وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ اطلاعات کے زیر اہتمام مرکزی میڈیا ورکشاپ کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی سیکریٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ دنیا دو قطبی تھی، دو طاقتوں نے انسانوں کو تقسیم کر رکھا تھا، ایک بائیں بازو کے ترقی پسند لوگ تھے، جو ایک مکمل نظریہ کے حامل تھے، ترقی پسند مصنفین کی انجمنیں تھیں، ان کے مدمقابل امریکہ تھا، جسے دائیں بازو کی طاقت کہا جاتا تھا، دائیں بازو کی طاقت میں امریکہ نے اپنی من مانی قوتوں کو اپنے بلاک میں شامل کیا، جن میں وہابی ریاست سعودی عرب شامل تھی، ان طاقتوں نے جہان اسلام کی مرکزی قیادت وہابیت کے سپرد کر دی، وہابیت نے تیل کے پیسیوں سے پوری دنیا میں مساجد و مراکز بنائے اور اہل سنت کو تسخیر کرنے کی کوشش کی، لیکن اہل سنت نے عبدالوہاب نجدی کو قبول نہ کیا، فلسطین بھی ہم سے دائیں بازو کی طاقتوں امریکہ و اسرائیل، اور مسلم امہ کے خائن حکمرانوں کے ذریعہ چھین لیا گیا، بائیں بازو والے خدا سے لڑ رہے تھے لیکن منافق نہ تھے، دائیں بازو کی طاقتوں کا کام اسلام دشمنی تھا، 1967 تک مسلمانوں کی طاقت صفر ہو کر رہ گئی، روس کے افغانستان میں آنے اور انقلاب اسلامی ایران کے بعد حالات تبدیل ہوئے۔
انقلاب اسلامی ایران دونوں سپر طاقتوں امریکہ و روس کے خلاف تھا، یہ پہلا انقلاب تھا جو ان کی مرضی کے خلاف برپا ہوا، لاشرقیہ لاغربیہ کا نعرہ لیکر یہ انقلاب امید کی کرن ثابت ہوا، انقلاب نے مسلم امہ کے اتحاد کی بات کی، کھوکھلے رہبران کو بے نقاب کیا، اسرائیل کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا گیا، اس انقلاب نے عرب آزادی پسند قوتوں کی حمایت کی، انقلاب کو اندرونی اور بیرونی طور پر مشکلات کا شکار کر دیا گیا، چند ماہ کے اندر اٹھارہ ہزار انقلابیوں کو استعمار نے مار ڈالا، ایک ہی دن میں صدر و وزیراعظم کو شہید کیا گیا، اس کارستانی میں دائیں اور بائیں بازو کی دونوں طاقتیں شریک تھیں، انقلاب نے امریکا کے سیکیورٹی سسٹم کو توڑ ڈالا تھا، اس طرح عالمی استکبار کے ساتھ ٹکراو کا آغاز ہوا، انقلاب لانے کی تحریک میں پینسٹھ افراد شہید ہوئے، انقلاب کے تحفظ میں لاکھوں شہید ہوئے، پھر بیرونی طور پر تکفیر کا فتنہ کھڑا کیا گیا، تاکہ شیعہ سنی کے درمیان تنازعات کھڑے کئے جائیں، اسی طرح شیعوں کے اندر اختلافات پیدا کئے گئے، تاکہ تقسیم کرکے مذہب کو مذہب سے لڑایا جائے، وہابیوں نے ہمارے ساتھ ساتھ اہل سنت کی بھی تکفیر کی، عراق نے انقلابی حکومت پر حملہ کیا، مسلمان کو مسلمان نے استعمار نے لڑوا دیا، افغانستان میں دیوبندیت، پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ اور امریکہ نے مل کر طاقت کا توازن بگاڑا، نفرتوں نے جنم لیا۔
علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ موجودہ زمانہ میں ایک طرف مقاومت کا بلاک ہے جسمییں ایران، عراق، لبنان، فلسطین اور شام کے ساتھ ساتھ روس اور چین بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب عرب ریاستیں اور امریکہ و اسرائیل کا بلاک ہے۔ چین اور روس نے کئی مرتبہ شام سے متعلقہ فیصلوں کو ویٹو کیا، میڈیا میں بھی سو سے زیادہ عربی چینل ہیں، جو امریکہ و اسرائیل کی خدمت کرتے ہیں، العربیہ اور الجزیرہ اسی میڈیا وار کا حصہ ہیں، امریکہ، اسرائیل اور سعودی ریاستیں خطہ میں امریکی بالادستی چاہتی ہیں، سیکریٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شیعہ و سنی نے سیاسی جدوجہد نہ کی جس کی وجہ سے دیوبندیت ہی سیاست میں غالب رہی، شیعوں اور سنیوں نے مل کر پیپلز پارٹی کو سپورٹ کیا، اہل سنت کے بعد پاکستان میں شیعہ اکثریت ہونے کے باوجود غیر منظم رہے۔
علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ کمزور پاکستان کی خواہشمند قوتوں نے پاکستان میں تکفیریوں کی پشت پناہی کی، انڈیا، سعودی اور دائیں بازو کی طاقتوں امریکہ و اسرائیل کو کمزور پاکستان سوٹ کرتا ہے، انڈیا دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان بھی پاکستان میں کام کر رہی ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ دنیا بھر کے دہشت گرد پاکستان میں متحرک ہیں۔ اہل تشیع ان دہشت گردوں کے مقابل سیسہ پلائی دیوار ہیں جنہیں دشمن گرانا چاہتا ہے، ہمارا دشمن وہی ہے جو فوج، اہل سنت اور پاک عوام کو مار رہا ہے، فوج کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا اشد ضروری امر ہے، مشترکہ دشمن کا قلع قمع کرنے کے لئے فوج کے ساتھ بہتر رابطہ قائم کرنا ضروری ہے، رائے اور افکار فوج تک متنقل کرنے چاہیں، فوج اور نیوی کے اندر تکفیری سرایت کر چکے تھے۔
سربراہ ایم ڈبلیو ایم کا کہنا تھا کہ ملا ملٹری الائنس کے ذریعہ تکفیری ملک پر قابض ہونا چاہتے تھے، باقاعدہ طور پر فوج میں انہیں تسلیم کیا گیا، تبلیغ کے لئے ایک سال کی چھٹی دی گئی، سنی اتحاد کونسل، منہاج القرآن اور ایم ڈبلیو ایم ایک طاقت بن کر ابھر رہے ہیں، اس طاقت کو بڑھنا چاہیے، ہم تکفیریوں کو تنہا کرنا چاہتے ہیں، جو چھوٹے چھوٹے بچوں اور نمازیوں پر حملہ کرتے ہیں، مساجد پر حملہ کو امام بارگاہ پر حملہ ایک سازش کے تحت قرار دیا جاتا ہے، آداب مسجد و امام بارگاہ علیحدہ علیحدہ ہیں، شکار پور، حیات آباد میں امام بارگاہ پر حملے ہوئے، میڈیا میں بیان کیا جائے کہ یہ نمازیوں پر حملے ہیں، امام بارگاہ پر نہیں، مسجد کی بے حرمتی کی گئی ہے، قرآن لہو میں لت پت کئے گئے۔
تکفیری اس وقت پاکستان میں پانچ ونگز کے ذریعہ کام کر رہے ہیں، جن میں تبلیغی، فلاحی، سیاسی، نظامی اور عسکری شامل ہیں، ہر ونگ اپنا اپنا کام کر رہا ہے، جب تک دیوبندیت کمزور نہیں ہو گی امن قائم نہیں ہو سکتا، تکفیریوں کا مقابلہ دین، وطن اور انسانیت کا دفاع ہے، ہم نے پانچ سو بیاسی کلو میٹر کا لانگ مارچ کیا گیا، اسکی میڈیا کے ذریعہ تشہیر کی جائے، پنجاب حکومت ہمیں دھمکیاں دے رہی ہے، سیاسی جماعتیں ہمیں اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں، نواز شریف سعودی عرب کا سیاسی ونگ ہے، اگر شکار پور میں چار پانچ سکاوٹ ہوتے تو اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا، لوکل انتظامیہ کے ساتھ بہتر تعلقات، ہر مسجد و امام بارگاہ اسلحہ کے لائسنس لے، شیعہ سنی مل کر انٹیلی جنس نیٹ ورک بنائیں، دہشت گردوں کی نقل حرکت پر نظر رکھیں، گلی گلی کوچے کوچے میں رہنے والے شیعہ سنی دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس نیٹ ورک بنائیں، آپ نے میڈیا وار لڑنی ہے، جنگیں ہمیشہ میدانوں میں لڑی جاتیں، آپ کا کردار اس جنگ میں بہت اہم ہے، ہمارے پاس جیت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔