وحدت نیوز(آرٹیکل) اپنے موضوع کی طرف جانے سے پہلے شام کے بحران اور شامی عوام کے محبوب صدر بشار الاسد کے بارے میں عرب میڈیا میں نشر ہونے والے بعض عالمی شخصیات کے اقوال و بیانات نقل کرتے ہیں. تاکہ اندازہ ہو کہ یہ جنگ کس کی ہے ؟ اصلی دشمن کون ہے ؟ الاسد کو ہٹانا کس کا منصوبہ ہے اور دشمن اس شخصیت کس نگاہ سے دیکھتا ہے ؟
* - ہنری کیسنجرسابق امریکی وزیر خارجہ کے بقول :
" ہم نے فقط چار ماہ میں 80 ارب ڈالرز بشار الاسد کے نظام کو گرانے کے لئے خرچ کئے . اگر یہ مبلغ مصر کے نظام کو گرانے کے لئے خرچ کرتے تو چار دنوں کے اندر وہ سقوط کر جاتا. "
* - ہیلری کلنٹن سابق امریکی وزیرخارجہ اور صدارتی امیدوار کے بقول :
الاسد وہ نہیں سننا چاہتا جو دنیا اسے کہتی ہے. فقط وہ اپنے ملک کے عوام کی بات سنتا ہے. الاسد کے ہوتے ہوئے کسی کے پنجے ظاہر نہیں ہو سکتے سب خرگوش ہیں. "
* - روسی صحافی خاتون اناستاسیا نے شام کے صدر بشار الاسد سے انٹرویو کے بعد بیان دیا :
" میں نے الاسد سے تاریخ ، تہذیب ، سیاست اور تجزیہ و تحلیل کا درس حاصل کیا ہے . اور مجھے نوجوان صدر اور عوام کے مابین مضبوط رشتے کے راز کا اب پتا چلا ہے . "
* - فرانسیسی صدر اور قصر الیزیہ کے مستعفی ہونے والے ترجمان ڈیوڈ مارتینون نے سوریہ کے بحران پر TV5 orient اپنے بیان میں کہا :
" الاسد سودا بازی نہیں کرتا اور اپنے ملک کے امور اپنے ویژن کے مطابق چلاتا ہے. وہ اہل خطرناک سیاسی جنگجو ہے.
اگر وہ ڈکٹیٹر ہے تو ذہین ہے. اور اگر مغرور بھی ہے تو بہت ذہین ہے. کبھی اس نے چیلنجز پر مبالغہ آرائی نہیں کی. اس نے باقی عرب لیڈروں کی طرح اپنے اقتدار کے خاتمے کے وقت کبھی اپنی ذات کا دفاع نہیں کیا. اسکے ساتھ معاملہ گھاس پھونس کے گٹھے پر پھونکنے کے مترادف ہے. جب گھاس پھونس اڑتا ہے تو نیچے تمہیں ایک مستحکم چٹان نظر آتی ہے جسے تم ہٹا نہیں سکتے. "
"مزید کہتا ہے کہ اسکا لطیف چہرہ دیکھ کر سب کو دھوکہ ہوا ہے کہ اسکا تجربہ کم ہے. حالانکہ اسکے پاس مضبوط سیاسی نظام ہے جس کو تم ہرگز دھوکہ نہیں دے سکتے. "
" اختتام پر کہا کہ میں ذاتی طور پر الاسد کی سیاست کا مخالف ہوں. اور میرا بھی خیال تھا کے اسکا نظام گرے گا. لیکن اب اتنا زیادہ وقت گزر جانے کے بعد ضروری ہے کہ اس نوجوان عرب صدر کی صورتحال کا از سر نو گہرا مطالعہ کیا جائے کہ جس نے فرانس کے صدر سرکوزی کو صبح تک جگائے رکھا ہے. ......."
* - اسرائیل چینل کے تجزیہ نگار کے بقول :
" الاسد کے نظام کو گرانے کا منصوبہ تو دم توڑ چکا ہے. اب دوسرا منصوبہ سوریہ کے نظام کو اقتصادی طور پر کمزور کرنا ہے. "
ہم نے گزشتہ کالم میں امریکی وصہیونی مفادات کے لئے شام پر مسلط کردہ دس سالہ طولانی عالمی جنگ کے متعلق ایک خاکہ بیان کیا . شام کے اصل دشمنوں اور خطے میں انکی پراکسیز کی میدان جنگ میں بھیانک شکست کا تذکرہ کیا. اور بیان کیا کہ جب وکلاء (پراکسیز) قلعہ مقاومت کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں تو اصل دشمن چہروں سے نقاب اتار کر خود میدان جنگ میں وارد ہوئے . جنوب سے اسرائیلی جارحیت تو شمال سے ترکی جارحیت اور مشرق سے امریکی جارحیت شروع ہوئی. اور شامی عوام کے نام نہاد نجات دہندوں نے بشار الاسد کا ساتھ دینے کے جرم میں ان پر عرصہ حیات کو تنگ کرنے اور فقر وفاقہ میں مبتلا کرنے اور اقتصادی استحصال کرنے کے مرحلے کا آغاز کیا . انہیں ملک ونظام اور سرزمین سے وفاداری کے جرم میں بھوک و پیاس اور بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کرنے کا پلان بنایا. شام صنعت و تجارت ، زراعت و سیاحت کے اعتبار سے عرب دنیا میں ایک مستحکم ملک تھا. اسکے ساتھ ساتھ اس ملک میں معدنیات ، پٹرول و گیس کے بیش بہا ذخائر بھی تھے. اس بحران سے پہلے یہ ملک کسی عالمی مالیاتی ادراے یا دوسرے ملک کا بالکل مقروض نہیں تھا. انکے ہاں اپنے امن غذائی کے لئے پانچ سال کے گندم اور دیگر اجناس کے ذخیرے تھے. لیکن اس عالمی استکباری قوتوں کی مسلط کردہ جنگ کی آڑ میں مشرق وسطی کے سب سے بڑے اقتصادی ہب حلب کے شیخ نجار نامی صنعتی شہر کو اردگان نے اپنی تکفیری پراکسیز کے ذریعے لوٹ لیا. اور اربوں ڈالرز کے صنعتی آلات وانڈسٹریز کی مشینیں ترکی منتقل کی گئیں. امریکی ساخت داعش نے تیل وپٹرول کے ذخائر کو شبانہ روز لوٹا . اور اب بھی امریکی دھڑا دھڑ عراق اور ترکی بارڈرز کے راستوں سیاہ منڈیوں میں بیچ رہے ہیں. اور اسی طرح شام کی زرعی فصلوں اور ہزاروں ایکڑ گندم کے پکے ہوئے کھیتوں کو امریکی ایجنٹ جلا رہے ہیں. تاکہ عوام کو روٹی کے نوالہ سے بھی محروم کر دیں.
ان تمام تر جرائم کے ساتھ ساتھ شام پر سخت ترین یک طرفہ امریکی اقتصادی پابندیاں شدید تر کی جارہی ہیں. حالانکہ شام کو اسرائیل مخالف ہونے جرم میں گذشتہ کئی دہائیوں سے ان ظالمانہ اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے. لیکن امریکی کانگریس نے ایک نئی ظالمانہ چال چلی ہے . اور " قانون قیصر " کے نام سے ایک قانون پاس کیا ہے کہ جو 17 جون سے اس سال نافذ العمل ہو گا.
2016 میں جب جنگ کا نقشہ بدلا اور داعش کو شکست ہوئی اور مختلف علاقے میں شام کی آرمی اور انکی اتحادی فورسز نے پیش قدمی کیا اور بہت سارے علاقے آزاد ہونا شروع ہوئے. تو امریکی کانگریس میں ایک "قیصر " نامی خیالی شخص کے بنائے گئے بقول امریکیوں کے فوٹجز سامنے لائے گئے. کہ شام میں عوام پر حکومت ظلم کر رہی ہے. اور اسکے لئے تکفیریوں کے لباس ہالی وڈ کے تربیت یافتہ سی آئی اے کے ایجنٹوں کی جعلسازی کو بنیاد بنایا گیا. یہ قانون کانگریس اور سینٹ سے پاس ہونے کے بعد چند دنوں بعد نافذ العمل ہوگا. ان پابندیوں کے اعلان کے بعد ان شام کی کرنسی جو جنگ کے ان گذشتہ دس سالوں میں پہلے ہی ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 50 سیرین لیرہ سے 1000 سیرین لیرہ تک پہنچ چکی تھی . ابھی گزشتہ دو ہفتوں میں اچانگ گری اور 3500 لیری سوری تک پہنچ گئی تھی. شام کے صدر نے حالات پر قابو پانے کے لئے جو فوری اقدامات کئے ہیں کہ جس کے نتیجے میں سابقہ وزیراعظم کو ہٹا کر نئے وزیراعظم کا اعلان کیا ہے .اور کرنسی کو کنٹرول کرنے کے لئے کئے جانے والے مثبت اقدامات کے نتیجے میں اب کرنسی ایک ڈالر کے مقابلے میں 2000 لیرہ تک نیچے آئی ہے.
تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی