وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) لفظ اطمینان اور لاپرواہی ایک دوسرے سے معنی ٰ و مطالب کے اعتبار سے دور ہی کیوں نہ ہوں مگر کیفیت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اس فرق کے ساتھ کہ اطمینان نظام کے درست چلنے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے جبکہ لاپرواہی بد نظامی کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دہرے بیٹھے رہنے کا نام ہے۔معاشرے کا وہ طبقہ جو اطمینان کے دور میں بھی ھاتھ پر ھاتھ دہرے نہیں بیٹھا رہتا وہ نہایت ہی ذمیدار اور بیدار طبقہ کہلاتا ہے یعنیٰ وہ طبقہ اس درست نظا م کو اپنی درست سمت میں قائم رکھنے اور مزید بہتری کی تگ و دو میں ہمیشہ کوشاں رہتاہے اور دوسروں کے اطمینان کا باعث بنتاہے یہی معاشرے کا وہ حصہ ہوتا ہے جو معاشرے کو بے قائدگیوں، معاشرتی نا انصافیوں ، انتظامی خرابیوں سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔
ایک طبقہ وہ ہوتا ہے جو بد نظامی کے دور میں بھی بے جا مطمعین رہتا ہے اور وہی معاشرے کا سست ،کاہل اور بے حس طبقہ ہوتا ہے جو بجائے معاشرتی مسائل کے حل میں ساتھی بننے کے مسائل پیدا کرتا ہے لیکن معاشرے کو اسی سست ،کاہل یا سہل پسند طبقے سے بیدار ی کی امیدیں بھی وابستہ ہوتیں ہیں ۔اور ان دونو ں طبقوں کے د میان ایک طبقہ مفاد پرستوں کا ہوتا ہے جو نظام میں بے قائدگیوں اور خلل سے اپنے مفادات کو حاصل کرتا ہے اور اس کی توجہ ان دونوں طبقوں پر ہوتی ہے اور دونوں سے جدا جدا انداز میں نمٹتاہے بیدار طبقے کی راہ میں رکاوٹیں اور اس کو اسکے مشن سے مایوسی پیدا کرکے نمٹتا ہے اور سست ، کاہل اور سہل پسند طبقے کو مزید اطمینان اور احساس آسودگی دیکراس کی کاہلی ، سستی اور سہل پسندی میں اضافہ کرکے نمٹتاہے۔اور اپنے مفادات حاصل کرتا ہے۔مفاد پرست اور بیدار طبقے میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے کہ ان دونوں طبقوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے ۔ اور یہی دونوں طبقے آپس میں برسرپیکار رہتے ہیں ۔
خواب غفلت میں پڑے لا پرواہ طبقے کو جب کوئی بڑا حادثہ جھنجھوڑ کر غفلت کی نیند سے بیدار کرتا ہے تو اس وقت اسے کوئی راہ سجائی نہیں دیتی اوربیدار طبقہ اس کی رہنمائی کرتا ہے اور اسے اس حادثے کے نقصانات کی تلافی کرنے اور اس سے آئیندہ کسی حد تک محفوظ رہنے کی تدبیر کرنے کی کوشش کرنے کا ہنر سکھاتا ہے جو با ت اسی مفاد پرست طبقے کو ناگوار گذرتی ہے۔اور یہیں سے بیدار طبقے اور مفاد پرست طبقے کی جنگ کا آغاز ہوتا ہے ۔یہی حال آج کل ہمارے ملک کا ہے جہاں ایک طبقہ نظام میں خرابیوں کی بات کر رہا ہے اور دوسرا طبقہ اس نظام پر مطمعین کرنے کی کوششوں میں سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے اور ایک طبقہ کچھ خواب غفلت میں ہے اور کچھ نیم بیداری میں ہے ماضی قریب میں بیداری کے نتیجے میں دھرنوں سے گرنے والی بلوچستان کی حکومت سے پاکستان کے عوام کو ایک نئی راہ دکھائی دی اور نا چیز کو پاکستان کے قومی اور علاقائی قائدیں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جس میں قوم پرست اور وفاق پر ست سربراہان شامل ہیں اس ملاقا ت میں بلا امتیاز تمام سربراہان نے ایک بات کی تھی کہ آپ کی ملت نے پاکستان کے عوا کو ایک نئی راہ دکھائی ہے اب آنے والی تاریخ میں جب بھی کوئی ظالم حکمران پرامن طریقے سے ہٹایا جائے گا تو اس کا سہرا آپ کی ملت کے سر ہوگا ۔ اور بعض سربراہان نے یہاں تک کہا تھا کہ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے میرا سلام ہو آپ سب پر ان ملاقاتوں میں بہت سے ہمارے دوست شامل تھے اور وہ اس بات کے گواہ ہونگے۔
لیکن آج کل ایک سوال جو بہت سوں کو پریشان کئے ہوئے ہے کہ اسلام آباد میں جاری دھرنو ں کا مستقبل کیا ہوگا شاید یہ سوال د ھرنوں کے ماضی سے ناواقفیت کی وجہ سے ہورہاہے ۔ میرے نزدیک سوال یہ ہونا چاہئے کہ اسلام آباد میں رہنے والے حکمرانوں کا مستقبل کیا ہوگا دھرنے اور احتجاج اس بات کی علات ہیں کہ ظلم ہوا ہے دھرنوں کا جاری رہنا اس بات کی علامت ہے کہ ظلم ابھی تک جاری ہے اب دیکھیں کے ظالم کا انجام جلد ہوتا ہے یا دیر لیکن دھرنوں کے اثرات بتا تے ہیں کہ پاکستان میں ظالم ذلیل ہونا شروع ہوچکا ہے اور عوام آھستہ آھستہ ہی سہی پر بیدار ہونا شروع ہوگئی ہے اب اگر اس کا انجام جلد دیکھنا ہو تو خواب غفلت سے جلد جاگ جاؤ اور اگر مفاد پرستوں کے دھوکے میں مزید رہوگے تو بھی بیدار طبقے نے اپنی ذمیداری خوب نبھائی ہے اب آپ کی باری ہے ۔ یوں لاتعلق بن کر دھرنوں کے مستقبل کا سوال کرنا بتا رہا ہے کے آپ خود کو کس مقام پر رکھے ہوئے ہیں چلو اس ایک سوال نے بھی تو خود شناسائی پیدا کرلی ہے جو سب سے مشکل عمل ہوتا ہے اور یہ بھی دھرنوں کے مرہوں نے منت ہی ہو ا ۔ دھرنوں کی تاریخ نے بیداری کی مہم کی ابتدا کی ہے اب ابتداء پر ہی مایوسی او ر نا امیدی پہلانا اسی مفاد پرست طبقے کی کارستانی ہے جو سستی ،کاہلی اور بے حسی کا ہمیشہ فائدہ اٹھاتا رہاہے اور بیدار ہونے والے عوام کو لوریاں سنا کر سلانے کی کوشش میں لگا رہتاہے اور سہل پسند طبقہ اس کی میٹھی لوریوں میں آکر سوجاتا ہے اور معاشرے میں ہونے والے نقصانات کی وجہ یہی طبقہ بنتا ہے ۔
ہر دور کی طرح اس دور میں بھی خاموشی ظالم کی حمایت ہے اور ہم خیال مجوعہ لگاکر صرف ممبر پر بیٹھ کر بیداری کی تحریک نہیں چلائی جا سکتی بلکہ میدان عمل میں آکر پاکستان کے عوام کو عملا دکھانا پڑے گا کہ بیدارہو نا کسے کہتے ہیں اگرزبانی خاموشی جرم ہے تو عملا خاموشی بڑا جرم ہے۔یوں یہ بیدار او ر مفادپرستوں کی جنگ جاری ہے اور جاری رہے گی تا وقت کہ ملک میں عدل قائم ہوجائے اور کوئی طاقتورکسی کمزور کا حق اس سے نہ چھیں سکے اگر کوئی ایسا کرے تو عدالت اس کا انصاف کرے اور کمزور کو اس کا حق دلائے اور کمزور اپنا حق لینے میں کسی سے خوفزدہ نہ ہو۔مظلوموں کا حامی اور ظالموں کا مخالف بننا ہمیشہ معاشرے کے باشعور،ذمیدار اور بیدار طبقے کا وظیفہ رہا ہے اور ہمیشہ عزت، خوشبختی ، کا میابی اور کامرانی نے انہی کے قدم چومے ہیں فکری اور عملی طور سے میدان میں رہتے ہیں۔
تحریر :عبداللہ مطہری