہ دہشت گردی کی روک تھام کو حقیقت میں ممکن بنا یا جا سکے۔

وطن عزیز کے دشمنوں کی ہمیشہ سے یہی سازش رہی ہے کہ وہ ملک میں افراتفری اور تفرقہ بازی کو پروان چڑھائیں تاکہ ملک کی ترقی اور سالمیت کو نقصان پہنچے لہذا ان حالات میں اظہار افسوس اور بیان بازی کے بجائے عملی میدان میں تمام سیاسی، مذہبی اور سیکورٹی ادارے مل کر دہشت گردی کی اس لعنت کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور لائحہ عمل بنائیں تو یہ ملک و قوم کی سالمیت اور ملت کی وحدت کے حق میں ہوگا، ہمارے بے حس حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اس بھوک ہڑتال کے جائز مطالبات کو تسلیم کریں اور مظلوم کو ان کا حق دیں اور جو ظالم ہے اور ان کے سہولت کار ہیں اُن کو کیفر کردار تک پہچائیں اس سے پہلے کہ کہ بھوک ہڑتال نیشنل پریس کلب سے نکل کر تحریک کی شکل اختیار کر جائے۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree