وحدت نیوز (آرٹیکل) اس مقالہ میں ایک آسمانی شہر کی سیاحت کا سفرنامہ پیش کیا گیا ہے۔ دراصل، اس سفرنامے میں مصنف نے قدیم و جدید فلاسفرز کے مدینۂ فاضلہ یا یوٹوپیا کے تصوّر اور افسانہ نگاروں کے دیومالائی شہر کے تخیل کے واقعی وجود کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ آج کی دنیا میں ہمارے اِس کرۂ خاکی پر ٍنہ فقط اِس ترقی یافتہ انسانی سماج کا قیام ممکن، بلکہ اس سے بھی بہتر، ایک آسمانی شہر کا قیام تحقق پذیر ہے۔ لہذا اِس سفرنامے کا دعوی یہ ہے کہ اس کے مصنّف نے ایسے ہی آسمانی شہر کا زمینی نمونہ کشف کیا ہے۔
اس داستان میں جو کہ تخیلات سے زیادہ حقائق پر مبنی ہے، مذکورہ آسمانی شہر کے اعلی سماجی نمونوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کا مدینۂ فاضلہ کے تصور کے ساتھ مقایسہ بھی کیا گیا ہے۔ نیز عصر حاضر کے فلاسفرز اور ماہرین سیاست و اخلاق اور سماج دوستوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اس محیر العقول ترقی یافتہ انسانی جمہور یا بشری سماج کی شہریت حاصل کریں اور اس سلطنتِ عشق کی سرحدوں میں وسعت لانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ وہ اپنی گم گشتہ متاع پا سکیں۔
مقالہ نگار کے مطابق ہمارے کرہٴ خاکی پر "مدینہٴ فاضلہ" سے کہیں بہتر "عشق کی سلطنت" آباد کرنا عین ممکن ہے۔ لیکن اِس شہر کی بنیاد، فلسفی حکمت پر نہیں، قلبی عشق پر رکھی جائے گی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ عشق کی سلطنت کے باشندوں کا رہن سہن کیسا، اُن کی شناخت کیا اور اس کے حاکم کی خصوصیات کیا ہیں؟ اِس مقالے میں اِنہی سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنّف کے بقول، عشق کی سلطنت کے باشندے باہمی اخوّت، رواداری، ایثار اور خیرسگالی کے جذبے سے زندگی گزارتے اور اچھے، برے، سب حالات میں سلطنت کے وفادار رہتے ہیں۔ وہ حاکم کے عشق میں حکومت کا کوئی قانون نہیں توڑتے۔ لہذا ایسی سلطنت میں شاذ و نادر ہی کوئی معاشرتی ناہنجاری پیش آ سکتی ہے۔
البتہ ایسی سلطنت کا حاکم فقط حسین ابن علی علیہ السلام جیسا معصوم امام ہی بن سکتا ہے جس میں صبرِ مسیح ؑاور جراٴت سقراط سے بڑھ کر صبر و جراٴت پائی جاتی ہو۔ جو کربلا کے دشتِ بلا و غم میں اپنا سب کچھ لٹانے کے بعد بھی خدائے یکتا کی بارگاہ میں " صبراً علیٰ قضائہ و تسلیماً لامرہ" کا نعرہ بلند کر سکتا ہو۔ اِس مقالہ میں انسانی سماج کے معماروں کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ اگر وہ کسی اعلیٰ انسانی سماج کی تشکیل کے درپے ہیں تو عشق کی سلطنت کا مشاہدہ کرنے کی غرض سے سید الشہداء کے چہلم کے موقعہ پر نجف و کربلا میں جمع ہونے والے کروڑوں زائرین کے اجتماع کی عظیم الشان روئیداد کا مطالعہ کریں۔
عرشی، فرشیوں کے مہمان
جب ہم اپنے کرۂ خاکی کے دینداری اور نظام مملکت داری کے لحاظ ایک بہترین شہر کی حدود سے نکلے تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ہم ایک آسمانی شہر کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں۔ لیکن میرے وہم و گمان میں ہو یا نہ ہو، بہر صورت، ہم ایک آسمانی شہر کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔ اس امر کا سب سے پہلا اشارہ یہ تھا کہ اُس پار کی بارڈر پر ہمارے خاکی سیارے کے ممالک کے امیگریشن نظام کے عام عرف سے بالکل برعکس نہ کوئی ویزا، نہ ویزا فیس اور نہ ہی کوئی انٹری تھی۔آسمانی شہر کی سرحد پر آنے والے مسافروں کےلیے اس سے بڑا سائن بورڈ اور کیا لگایا جا سکتا تھا۔
ہو سکتا ہے کوئی مسافر اس سائن بورڈ کی طرف متوجہ نہ ہو سکا ہو، لیکن جب تک تجاہلِ عارفانہ جیسے سنگین جرم کا ارتکاب نہ کر لیا جائے، اِس واقعہ کو معمولی وقوعہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے خاکی کرہ پر سیاحت (Tourism) حکومتوں کےلیے ایک انتہائی منافع بخش صنعت ہے۔ عام طور پر جن ممالک کا بیرونی سیاح کثرت سے سفر کرتے ہیں، وہ فقط ویزا دینے پر اتنا کچھ کما لیتے ہیں کہ جس سے نہ فقط اُن کے بیرونِ ممالک سفارتخانوں کا سارا خرچہ نکل آتا ہے، بلکہ کافی مقدار میں زرِ مبادلہ بچ بھی جاتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری اپنی دھرتی پر جہاں میزبان ممالک ’’بیت اللہ‘‘ یا ’’مقامات مقدسہ‘‘ کو اپنی ملکی میراث سمجھ کر ااُن کی سیاحت (جسے شرعی اصطلاح میں حج وعمرہ اور زیارت کا نام دیا جاتا ہے) کےلیے جانے والے مسافروں سے ہوشرُبا ویزا فیس اور دیگر ٹیکس وصول کرتے ہیں، وہاں ڈیپارچر پر ہر مسافر سے اُس کا اپنا ملک بھی کسی نہ کسی فرضی عنوان کے تحت ضرور بھتا وصول کر لیتا ہے۔ بہرصورت، ہمارے فرشی نظام میں عبادت پر بھی سیاحت کے چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔ لیکن جس عرشی شہر کی سیاحت کی میں بات کر رہا ہوں، اُس کے ارباب بست و گشاد کی سوچ ایسی نہ تھی۔ لہذا لاکھوں تو کجا، کروڑوں سیاحوں سے کوئی ویزا فیس وصول نہ کی گئی!!
خیر! یہ تو ہمارے ذرائع ابلاغ کی منافقت اور استحصالی نظاموں کی غلامی اور اُن سے وابستگی کا کھلا ثبوت ہے کہ انہوں نے اتنی بڑی روئیداد کو محض اس لیے اتنی سادگی اور بے نیازی سے نظر انداز کر دیا کہ مبادا اُن کے کرم فرما ناراض نہ ہو جائیں۔ یہی وجہ تھی کہ زمینی مواصلاتی نظام کو آسمانی شہر کی بارڈر کی یہ خبر وصول ہونے کے باوجود، اس خبر کو دنیا کی تبلیغات ادبیات میں کہیں شہ سرخی کی حیثیت حاصل نہ ہو سکی۔ البتہ کچھ لوگوں نے اس تعجب برانگیز رووئیداد کو اپنی بشری طبیعت کے تقاضوں کے عین مطابق طاقِ نسیاں کے سپرد کر دیا اور بہت سارے تو ویسے بھی غافلین کی صف میں شمار ہوتے ہیں جو آنکھیں رکھنے کے باوجود دیکھتے نہیں اور کان ہونے کے باوجود سنتے نہیں۔
آسمانی شہر کی سرحدوں میں داخل ہونے کے بعد ایک زمینی مخلوق کے ناطے میں تو یہی سوچ رہا تھاکہ ہمیں اپنی اگلی منزل تک پہنچانے کےلیے بہت جلد کسی اچھی اے.سی.گاڑی کا انتظام کر دیا جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ دراصل، آسمانی شہر کی بارڈر پر زمینی باشندوں کو لینے آنے والی کوچز، اپنی تمامتر بہتات کے باوجود کم پڑ گئی تھیں۔ لہذا جو براق میسّر آتی، ترجیحی بنیادوں پر اُس پر بچوں اور لیڈیز جیسے فرشتوں اور حوروں کو بٹھا دیا جاتا۔ باقی رہے مجھ جیسے گنہگار بشر، تو انہیں اِس مقدس وادی میں داخل ہونے کےلیے برزخ نما صحرا کے سفر کی چند مزید سختیاں جھیل کر اپنے گناہوں سے طہارت حاصل کرنا تھی۔ لہذاہمیں کوئی گاڑی میسر نہ آ سکی۔ ہاں گڈز ٹرانسپورٹیشن کےلیے استعمال میں لایا جانے والا ایک [ٹبر گھِیل] بہت لمبا سا ٹریلر ضرور میسر ہو گیا۔
ٹریلر پر اتنے کمال کا رَش لگا کہ تل دھرنے کی جگہ باقی نہ رہی۔ زمینی مخلوق کے ناطے مجھے یہ حق پہنچتا تھا کہ میں یہ سوچوں کہ اب ڈرائیور کے وارے نیارے ہو گئے۔ کیونکہ وہ ہماری بشری مجبوری سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اتنا کرایہ وصول کرے گا کہ کم از کم ۱۰ دن کی دھاڑی ایک ہی دن بنا لے گا۔ میں ایسا سوچنے میں بالکل حق بجانب تھا۔ کیونکہ جس انسانی سماج سے میرا تعلق تھا، اس میں بالکل یہی فارمولا چلتا تھا۔ لیکن تعجب تو اس بات پے ہے کہ لگ بھگ پانچ چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہمیں اتار کر ڈرائیور کرایہ وصول کرنے کی بجائے ہمارا شکریہ ادا کر تے ہوئے اس عاجزی سے چل دیا کہ گویا ہم نے اُس کے دلدل میں پھنسے ٹریلر کو دھکا لگا کر اس کی مشکل آسان کر دی ہو۔
جس سڑک پر ہم اترے، اُس کے کنارے ہوٹل نما ایک خیمہ لگا تھا جس میں وہ چائے پلائی جا رہی تھی جسےمیں تھکاوٹ یا سردَرد میں’’شراباً طہوراً‘‘ کہہ دیا کرتا ہوں ۔ویسے بھی کم وبیش ۲۴ گھنٹے کے سفر کی تھکاوٹ کے بعد اگر چائے کی گرما گرم پیالی میسّر آجائے تو کیا اس غیر مترقبہ نعمت کو ’’شراباً طہوراً‘‘ کہہ دینا کوئی گناہ ہے؟ میں نہیں مانتا کہ ایسا فتوی لگایا جا سکے۔ بالخصوس جب ساقی التجا کے انداز میں یہ شراب آپ کے ہاتھ میں بغیر کوئی قیمت وصول کیے تھما رہا ہو۔
خیر! اگلی منزل تک پہنچنے کےلیے کسی گاڑی کی تلاش ہماری پہلی ترجیح تھی۔ لیکن معلوم ہوا کہ ابھی کوئی ڈیرھ دو کلومیٹر کا فاصلہ پیدل چل کر ’’گراج‘‘ تک پہنچنا ہو گا۔ لہذا ہم نے زمین پر اپنے لیے گناہوں کا جتنا بوجھ آمادہ کیا تھا اُسے پیٹھ پر اٹھائے، چلتے، رینگتے ’’گراج‘‘ تک پہنچ ہی گئے۔ لیکن یہاں بھی ہمیں منزل مقصود تک لے جانے کےلیے کوئی گاڑی میسر نہ تھی۔ شاید ہمارے مقدّر میں ٹریلر ہی لکھے تھے۔ اللہ اللہ کر کے ایک ٹریلر میسر آیا یا ہم ٹریلر کو میسر آ گئے۔ دوسری شقّ میں زیادہ وزن محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ لگ یہی رہا تھا کہ کئی مہینوں سے بیچارے اِس ٹریلر پر کسی نے کوئی سامان نہیں لادا۔ اُس کی لوہے کی اندورنی دیواروں پر ایسا زنگ لگا تھا جس ہمارے استری شدہ صاف و شفاف کپڑے یا اجلے اجلے بیگ ہی اتار سکتے تھے۔
لیکن ہماری مشکل اُس وقت دوچنداں ہو گئی جب اہلِ زمین کو آسمانی شہر کے ڈرائیور کی زبان ہی سمجھ نہ آ سکی۔ تمام مترجمین کے اجتماعی ترجمہ سے بس اتنا معلوم ہو سکا کہ یہ صاحب ہمیں ۵ کلومیٹر کے فاصلے تک لے جائیں گے جہاں سے بس میسر ہو جائے گی۔ لیکن جب لگ بھگ ۲۵ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیا تو مجبورا یہ تصحیح کرنا پڑی کہ متن میں ۵۰ کلومیٹر لکھا تھا جسے مترجمین نے سہوا ۵ کلومیٹر ترجمہ کر ڈالا ہے۔ اب کیا کر سکتے تھے۔ ترجمہ ٹھیک ہو یا غلط، ۵۰ کلومیٹر، ۵۰ کلومیٹر ہی رہتے ہیں: ؎
چشم معنی آشنا میں ہے مقام ان کا وہی سہو کاتب سے مقدم ہوں مؤخر سینکڑوں
اس سفر میں ٹریلر کی تیز رفتاری اور اس کےجانشینوں کا گرنا، سنبھلنا، چیخنا، چلانا بھی یادگار ہے۔ گویا یہ روڈ پر نہیں، ہَوا کے دوش پر اڑ رہا تھا۔ میں تو مرحوم علامہ اقبال کے سفرِ حجاز کی خیالی داستاں بنا اِس ٹریلر کو اونٹنی قرار دیتے ہوئے علامہ اقبال ہی کے الفاظ میں یہ التجا کر رہا تھا کہ: ؎
سحر با ناقه گفتم نرم تر رو که راکب خسته و بیمار و پیر است
یعنی: [سفر کے دوران]’’سحر [کے وقت] میں نے اپنی اونٹنی سے
کہا کہ آہستہ چلو !کیونکہ تمہارا سوار تھکا ہارا، بیمار اور بوڑھا ہے!‘‘
لیکن عجیب اتفاق ہے کہ میں نے لوہے اور پلاسٹک کے کَل پرزوں سے اسمبل شدہ، ڈیزل کی گردش پر بھاگتی اونٹنی کا وہی ردّ عمل دیکھا جو حکیم الامّت نے گوشت پوست سے بنی، خون کی گردش پر چلنے والی اونٹنی سے دیکھا تھا۔ یعنی: ؎
قدم مستانه زد چندان که گویی بپایش ریگ این صحرا حریر است
یعنی: ’’اونٹنی نے تو یوں مستانہ وار قدم مزید آگے بڑھا دیے
کہ جیسے اُس کے قدموں میں اس صحرا کی ریت، ریشم ہو۔‘‘
خیر! غروب آفتاب سے کوئی آدھ گھنٹہ قبل لوہے کے اِس سفینے نے اللہ کے گھر کے سامنے لنگر ڈالا۔ سب اترے اور اپنا اپنا سامان مسجد میں رکھ دیا۔ جن لوگوں نے ہنوز نماز عصر ادا نہ کی تھی، انہوں نے نماز ادا کی اور کچھ نے کمر سیدھی کرنے لیٹ گئے۔ زمینی مخلوق کو اپنی بشری طبیعت کے تقاضوں سے سے دست و گریباں رہتے ہوئے کئی گھنٹوں بعد فتح کی عندیہ اُس وقت ملا جب انہیں سارے دن کے سفر کے بعد رفعِ حاجت کا پہلا آبرومندانہ موقعہ فراہم آیا۔ لیکن یہاں بھی آسمانی شہر کے قوانین نرالے نظر آئے۔ کیونکہ مسجد کے دروازے پر تو بس ایک ہی واش روم تھا جو سہولت فراہم کرنے کی بجائے ہر مسافر کے احساسِ رفعِ حاجت کو مزید اجاگر کر رہا تھا۔ لیکن یہ سارا منظر اُس وقت بدل گیا جب چند بچے مسافروں کو پکڑ پکڑ کے اپنے بنگلوں، کوٹھیوں اور گھروں کے کھلے دروازے دکھانے لگے۔ ہر گھر کے صحن میں سنگ مرمر سے مزین واش روم آرامکدے محسوس ہو رہے تھے۔ اگر عرشیوں کا یہ ایثار نہ ہوتا تو کئی فرشی نا قابل تلافی حوادث کی لپیٹ میں آ جاتے۔
البتہ ہم فرشی مخلوق بھی عجیب مخلوق ہیں۔ دراصل، ہماری ساخت و ساز عجیب و غریب اور اس کے تقاضے متضاد ہیں۔ ایک لمحہ قبل جو لوگ رفعِ حاجت کے لیے تڑپ رہے تھے، اب پھر سے ٹینکیاں بھرنے کےلیے بےتاب نظر آنے لگے۔ لیکن چونکہ آسمانی شہر میں ہر انسانی تقاضے کا بندوبست موجود تھا، لہذا فرشیوں کے ان فطری طور پر متصادم میلانات کے درمیان بھی کوئی تصادم نہ ہوا۔ سوپ اور برگر تو میرے ہاتھ میں گویا زبردستی ہی تھما دیے گئے تھے، لیکن سب سے زیادہ ہوس تو مجھے ’’شراباً طہوراً‘‘کی تھی۔ جی ہاں! پریشانی کی کوئی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ کیونکہ شیشے کے جام، چائے کی ’’شراباً طہوراً‘‘ سے لبریز نہ فقط چمک ، بلکہ مئے گساروں کی طرف لپک رہے تھے۔ میرا کیا قصور؟ میں نے بھی ایک نہیں، دو جام چڑھا لیے۔
آئل چینجنگ کے بعد سب نے سکھ کا سانس لیا اور تازہ دَم ہو گئے۔ لیکن منزل مقصود سے ابھی کوسوں دور تھے۔ لہذا:؏ ’’پھر وہی پاؤں، وہی خارِ مغیلاں ہوں گے!‘‘ کے مصداق ہم تھے اور روڈ کا کنارہ۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ پرندے آشیانوں میں سر چھپا رہے تھے، لیکن ہم آہنگ پرواز لیے سڑک کے کنارے کسی براق کے میسر آ جانے کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔ چند ملائیکہ نے ہمیں گھیرے میں لیا ہوا تھا اور بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ : ؏
’’دن ڈھلا، رات پھر آگئی، سو رہو! سو رہو!‘‘
فقط یہی نہیں، وہ ہمیں کہکشاؤں کے راستے بھی دکھا رہے تھے۔ کہتے تھے کہ یہ قریب کی منزل آمادہ ہے۔ آپ راضی تو ہو ں، ہم ڈراپ کر دیں گے۔’’مرتا کیا نہ کرتا!‘‘ ہم بھی راضی ہو گئے۔ لیکن جب ملائیکہ نے ہمارا کارواں دو الگ الگ ٹولیوں میں بانٹ لیا اور اپنے اپنے حصے کو مال غنیمت سمجھ کر اپنی مخصوص اماریوں میں بھرنا شروع کیا تو مجھے ایک اماری میں بند شیشوں کے پیچھے جگہ مل گئی۔ میں خوش تو تھا لیکن دل میں یہ احساس بھی کروٹ لے رہا تھا کہ میرے دوست پیچھے کھلی ہوا میں ٹھنڈ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ لیکن اس احساسِ گناہ کو میں اس وقت بھول گیا جب مجھے یہ محسوس ہوا کہ آسمانی مخلوق بھی جھوٹ بولتی ہے!!
بس فرق فقط اتنا ہے کہ فرشی ’’منفعت آمیز‘‘ جھوٹ بولتے ہیں اور یہ عرشی ’’مصلحت آمیز‘‘ جھوٹ بول رہے تھے۔ جی ہاں! اخلاقیات کے باب میں ایک معرکۃ الآراء بحث یہی ہے کہ آیا جھوٹ اپنی ذات میں ایک برائی ہے یا جھوٹ کا انگیزہ اُسے برائی یا اچھائی بناتا ہے؟ فلسفۂ اخلاق میں اس بحث کا نتیجہ جو بھی ہو، مجھے اُس سے سروکار نہیں۔ میں تو اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ جن عرشیوں سے ہمارا پالا پڑا، اُن کے اخلاق پر یہی منطق حاکم تھی کہ جھوٹ اگر مصلحت آمیز ہو تو نہ فقط برائی نہیں، بلکہ عین اچھائی ہے۔ لہذا انہوں نے چند گز کے فاصلے پر جس منزل کا نشان پتہ دیا، تیز رفتار اماریوں کی پرواز صاف صاف بتا رہی تھی کہ ایسا نہیں ہے۔
اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر آسمانی مخلوق، اہل زمین سے یوں فراڈ کرنے لگے تو زمینیوں کا کیا حال ہو گا؟ ہمیشہ فرشی مخلوق اپنی چیرہ دستیوں کے ذریعے عرشیوں کو ورطۂ حیرت میں ڈالتی ہے لیکن آج تو عرشیوں نے وہ ہاتھ دکھائے کہ فرشی انگشت بہ دنداں تھے۔ بلکہ تھوڑی ہی دیر میں معاملہ حیرت کی وادی سے نکل کر خوف کے دہشت میں جا پہنچا۔ اب ہم شہر کی روشنیوں سے باہر نکل چکے تھے۔ ہر طرف اندھیرے ہی اندھیرے تھے اور تاریکیوں کے درمیان سے ویرانوں کی طرف بڑھتا ایک فرعی روڈ۔ سچ پوچھیں تو میں بھی دل ہی دل میں ڈر رہا تھا۔ مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ ہم کسی کے چکر میں تو نہیں آ گئے۔ البتہ عرشیوں کا انداز گفتگو، چہروں کی نورانیّت اور مہمان نوازی کا اہتمام، خوف کی ان چنگاریوں پر راکھ بن کر انہیں بجھا رہا تھا۔
بہرصورت، خوف و رجاء کی وہ حالت جو عرفان اور سیر و سلوک کا منتہی ہے، جس کی مجھے کبھی ہوا نہیں لگی، آج یہ حالت مجھ پر از خود ہی طاری ہوتی جا رہی تھی کہ اتنے میں کیبن سے باہر بیٹھے مسافروں میں سے ایک نے شیشہ بجا ہی دیا۔ دراصل، وہ اس عرفانی حالت میں مجھ سے بھی آگے نکل چکے تھے اور اُن پر رجاء کی بجائے خوف کی حالت کچھ زیادہ ہی طاری ہو گئی تھی۔ میں نے شیشہ اتارا۔ پوچھا: ’’بھائی! کیا مسئلہ ہے؟‘‘ کہنے لگے: ’’ہمیں کہیں شہید کروانے تو نہیں لے جا رہے؟‘‘ میں نے انہیں تو جھوٹی سچی تسلی دی، لیکن خود ایک طرح کے احساسِ مسوولیت میں ڈوبنے لگا۔ تاہم جن کا سہارا خدا ہو وہ ڈوبتے نہیں۔ لہذا اس سفر کے نقطۂ آغاز سے محض ۱۷ ؍کلومیٹر کے فاصلے پر جا کر یہ ساری تشویش ختم ہوئی۔ ہم ایک ایسی عمارت کے سامنے رکے جسے میں مہمان خانہ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اس سے پہلے کہ اس عمارت کا کوئی نام تجویز کروں، اس حصے کی آخری بات پہلے سن لیں!
وہ یہ کہ ہماری اماری ’’ولدانٌ مخلدّون‘‘کا دَم خم رکھتے ’’ہر دَم، تازہ دَم‘‘ نوجوانوں کی آغوش میں رکی۔ اِن لڑکوں نے تو اپنے انوکھے سلیقے سے خدمتگزاری کے سب سلیقے پیچھے چھوڑ دیے۔ گویا ہمارا سامانِ سفر ہم سے چھین کر ایک خاص ترتیب سے ٹھکانے لگا دیا اور بڑوں کے اشاروں پر ہماری خدمت میں مصروف ہو گئے۔ کوئی وضو خانہ کی طرف رہنمائی کر رہا ہے تو کوئی تولیہ صابن کا بندوبست کر رہا ہے۔ کوئی مصلیٰ بچھا رہا ہے تو کوئی صفیں سیدھی کر رہا ہے۔۔۔
آسمانی شہر یا مدینۂ فاضلہ؟
اگرچہ میری سپیشلائزیشن اسلامی فلسفہ میں ہے تاہم آشنائی کی حد تک چند یونانی اور یورپی فلاسفرز کے نظریات بھی سن، پڑھ رکھے ہیں۔ قدیم یونان میں انسانی سماج یا ’’جمہور‘‘ کے بارے میں ارسطو اور افلاطون کے نظریات کا اجمالی تعارف، نیز اسلامی فلسفہ میں فارابی کے ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کا ایک اجمالی تصوّر میرے ذہن میں طالبعلمی کے زمانہ سے موجود ہے۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یورپی ادبیات میں ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کے مترادف یا متشابہ ’’یوٹوپیا‘‘ (Utopia) کا تصوّر پایا جاتا ہے۔ بہر صورت، ارسطو و افلاطون کا ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ ہو یا فارابی کا ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ یا تھامس مور کا ’’یوٹوپیا‘‘ اِن سب کا مرکزی خیال ایک ایسے خیالی، لیکن مثالی شہر یا انسانی سماج کا ہے جس میں انسان اپنے سماجی سفر کی آخری ممکنہ تکاملی منزل پر پہنچ جائے گا۔
البتہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تصور اتنا خیالی ہے کہ اس کے تحقق کا کوئی امکان ہی نہیں۔ لہذا فلسفی ادبیات میں بعض دانشوروں نے ’’یوٹوپیا‘‘ کو ’’ناکجا آباد‘‘، ’’لا مکان‘‘ یا عام الفاظ میں ’’دیو مالائی‘‘ شہر قرار دیا ہے۔ یعنی ایک ایسا سماج جو اس دھرتی پر تحقق نہیں پا سکتا۔ البتہ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ خیال درست نہیں ہے۔ کیونکہ مغرب کا ’’یوٹوپیا‘‘ہو یا ارسطو و افلاطون یا فارابی کا ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ قطعا ان کے تحقق کے امکان کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔یہ عین ممکن ہے کہ انسانی سماج اپنے تکاملی سفر میں اس نہائی منزل تک پہنچ جائے۔
خلاصہ یہ کہ مدینۂ فاضلہ کا قیام اس کرۂ خاکی کے تمام فاضل افراد کی ہمیشہ سے گم گشتہ متاع رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ فضلاء اپنے تمام تر عقلی تأملات کے باوجود ایسا شہر تأسیس نہیں کر پائے اور نہ ہی قریب قریب انہیں اس کے قیام کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ لیکن جس شہر آسمانی شہر کی سیاحت کا سفر نامہ میں لکھ رہا ہوں، وہ نہ فقط ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کی تمام خصوصیات سے مزین تھا، بلکہ اس میں ایسی امتیازی خصوصیات بھی پائی جاتی تھیں جن کا تصوّر ہمیں مدینۂ فاضلہ یا یوٹوپیا کے ڈھانچے میں کہیں نظر نہیں آتا۔ دوسرے الفاظ میں میرا دعوی یہ ہے کہ میں نے اس سیاحت میں مدینۂ فاضلہ سے بہتر انسانی سماج کشف کیا ہے۔ لہذا میں نے اس کا نام ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کی بجائے ’’آسمانی شہر‘‘ تجویز کیا ہے۔
کیونکہ ارسطو و افلاطون اور فارابی کے مدینۂ فاضلہ کی تمام بنیادی خوبیاں عدالت، حکمت، شجاعت اور خودداری میں منحصر نظر آتی ہیں۔فارابی کے مطابق مدینۂ فاضلہ ایک ایسا سماج ہے جو اقوام کے جغرافیائی امتیازات اور سرحدوں سے بالا تر ہے اور انسانی سعادت یا ’’خیرِ برتر‘‘ اس سماج کی نشانی ہے۔ حکیم (فلسفی) اس شہر کا سلطان یا بادشاہ ہے۔ فلاسفرز کے مدینۂ فاضلہ میں قانون، قانون کا اجراء کرنے والے ادارے، پولیس یا فوج کا وجود اس لیے کمتر نظر آتا کیونکہ اس شہر کا ہر انسان اپنے اندر سے قانون مند ہے اور خود اپنے لیے پولیس مین ہے۔خلاصہ یہ کہ جس سماج میں یہ خصوصیات پائی جائیں وہ فلاسفرز کا ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ نام پاتا ہے۔ جہاں تک ہمارے آسمانی شہر کا تعلق ہے تو اُس میں نہ فقط یہ سب خوبیاں، بلکہ اضافی خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا ترقی یافتہ سماج ہے جس میں وطن کا تصّور اتنا وسیع ہے جتنی اللہ تعالی کی زمین وسیع ہے۔ بقول علامہ اقبال
صحراست کہ دریاست، تہ بال و پر ماست
ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست
یعنی: ’’صحرا ہو یا دریا، سب ہمارے پروں تلے ہیں۔ ہر ملک
ہمارا ملک ہے، کیونکہ ہر ملک ہمارے خدا کا ملک ہے۔‘‘
لہذا آسمانی شہر میں داخلے کے وقت مختلف ممالک کے درمیان انٹرنیشنل باؤنڈریز اور ایمیگریشن کے قوانین میں سے کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا تھا۔ یہ قصّہ آپ اوپر پڑھ چکے ہیں۔ مزید وضاحت میں اتنا سن لیجئے کہ اس شہر میں کسی قسم کی کوئی نسلی، لسانی، قومی اور جغرافیائی سرحدیں وجود نہیں رکھتیں ۔ میں نے اس شہر کے سب باشندے کو بُتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ایک ہی ملت میں گم پایا۔ نہ تورانی باقی تھا، نہ ایرانی اور نہ ہی افغانی۔ باقی رہے پاکستانی یا ہندوستانی، تو جب حکیم الامت نے اپنے اشعار میں ان کا نام لینا مناسب نہیں سمجھا تو میری کیا مجال کہ اُن کا ذکرِ خیر کروں؟ کیوں نہ مثبت تأویل کی جائے اور وہ یہ کہ پاکستانی اور ہندوستانی اور دیگر مسلم اقوام کے باشندے، تورانیوں، ایرانیوں اور افغانیوں سے کمتر نسلی، لسانی اور جغرافیائی امتیازات کے قائل ہیں اور وہ جلد ان امتیازات کو بھول کر ایک ہی ملت میں گم ہو جاتے ہیں۔ لہذا انہیں ایسی دعوت دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
معاف کرنا! یہ تو سبقتِ لسانی کے سبب بات سے بات آگے نکل گئی۔ میں اصل بات تو یہ بتانا چاہتا تھا کہ اگر فارابی کا مدینۂ فاضلہ اقوام کے جغرافیائی امتیازات اور سرحدوں سے بالا تر ہے اور انسانی سعادت یا ’’خیرِ برتر‘‘ اس سماج کی علامت ہے تو ہمارے آسمانی شہر میں بھی یہ سب خدّوخال نمایاں تھے۔ بلکہ اِس سماج کی نشانی، ’’فوزو فلاح‘‘ ہے جو مدینۂ فاضلہ کے تصوّر میں اس خصوصیت کے ساتھ نہ مل سکے گی۔ اور اگر ہم مدینۂ فاضلہ کے اساسی تصوّر یعنی ’’عدالت‘‘ کو لے لیں تو آسمانی شہر میں عدالت تو پائی ہی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ یہاں عدالت سے بڑھ کر ایثار اور عفو و درگذر کی ناقابل فراموش داستانیں رقم کی جاتی ہیں۔
آپ خود فیصلہ فرمائیں کہ آیا یہ عدالت کے منافی تھا کہ جن ڈرائیورز نے اپنے ٹریلرز میں بٹھا کر ہمیں لگ بھگ ساٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کروایا، وہ ہم سے مناسب کرایہ وصول کر لیتے؟یقینا یہ عینِ عدالت تھا۔ لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ ہمارے کرۂ خاکی پر جس قدر ناانصافی ٹرانسپورٹرز کرتے ہیں، شاید ہی کوئی دوسرا طبقہ کرتا ہو۔ ہو سکتا ہے میرا یہ بیان مبالغہ آمیز ہو، تاہم اجنبی شہروں اور ملکوں کا سفر کرنے والے اجنبی مسافر خوب جانتے ہیں کہ ٹریول ایجنسیوں سے لے کر ٹیکسی ڈرائیورز تک، پورے ٹرانسپورٹننگ سسٹم میں بیچارے مسافروں کو کتنا لوٹا جاتا ہے۔ اب اس کے برعکس، اگر کسی شہر کا ٹرانسپورٹننگ سسٹم اس حد تک انسانی اور اخلاقی بن جائے کہ اُس کا ایک ٹریلر ڈرائیور بھی نہ فقط اپنا جائز کرایہ وصول نہ کرے بلکہ لفٹ دینے پر مسافر کا شکریہ بھی ادا کر رہا ہو اور یوں ایثار کی معراج کو چھو لے تو آیا اس سماج کو ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کا نام دینا بہتر ہے یا ’’آسمانی شہر‘‘ کہنا مناسب تر؟
اب ذرا ہوٹلننگ کے نقطۂ نظر سے بھی آسمانی شہر کا ماحول ملاحظہ فرمائیے! ہمارا مشاہدہ تو یہی بتاتا ہے کہ صدیوں سے فکر و فلسفہ اور اخلاق و سیاست کے ناخدا ہمارے کرۂ خاکی کے باشندوں کو اتنا ایثار نہیں سکھا سکے کہ اگر چند اجنبی کسی ہوٹل میں اکٹھے ہو جائیں تو ہوٹل مالک ان سے رہائش کا کرایہ نہ لے یا ایک مسافر دوسرے اجنبی مسافر کا کھانے کا بل ادا کر دے۔ یوٹوپیاکے معماروں کا سماج تو آج یہاں کھڑا ہے کہ اگر باپ بیٹا کسی ہوٹل پر اکٹھے ہو جائیں تو دونوں الگ الگ اپنا اپنا بل ادا کرتے ہیں۔ اب اگر ایسے میں انسانی سماج کا کوئی معمار اُسے مدنی تکامل کی اس منزل پر پہنچا دے کہ اقامت فراہم کرنے والے اربوں مسافروں کو مفت میں رہائش فراہم کر دیں اور لاکھوں ڈالرز کا کھانا مفت میں کھلا دیں تو آیا ایسے معمار کو جھک کر سلام نہیں کرنا چاہیے؟ آیا اس سماج کو محض مدینۂ فاضلہ قرار دے دینا ناانصافی نہیں ہو گا؟
ایک اور زاویے سے یہی انفاق کتنی بڑی شجاعت ہے؟ اِس کا اندازہ مال و دولت کے پوجاریوں سے لگوائیے! بات فقط اس انفاق پر نہیں رکتی بلکہ اس انفاق پر آسمانی شہر کے لوگ کتنی مسرت محسوس کرتے ہیں ؟ اس کا معمولی سا ادراک اس تگ و دو سے کیا جا سکتا ہے کہ میزبان سترہ کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر کے سڑک کے کنارے سارا دن مسافروں کا منہ تکتے ہیں اور ساتھ ساتھ خدا سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ آج کی رات کےلیے چند مہمان ہمارے رزق میں عطا فرما دے!
آیا تاریخ بشریت میں کوئی فلسفی ایسا سماج قائم کر سکا؟ آیا کسی سیاسی نظام نے ایسا مدینۂ فاضلہ دیا؟ آیا کوئی حکیم ایسی سلطنت قائم کر پایا؟زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک حکیم اس نوع کی ضیافت کی شرافت کا عقل سوز فلسفی تأملات کے بعد ادراک کر لے۔ لیکن کیا حکمت عشق کے ان مظاہر کی تفسیر پیش کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں!جب ایسا ہے تو کیا عشق کی سلطنت کو حکمت کے شہر کے مساوی قرار دیا جا سکتا ہے؟ہرگز نہیں!یقینا سطانِ حکمت جب تک کمر خمیدہ، لباس دریدہ، تھکا ہارا، بیمار اور بوڑھا نہ ہو جائے، سلطانِ عشق کی سرحدوں میں داخلے کی اجازت اُسے نہیں مل سکتی۔
مذکورہ داستان کے مطابق جب آسمانی شہر کو مدینۂ فاضلہ پر ہر لحاظ سے برتری حاصل ہے تو کیا میں انسانی سماج کے تعمیر کاروں کو یہ دعوت نہیں دے سکتا کہ: ’’ائے کرۂ خاکی کے سادہ لوح باشندو! آٹوپیا یا مدینۂ فاضلہ کے خیالی تصورات سے دل نہ بہلاؤ۔ کیونکہ نہ فکر و فلسفہ کے افاضل کے خالص عقلی تأملات کی بیساکھیوں کا سہارا لے کر یہ شہر آباد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فلسفۂ اخلاق کے دانشوروں کے رشحاتِ قلم سے بنی ناؤ پر سوار ہو کر ناکجا آباد پہنچا جا سکتا ہے۔ میدانِ سیاست کے مکاروں اور چالبازیوں کی ریشہ دوانیوں سے بھی یہ حقیقت تعمیر نہیں کی جا سکتی ہے ۔ ملکوت ندیدہ، عالمِ مُلک کے آبادکاروں کا مدینۂ فاضلہ یایوٹوپیاہمیشہ ’’ناکجاآباد‘‘ رہے گا اور یہ معاشرہ ہمارے کرۂ خاکی پر کبھی تحقق نہ پا سکے گا۔ لہذا آؤ میرے ساتھ چلو! عالمِ ملکوت کی سیر کرتے ہیں اور آسمانی شہر کی سیاحت کا سفرنامہ جاری رکھتے ہیں!‘‘
مہمان خانہ یا عزا خانہ؟
میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ آسمانی شہر کے سفر میں ہم جس عمارت کے سامنے رکے، میں اُسے مہمان خانے کا نام نہیں دے سکتا۔ تو کیا نام دوں؟ دراصل، یہ نام پہلے سے دیا جا چکا ہے۔کیا؟ ’’عزا خانہ‘‘۔ یعنی، وہ عمارت جس میں فخر الرسل حضرت ختمی مرتبت ﷺ کے نواسۂ گرامی اور نورِ عین حضرت امام حسین علیہ السلام کی دردناک شہادت پر مجلسِ عزا بپا ہوتی ہے اور گریہ و ماتم کیا جاتا ہے۔آپ پوچھیں گے: کیا آسمانی شہروں میں بھی عزا خانے ہوتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ: کیوں نہ ہوں! جبکہ پیغمبر اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ حسینؑ زمین اور آسمانوں کی زینت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں حسینؑ پر فرشی مخلوات گریہ کرتی ہیں، عرشی بھی اس عبادت میں پیچھے نہیں رہتے اور وہ بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو آتے ہیں اور آپؑ کی مظلومانہ شہادت پر گریہ و ماتم کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ دن بھر عرشیوں کے ہمراہ سفر کرتے کرتے ہم نے بھی عرشی تہذیب کے چند آداب سیکھ لیے تھے۔ لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ اس سے قبل کہ ہمارے سامنے کوئی آسمانی مائدہ لگایا جائے، عرشیوں کا کچھ قرض اتار دیاجائے۔ لہذا تھکے ماندوں نے نماز مغربین کی نماز باجماعت ادا کی اور نماز کی صفوں پر ہی صف عزا بچھا دی۔ سامنے نظر آنے والوں کے علاوہ نواسۂ رسول پر رونے اور کون کون حاضر ہوا؟ اس سوال کا جواب، میں نہیں دے سکتا۔ جب مجلس ختم ہوئی تو اُس کا سارا ثواب ہم نے اٹھا کر اپنے میزبانوں اور اُن کے مرحومین کو ادا کرنا چاہا کہ احسان کا کچھ بدلہ تو اتر جائے۔ لیکن مجلسِ عزا کا ثواب اتنا زیادہ تھا کہ نہ فقط میزبانوں اور اُن کے مرحومین میں بٹا، بلکہ تمام مؤمنین اورخود ہمارے مرحومین نے بھی اِس سے اپنی اپنی جھولیاں بھریں۔
آسمانی شہر یا سلطنتِ عشق؟
میرے سفر نامہ میں اب تک جس سماج کا نام ’’آسمانی شہر‘‘ رہا، اب مجھے اُس کی نامگذاری پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ یہاں سے بعد کے واقعات ایسے ہیں جن کی توضیح و تفسیر یا Justification نہ تو میں فلاسفرز کے عقلی تأملات کی بنیاد پر کر سکتا ہوں اور نہ ہی کسی دیگر مادی و معنوی معیار پر۔ اگر میں افلاطون و فارابی کے مدینۂ فاضلہ کی سیسہ پلائی اساس یعنی ’’حکمت‘‘ کو بھی بنیاد بنا کر اِن واقعات کی توضیح پیش کرنا چاہوں، پیش نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ان واقعات میں مجھے تو افلاطون و فارابی کی ’’حکمت‘‘ ، آتش نمرود کے دہانے کھڑی ’’عقل‘‘ کا وہی مضطرب منظر پیش کرتی نظر آتی ہے جس کی تصویر کشی علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کر دی ہے:
بے خطر کود پڑا، ا ٓتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
لہذا اب ہم انسانی سماج کی جن حسین اور دلکش وادیوں میں داخل ہو رہے ہیں، اُن کی بادشاہت کا حق فارابی کے مجسمۂ فضائل ’’حکیم‘‘ کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کہ فارابی کا حکیم، مملکتِ عقل کا بادشاہ تو بن سکتا ہے، سلطنتِ عشق کا سلطان نہیں بن سکتا۔
کیونکہ سلطنتِ عشق کا بے تاج تو کیا بے سر بادشاہ وہ ہے جس کے ہاتھ میں جامِ جم نہیں بلکہ ہاتھ جامِ جَم سے زیادہ شفاف ہیں۔ اتنی شفافیت کہ وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں، اپنی سلطنت کے ہر نقطہ پر موجود اپنی رعایا کا ہر اچھا بُرا کام مشاہدہ کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف اُس کی رعایا کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ جہاں بھی ہوں، اپنے بادشاہ کے حضور میں حاضر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سلطنتِ عشق میں آپ کو سرے سے کوئی پولیس والا نظر نہیں آئے گا۔اس سلطنت کا کوئی مدنی قانون بھی نہیں ہے۔ یہاں قانون بنانے والے ادارے اور قانون دان بھی نظر نہیں آتے۔ ہاں! اس ساری مملکت پر فقط ایک ہی قانون حکرانی کرتا ہے اور وہ یہ کہ: ’’کہیں میرا محبوب مجھ سے ناراض نہ ہو جائے!‘‘
ہم نے یہ رات الکوت کے شہر میں بسر کی تھی۔ اور آج صبح جب ہمارے مہربان میزبانوں نے ہمیں شہر کے جنرل بس سٹینڈ پر اتارا تو ایک ایسا عالم دیکھنے میں آیا کہ میزبان اور مہمان دونوں مات و مبہوت رہ گئے۔ دراصل، کوت کا شہر، دریائے دجلہ کے کنارے واقع ہے اور دریائے دجلہ میں ضرور سیلاب آتا ہے۔لیکن جو سیلاب گذشہ شب آیا، اِس شہر میں ایسے سیلاب کا کوئی سابقہ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کرم فرما بھی اُس رات پیش آنے والی صورتحال کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے اور ہمیں بھی معلوم نہ تھا کہ ہم دجلہ کے کنارے تو کیا ، دو ایسے طوفانی دریاوں کے سنگھم پر رات گزار رہے ہیں جو پانی کے قطروں سے نہیں، اشکوں کے قطروں سے بنے ہیں۔
درحقیقت،اس شہر میں دو طرف سے حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین کا سیلاب امڈ آیا تھا۔ جنوب میں کوئی 330 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بصرہ سے، اور بصرہ سے بھی دور، خرم شہر کی ایرانی بارڈر سے زائرین کا ایک دریا، نجف کے بحرِ ولایت میں گرنے کےلیے ٹھاٹھیں مارتا آگے بڑھ رہا تھا اور شمال مشرق میں کوئی 85 کلومیٹر کے فاصلے سے مہران بارڈر سے پیروجوان زائرین کا دوسرا دریا بھی الکوت کی جانب بہتا نجف کے ساحل کی طرف بڑھ رہا تھا۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کے چہلم میں شرکت کی غرض سے ایران، پاکستان اور انڈیا جیسے ممالک کے باشندے کچھ اِس طرح نجف اشرف کی طرف رواں دواں تھے جیسے کوہ ہمالیہ کی بلندیوں سے پگھلنے والی برف کا پانی بحیرۂ عرب میں جا گرنے کےلیے رواں دواں ہو۔ مجھے تو دور دراز کے علاقوں سے نجف اور کربلا کی طرف بڑھتے قافلوں اور کوہ ہمالیہ سے بحیرۂ عرب کی طرف بڑھتے ندی نالوں اور دریاوں میں بڑی مماثلت نظر آئی۔ جو پانی چکر (Water Cycle) بحیرۂ عرب کے پانی اور کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں پر جمی برف کے درمیان نظر آتا ہے، وہی حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین اور نجف و کربلا کے درمیان نظر آ رہا تھا۔
پانی چکر میں آفتاب کی طمازت کے نتیجے میں سمندروں کے دل سے بادلوں کا خمیر مایہ اٹھتا ہے، بادل بنتے ہیں جنہیں ہوائیں اڑاتی، آسمانوں کی سیر کراتی، کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں تک لی جاتی ہیں اور جب یہ بادل اِن بلندیوں کی سرد فضا میں پہنچتے ہیں تو برف بن جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ اپنے سرچشمۂ حیات سے دوری کے بعد جب آفتاب کی طمازت کے نتیجے میں یہ برف پگھلتی ہے تو ندی نالوں کی صورت میں بہتی، دریا تشکیل دیتی، وہاں پہنچتی ہے جہاں سے اُس کا خمیر اُٹھا تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کا چہلم منانے کی غرض سے کربلا و نجف کی طرف رواں دواں قافلوں کی داستان بھی بالکل ایسی ہی تھی۔ اِن کا خمیر مایہ بھی مشیت الہی کی طمازت کے نتیجے میں کربلا و نجف میں مدفون معصوم ائمہ طاہرین علیہم السلام کی ولایت کے سمندر سے اٹھا تھا۔ جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
شِیعَتُنَا خُلِقُوا مِن فَاضِلِ طِینَتِنَا وَ عَجِنُوا بِمَاءِ وِلَایَتِنَا ([2])
یعنی: "ہمارے شیعوں کا خمیر ، ہماری اضافی طینت سے اٹھایا اور ہماری ولایت کے پانی میں گوندھا گیا ہے۔"
لہذا مجھے یہ کہنے دیجئے کہ زائرین کے ان قافلوں کی مثال، بالکل اُس پانی کی مانند ہے جسے مشیت الہی کے آقتابِ عالم تاب کی طمازت نے بخارات بنایا اور گردش زمانہ کی ہوائیں اڑاتی دور دراز کی سرزمینوں تک لے گئیں۔ یہ وہاں کے سرد ماحول میں کچھ عرصہ منجمد رہے۔ لیکن اس سال بھی ہر سال کی طرح، محرم الحرام میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی سوزش نے اِن کے قلوب کو ایسا گرمایا کہ یہ دل رکیک ہو کے قطرے بننے اور اشکوں کی صورت، آنکھوں سے ٹپکے۔ مظولمِ کربلا کی شہادت کے غم نے زائرین کے ابدان کو بھی ایسا گھائل کیا کہ وہ ندیوں، نالوں اور دریاوں کی طرح زمین و آسمان کے راستوں، جوق در جوق نجف اور کربلا کی طرف بہہ چلے۔ اِن کے تار و پود میں ولایت معصومین علیہم السلام کے آبِ زلال کی چاشنی اور اِن کی آنکھوں میں غمِ حسین میں بہنے والے اشکوں کی کہانی رچی بسی تھی۔ یہ ایک قتیل العبرات ( آنسووں کے کشتہ) کا چہلم منانے نجف و کربلا جا رہے تھے۔ ہر شخص کی زبان پر بس ایک ہی جملہ تھا: "یاحسینؑ !" یہ جملہ اُن کے خشک ہونٹوں سے نکلتا اور آنکھوں کو بگھو دیتا تھا۔ درحقیقت، ہونٹوں پہ "یاحسینؑ !" اور آنکھوں میں "اشک" عشق کی سلطنت کے ہر باشندے کی بنیادی شناخت ہے۔ جس کے پاس یہ سند نہ ہو وہ عشق کی سلطنت کا مسافر یا سیّاح تو ہو سکتا ہے، باشندہ تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔
٭٭٭٭
معاف کرنا! میرے قلم کی مطلق العنانی، بعض اوقات مجھے اِس کی عنان سنبھالنے سے عاجز کر دیتی ہے اور آج تو ویسے بھی اس کی حکمرانی ہے کیونکہ کربلا کے مسافروں کی داستان رقم کر رہا ہے۔ بات یہاں سے ایک اور سمت نکلی کہ آج صبح جب ہمارے میزبانوں نے ہمیں الکوت شہر کے جنرل بس سٹینڈ پر اتارا تو اتنا رش لگا تھا کہ میزبان اور مہمان دونوں مات و مبہوت رہ گئے۔ہر طرف حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین نظر آ رہے تھے۔ ان میں سے اکثر نجف کے راہی تھے؛ لیکن آج نجف کی کوئی گاڑی میسر نہ تھی۔ یہ حالت دیکھ کر شوق اور خوف کا ملا جلا احساس ابھر رہا تھا۔ گویا ایک بار پھر ہمیں خوف و رجاء کی وادی میں اتارا گیا ۔ خوف اس بات کا کہ الکوت سے نجف کا فاصلہ تقریبا 205 کلو میٹر بتایا جا تا ہے اور یہ فاصلہ طے کرنے کےلیے کوئی گاڑی میسر نہ تھی۔ اُمید یہ لگی تھی کہ کوئی نہ کوئی بندوبست ہو ہی جائے گا۔
لیکن خوف و رجاء کی آمیزش سے ایک تیسری کیفیت جنم لے رہی تھی اور یہی اصل کیفیت تھی۔ کیونکہ یہ شوق کی کیفیت تھی۔ میں تو اِس کیفیت سے اُس وقت گذرا جب چند ایرانی زائرین ایک وین ڈرائیور سے نجف لے جانے کی بات کر نا چاہتے تھے۔ ان کے ہمراہ چند بیبیاں بھی تھیں۔ ایرانیوں کو عربی نہیں آتی تھی۔ ہمارے ساتھیوں میں سے ایک کو اُن کی ترجمانی کا فریضہ انجام دینا پڑا۔ وین ڈرائیور کہہ رہا تھا کہ نجف سے ایک سو کلو میٹر کے فاصلے تک راستہ بلاک ہے، گاڑی نہیں جا سکتی۔ اِن بیبیوں کا کہنا تھا کہ ڈرائیور سے کہہ دو ہمیں نجف سے ایک سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہی اتار دے۔ باقی ماندہ راستہ ہم پیدل چلیں گے،چلنے ہی تو آئے ہیں۔ یقین جانیے! یہ سُن کر میں تو لمحہ بھر کے لیے شوق کی وادیوں میں کھو گیا۔ واہ! اُس ناز پروردہ معاشرے سے تعلق رکھنے والی بیبیاں جو چند قدم کا سفر کاٹنے کےلیے بھی گھر کے دروازے پر ٹیکسی منگواتی ہیں، آج سراپا راہ نوردِ شوق بنی، کسی محمل و ساربان کے بغیر، خارِ مغیلاں پہ سفر کرنے کےلیے آمادہ نظر آئیں!
؏"یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے!"
البتہ شوق کا جو عالم میں نے دیکھا، حضرت امام حسین علیہ السلام کے چہلم پر جانے والا ہر زائر ایسے کئی عوالم کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہر فرد اپنے مشاہدات کو سپردِ قلم نہیں کر سکتا۔ لیکن جو مشاہدات کو قلم کی زبان عطا کر سکتے ہیں وہ انہیں ضرور قلمبند کرتے ہیں۔ اسد کاظمیؔ نے بھی ایک ایسا مشاہدہ قلمبند کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"رات تاریک تھی اور ہوا بے مہر ۔۔ پاؤں رکھنے کو ہموار زمین تک نہ تھی اور نہ ہی آنکھوں میں اتنی سکت کہ زمین کے نشیب و فراز کی گتھیاں سلجھا سکتیں ، کیونکہ غور سے دیکھنے کے لئے توقف درکار تھا اور توقف وہاں کہاں تھا ؟ چاروں جانب گاڑیاں ، کاریں ، بسیں،ٹرالر، سائپا کے وانٹ، چھوٹے اور بڑے ٹرک، الغرض ہر قسم کی چیزیں موجود تھیں۔۔ لمبی قطاریں اور چیختے ہارن۔۔ رات کا آخری پہر آخری دموں پہ تھا اور یہ کچھ جاننے والے ہی جانتے ہیں کہ رات کے آخری پہر کی سرد مہری کیسی ہوتی ہے۔۔۔ میں نے موبائل فون میں جھانکا۔۔ چار بج کر چوبیس منٹ ہوئے تھے۔۔۔ ایسے وقت میں تو تہجد گذار بیبیاں بھی اپنے گھروں سے نکلنے کا سوچتی تک نہیں ۔۔ میں نے ایک بچہ گاڑی کے پاس سے گذرتے ہوئے سوچا ۔۔ "یہ کون سی کشش ہے جو رات کے اس پہر میں ان معصوم بچوں کو ماؤں سمیت کشاں کشاں لئے جاتی ہے ؟" ۔۔ بچہ گاڑی پھنس گئی تھی اور مادر شیر خوار کا زور اسے نکالنے کو ناکافی تھا۔۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔ اور بچہ گاڑی پتھروں میں راستہ بناتی آگے چل پڑی۔۔ میں نے بے ساختہ اپنا وہی گردآلود ہاتھ اپنی آنکھوں پہ رکھ لیا۔۔"[3]
سبحان اللہ! ایک ماں کا سخت سردیوں کی رات، صبح چار بجے، اپنے شیرخوار معصوم کو بچہ گاڑی میں ڈالے کربلا کی طرف کشاں کشاں پیدل سفر!(یاد رہے! اِس بی بی اور اُس کے شیر خوار کی تصویر نہیں اتاری جا سکی۔ تاریکی تو تھی ہی، لیکن قلبی کیفیات کو Capture کرنے کے لیے کوئی کیمرہ بھی ایجاد نہیں ہوا)سبحان اللہ! ایک پردہ نشین بی بی کا خوشی خوشی 100 کلو میٹر کا فاصلہ پیدل چلنے کا عزم و ارادہ اور جوش و ولولہ! سبحان اللہ! ایک بڑھیا ماں کا بچوں کی طرح ویل چیر پر سینکڑوں کلو میٹر کا سفر!اور یہ طفلِ معصوم جو ابھی اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکتا لیکن ہاتھوں اور زانووں کے سہارے علی اصغرؑ کا غم منانے چلا ہے۔ یقینا اِس عزم و ارادے کی توضیح و تفسیر، عصر حاضر کے میٹیریالسٹ ماہرین انسانیات کے بس کا روگ نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میرے لیے تعجب سے بڑھ کر اِس سوال کا جواب ڈھونڈنا اہمیت اختیار کر گیا کہ ایسے لوگوں کےلیے جو حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپؑ کے عشق سے آشنا نہیں، عشقِ حسینؑ کے ان بے نظیر مظاہر کی کیا توجہیات پیش کی جا سکتی ہیں ؟ یقینا میرے آپ کےلیے یہ معمہ حل شدہ ہے کہ جن بیبیوں کے دلوں میں ایک ایسے امام کی زیارت کا شوق موجزن ہو جس کی دلدادہ بہن نے مدینہ سے کربلا، کربلا سے کوفہ، کوفہ سے شام ، شام سے کربلا اور کربلا سے مدینہ تک کا اتنا طولانی اور طاقت فرسا سفر محض امامت کا حق ادا کرنے کےلیے طے کیا، ایسی بیبیوں کےلیے اُس امام کے چہلم کا حق ادا کرنے کےلیے 100 کلومیٹر کا پیدل سفر طے کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
لیکن اس سفرنامے کے بیان میں میرا اصل مخاطب تو ایسے لوگ ہیں جنہیں کسی نے کربلا کی کہانی نہیں سنائی۔یقینا ایسے لوگوں کو یہ راز سمجھانے کےلیے میں اپنی بات کا آغاز یہاں سے کرنا چاہوں گا کہ عشق کی سلطنت کے باشندوں کی دوسری اہم شناخت یہی ہے کہ وہ امام حسین علیہ السلام کے عاشق ہوتے ہیں۔ دراصل، عشق، چاہت کے شباب کا نام ہے اور چاہت، ارادے کی گود میں جنم لیتی ہے۔ فلسفیوں کے بقول ارادہ بذات خود معرفت کا محتاج ہے۔ لہذا انسانی عشق و شوق اور عزم و ارادے کی جن کیفیات کا بیان اوپر گزرا ، اُن کی گہرائی تک پہنچنے کےلیے ہمیں حضرت امام حسین علیہ السلام کی معرفت درکار ہے۔ امام حسین علیہ السلام کون ہیں؟ آپؑ کی معرفت کیا ہے؟
یقینا ایک سفرنامے میں اس موضوع پر کوئی تفصیلی بات نہیں بتائی جا سکتی۔ بس اتنا جان لیناضروری ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام، بوستانِ بتول سلام اللہ علیہا میں اگنے والے اُس سروِ آزادی کا نام ہے جس نے صرف اللہ تعالی کے ذات کے سامنے سر جھکانا سیکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم و استبداد کے سامنے سر جھکانے سے واضح انکار کیا۔ یزید یہ چاہتا تھا کہ آپ کا سر اپنے آستانۂ جبر و استبداد پر جھکا دے لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔ آپؑ کا سر کاٹا تو جا سکا، جھکایا نہ جا سکا۔اور جب آپؑ کا سر کاٹ کر نیزے کی نوک پر چڑھایا گیا تو یہ قرآنِ ناطق، ایسا ناطقِ قرآن بنا کہ خود کھلی کتاب بن گیا۔ لہذا اب قیامت تک قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ حضرت امام حسینؑ کی کہانی بھی دہرائی جاتی رہے گے۔ہر سال لاکھوں، کروڑوں مسلمان اِس نواسۂ رسولﷺ کا چہلم منانے نجف و کربلا میں جمع ہوتے رہیں گے۔ اور جگر گوشۂ بتول قیامت تک اپنے چاہنے والوں کو آزادی اور حرّت کا درس دیتے رہیں گے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام اہل دنیا کے سامنے ہمیشہ کھلی، وہ روشن کتاب ہیں جس کے سر ورق پر یہی لکھا ہے کہ انسان اپنے زمانے کے ظالم اور جابر حکمرانوں اور اپنے دور کے استعمار اور طاغوت سے اُس وقت نجات پا سکتا ہے جب اپنی گردن اُس یکتا معبود کی بارگاہ میں جھکا دے جس نے انسان کو اپنی بندگی پر بھی مجبور نہیں کیا۔ بلکہ اُسے بندگی اور سرکشی کے درمیان مکمل اختیار دے کر حرّیت اور آزادی کو انسان اور غیر انسان میں وجہ امتیاز بنا دیا ہے۔ اللہ تعالی نے عالمِ تکوین پر اپنا جبر حاکم فرمایا ہے لیکن عالمِ تشریع کی بنیاد اپنے بندے کے اختیار اور آزادی پر رکھی ہے۔ لہذا جس بندگی کی بنیاد، انسان کی آزادی اور اختیار پر نہ رکھی جائے اللہ تعالی کو وہ بندگی قبول نہیں ہے۔حضرت امام حسین علیہ السلام کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ آپؑ نے اللہ تعالی کی بندگی کو آزادی، اختیار اور حریّت کی وہ اساس فراہم کر دی کہ اب قیام تک اللہ کی بندگی کو کوئی جبر قرار نہیں دے سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعارف کرواتے ہوئے حکیم الامت علامہ اقبال فرماتے ہیں:
بہر حق در خاک و خون غلطیدہ است پس بنائے لا الہ گردیدہ است
۔۔۔
تیغ لا چون از میان بیرون کشید از رگِ ارباب باطل خون کشید
نقش الا اللہ بر صحرا نوشت سطر عنوان نجات ما نوشت
یعنی حضرت امام حسینؑ حق کی خاطر خاک و خون میں غلطاں ہو کر "لا الہ الاّ اللہ" کی محکم بنیاد بن گئے ۔۔۔ آپؑ نے جب یزید کی بیعت کے انکار کی تلوار نیام سے نکالی تو قیامت تک کے اربابِ باطل کی رگوں کا سارا خون بہا دیا۔ آپ نے کربلا کے صحرا پر ہمیشہ کے لیے "فقط اللہ کی بندگی" کا نقش گاڑھ دیا اور یوں ہماری نجات کی سطر کا اصل عنوان رقم کر دیا۔
خلاصہ یہ کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی معرفت میں کم از کم اتنا جان لینا بہت ضروری ہے کہ آپؑ وقت کی وہ گونجتی آواز ہیں جو ہر جابر و ظالم حکمران اور استعماری اور طاغوتی نظام کو للکار رہی ہے۔ اور آپ کا چہلم منانے وہی نکلیں جو آپؑ کے مکتب پر مکمل یقین رکھتے ہوں اور آپؑ کی صدائے استغاثہ پر لبیک کہہ سکتے ہوں۔
٭٭٭٭
بلند حوصلوں کے مالک تو الکوت ہی سے پیدل نجف کے طرف چل پڑے۔ ہم جیسے کمزور بدن، کمزور ایمان کسی سواری کی تلاش میں تھے۔ کافی دیر بعد ایک دیو ہیکل ٹریلر زائرین سے بھرتا نظر آیا۔ سب نے دوڑ لگائی اور سوار ہو گئے۔ شہر سے نکلے تو کسی نے راستہ روک لیا۔ میں تو پریشان ہوا کہ پولیس والوں نے روک دیا ہے، نہیں معلوم ڈرائیور ان سے کوئی مک مکا کر بھی پاتا ہے یا نہیں۔ لیکن جب مک مکا ہونے لگا تو معلوم ہوا کہ جب تک سواریاں نیاز نہ کھا لیں آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ویسے یہ بڑا دلچسپ مک مکا تھا جو مجھے بہت یاد رہے گا۔
خیر چل پڑے لیکن ہر چند کلومیٹر کے فاصلے پر رک کرنیاز تقسیم کرنے والوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ مک مکا کرنا ہی پڑتا۔ روڈ کے ایک طرف پیدل چلنے والے زائرین کا ٹریک تھا جو دو سو کلومیٹر پیدل چلنے کا سودا سر مول لیے سوئے منزل رواں دواں تھے۔ جوں جوں نجف اشرف کے قریب تر ہوتے جا رہے تھے لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ ٹریلر بھی 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ تیز نہیں چل سکتا تھا۔ لہذا ہمیں لگ بھگ چار گھنٹے بھاگتے ٹریلر میں پاؤں کے بل کھڑے سفر کاٹنا پڑا۔
میرے پاؤں پر سوجھن چڑھنے لگی۔ حوصلہ جواب دینے لگا۔ اِس تکلیف دہ صورتحال کو برداشت کرنا آسان نہ تھا۔ اپنے حوصلے کو امکان کی آخری حد تک بڑھایا۔ لیکن تھک اتنا گیا تھا کہ ایک قدم رکھتا، ایک اٹھاتا، وہ رکھتا، دوسرا اٹھاتا۔ بارِ الہا! یہ سفر کب کٹے گا! میں نے زندگی میں کبھی اتنا طولانی سفر یوں کھڑے ہو کر اس کربناک حالت میں نہیں کیا تھا۔ تاہم جب میری ہمت بالکل جواب دینے لگتی تو اُن لوگوں کو دیکھ کر جوان ہونے کی کوشش کرتا جو سڑک کے دوسرے ٹریک پر پیدل چل رہے تھے۔ اس سے حوصلہ کافی بڑھ جاتا تھا۔ لیکن جو بات سب سے زیادہ حوصلہ افزا تھی وہ یہ خیال تھا کہ اُن مسافروں کے عشق میں سفر کی یہ صعوبت اٹھا رہے ہیں جنہوں نے بے پلان بھاگتے اونٹوں پر سفر کاٹے! ہم جوان ہیں، مرد ہیں، ہمارے ہاتھ پسِ گردن نہیں بندھے، ہماری گود میں معصوم بچے نہیں جن کے گر جانے کا خدشہ ہو۔
ہمارے سفر کی سختی کہاں اور اُن مسافروں کے سفر کی سختی کہاں جو بے پلان اونٹوں پر سوار تھے۔ جن کے ہاتھ پابندِ رسن تھے۔ جن میں مرد کم، کبھی سفر نہ کرنے والی بیبیاں زیادہ تھیں۔ جن کی گودیوں میں معصوم بچے بھی تھے جنہیں سنبھالا نہ جا سکتا تھا۔ اِن مسافروں کو راستے میں نذر ونیاز، شربت پانی تو درکنار، دھوپ میں ٹھہرایا جاتا اور احوال پُرسی تو کجا، تازیانے مارے جاتے تھے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہ کوئی عام مسافر نہ تھے۔ یہ اُس نبی کی بیٹیاں تھیں جن کی رسالت کی منافقانہ گواہی ساربان دے رہے تھے۔یقینا جب فوج اشقیاء سے "اشہد انّ محمدا رسول اللہ" کی آواز بلند ہوتی ہو گی تو رسول ﷺ کی بیٹیاں آپ کی بارگاہ میں اپنی کسمپرسی کا شکوہ ان الفاظ میں کرتی ہوں گی: "وا محمداہ! صلی علیک ملیک السماء و نحن بناتک سبایا" (وا محمداہ! آپ پر آسمان کے ملائیکہ کا دورد و سلام اور ہم آپ کی بیٹیاں قیدی بنا لی گئی ہیں!)
جب ہم نجف سے کوئی بیس تیس کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچے تو ٹریفک جام ہونے لگا۔ میری تمنا تو یہ تھی کہ ٹریلر والا ہمیں یہیں اتار دے۔ کہیں یہ بیچارہ ٹریفک میں ایسا نہ پھنس جائے کہ نکل نہ سکے۔ نیز ہماری آسانی بھی اسی میں تھی کہ نیچے اترتے تو کچھ دیر سستا لینے کا موقعہ فراہم آ جاتا۔ لیکن مجھے ڈرائیور پر بہت تعجب تھا۔ گویا اُس نے اپنا عزم اس بات پر جزم کر رکھا تھا کہ زائرین کو حضرت علی علیہ السلام کے مقدس آستان کی قریبی ترین سرحد تک پہنچائے بغیر واپس نہیں لوٹے گا۔یہاں تک کہ اس نے نجف کے اُس محلے میں پہنچا دیا جسے "نزلہ" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
نجف، سرزمینِ امن و سکون!
جب ہم نجف پہنچے، عصر کا وقت ڈوب رہا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک بی بی تنور پر کھڑی روٹیاں لگاتی نظر آئی۔ میں نے سوچا یہ بی بی اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کا بندوبست کر رہی ہے۔ لیکن جب ٹریلر سے اتر کر چند لڑکے بھاگے بھاگے تنور کی گرم گرم روٹی پر لپکے تو معلوم ہوا کہ زائرین کا پیٹ بھرنے کا بندوبست جاری ہے۔میں نے الکوت سے یہاں تک کم و بیش کچھ نہ کھایا تھا۔ بس ایک آدھ مرتبہ نیاز چکھ لی تھی۔ یوں ایک لحاظ سے تو میں کامیاب ہوا کیونکہ جہاں کئی مسافرین نے رفع حاجت کی فرصت پیش نہ آنے کی مسلسل شکایت کی، میں انتہائی سکون سے رہا۔ لیکن اب 5/6 گھنٹے کی تھکاوٹ اور بھوک کے بعد تنور کی گرم گرم روٹی کھانے کو میرا جی بھی للچایا۔ اتفاق سے آدھی روٹی میرے حصے میں بھی آئی۔ گرم گرم! دو تہہ میں پکی روٹی اپنے پیٹ میں پیاز اور دھنیا جیسی نیم پکی، نیم کچی سبزیاں لپیٹے، برگر سے کم لذیذ نہ تھی!
نجف اشرف کوئی اتنا بڑا شہر نہیں ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں لگ بھگ چالیس پچاس لاکھ زائرین کا بیک وقت سما جانا معجزے سے کم نہیں([4]) ۔
یہ معجزہ خود اہل عراق اور اہل نجف دکھاتے ہیں۔ یہاں مدینہ منوّرہ میں باندھے جانے والے عقدِ اخوت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ چہلم کے موقعہ پر کسی نجفی کا گھر اُس کا شخصی گھر نہیں رہتا۔ کم و بیش ہر نجفی سال بھر اِن ایّام کے انتظار میں رہتا ہے اور مولٰی علی مرتضیٰ اور مظلومِ کربلا کے زائرین کی مہمان نوازی کی تیاریاں کرتا رہتا ہے۔ لہذا چہلم کے ایام میں جب تک نجفیوں کے گھروں میں تل دھرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے، اُن کا دروازہ زائرین پر کھلا رہتا ہے۔ اور جب سب مکان بھر جاتے ہیں تو نجف کے گلی کوچے اور سڑکیں مسکن بن جاتی ہیں۔درحقیقت، یہ ایمانی اخوت اور ایثار و فداکاری عشق کی سلطنت کے باشندوں کی تیسری بڑی شناخت ہے۔ جس میں یہ علامت نہ پائی جاتی وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی نگری کا باشندہ نہیں کہلا سکتا۔
یاد رہے! چہلم کے موقعہ پر مولیٰ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حرم کے سنہری گنبد کو دور سے دیکھ لینا اور دُور سے آپؑ کا زیارتنامہ پڑھ لینا کافی ہے۔ لیکن اگر کوئی زائر ضریح کے پاس پہنچے بغیر اپنی زیارت کو ناقص تصور کرے تو اُسے چاہیے کہ الگ سے دھکم پیل نہ کرے؛ بلکہ اپنے آپ کو ضریح کے گرد دیوانہ وار طواف کرنے والے زائرین کی موجوں کے حوالے کر دے۔ وہاں لمحہ بہ لمحہ زائرین کا ایک سیلابی ریلہ "حیدر! حیدر! لبیک یا حیدر!" کہتا ضریح کے پاس سے گذرتا ہے۔ اگر اس ریلے میں شریک ہو جائیں تو ضریح کا نیم طواف ہو سکتا ہے، بصورت دیگر، اپنی شخصی طاقت پر کوئی کمتر ہی ضریح کے پاس پہنچ پاتا ہے۔
بہرصورت، ہر زائر کی توجہ اِس بات پر جمی رہے کہ زیارت کا اصل مفہوم، مولیٰ کی خدمت میں عرضِ ادب اور حالِ دل بیان کرنے میں پوشیدہ ہے۔ جی ہاں! حالِ دل کا بیان اپنے اندر عجیب لذت رکھتا ہے۔ دراصل، اسلامی ادبیات میں حالِ دل کا بیان "مناجات" کا ایک اساسی رکن شمار ہوتا ہے۔ مناجاتِ الٰہی میں لذّت، کیف اور جذب و مستی کا عنصر، حالِ دل کے واقعی بیان ہی سے شامل ہوتا ہے۔ اور حال دل کا واقعی بیان یہ ہے کہ ایک تہی دست، کنگلا فقیر، اپنے آپ کو ایک ہر لحاظ سے غنی ذات کے دربار میں حاضر پا کر اپنے ٹوٹے دل کی کرچیاں اپنی دونوں ہتھیلیوں پہ رکھے اُس غنی کی بارگاہ میں یہ عرض کر رہا ہو کہ:
پروردگارا! میرے پاس اس ٹوٹے ظرف کے سوا کچھ نہیں؛ میرے فقر پر رحم فرما!
بارگاہِ الٰہی کے مقرّبین کی تعلیمات یہ بتاتی ہیں کہ اللہ تعالی نے ایسی دعاوں میں اپنی حتمی قضا کو بدل دینے کی طاقت رکھ دی ہے۔ جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی زیار کے بعد کی منقول دعا میں یہ جملہ وارد ہوا ہے: اسئلک بالقدرۃ النافذۃ فی جمیع الاشیاء و قضائک المبرم الذی تحجبہ بایسر الدعاء ([5])
لہذاا بقول علامہ اقبالؔ
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے، نگاہ آئینہ ساز میں!
مناجاتِ الہی کی طرح مقرّبانِ بارگاہ الہی اور معصومین علیہم السلام کی زیارت میں بھی لذّت کا عنصر حالِ دل کے بیان سے شامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر زائرین اپنے مولیٰ و آقا کی خدمت میں اپنے تمام دکھوں، پریشانیوں اور مصیبتوں کا حال سناتے ہیں اور اُنہیں بارگاہ الٰہی میں اپنا شفیع بناتے ہیں۔لیکن بعض زائرین بھی کمال کے لوگ ہوتے ہیں۔ میں ایک ایسے زائر کی بات کروں گا۔ یہ زائر جب مولٰی امیر المؤمنین علیہ السلام کی ضریح کے پاس پہنچا تو اُس کی ساری توجہ اپنے مولٰی کو ایک ایسی بیٹی کا حالِ دل سنانے پر لگی تھی جس نے خدا کی راہ میں کربلا کے میدان میں عون و محمد جیسے بیٹے ، علی اصغر جیسے شیرخوار، علی اکبر و قاسم جیسے بھتیجے اور عباسؑ علمدار اور حضرت امام حسین علیہ السلام جیسے بھائی قربان کیے۔ لیکن یہ بیٹی کربلا میں لٹ جانے کے بعد کبھی اپنا بابا اور مولٰی کی خدمت میں حاضر ہو کر حالِ دل بیان نہ کر سکی تھی۔
یقینا اِس زائر کو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے اس قلق کا شدّت سے احساس تھا۔ لہذا وہ بی بی زینب سلام اللہ علیہا کا ترجمان بن کر آپ کے بابا کی بارگاہ میں بی بی کا حالِ دل اپنے الفاظ میں سنا رہا تھا۔ لیکن بہت مختصر۔اُس نے کربلا کی ساری کہانی بیان نہیں کی اور نہ ہی کربلا کے ایک ایک شہید کی شہادت پر بی بی کے دل پر ٹوٹنے والے کوہِ غم کا نوحہ سنایا۔ اُس نے بی بی کے حالِ دل کی ترجمانی کرتے ہوئے بس ایک ہی جملہ اپنے مولی ٰو آقا کی خدمت میں بیان کیا اور اُس کے بعد مصائب کے بحرِ بیکراں میں ڈوب گیا۔ وہ جملہ یہ تھا:
"بابا! مجھے رسن بستہ، بازاروں اور درباروں میں لے جایا گیا!"
زینب کی یہ مصیبت، کربلا کے تمام مصائب سے بڑی مصیبت تھی۔ اِس مصیبت پر جس قدر گریہ کیا جائے کم ہے۔ ایک بیٹی اپنے بابا کی خدمت میں اس سے بڑی کس مصیبت کا حال سناتی! بی بی کی چادر لوٹ لی گئی تھی اور آپ کو نامحرموں کے ہجوم میں کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں گھمایا گیا! درحقیقت، یہ مصیبت بی بی زینب کی نہیں، عالمِ اسلام کی سب سے بڑی مصیبت ہے۔ اس لیے کہ سن 61 ہجری میں بھی لوگوں کا خیال یہ تھا کہ زینبؑ، علیؑ کی بیٹی ہے اور لوگ آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ زینبؑ، علیؑ کی بیٹی تھی۔ لیکن کوفہ کے دربار میں بی بی نے قیامت تک کے لیے اِس سوچ پر خطِ بطلان کھینچ دیا تھا۔ آپ نے اپنے خطبہ کی ابتداء میں فرمایا تھا: الحمد للہ و الصلاۃ علی ابی محمد! یعنی: "سب ثنائیں اللہ تعالی کے ساتھ مخصوص ہیں اور درود و سلام ہو میرے بابا محمد (ﷺ)پر !" بی بی نے اپنے خطبہ میں واضح کر دیا کہ میں علی کی بیٹی ہونے سے پہلے محمد ﷺکی بیٹی ہوں۔ لہذا جس مسلمان کا حضرت محمد ﷺکے ساتھ کوئی رشتہ ناطہ ہے، اُس کا قیامت تک یزید اور یزیدی طرزِ تفکر کے ساتھ کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہو سکتا۔ اور جسے ناموسِ رسالت کا کچھ پاس ہے، وہ وقت کے یزید سے نبی کی بیٹی کی چادر کا انتقام لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ البتہ علی علیہ السلام کی بیٹی نے جہاں عام مسلمانوں کی یہ غلط فہمی ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دور کر دی کہ علی کی بیٹی ہونے اور نبی کی بیٹی ہونے میں کوئی فرق نہیں، وہاں آپ نے یزید ملعون کی ایک غلط فہمی بھی ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دور کر دی۔ یزید کا خیال تھا کہ وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کر کے حضرت علی علیہ السلام کا ذکر اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی یاد تک مٹا دے گا۔ لیکن بی بی نے دربارِ شام میں دوٹوک الفاظ میں یزید کو بتا دیا کہ : " کِدْ کَیْدَکَ وَ اجْھَد جُھْدَکَ فَوَ اللہِ الَّذِیْ شَرَّفَنَا بِالوَحْیِ وَالکِتَابِ وَ النُبُوَّۃِ وَ الاِنْتِخَابِ لَاُتدْرِکُ اَمَدَنَا وَ لَاتَبْلُغُ غَایَتَناَ وَ لَاتَمْحُو ذِکرَْنَا"
یعنی: "(ائے یزید!) تو ہر حربہ اپنا لے اور اپنا پورا زور لگا لے! اُس اللہ کی قسم! جس نے ہمیں وحی، کتاب، نبوّت اور برگزیدہ ہونے کا اعزاز بخشا ہے، نہ تو ہمارے جیسی شان و شوکت حاصل کر سکتا ہے، نہ ہماری انتہاء کو پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی ہمارا ذکر مٹا سکتا ہے۔" ([6]) مولیٰ علی علیہ السلام کی بیٹی کی پیشین گوئی کی صداقت کی گواہی نجف سے کربلا کے راستے پر لگے چند بینرز پر نقش ایک تسبیح کے عکس کے نیچے سرخ قلم سے لکھا یہ جملہ دے رہا ہے : "لن تمحو ذکرنا" (تو کسی صورت ہمارا ذکر نہیں مٹا سکتا!)
نینویٰ کے مسافر
نینویٰ کے مسافروں کی داستان، ایک ایسی داستان ہے جسے نہ سن 60 ہجری کے میڈیا نے کوئی کوریج دی اور نہ ہی عصر حاضر کا پلید اور آلودہ میڈیا کوئی اہمیت دیتا ہے۔ اگر سن 60 ہجری میں نینویٰ کے مسافروں کی داستان کی تشہیر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خطبوں سے ہوئی تو عصر حاضر میں نینویٰ کے مسافروں کی داستان بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین، آپ کے چہلم کے موقعہ پر نجف سے کربلا تک اپنی "مشی" (پیدل چلنے) کے ذریعے رقم کرتے ہیں۔
درحقیقت،وہ میڈیا جو یزیدیّت اور صیہونیّت کی تجوریوں پر پلتا اور چلتا ہو، کب اُس سے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اہلِ دنیا کے سامنے نینویٰ کے مسافروں کی داستان پیش کرے گا؟یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ استعمار کے آلہٴ کار، حضرت امام حسین علیہ السلام کی للکار کو اہلِ اقطارِ تک پہنچائیں؟ یہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح یزید نے چاہا تھا کہ کربلا کی کہانی، کربلا میں دفن ہو جائے تاکہ اُس کی بادشاہی کو دوام حاصل رہے، اسی طرح عصر حاضر کی یزیدیّت بھی نہیں چاہتی کہ نینویٰ کے مسافروں کی کہانی دہرائی جائے، مبادا اُس کی حکمرانی کی بنیادیں ہلا دی جائیں۔
لہذا آج حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے ماننے والوں کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ زینبی فریضہ انجام دیتے ہوئے نینویٰ کے مسافروں کی داستان کا جگہ جگہ پرچار کریں۔ ہر عزادار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نینویٰ کے مسافروں کی کہانی کی ایسی تشہیر کرے کہ یہ داستان مشرق و مغرب کے ہر زندہ ضمیر انسان کے عقل و قلب پر نقش ہو جائے۔ اِسی جذبے کے تحت میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے چہلم کے موقعہ پر نجف سے کربلا تک کے اُس روحانی سفر کی داستان رقم کر رہا ہوں جو اگرچہ 2014 کے اربعینِ حسینی کی داستان ہے،لیکن ایک لحاظ سے یہ سن 60 ہجری کے نینویٰ کے مسافروں کی داستان کا بیان بھی ہے۔
*****
17 صفر کی صبح، نماز صبح کے بعد ہم نے نجف اشرف سے کربلائے معلی کے پیدل سفرکا آہنگ کیا۔ عربی عرف عام میں اس پیدل سفر کو "مَشِی" کہا جاتا ہے۔جب ہم نجف، کربلا شاہراہ پر آئے تو ہر طرف زائرینِ حسینی کا ایک سیلاب یوں رواں دواں تھا گویا کسی دریا کے پیندے میں ایک بہت بڑا سیلاب بڑھا چلا آ رہا ہو۔ ہمیں 80 کلومیٹر سے زائد فاصلہ پیدل طے کرنا تھا۔ سب پیر و جوان اور بچے، عورتیں ایک خاص جذبے کے ساتھ نینویٰ کی طرف قدم بڑھا رہے تھے۔ کوئی اڑھائی تین گھنٹے سفر طے کرنے کے بعد بھوک غلبہ کرنے لگی۔ ناشتہ کی ہوس دل میں لیے ہم سڑک کے وسط میں چلنے کی بجائے ایک کنارے لگ گئے۔
اگرچہ وافر مقدار میں نذر و نیاز کا بندوبست تھا لیکن میرا جی روٹی کھانے کی طرف راغب تھا۔ سامنے ایک بہت بڑے تھال میں چند مؤمنین انڈے فرائی کرنے میں مصروف تھے۔ انڈے فرائی کرنے کا انداز یہ تھا کہ ایک شخص کا کام کوکنگ آئل کی بوتل لیے تھال میں آئل انڈیلنا تھا۔ دو تین افراد مسلسل انڈے توڑتے تھا ل کے ایک خاص زاویے میں ڈالے جا رہے تھے۔ ایک فرد انڈوں کو تھال کے اگلے حصے کی طرف کچھ اس طرح سے بڑھا رہا تھا کہ جب انڈا تھال کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کی مسافت طے کرتا تو فرائی ہو چکا ہوتا تھا۔چند لڑکے روٹی کی تقسیم پر اس طرح مامور تھے کہ ایک روٹی اٹھاتا، اُسے کھولتا اور دوسرے کے ہاتھ پر رکھ دیتا۔ دوسرا روٹی اُس شخص کے آگے کر دیتا جو تھال سے فرائی انڈے اٹھا اٹھا کر روٹی پر رکھتا جا رہا تھا۔ جب انڈا روٹی پر آ جاتا تو کھانے والے خود ہی سنبھال لیتے تھے۔
میں اور میرے ساتھی نے اپنی قسمت ہاتھوں میں لی اور برگر بنا کر کھانے میں مصروف ہو گئے۔ اسی دوران میری نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو ناشتہ کروانے والی ٹیم کی پشت پر ایک خاص انداز سے کھڑا، لبوں پر مخصوص مسکراہٹ سجائے ناشتہ کروانے والی ٹیم کی کارکردگی کا پوری توجہ سے جائزہ لے رہا تھا۔ اُس کےشکل و شباہت سےصاف ظاہر تھا کہ وہ کوئی معمولی شخص نہ تھا۔ لہذا میں اُس کے قریب ہوا اور اپنی ٹوٹی پھوٹی عربی میں اس سے پوچھا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)
[1] ۔ ڈائریکٹر نور الہدی مرکز تحقیقات، استاد اصول و فقہ و فلسفۂ اسلامی ،جامعۃ الرضا، بارہ کہو، اسلام آباد۔
[2] ۔ الشیخ محمد مھدی الحائری، شجرہ طوبی، منشورات المکتبہ الحیدریہ، نجف الاشرف؛ ج1، ص 3۔العلامہ المجلسی، بحار الانوار، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ج 53، ص 303۔
[3] ۔ https://www.facebook.com/notes/syed-asad-ali-kazmi
[4] ۔ شیعہ نیوز کے مطابق اس سال (2014) 19 ملین زائرین حضرت امام حسین علیہ السلام کے چہلم میں حاضر ہوئے۔ جبکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے حرم کے امام جمعہ نے چہلم کے موقعہ پر اپنے نماز جمعہ کے خطبے میں بتایا کہ اِس سال ایک کروڑ چالیس لاکھ ( 14 ملین) عراقی اور غیر عراقی زائرین نے چہلم کے موقعہ پر حضرت امام حسین علیہ السلام کے حرم کی زیارت کی ہے۔ لہذا اگر 14 ملین ہی کو مسلم تعداد مانا جائے تو یہ اندازہ لاگیا جا سکتا ہے کہ اس تعداد میں سے اگر 6 ملین زائرین نجف و کربلا کے مابین یا دیگر راستوں پر اور باقی تعداد کا نصف نصف بھی نجف اور کربلا میں ہوں تو اربعین سے تین دن پہلے تک کم از کم 4 ملین زائر نجف میں موجود ہوتے ہیں۔
[5] ۔ العلامہ المجلسی، بحار الانوار، دار احیاء التراث العربی، لبنان، بیروت، ج، 99، ص 55۔
[6] ۔ الشیخ الطبرسی، الاحتجاج، دار النعمان للطباعۃ و النشر، النجف الاشرف۔1966؛ ج2، ص 37۔
تحریر۔۔۔۔ڈاکٹر شیخ محمد حسنین
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.