وحدت نیوز(آرٹیکل)علامہ راجا ناصر عباس صاحب کا عدت کیس میں شرعی قواعد کی پائمالی کے حوالے سے ٹھوس اور مدلل موقف نظر سے گزرا۔ علما شریعت کے محافظ ہیں انہیں کسی کی پسند ناپسند کی بجائے شریعت کا موقف بیان کرنا اور قوم کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ اس موقع پر سکوت معاشرے کی رہنمائی جیسی سنگین ذمہ داری سے فرار کے مترادف ہے۔ زندہ باد راجا ناصر!
علامہ راجا ناصر صاحب سے ہمارا پہلا براہ راست رابطہ 2017 کے آس پاس ہوا۔ ہم ان کے وژن سے کافی متاثر ہوئے۔ گزشتہ 10 سے 15 سال کے دوران قوم شیعہ کو من حیث قوم جو چند بڑے بحران پیش آئے ان میں کوئٹہ میں شیعہ نسل کشی کی بدترین لہر، پارہ چنار جیسے محب وطن خطے کا دہشتگردوں کے ذریعے طویل محاصرہ، عزاداری سید الشہداء کے خلاف خصوصا راولپنڈی میں جلوس عزا کو روکنے کی بڑی منصوبہ بندی، دو عدد متنازعہ ترین قانون سازیوں کی کوشش جن کے ذریعے قوم شیعہ کے مذہبی حقوق خصوصا عقیدے کے اختیار اور اظہار کے بنیادی آئینی حق پر قدغن ایجاد کرنا مقصود تھا، تعلیمی نصاب میں شیعہ طلبہ کو ان کے عقیدے و تعلیمات کے برخلاف عقائد و تعلیمات پڑھانے پر مجبور کرنے کی کوشش وغیرہ نمایاں بحران ہیں۔ ان تمام بحرانوں میں علامہ راجا ناصر عباس کو ہر وقت میدان میں پایا۔ کوئٹہ میں جاری نسل کشی کے خلاف علامہ صاحب کی جماعت کے ملک گیر احتجاج اور پارہ چنار کے محاصرے کے خلاف علامہ صاحب کی طرف سے بھوک ہڑتال جیسے اقدامات نے ان مسائل کے حل میں خاطر خواہ کردار ادا کیا۔
تعلیمی نصاب کے مسئلے میں مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب ہم سرکاری نصاب کمیٹی میں شامل ایک شیعہ رہنما کے پاس پہنچے تو وہ حتمی دستخط کرنے جانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ عرض کیا قبلہ! تحفظات تو اپنی جگہ موجود ہیں آپ کیونکر دستخط کرنے جارہے ہیں؟ ان کی بے چینی دیکھ کر معلوم ہوا وہ شدید دباو میں ہیں؛ میں نے فوری طور پر علامہ ناصر عباس صاحب کو فون کیا انہوں نے اس شیعہ رہنما سے بات کی اور کہا اپنے آئینی حقوق پر ڈٹ جائیں۔ ساری قوم بھی آپ کو چھوڑ جائے میں راجا ناصر تمہارے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ اگلے دن جب ہم علامہ صاحب سے ملے تو بہت پریشان تھے کہ ہماری قوم کے بچوں پر یہ جبر کیوں مسلط کیا جا رہا ہے؟ جائیں میری طرف سے قوم کے ہر رہنما اور دانشور کو کہیں آواز اٹھاو راجا ناصر کو اس جدوجہد میں پیچھے نہیں پاو گے لیکن افسوس ہم بطور قوم اس موقع پر اکھٹے نہ ہوسکے۔ راجا ناصر اکیلا لڑتا رہا کوئی ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں تھا۔ جن کے پاس حکومتی کمیٹیوں میں نمائندگی تھی وہ جان کو خطرہ کا بہانہ بنا کر پتلی گلی سے نکل گئے۔
متنازعہ بل سامنے آیا تو پہلی آواز راجا ناصر نے ہی اٹھائی کہ یہ میری قوم کے عقیدے کے اظہار پر پابندی کی سازش ہے یہ دشمنان رسول کے چہروں پر نقاب ڈالنے کی کوشش ہے، قوم اٹھ کھڑی ہوئی لیکن راجا ناصر نے طاقت ہونے کے باوجود موومنٹ کو لیڈ کرنے کا موقع قوم کے بزرگ رہنماؤں کو دیا۔ ہم نے اس موقع پر علامہ صاحب کی شجاعت درایت اور خصوصا صبر دیکھا وہ بلا کی شخصیت پائے گئے۔ اس تحریک کے دوران کئی مواقع ایسے آئے کہ وہ اپنوں کی زیادتیاں برداشت نہ کرتے اور اکیلے تحریک کو لیڈ کرتے تو قابل توجیہ تھا لیکن انہوں نے صبر کیا اور قوم کا اتحاد و اتفاق سبوتاژ نہیں ہونے دیا۔
حکومت کی تبدیلی کے بعد انتخابات کا ماحول بنا تو جب دیگر مذہبی جماعتیں اور شخصیات سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنے اپنے حصے طے کررہی تھیں اس وقت راجا ناصر نے تحریک انصاف کے چیرمین کے ساتھ قومی خودمختاری، پائیدار جمہوریت کے قیام اور آزادانہ پالیسیوں جیسے بنیادی اصولوں پر اتحاد کیا۔ یہ خود میں ایک غیر معمولی اقدام ہے اور یہی ایک حقیقی نظریاتی شخصیت سے توقع بھی کی جاسکتی ہے۔ مجھے یاد ہے اس دوران کئی بار ان سے بات ہوئی کہ علامہ صاحب انتخابات آرہے ہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور ان جیسے ذیلی امور پر مطالبات ت انصاف کے سامنے رکھے جائیں تو علامہ صاحب ہر بار کہتے دوستو ہم جس مکتب سے تعلق رکھتے ہیں وہاں دوست جب مشکل میں ہوتو اس سے مطالبے نہیں کیے جاتے اس کے ساتھ کھڑا ہوا جاتا ہے اور یہ ہماری اپنی نسلوں کی بہتری کی جنگ ہے اس میں ہم مطالبے کرکے تحریک کو متاثر نہیں کرنا چاہتے۔
میں نے علامہ شہید عارف حسین الحسینی کو نہیں دیکھا ہوا وہ ہمارے بچپن میں شہید ہوئے ؛ ہم نے شہید کو ان کے آثار سے پہچانا اور درک کیا ہے مجھے علامہ راجا ناصر عباس میں شہید عارف حسین رح جیسا ملی درد، شجاعت، قومی غیرت اور جذبہ نظر آتا ہے۔
تمام تر دباؤ، سازشوں اور ان کو توڑنے کی کوششوں کے باوجود علامہ راجا ناصر اپنی جماعت سمیت ان انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں آپ بطور شیعہ راجا ناصر صاحب کی جماعت کے رکن ہیں یا نہیں؟ انہیں پسند کرتے ہیں یا نہیں؟ لیکن ایک بات ضرور مانتے ہوں گے ان حالات میں وہ شخص آپ کی مکتبی غیرت، حمیت اور اصول کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔
علامہ راجا ناصر وفا، شجاعت اور صبر و استقامت کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے کوئی راجا ناصر کی سیاسی حکمت عملی اور جدوجہد کے نتائج جانچنے کے لیے انتخابات کے نتائج کا انتظار کررہا ہو لیکن ہم سمجھتے ہیں راجا ناصر انتخابات سے پہلے ہی کامیاب ہو چکا ہے اس نے اپنے مکتب اور نظریے کے لیے قبولیت پیدا کرلی ہے، ہر ملی اور قومی بحران میں میدان میں حاضر رہنے سے وہ ایک معتمد اور قابل اعتماد شخصیت بن کر ابھرے ہیں۔ ایک نطریاتی شخص کے لیے اس سے بڑی کامیابی کیا ہوسکتی ہے؟۔