وحدت نیوز(قم) سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم ملت اسلامیہ کے دانشمندوں کا ایک گلدستہ ہے ۔56 ویں سیشن کے میزبان محترم ابراہیم شہزاد تھے۔انہوں نے مہمان شخصیت مرکزی سیکریٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان حجۃ الاسلام ڈاکٹر شفقت شیرازی صاحب سے غزہ کی جنگ اور جنگ کے خدشات و امکانات کے مدنظر کئی سوالات کئے۔
تلاوت قرآن مجید کا شرف رفیق انجم صاحب نے حاصل کیا ۔ان کے بعد میزبان نے سیشن کا مقدمہ بیان کیا۔اس کے بعد بلا فاصلہ ڈاکٹر شفقت شیرازی صاحب کے تجزیے کا آغاز ہوا۔انہوں نے کہا کہ یہ بات دنیا میں آشکار ہوچکی ہے کہ دنیا میں جو قوانین بنائے گئے تھے وہ صرف قوی ترین افراد کے لیے ہیں ۔ غزہ میں جو ظلم ہو رہے ہیں ۔ خواتین کا استحصال، انسانیت کا قتل عام ، بچوں کا قتل یہ سب پوری دنیا کے سامنے ہے لیکن سوائے اسلامی جمہوریہ ایران کے کوئی بھی ان مظلومین کے لئے آواز بلند نہیں کر رہا ۔ مسلمان فقط برائے نام آزادہیں ۔ مسلمان حکمران خود کہتے ہیں کہ ہم تو امریکہ کے آگے بے بس ہیں ۔ یہ صورتحال سارے اسلامی ملکوں کی ہے ۔ بہت کم لوگ یا بہت کم ملک ہیں جو فلسطین کے حق میں بول رہے ہیں یا فلسطین کی کوئی مدد کر رہے ہیں ۔ اکثریت اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطین کو نقصان پر نقصان پہنچا رہی ہے ۔ اس کے بعد میزبان نے سوالات شروع کئے:
✨ سوال ۔۔ ایسے وقت میں عام مسلمان کی کیا ذمہ داری ہے ؟
جواب: امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ مظلومین کا ساتھ دیں ۔ یہ ہی ہماری امت مسلمہ کا شعار ہے ۔ فلسطینیوں کی مدد مختلف طریقوں سے ہو سکتی ہے ۔ قلم ، خطابت ، سوشل میڈیا ، اور بھی مختلف ذرائع سے فلسطین کی مدد ہو سکتی ہے ۔
✨ سوال. یوم القدس کی اہمیت ؟
جواب: جب انقلاب اسلامی ایران کامیاب ہوا تو پہلے ہی رمضان المبارک میں حضرت امام خمینی نے یوم القدس منانے کا اعلان کیا ۔ یہ صرف ایک دن منانے کی بات نہیں ہے بلکہ ایک تحریک ہے ۔یہ تحریک اعلان کرتی ہے کہ امریکہ و اسرائیل ظالم ہیں اور فلسطینی مظلوم ہیں۔
یوم القدس کی وجہ سے فلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف پتھر اٹھائے اور میدان میں آگئے ۔ اس کے بعد فلسطینی آج تک میدان میں موجود نظر آتے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے تو عرب ممالک فلسطین کا سودا کر چکے تھے ۔ اب ان شاءاللہ اسرائیل تباہ و برباد ہوگا ۔ چاہیے آج تباہ ہو یا کل لیکن اب اسرائیل تباہ ہو کر رہے گا ۔ یہ جنگ صرف اسرائیل کے خلاف نہیں بلکہ امریکہ و برطانیہ سمیت ہر جابر اور استعماری طاقت کے خلاف ہے۔
✨سوال ۔۔ فلسطین کی زمین مسلمانوں نے خلیفہ دوّم کے زمانے میں اپنے قبضے میں لی تھی، اب یہودیوں نے واپس لی تو احتجاج کیسا؟
جواب: دراصل یہ ایک شک اور شُبہ ایجاد کیا گیا ہے تاکہ فلسطینوں کو ان کے حق سے محروم رکھا جائے۔ مسلمان جب فاتح کے طور پر فلسطین میں داخل ہوئے تو انہوں نے مقامی لوگوں کو اُن کی زمینوں سے بے دخل نہیں کیا اور نہ ہی انہیں ہجرت پر مجبور کیا۔ مقامی لوگ رفتہ رفتہ مسلمان ہوتے گئے اور یہ وہی مقامی فلسطینی مسلمانہیں جنہیں آج بے گھر کر دیا گیا ہے۔ قابض طاقتوں نے فلسطینیوں کو فلسطین سے طاقت کے زور پر نکال کر گریٹر اسرائیل بنانے کے لیے ظلم و ستم کی چکی چلائی ہوئی ہے۔ اب تازہ جنگ میں بمباری اور میزائل حملوں سے غزہ کی اسّی فی صد عمارتیں زمیں بوس کر دی گئی ہیں۔ اس وقت پچاس ہزار فلسطینی ہلاک یا زخمی ہیں۔ ان میں غالب تعداد معصوم بچوں اور عورتوں کی ہے۔ فلسطینیوں کی اس نسل کشی پر دنیا کے انصاف پسند عوام اسرائیل کے خلاف ہو گئے ہیں۔
قرآن و حدیث اور گزشتہ تاریخ کے مطابق فلسطین کبھی بھی صہیونیوں کا وطن نہیں رہا ہے۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ صیہونی باہر سے آکر مالک بن بیٹھے ہیں۔ صیہونیوں نے مسجد اقصیٰ کو جعل سازی سے ہیکل سلیمانی اور دیوار گریہ کہنا شروع کر دیا ہے۔ جو سرا سر غلط اور دھوکا بازی ہے۔
✨ سوال : اسرائیل کی کون سی چیزیں اور پروڈکٹس ہیں جو اسرائیل کو فائدہ پہنچا رہی ہیں ۔؟
جواب: آج کل ہر جگہ اسرائیلی اشیا کے اشتہارات موجود ہیں، گوگل پرر سرچ کریں تو فہرست مل جائے گئی۔اصل مقصد یہ ہے کہ ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے ، اِنسانیت کے ناطے اسرائیل کی ایجادات کو خریدنے سے پرہیز کرنی چاہیے کیوں کہ اسرائیلی شیا کی خریدوفروخت یہ بھی اسرائیل کے ساتھ مدد اور تعاون ہے ۔ اگر ہم فلسطین کے ساتھ کوئی اور مالی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم اسرائیل کے خلاف یہ جہاد کرنا چاہیے ۔
✨ سوال۔ اس وقت ایران خود اسرائیل کے دباؤ میں ہے ۔ کیا ایران براہ راست اسرائیل سے جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے ۔؟
اس وقت تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیل کے برے حالات چل رہے ہیں ۔ اب تو اسرائیل ، ایران کے بجائے حزب اللہ ، انصاراللہ اور حماس جیسی چھوٹی چھوٹی تحریکوں سے بھی خوف زدہ ہے تو وہ ایران سے خاک جنگ کرے گا۔ ایران ایک مظبوط اور ناقابل شکست ملک ہے کہ جو امریکہ کا مقابلہ کرنے کی بھی سکت اور حوصلہ رکھتا ہے۔
✨ سوال ۔۔ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کی کیا حکمت عملی ہے ۔۔؟
ایم ڈبلیو ایم مظلوموں کی تنظیم ہے۔ ہم تحریک کربلا کا تسلسل ہیں۔ اسی لئے مجلس وحدت مسلمین ہمیشہ ہرمظلوم کے ساتھ تا آخر کھڑی رہتی ہے اور ہمیشہ کھڑی رہے گی۔ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے آپ دیکھیں تو جتنا پاکستان میں ایم ڈبلیو ایم کام کر رہی ہے شاہد کے کوئی اور تحریک نظر آئے۔ ملک میں جگہ جگہ پر فلسطین کے حق میں جلسے جلوس ، ریلیاں نکلتی نظر آتی ہیں ۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی ایم ڈبلیو ایم کی کوششیں جاری ہیں لیکن اس کے لیے کشمیریوں کو خود بھی مقاومت و حرکت کرنی اور اپنی آواز بلند کرنی ہوگی ۔
تب جا کر کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ اگر کشمیری خود مودی جیسے حکمران کو تسلیم کر نا شروع کر دیں اور اُس کی چالوں و سازشوں کا دانشمندی سے مقابلہ کرنے کے بجائے اُس کے ایجنڈے پر کام کرنے لگیں گے تو پھر ہماری بھی کوئی کوشش رنگ نہیں لا سکے گی۔ کشمیری جان لیں کہ آزادی کی تحریکیں ہمیشہ مقامی لوگوں کی مقاومت، دانشمندی اور جدوجہد سے کامیاب ہوتی ہیں۔ کشمیری عوام کو اپنی روشن تاریخ اور اپنے عظیم اسلاف کے راستے کو جاری رکھنا ہوگا۔
✨ سوال ۔ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے عنوان سے منانے، جلسے جلوس نکالنے اور اس طرح کے آنلائن سیشنز کا کیا فائدہ ہے؟
اس کا فائدہ ظالموں کی حوصلہ شکنی اور مظلوموں کی حوصلہ افزائی ہے۔ دشمن جب دیکھتا ہے کہ میرے اتنے مظالم کے باوجود بھی میرے خلاف جگہ جگہ سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور مظلوم بالکل بھی نہیں دبے تو اس کے ارادہ پست ہوتے ہیں۔ اس سے مظلوموں کی آواز جگہ جگہ پر پہنچتی ہے ۔ اسی طرح ایسے پروگراموں اور سیشنز سے باطل اور جارح طاقتوں کے پروپیگنڈے کا توڑ ہوتا ہے۔
سیشن کے آخر میں سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم کے سیکرٹری جنرل نذر حافی صاحب نے فورم کے شرکا اور مہمانِ خصوصی کا شکریہ ادا کیا۔