وحدت نیوز(آرٹیکل)خلقت آدم سے ابتک بشریت نے کئی ایسی نابغہ روزگار شخصیات دیکھیں کہ جو پروردگار عالم کے اس اعلان کا منہ بولتا ثبوت تھیں کہ
’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم‘‘ کہ ہم نے انسان کو اپنی بہترین شکل میں پیدا کیا۔ احسن تقویم سے مراد یہی ہے کہ ذات احدیت نے انسان کو جبلت وفطرت کے اعتبار سے بھی اور شکل و صورت کے اعتبار سے دیگر مخلوقات سے احسن بنایا ہے۔قرآن مجید نے جن لوگوں کو کامیاب اور حیات ابدی کا مصداق قرار دیا وہ شہدا ہیں ۔ قرآن کریم نے شہید کی حیات ابدی کا اعلان انتہائی تصریح سے اس انداز میں کیا ’’ولا تقولو لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیا ء ولکن لا تشعرون ‘‘
جب بات شہدا وطن کی ہو تووطن عزیز پاکستان کے باوفا فرزندوں میں ایک عالی ترین نام شہید بزرگوار شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا نام ہے۔ وہ کہ جس کی زندگی کا ہر لمحہ ان کے نام نامی کیطرح سیرت محمد و علی علیھم السلام سے مزین تھا۔ اس عظیم شہید کو ہم جدا ہوئے آج انتیس برس بیت گئے لیکن اس کی یاد آج بھی لاکھوںحریت پسندوں کے دلوں میں زندہ ہے ۔آج بھی ان کاخوبصورت چہرہ اور دلنشیں آواز جوانوں کے قلوب کو گرما رہی ہے۔ آج بھی نہ صرف خیبر سے کراچی تک بلکہ دنیا بھر پھیلے ہوئے فکری ونظریاتی جوان ان کی انقلابی فکر سے استفادہ کررہے ہیں۔ وہ ہستی کہ جس نے پاکستان میں جوانوں کے لئے شجرہ طیبہ کی بنیا دیں فراہم کیں ۔
فکر و عمل کیساتھ زندگی بسر کرنے والے افراد ہمیشہ کم ہوتے ہیں لیکن یہی وہ لوگ ہیں اللہ کے وعدے پہ عمل پیرا ہوتے ہیں اور اس آیہ مجیدہ ’’کم من فئتہ قلیلۃغلبت فئتہ کثیرۃ باذن اللہ‘‘ کے مصداق بن جاتے ہیں۔۔ انسان کا اپنی ذات تک بیدار ہونا آسان ہے امر ہے لیکن قوموں کے اندر فکری بیداری پیدا کرنا مشکل ہے۔ سلام اس شہید پہ جو نہ صرف خود انقلابی تھا بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھا وہ سفیر انقلاب بن کے سرزمین پاکستان کے لاکھوں فرزندوں کو انقلاب کا راہی بنا گیا ۔وہ ایسا مفکر تھا جس نے لاکھوں اذہان کو فکر انگیز بنایا۔
شہید بزرگوار کی شخصیت کامل ترین اوصاف کا مجموعہ تھی۔ وہ نہ صرف شجاع تھے بلکہ وطن عزیز کے غیور فرزندوں کے لئے شجاعت کا استعارہ تھے۔ وہ ایک مجاہد بھی اور ایک بابصیرت سیاسی مدبر بھی تھے۔ وہ مشکل ترین حالات میں Lead from front کے زریں اصول پہ عمل پیرا تھے ۔ وقت کی ظالم ترین ملکی و بین الاقوامی قوتوں کے خلاف بیک وقت نہ صرف خود نبرد آزما تھے بلکہ ہزاروں پاکیزہ جوانوں کی راہنمائی و قیادت کا کا پرچم بھی تھامے ہوئے تھے۔پاکستان کے طول و عرض میں کوئی شہر ایسا نہین تھا جس کی فضا میں آپ کی ’’تکبیر‘‘ کی صدا نہ گونجی ہو۔
اس سرزمین کا وہ بطل جلیل تھا جو فکر امام راحل اور روش و سیرت امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ عملی پیرو تھا۔ وہ باتمام معنیٰ فرزند انقلاب تھا۔ شہد ا کی یاد ہمیں آگاہی و بیداری دیتی ہے جب بھی اس شہید کا ذکر ہوا اس شہید کی مقدس روح نے معاشرے کو اور بالخصوص معاشرے کے توانا ترین جزو یعنی جوانوں کو اور انکے قلوب کو انقلابی فکر کیساتھ منور کیا۔ بقول شہید مطہری رحمتہ اللہ علیہ ’’ شہید کا خون زمین پہ نہیں گرتا ہے بلکہ قوموں کی رگوں میں دوڑتا ہے ‘ ‘ ۔ شہید کے پاکیزہ خون سے لاکھوں انسان نئی زندگی پاتے ہیں ۔
بندگان الٰہی و پاکیزہ ہستیوں کی سیرت کا ایک خاصہ عجز و انکساری ہے۔ شہید کی زندگی عجز و انکساری اور تقویٰ الٰہی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ وہ ایک ایسا طلمساتی کردار تھا جس نے بیک وقت ایک عام مزدور سے لیکر ملک کی اس وقت کی اعلیٰ ترین قیادت تک ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو نہ صرف جذب کیا بلکہ تمام طبقات کو اپنا گرویدہ بنایا۔ ان کیساتھ چلنے والا ایک ملاز م ، ایک ڈرائیور یا دیگر ایسا ہی عملہ اپنے لئے اعزاز سمجھتا تھا کیونکہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ہر فرد کی عزت نفس کا محافظ تھا۔ وہ دوستوں اور کارکنوں میں اس طرح زندگی بسر کرتا تھا کہ کبھی بھی کسی فرد کو ان سے خود پسندی و جاہ طلبی کا گمان تک پیدا نہ ہوتا تھا۔ وہ شاعر مشرق کے اس کا کامل ترین نمونہ تھے کہ ’’ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم‘‘ ۔ وہ جوانوں کی آماجگاہ بنے ۔
اس عظیم ہستی نے اپنے قول و فعل سے بصیرت کے چراغ روشن کئے۔ کم کھانا اور کم سونا اور اپنے اوقات کو منظم و مرتب رکھنا ان کی زندگی کا خاصہ تھا۔ وسائل کی دستیابی اور ایک پروفیشنل ڈاکٹر ہونے کے باوجود شہید کی زندگانی سادگی و قناعت پسندی سے مزین تھی۔ امانت و دیانت اور قومی و ملی وسائل کا کما حقہ استعمال آپکی اجتماعی جدوجہد اور روش کار کا وہ روشن ترین پہلو ہے جس کے بغیر کوئی بھی قیادت یا گروہ ناکام تصور ہوتا ہے۔ اجتماعی جدوجہد میں احتساب کا عمل نہ ہو تو شخصیات ، ادارہ جات اور جماعتوں میں فسطائیت ، اقرباپروری اور بدعنوانیت کا عنصر شامل ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ شہید بزرگوار نہ صرف خود احتسابی
کے قائل تھے بلکہ اجتماعی جدو جہد میں احتساب عمل کے داعی تھے۔
وہ سیرت آئمہ طاہرین پہ گامزن تھے اور عزاداری سید الشہدا کے دفاع، ترویج اور اصلاح کے تمام پہلووں پہ ہمہ وقت خدمات سر انجام دیتے رہے۔ وہ ہمیشہ افراد کی استعدا د کے قائل رہے اور امام صادق ؑ کے اس قول پہ گامزن تھے کہ ’’ کبھی بھی لوگوں کے کم ہونے کیوجہ سے پریشان نہیں ہونا چاہیے‘‘ ۔
وہ کربلا کے راستے کے راہی تھے۔ وہ ناموس اسلام وقرآن کے علمبردار تھے۔ ہر پرچم بردار علمبردار نہیں ہوسکتا لیکن شہید بزرگوار حقیقتا فنا فی اللہ تھے ۔ وہ انقلاب اسلامی و انقلاب امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے حقیقی علمبردار تھے۔ وہ ناموس انقلاب کے محافظ تھے۔
وہ ہر وقت آمادہ و بیدار تھے اور اپنی آخری سانس تک ظلم و ظالم سے بر سرپیکار تھے۔وہ جس نے مشکل ترین اور سیاہ ترین دور میں بھی خوف کے بتوں کو توڑا اور وطن عزیز کے ہر فرزند کی زبان پہ یہ شعار جاری کرایا ’’ یہ درس کربلا کا ہے کہ خوف بس خدا کا ہے ‘‘ ۔ وہ جس نے خدا سے کئے ہوئے اپنے وعدے کو سچا کردکھایا اور آیہ کریمہ کا مصداق ٹھہرا کہ ’’ من المومنین رجال صدقوا ما عاھددواللہ علیہ‘‘
وہ بظاہر ایک طبیب تھا لیکن در حقیقت وہ لاکھوں دلوں کے لئے ’’ طبیب القلوب‘‘ بن گیا ۔
ان کے رفیق کار اور مفکر ادیب مرحوم و مغفور جناب ثاقب اکبر نقوی نے انہیں یوں خراج عقیدت پیش کیا
لہو کی وادی میں کون اترا
یہ کون خوں میں نہا گیا ہے
یہ کس کا پرچم ہے خوں میں لت پت
یہ کس کا چہرہ لہو لہو ہے
وہی جو ملت کی آبرو ہے
جو حوصلوں کی نوید بھی تھا
جو دل کے جذبوں کا ترجماں تھا
جو ہمتوں کا امین بھی تھا
جو نیکیوں کا قسیم بھی تھا
کریم ِعہد کریم بھی تھا
جو ہر گھڑی خوئے جستجو تھا
وہی جو ملت کی آبرو تھا
از قلم: ملک اقرار حسین علوی
مرکزی صدر عزاداری ونگ مجلس وحدت مسلمین پاکستان