وحدت نیوز(آرٹیکل)امام علی علیہ السلام کے سارےباو فا اصحاب آسمان انسانیت اوراسلام کا روشن ستارہ ہے ۔ان ستاروں کی بلندی و روشنی اس سورج سے ہے جس کی شعائیں پورے عالم ہستی کو روشن کئے ہیں۔امام علی علیہ السلام کی فضیلت ہم کماحقہ بیان نہیں کر سکتے صرف دو اشعار پیش خدمت ہے۔
کتاب فضل ترا آب بحر کافی نیست
کہ ترکنم سرانگشت و صفحہ بشمارم
بہ ذرہ گر نظر لطف بوتراب کند
بہ آسمان رود و کار آفتاب کند
حضرت علی علیہ السلام کے باوفا اصحاب میں سے ایک حجر بن عدی کندی ہیں۔اس مختصر مقالہ میں ہم ان کی زندگانی کے بارے میں کچھ مطالب مرقوم کرنے کی کوشش کریں گے۔ حجر بن عدی بن معاویہ بن جبلہ کندی کوفی کی کنیت ابو عبدالرحمان تھی اور وہ حجر خیر یا حجر بن ادبر کے نام سے معروف تھے۔1۔بعض منابع میں ان کا نسب حجر بن عدی بن بجلہ ذکر کیا گیا ہے۔آپ صدر اسلام کے صاحب فضیلت اور بزرگ مہاجرین میں سے تھے۔حجر بن عدی پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باوقار اصحاب میں سے تھے جو زہد و تقوا اور عبادت میں مشہور تھے۔ مؤرخین اور علم حدیث کے ماہرین نے انہیں "حجرالخیر" کے نام سے بھی یاد کیئے ہیں۔2۔حجربن عدی کو موثق اور عابد مانے جاتے تھے۔ انہوں نے صرف حضرت علی علیہالسلام سے روایت نقل کی ہے۔ آپ قتل عثمان کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے وفادار صحابی اور مخلص شیعہ ہوگئے اور جنگ جمل و صفین اور نہروان میں بہادری کے ساتھ جنگ کی اور امام کے حق کا دفاع کیا اور آپ کے شہادت کے بعد امام حسن علیہ السلام کے اصحاب و انصار میں شامل ہوگئے۔آپ کے دو فرزند تھے۔عبد اللہ اور عبد الرحمن جو خاندان اہل بیت سے محبت کے جرم میں شہید کر دئیے گئے۔ 3
حجر اسلامی فتوحات من جملہ جنگ قادسیہ (سنہ 14 یا 15یا 16ھ) میں حاضر تھے۔4۔فتح شام میں بھی انہوں نے شرکت کی اور مَرج عَذراء کے فاتحین میں سے تھا۔ ایک نقل کے مطابق شام کو انہوں نے ہی فتح کیا تھا۔5۔فتوحات کے بعد حجر بن عدی کوفہ میں ہی قیام پذیر ہوا۔6۔جب حضرت علی علیہ السلام کی حکومت آئی تو آپنے انہیں قبیلہ کنْدَہ کی سرداری سے ان کے ہم قبیلہ اشعث بن قیس کو عزل کرکے یہ منصب ان کے سپرد کرنا چاہا، لیکن حجر نے اشعث کی موجودگی میں قبیلہ کندہ کی سرداری قبول کرنے سے انکار کیا۔7جنگ جمل میں جب کوفہ کے گونر ابوموسی اشعری نے لوگوں کو جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی ہمراہی سے روکنا چاہا تو حجربن عدی نے امام حسن علیہ السلام اور عمار بن یاسر کے ساتھ مسجد کوفہ جاکر ابوموسی کو مسجد سے نکال باہر کیا اور لوگوں کو جنگ میں شرکت کرنے کی ترغیب دی۔ اس جنگ میں حضرت علی علیہ نے حجر کو کندہ، حضرموت، قُضاعہ اور مَہرہ جیسے قبائل کا سردار بنایا۔8۔ البتہ کوفیوں کو ابوموسی کے مقابلے میں جنگ کی ترغیب دینے والے افراد کے بارے میں بعض روایات میں مالک اشتر کی کلیدی کردار کا ذکر ہے۔ جبکہ بعض روایات میں ابن عباس، امام حسن علیہ السلام اور عمار بن یاسر وغیرہ کو بھی کوفہ کے لوگوں کو ترغیب دینے میں مؤثر قرار دیتے ہیں۔حضرت علی علیہ السلام کی نسبت ایمان و عقیدت سے سرشار جناب حجر بن عدی کی تقریر اس طرح تھی:
اے لوگو: یہ حسن بن علی ابن طالب علیہ السلام ہیں۔آپ انہیں پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کے نانا رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بابا امام و وصی پیغمبر ہیں ۔اے لوگو: حسن بن علی اور ان کے بھائی حسین بن علی علیہمالسلام کی اسلام میں مثال نہیں ہے،یہ دونوں بھائی صلاحیت کے لحاظ سے پورے عرب میں اکمل اور علم و عمل کے لحاظ سے برتر ہیں ، اس وقت حسن بن علی علیہ السلام جیسی عظیم شخصیت اپنے والد کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے جو آپ کو حق اور اپنے بابا کی مدد کے لئے دعوت دے رہے ہیں۔ خدا کی قسم وہ سعادت مند ہے جو ان کی مدد کرے گا اور انہیں دوست رکھے گا اور وہ بد بخت ہے جو مخالفت اور ان کے حق میں کوتاہی کرے۔لہذا ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پوری طاقت اور توانائی کے ساتھ روانہ ہوجائے۔خدا آپ پر رحم کرے ، اس راہ میں اپنے لئے اجر و ثواب حاصل کیجئے اس لئے کہ خداوند عالم نیک لوگوں کو اجر وثواب ضائع نہیں کرے گا۔9۔اسی طرح حجر بن عدی نے جنگ صفّین میں بھی بڑی بہادری کے ساتھ جنگ کی۔آپ اس جنگ میں کندی و حضر موت اور قضاعہ کے علم بردار تھے اور آپ نے احسن طریقہ سے اپنا وظیفہ انجام دیا۔ 10۔
معاویہ کے لشکر سے جنگ کرنے کے لئے روانگی کے وقت امام کے لشکر من جملہ حجر بن عدی اور عمرو بن حمق نے اصرار کیا کہ شام کی طرف جلدی روانہ ہو کر معاویہ کا کام تمام کرے تو اس وقت امام علیہ السلام نے ان کی باتیں سن کر ان کے حق میں دعا کی اسی طرح آپ نے ان کی بعض افعال پر ان کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں اپنی قیمتی نصائح سے نوازا۔عراق سے شام جاتے وقت اما م علی علیہ السلام کو یہ خبر دی گئی کہ دوسرے افسروں نے اہل شام سے برائت کی اوتر ان سے لعن و طعن کی،امام نے ان سے پوچھا: کہ میں پسند نہیں کرتا کہ تم اصحاب علی لعنت کرنے والے اور سب و شتم کرنے والے بنو لہذا سب و شتم مت اوربرائت نہ کرو، اگر تم ان کی برائیوں کو بیان کرو تو یہ زیادہ بہتر ہے اور لعنت کی جگہ یہ کہو:خدایا:ہماری اور ان کی جانوں کی حفاظت فرما،ہمارے اور ان کے درمیان صلح قرار دے،انہیں گمراہی سے نجات دے تاکہ ان میں سے جو لوگ حق سے جاہل ہین وہ حق جان لیں اور ان میں سے جو ظلم و ستم کا عادی ہو گیا ہے وہ اس سے دست بردار ہو جائے،میں اس طرح کی دعا پسند کرتا ہوں اور یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔11۔
جنگ نہروان میں بھی امام علی علیہ السلام کی فوج کے دائیں بازو کے کمانڈروں میں سے تھا۔15 جب معاویہ نے عراقیوں میں رعب و وحشت پیدا کرنے کی خاطر ضحّاک بن قَیس کو روانہ کیا اور خانہ بدوشوں پر حملہ کرنے کے ذریعے ناامنی ایجاد کی تو امام علی علیہ السلام نے حجر بن عدی کو چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ ان کے مقابلے کیلئے روانہ فرمایا۔حجر نے تَدْمُر تک حملہ آوروں کا تعاقب کیا اور آخر کر انہیں شکست دے دیا اور دو دن اسی منطقہ میں قیام کیا۔12۔حجر بن عدی انیسویں رمضان کو مسجد کوفہ میں مشغول عبادت اور شب بیداری میں تھے،انہوں نے ابن ملجم،اشعث ، شبیب اوروردان کی آمد و رفت سے اندازہ لگایا کہ کوئی سازش ضرور ہے،اشعث سے کہا: لگتا ہے تم حضرت علی علیہ السلام کے خلاف سازش کئے ہوئے ہو؟یہ کہہ کر حضرت علی علیہ السلام کے گھر کی طرف نکل گئے تا کہ حضرت علی علیہ السلام کو آگاہ کر دیں اوروہ آنے جانے میں احتیاط کریں،لیکن افسوس کہ امام علی علیہ السلام دوسرے راستہ سے تشریف لائے اور حجر بن عدی کے ملنے سے پہلے مسجد میں داخل ہو کر نماز کے لئے کھڑے ہوگئے اور ملعون ابن ملجم نے آپ کے سر مبارک پر زہر آلود تلوار سے حملہ کیا۔جس وقت حجر بن عدی مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں کی فریادیں بلند ہو چکی تھیں جو کہ رہ رہے تھے: قتل امیر المومنین۔امیر المومنین کو شہیدکر دیا گیا۔13۔
امام علی علیہ السلام نے بستر علالت پر آرام کے دوران حجر بن عدی سے فرمایا: اے حجر جب لوگ تمہیں مجھ سے اعلان بیزاری کی دعوت دیں گے اس وقت کیا کرو گے؟حجر بن عدی نے جواب میں کہا:{واللہ لو قطعت بالسیف اربا اربا واضرم لی النار والقیت فیہا لا ثرت ذلک علی البرائۃ منک}مولا: اگر تلوار سے مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں اور شعلہ ورآتش مین مجھے ڈال دیا جائے تب بھی میں آپ سے بیزاری نہیں کروں گا اور آپ کی مدح و سرائی کے علاوہ منہ ہی نہیں کھولوں گا۔امام علی علیہ السلام نے فرمایا:{وقفت لکل خیر یا حجر جزاک اللہ خیرا عن اہل بیت نبیک}خداوند عالم تمہیں ہر کار خیر میں کامیاب کرے اور تمہارے پیغمبر کے اہل بیت کی طرف سے تمہیں جزائے خیر مرحمت فرمائے۔14۔
حضرت علی علیہ السلام کی شہادت اور امام حسن علیہ السلام کی امامت پر فائز ہونے کے بعدحجر بن عدی نے امام حسن علیہ السلام کی بیعت کی اور معاویہ کے ساتھ جنگ میں بھی آپ نے شرکت کی،جب امام حسن علیہ السلام کے صلح کے بعد بہت سارے افراد نے امام سے اظہار ناراضگی کیا یہاں تک کہ تکلیف بھی پہنچائی البتہ مخلص اصحاب جیسے حجر ابن عدی اور قیس بن سعد وغیرہ ہمیشہ اپنی دفاداری پر باقی رہے۔جب مغیرۃ بن شعبہ (حاکم کوفہ) نے معاویہ کے حکم پر ممبروں سے حضرت علی علیہ السلام پر لعن کرنا شروع کیا تو حجر بن عدی اور عمرو بن حمق خزاعی نے کئی اور ساتھیوں سمیت ان کی مخالفت کی۔15۔اور مغیرہ پر پتھراؤ شروع کیا۔ مغیرہ نے مال و دولت کی لالچ دے کر حجر کو اپنے نزدیک کرنا چاہا۔16۔
جناب حجر بن عدی نے مغیرہ کی اس غیر اسلامی رفتار کو دیکھ کر اعتراض کیا اور کہا: اے مغیرہ: تم [معاذ اللہ} حضرت علی علیہ السلام پر لعنت کر کے خدا پر لعنت کرتے ہو،اس کے بعد کہا: خداوند عالم نے ہم سے اس طرح فرمایا ہے: اے ایمان والو: عدل و انصاف قائم کرو اور خدا کے لئے گواہی دو اگرچہ تمہارے نقصان میں ہو۔اے مغیرہ میں گواہی دیتا ہوں کہ جس کی تم اہانت اورعیب جوئی کرتے ہو فضائل اور تعریف و تمجید کا زیادہ حقدار ہے اور جن کی تم تعریف کرتے ہو وہ مذمت اور عیب جوئی کے زیادہ حقدار ہیں۔مغیرہ نے غصہ میں کہا: وائے ہو آپ پر،امیر سے ڈرئے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ غصہ میں آپ کو قتل کر دے،مغیرہ یہ کہہ کر حجر بن عدی سے جدا ہو گیا۔17۔
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں: مغیرہ نے صرف یہی نہیں کہ معاویہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے غضب خدا کو خریدا اور حضرت علی علیہ السلام پر سب و شتم کیا بلکہ اس نے حکم دیا کہ کچھ لوگ منبر پر جائیں اور لوگوں کی جمعیت میں حضرت علیہ السلام پر لعن کریں اور جو اس کام پر حاضر نہیں ہوا اسے قتل کی دھمکی دی منجملہ جن لوگوں کو قتل کی دھمکی دی گئی ان میں سے ایک حجر بن عدی تھے۔سنہ 51ھ میں زیاد بن ابیہ نے کوفہ کی گورنری سنبھال لیا اور حجر بن عدی کے ساتھ دوستی کے باوجود امام علی علیہ السلام کی حمایت اور معاویہ کی مخالفت کرنے کے الزام میں حجر کو خبردار کیا لیکن حجر نے اس کی پروا کئے بغیر لوگوں کو معاویہ کی خلاف ورغلاتے رہے۔18۔جس وقت زیاد بن ابیہ بصرہ میں تھے اور زیاد کے جانشین عَمْروبن حُرَیث جو مسجد کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے امام علی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے لگے تو حجر اور ان کے ساتھیوں نے ان پر پتھراؤ کیا۔ اس واقعہ کے بعد عمرو نے زیاد بن ابیہ کو رپورٹ دیا اس پر زیاد نے اپنے آپ کو فورا کوفہ پہنچایا اور اپنے کارندوں کو حجر اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کیلئے بھیجا۔19۔ان میں سے بعض فرار کر گئے بعض مارے گئے جبکہ حجر سمیت بعض افراد گرفتار ہوئے۔
زیاد بن ابیہ نے اہل کوفہ کو جمع کر کے ان میں سے ستر افراد کا انتخاب کیا جو اہل بیت پیغمبر سے بے پناہ پرانی دشمنی رکھتے تھے اور ان سے دستخط لئے کہ حجر اور ان کے ساتھی معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔زیاد نے ان ستر افراد کے علاوہ چوالیس افراد کو جمع کر کے ان سے بھی دستخط لئے کہ حجر اور ان کے ساتھی معاویہ سے جنگ کے لئے آمادہ ہیں۔بعض افراد جو کہ دستخط کے لئے حاضر نہیں تھے ان کے جعلی نام اور دستخط اپنی طرف سے کر دئیے۔ زیاد نے حجر اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں کی جانے والے گستاخی کی مخالفت کرنے کے حوالے کوفہ کے بزرگان کی گواہی بھی حجر کے خلاف لکھی جانے والے خط کے ساتھ ضمیمہ کیا۔20۔زیاد بن ابیہ نے گرفتار ہونے والوں کو ایک سو سپاہیوں کے ساتھ شام میں معاویہ کے یہاں بھیجا اور ان کے بارے میں لکھا کہ انہوں نے ابوتراب(علی علیہالسلام) کو لعن کرنے کے معاملے میں اکثریت کی مخالفت اور خلیفہ کے حکم کی نافرمانی کی ہیں۔
جب حجر اور ان کے ساتھی دمشق سے 12 میل کے فاصلے پر مرج عذراء نامی مقام پر پہنچے تو معاویہ نے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا۔21 جناب حجر بن عدی مرج عذرا نامی جگہ پر پہنچے تو انہین ماضی کی یاد نے بہت متاثر کیا اوروہ کہنے لگے: میں نے عمر بن خطاب کے زمانہ میں اس سر زمین کو جس میں غیر مسلمان رہتے تھے فتح کیا تھا اور میں پہلا مسلمان تھا جس نے اس علاقہ میں اللہ اکبر کی آواز بلند کی اور خدا کی تسبیح و تقدیس کی تھی۔۔۔ اور اب محبت اہل بیت علیہم السلام کے جرم میں قید کر کے لایا گیا ہوں۔22۔
جناب حجر نے معاویہ پر حجت تمام کرنے کے لئے موقع غنیمت سمجھ کر عتبہ بن اخنس سعدی اورسعید بن غران ہمدانی کے ذریعہ معاویہ کے پاس بھیجا کہ: ہمارا خون تم پر حرام ہے، خدا سے ڈریں اور ہمارے بارے میں غور و فکر کریں کہ ہم تمہارے ساتھ صلح و آشتی اور امان میں ہیں،لیکن جناب حجر کے پیغام کا معاویہ پر کوئی اثر نہیں ہوا اوراس نے اس پیغام پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ ان بے گناہ افراد کو قتل کرنے پر مصر رہا۔23معاویہ نے ایک مجلس میں قبیلوں کے سرداوں کو جمع کر کے ان کی سفارش سے چھ افراد کے لئے آزادی کا حکم صادر کر دیا لیکن جناب حجر اور ان کے دیگر ساتھیوں کے سلسلہ میں کسی کی سفارش قبول نہیں کی اور اسی جگہ انہیں اعدام کرنے کا حکم صادر کر دیا۔24۔یعقوبی کے مطابق مارے جانے والوں کی تعداد کو سات نفر ذکر کیا ہے لیکن نام لیتے وقت حجر سمیت صرف چھ نفر کا نام لیا ہے۔25۔مسعودی کے مطابق ان میں سے سات نفر نے حضرت علی علیہ السلام سے بیزاری اختیار کرنے کے ذریعے اپنی جان بچائی جبکہ مزید سات نفر کو شہید کئے
گئے۔26۔ مارے جانے والوں کو پہلے سے تیار شدہ کفن اور قبر کے نزدیک شہید کئے گئے پھر ان پر نماز پڑھی گئی اور ان کے جسد خاکی کو سپرد خاک کئے گئے۔27۔حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں نے شہادت سے پہلی رات کو عبادت میں گزاریں اور حجر نے شہادت سے پہلے بھی دو رکعت نماز پڑھی۔ 28مسعودی کے مطابق حجربن عدی پہلے مسلمان ہیں جسے ہاتھ باندھ کر اسیری کی حالت میں شہید کیا گیا۔29۔ وہ پہلا مسلمان تھاجو فتوحات کے وقت مرج عذراء میں داخل ہو کر اسے فتح کیا اور اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا لیکن محبت اہل بہت کے جرم میں وہاں شہید ہونے والے پہلے مسلمان بھی وہ خود ہی تھا۔ 30۔آخر کار معاویہ کے سنگ دل جلاد مرج عذرا پہنچے اور انہوں نے جناب حجر اور ان کے ساتھیوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا اور جیسا کہ امام علی علیہ السلام نے ایک غیبی خبر میں اہل عراق کو جناب حجر اور ان کے ساتھیوں کی خبر شہادت دی تھی ویسا ہی ہوا۔31۔ان کی تاریخ شہادت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ طبری اور ابن اثیر نے سنہ51 ہجری، یعقوبی نے سنہ 52 ہجری، اور ابن قتیبہ اور مسعودی نے سنہ 53ہجری کو ان کی تاریخ شہادت کے طور پر ذکر کیا ہے۔32۔ایک ضعیف روایت میں ان کی شہادت کو سنہ 50 ہجری بھی ذکر ہوئی ہے۔33۔کوفیوں نے حجر بن عدی کے مارے جانے کو انتہائی وحشتناک قرارد دیا۔ یہ فعل اتنا قبیح تھا کہ خود معاویہ کے قریبی افراد نے بھی اس کام پر معاویہ کی مذمت کی یہاں تک کہ مالک بن ہبَیرہ کہا کہ اس نے کتنا برا کام انجام دیا ہے اور یہ کہ ان افراد نے کوئی ایسا عمل انجام نہیں دیا تھا جس کی سزا قتل ہو لیکن معاویہ نے جواب میں کہا کہ اس نے فتنہ کو جڑ سے اکھاڑنے کا ارادہ کیا تھا۔34۔
امام حسین علیہ السلام کیلئے یہ خبر انتہائی افسوسناک تھی چنانچہ آپ نے معاویہ کو ایک خط لکھا جس میں آپ نے معاویہ کے برے کاموں میں سے ایک کو حجر بن عدی کو قتل کرنا قرار دیا۔35۔آپ کے خط کا مضمون کچھ اس طرح سے تھا: تم حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے قاتل ہو جو سب کے سب عابد وزاہد تھےاور بدعتوں کے مخالف اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکیاکرتے تھے۔حضرت عایشہ نے کسی کو معاویہ کے پاس بھیجا تاکہ حجر کو قتل کرنے سے باز آئے لیکن عایشہ کا پیغام حجر کے شہید کئے جانے کے بعد معاویہ تک پہنچا۔36۔حجر بن عدی کی شہادت نے حضرت عایشہ کو بھی احتجاج پر مجبور کیا۔ جب معاویہ نے اس کام کو امت کی اصلاح کیلئے انجام دینے کا عندیہ دیا تو عایشہ نے کہا:میں نے سنا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد عذراء میں کچھ لوگوں کو شہید کئے جائیں گے، خداوندمتعال اور آسمان میں رہنے والے اس قتل سے ناراض ہونگے۔37حسن بصری کہتے ہیں: اگر معاویہ کے سارے خلاف اعمال سے چشم پوشی کی جائے تب بھی اس کے چار کاموں سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی،ان میں سے ایک جناب حجر بن عدی کو قتل کرنا ہے جو اسے واصل جہنم کر دے گا،وائے ہو معاویہ پر جس نے حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا ہے وائے ہو معاویہ پر ۔38
ابن اثیرکے مطابق حجر بن عدی کی قبر مرج عذراء میں دعاوں کے مستجاب ہونے کی جگہ کے عنوان سے معروف ہے۔ 39۔وہاں پر ان کے قبر کے نزدیک ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے۔40۔ موجودہ دور میں بھی ان کا مدفن زیارتگاہ کے طور پر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔2مئی 2013ء کو شامی حکومت سے برسر پیکار دہشت گروہ جبہۃ النصرہ اورداعش کے ہاتھوں حجر بن عدی کا مزار تخریب ہوا اور نبش قبر کے بعد ان سے منسوب جسد خاکی کو نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔
{ وَسَلامٌ عَلَيہِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا}
تحریر: لطیف مہدی کچوروی
حوالہ جات:
1۔ابن حجر، الاصابہ، ج۲، ص۳۳.
2۔اسدالغابۃ، دارالکتاب، ج۱، ص۳۸۶.
3۔الاصابہ،ج۲ص۳۹
4۔اسدالغابۃ، دارالکتاب، ج۱، ص۳۸۶.
5۔ابن عساکر، ج۱۲، ص۲۰۷، ۲۱۰۲۱۱.
6۔دینوری، ص۱۴۵.
7۔دینوری، ص۲۲۴.
8۔دینوری، ص۱۴۴۱۴۶؛ طبری، ج۴، ص۴۸۵؛ مفید، ص۲۵۵ ۲۵۶، ۳۲۰۔
9۔ناظم زادہ قمی،اصحاب امیر المومنین علیہ السلام،ص۲۲۹
10۔وقعۃ الصفین،ص۱۱۷۔شرح ابن ابی الحدید،ج۳ص۱۹۴
11۔ وقعۃ الصفین،ص۱۰۳شرح ابن ابی الحدید،ج۳ص۱۸۱۔
12۔یعقوبی، ج۲، ص۱۹۵ ۱۹۶؛ طبری، ج۵، ص۱۳۵۔
13۔ شرح ابن ابی الحدید،ج۶ص۱۷۷۔
14۔ناظم زادہ قمی،اصحاب امیر المومنین علیہ السلام،ص۲۳۵
15۔یعقوبی، ج۲، ص۲۳۰؛ طبری، ج۵، ص۲۵۴
16۔ناظم زادہ قمی،اصحاب امیر المومنین علیہ السلام،ص۲۳۷
17۔ابن سعد، ج۶، ص۲۱۸؛ یعقوبی، ج۲، ص۲۳۰
18۔دینوری، ص۲۲۳؛ قس ابن سعد، ج۶، ص۲۱۸
19۔دینوری، ص۲۲۳۲۲۴؛ یعقوبی، ج۲، ص۲۳۰؛ ابن سعد، ج۶، ص۲۱۹؛ طبری، ج۵، ص۲۶۹۲۷۰ ۔
20۔ابن سعد، ج۶، ص۲۱۹؛ مسعودی، ج۳، ص۱۸۹
21۔ناظم زادہ قمی،اصحاب امیر المومنین علیہ السلام،ص۲۳۷
22۔تاریخ طبری،ج۵،ص۲۷۲۔کامل فی التاریخ،ج۲،ص۴۹۷۔الاغانی،ج۱۷،ص۱۵۴
23۔تاریخ طبری،ج۵،ص۲۷۸۔کامل فی التاریخ،ج۲،ص۴۹۷۔الاغانی،ج۱۷،ص۱۵۵
24۔طبری، ج۵،
25۔ایضا،ج۳، ص۱۸۸ ۱۸۹
26۔یعقوبی، ج۲، ص۲۳۱؛ طبری، ج۵، ص۲۷۵۲۷۷
27۔طبری، ج۵، ص۲۷۵
28۔ج۳، ص۱۸۸
29۔ابن سعد، ج۶، ص۲۱۷؛ یعقوبی؛، ج۲، ص۲۳۱، ابن اثیر، ج۱، ص۴۶۲
30۔ہدایۃ والنہایہ،ابن کثیر،ج۸،ص۵۷
31۔طبری، ج۵، ص۲۵۳ بہ بعد؛ ابن اثیر، ج۱، ص۴۶۲: سال ۵۱؛ یعقوبی، ج۲، ص۲۳۱: سال ۵۲؛ ابن قتیبہ، ص۳۳۴۔
32۔مسعودی، ج۳، ص۱۹۰.
33۔الدینوری، الاخبار الطوال، ص۲۲۴.
34۔الدینوری، ص۲۲۳۲۲۴؛ طبری، ج۵، ص۲۷۹؛ کشی، ص۹۹
35۔ابن سعد، ج۶، ص۲۱۹۲۲۰؛ دینوری، ص۲۲۳۲۲۴؛ ابن اثیر، ج۱، ص۴۶۲
36۔سیوطی، الجامع الصغیر، ج۲، ص۶۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، دارالفکر، ج۱۲، ص۲۲۶؛ الصفدی، الوافی بالوفیات، ج۱۱، ص۲۴۸؛۔
37۔الغدیر،ج۱۱ص۵۴
38۔ ایضا،ج۱، ص۴۶۲
40۔ابن عساکر، ج۱۲، ص۲۰۸