وحدت نیوز(آرٹیکل) بات پاکستان کے دوبڑی سیاسی جماعتوں کی ہے۔ جنرل مشرف کے فوجی جمہوریت کے دور میں پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان 14 مئی 2006 کو ایک معاہدہ ہوا جسے Charter of Democracy یا میثاق جمہوریت کہا گیا۔
ایک اور معاہدہ پاکستان کی معروف سیاسی تنظیم تحریک انصاف اور استعمار مخالف معروف مذہبی و سیاسی تنظیم مجلس وحدت مسلمین کے درمیان 20 جون 2022 کو ہوا۔ اس معاہدے کو معاہدہ اتحاد کہا جاتا ہے۔
دونوں معاہدوں کے تقابلی جائزے کے لئے پہلے دونوں کے کچھ اہم شقوں کو بیان کروں گا تاکہ بعد میں قارئین محترم کو بھی نتیجہ نکالنے میں آسانی ہو ۔
میثاق جمہوریت میں بظاہر تیرہ کے قریب اہم شقیں ہیں۔
1.سب سے پہلے دونوں سیاسی جماعتوں نے1973 کے آئین کو بحال کرنے کا مطالبہ یا عزم کا اظہار کیا جسے سابق آرمی چیف جنرل مشرف نے 11 اکتوبر 1999 میں معطل کیا تھا۔
2.دونوں تنظیموں نے جنرل مشرف مرحوم کی طرف سے متعارف کرائی گئی اس آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جس میں تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے پر پابندی لگائی تھی۔
3.ایک شق میں نیشنل سکیورٹی کونسل کو ختم کرکے اس کی جگہ ڈیفینس کیبینیٹ کمیٹی بنانے کی تجویز دی وزیر اعظم جو ہوگا وہ اس کمیٹی کا سربراہ ہوگا ,یہی کمیٹی ایٹمی اثاثوں کو بھی کنٹرول کرےگا۔
4.کارگل جیسے واقعات کی تحقیق کا مطالبہ کیا گیا۔
5.تمام خفیہ ایجنسیوں کو منتخب حکومت کے ماتحت کرنے کی سفارش کی گئی۔
6.دفاعی بجٹ ہمیشہ پارلیمنٹ سے منظور کیا جائے گا۔
7. کسی بھی منتخب حکومت کو گرانے کے لئے سیاسی تنظیمیں استعمال نہیں ہوگی ۔
8.نیب کا ادارہ ختم کر کے اس کی جگہ ایک آزاذ احتساب کمیٹی بنائی جائے اس کا سربراہ وزیر اعظم اور حزب اختلاف کے مشورے سے مقرر ہو۔
اب آئیں تحریک اںصاف اور مجلس وحدت المسلمین کے درمیان سیاسی اشتراک و وحدت کے قرار داد کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
1 وطن عزیز پاکستان کی داخلی وحدت اور استحکام کو ہر صورت یقینی بنایا جائےگا۔اسلامی اقدار کا تحفظ ،تحریک پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی حفاظت اور سیاسی اقتصادی و دفاعی خود انحصاری کے حصول کے لئے مشترکہ جدو جہد کی جائے گی
2۔اسرائیل کے حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح کی دی ہوئی گائیڈ لائن سے کسی قسم کی روگردانی نہیں کی جائے گی،کشمیر و فلسطین کے موضوع پر اپنے اخلاقی قانونی نقطہ نظر سے کسی قسم کا انحراف نہیں کیا جائے گا
3.پاکستان دنیا کے تمام ممک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کا خواہاں ہے،مسلم ممالک کے ساتھ اتحاد و وحدت کو خصوصی حیثیت حاصل ہوگی،ملکی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کو روکنا خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول ہوگا
4.مسلم ممالک کے باہمی تنازعات میں مذاکرات کے ذریعے راہ حل نکالنے کی کوشش کی جائےگی۔ان تنازعات میں فریق نہیں بنےگا
،دوست پڑوسی ممالک سے تعلقات کو خصوصی حیثیت حاصل ہوگی۔
5۔گلگت بلتستان کومکمل آئینی صوبہ بنایا جائے گا
6.وطن عزیز پاکستان میں ظلم کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی کو اولین ترجیح دی جائےگی،پسماندہ اور استحصال شدہ طبقے کی بحالی اولین ترجیح ہوگی
7.ہمیں غلامی قبول نہیں،پاکستانی سرزمین کسی بھی ملک کو فوجی اڈوں کے لئے نہیں دی جائےگی،پاکستان کے فیصلے اسلام آباد میں ہی ہونگے
8.آزاد خارجہ پالیسی اور داخلہ مختاری بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اس بیانئے سے کسی طرح بھی روگردانی نہیں کی جائےگی۔
محترم قارئین اگر کسی تعصب کے بغیر ان دونوں معاہدوں کا جائزہ لیں گے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ میثاق جمہوریت میں ہماری آرمی اور دفاعی اداروں کو کمزور کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔
دونوں تنظیموں کی طرف سے ماضی میں میمو گیٹ اور اس بات پر گواہ بھی ہیں۔
میثاق جمہوریت سے شخصیات کو فایدہ پہنچانے کی خواہش کا اظہار کیا اور عملا تین دفعہ سے زائد مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر جلوہ افروز ہوکر اس بات کو عملی جامہ پہنایا گیا
میثاق جمہوریت کے ذریعے دونوں تنظیمیں عملا یہ کام کرسکتی تھی کہ کسی بھی منتخب حکومت کو گرانے کے لئے کوئی سہولت کاری نہیں کی جائے گی ،لیکن بیرونی و اندرونی طاقتوں کے اشارے پر عمران خان کی حکومت گرا کر ان دونوں تنظیموں نے اپنا ہی منہ کالا کردیا۔
پاکستان میں جمہوریت جتنی کمزور پی ڈی ایم کی حکومت میں ہوئی اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ منتخب حکومت کے خلاف سائفر کیس اور مولانا فضل الرحمن کے حالیہ اعترافات اس پر گواہ ہے
باقی ان دونوں تنظیموں کے خلاف پاکستان کی استحکام اور غریب عوام کی خوشحالی کے لئے کوئی روڈ میپ کہیں نظر نہیں آیا۔
تحریک انصاف اور مجلس وحدت المسلمین کے معاہدے سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ دونوں پاکستان کے مظلوم عوام کے واقعی ہمدرد تنظیمیں ہیں۔
مجلس وحدت نے ایک بڑی سیاسی تنظیم سے معاہدے میں کسی کرسی ،ممبر یا دیگر عہدوں کی شرائط رکھنے کی بجائے نظریاتی بنیادوں پر اتحاد کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ ملک پاکستان کے نظریاتی سرحدوں کے حقیقی محافظ و جانثار ہے۔
یہ تنظیم پاکستان کو ایک مضبوط اور غیرت مند و آبرو مند ملک دیکھنا چاہتی ہے۔
آزاد خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کے علمبردار اس تنظیم نے مسلکی دائرے سے نکل کر قومی دائرے میں اپنا لوہا منوایا ۔
امریکہ کی غلامی سے انکار اور اسرائیل کے حوالے سے بانی پاکستان کے نظریات سے وفاداری اور اس کے پاسداری کی خواہش و جدو جہد نے اسے پاکستان میں استعمار مخالف سیاست کی شناخت عطا کی ہے۔
مجلس وحدت کے استعمار مخالفت بیانئے نے پاکستان بھر میں استعمار کے مخالف پڑھے لکھے باشعور جوانوں کو امید کی کرن دکھائی ہے۔اس تنظیم کے سربراہ محترم راجہ ناصر عباس جعفری کو اب مختلف مسلک و مذہب سے تعلق رکھنے والے نوجوان ایک بابصیرت،استعمار مخالف سیاسی و مذہبی لیڈر کے طور پر دیکھتے ہیں۔اس وقت بھی نیشنل و انٹرنیشنل میڈیا پہ مشکل سے مشکل وقت میں ان کی وفاداری و استقامت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
جس ملک میں معاہدے لکھ کر لکھنے والے ہی اس کی یہ کہکر مخالفت کرتے تھے کہ یہ کوئی قرآن و شریعت نہیں،وہاں مشکل سے مشکل وقت میں بھی مجلس وحدت المسلمین کے قائدین نے ڈٹ کر اپنے معاہدے کی پاسداری کرکے معاشرے میں عہد اور وفاداری کے اقدار کو ایک مرتبہ پھر زندہ کیا ہے۔
اس معاہدے کو معاہدہ عزت و آزادی اور معاہدہ استقامت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔