وحدت نیوز(سکردو) شب ہفتہ کو ایک فکری و علمی نشست مجلس وحدت مسلمین قم کے سابق صدر شہیدعلامہ غلام محمد فخر الدین کے احباب کی جانب سے منعقد ہوئی، جس میں شہید کے قریبی نظریاتی دوستوں نے ان کی زندگی کے مختلف پہلووں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد سینیئر تنظیمی ساتھی علی نوری صاحب نے شرکاء کا تعارف پیش کیا۔ اس نشست کی نظامت علامہ شیخ سکندر علی بہشتی نے کی۔ انہوں نے فکری و علمی شخصیات اور ان کی خدمات کو زندہ رکھنے کی ضرورت پر گفتگو کی۔ جناب بہشتی نے شہید فخر الدین کی یاد میں اس نشست کے انعقاد پر ان کے دوستوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس کے بعد شرکاء کو شہید کے حوالے سے گفتگو کی دعوت دی۔
سب سے پہلے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکریٹری علامہ شیخ اعجاز بہشتی صاحب نے کہا کہ شہید فخر الدین نے کم وقت میں مقدمات و سطحیات کی تعلیم مکمل کی، جو ان کی اعلیٰ فکری استعداد کی علامت ہے۔ موصوف نے مرحوم کے ساتھ اپنی 20 سالہ رفاقت کے تناظر میں ان کی کچھ خصوصیات یوں پیش کیں۔ مرحوم کی ایک اہم خصوصیت مسلسل مطالعے کی عادت اور حفظ کی صلاحیت تھی۔ایک ہی مطالعے میں وہ بہت سے مطالب کو یاد کر لیتے تھے۔ اس لیے تین سال میں مقدمات اور چھ سال میں سطحیات کی تعلیم مکمل کی۔
المصطفیٰ یونیورسٹی میں شہید نے علمی میدان اور خطابت دونوں میں نام کمایا۔ شہید کی دوسری اہم خصوصیت جہد مسلسل اور کوشش سے عبارت تھی۔ وہ کم سوتے تھے اور مباحثہ و مطالعے میں گھنٹوں صرف کرتے تھے۔ تیسری اہم خصوصیت معنویت میں ان کا بلند مقام ہے۔ وہ آیت اللہ بہجت کی نماز جماعت میں شرکت کرتے اور وہ ان کے قریبی افراد میں شمار ہوتے تھے۔ چوتھی اہم خصوصیت ان کی جامع شخصیت تھی۔ دینی علمی مراکز میں کسی ایک فیلڈ کے ماہرین بکثرت ملتے ہیں، لیکن ہر لحاظ سے جامع الصفات افراد کی کمی ہے۔ شہید کا شمار آیت اللہ معرفت کے خاص شاگردوں میں ہوتا تھا۔ وہ ان سے درس میں مختلف پیچیدہ سوالات کرتے تھے۔ایران میں باصلاحیت شخصیات کی شناخت کے لیے ایک ٹیم تشکیل پائی۔ اس ٹیم نے پاکستان کی نمایاں شخصیات میں شہید فخر الدین کا نام منتخب کیا۔ ایک دفعہ جامعۃ المصطفیٰ کی طرف سے رہبر کی قم آمد پر مختصر تقریر کے لیے طلاب میں سے شہید کا انتخاب کیا گیا۔ علامہ راجہ ناصر نے شہید فخر الدین کو بہت بڑی علمی شخصیت قرار دیتے ہوئے انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی۔ شہید کی شہادت ایک راز ہے۔ آپ ایک نابغہ روزگار، باتقویٰ اور علمی خطابت کے شہہ سوار انسان تھے۔
شہید فخر الدین کے تنظیمی دوست جناب کاچو زاہد علی خان رکن مرکزی نظارت آئی ایس او پاکستان نے شہید اور تنظیمی و قومی مسائل کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہید کا شمار ان معدود افراد میں ہوتا تھا، جو آئی ایس او کو سب سے زیادہ وقت دیتے تھے۔ بچپن سے ہی محبین اور مجالس سے خطاب کی وجہ سے اخوند مشہور ہوئے۔ ہر پروگرام میں پیش قدم ہوتے تھے۔ تحریک جعفریہ میں ان کا بنیادی رول رہا خصوصاً شہید عارف کے زمانے اور علامہ ساجد نقوی کی قیادت کے ابتدائی ایام میں وہ بہت ہی فعال رکن رہے۔ الیکشن بائیکاٹ تحریک میں شہید فخر الدین نے حکومت کے خلاف مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ ایران سے واپس آکر موصوف نے دو موضوعات کو بہت اہمیت دی: نظام ولایت فقیہ کا دفاع اور رہبر معظم کی رہبریت کاتعارف۔ وہ عاشق رہبر تھے۔
شہید کے قریبی دوست اور کالج فیلو، سابق قائد بلتستان کے فرزند برادر محمد حسین حاجی آغا سابق ڈویژنل صدر آئی ایس او پاکستان بلتستان نے شہید کی تنظیمی اور طالب علمی کے دور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ جب سے آئی ایس او میں شامل ہوئے، شہید کے ساتھ گہری دوستی ہوئی۔ شہید میں کچھ خوبیاں تھیں، جو اللہ نے ان کو بطور خاص عطاء کی تھیں۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ مذہبی و سیاسی موضوعات پر سب سے بحث کرتے۔ دیگر مذاہب کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ دلیل کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ جب وہ ایران جانے کے لیے آمادہ ہوئے تو میرے والد مرحوم (شیخ غلام محمد قائد بلتستان) کے پاس آکر مجھے بھی ایران بھیجنے کے لیے اصرار کیا۔ بائیکاٹ تحریک میں سب سے پرجوش اور فعال تھے۔ ان کی ذہانت انتہائی اعلیٰ درجے کی تھی۔ معمولی توجہ کے ساتھ ہر چیز ان کے ذہن پر نقش ہو جاتی تھی۔ ولایت فقیہ کے حوالے سے حساس تھے اور ہمہ وقت شعوری کوشش کرکے ولایت فقیہ اور رہبریت کو سمجھانے کی انتھک کوشش کرتے تھے۔
جامعۃ النجف کے سینیئر طالب علم جناب محمد کاظم مطہری نے شہید فخر الدین کے بارے میں اپنے تھیسز کا تعارف پیش کیا اور کہا کہ اس تحقیق کے دوران مختلف انٹرویوز سے شہید کے بہت سے اخلاقی اوصاف مجھ پر ظاہر ہوئے۔ شہید ایک شخص نہیں ایک فکر اور تحریک کا نام ہے۔ نشست کے آخر میں شہید کے ساتھی جناب علی نوری سابق ڈویژنل صدر آئی ایس او پاکستان بلتستان و چیئرمین الہدیٰ فاؤنڈیشن/امامینز بلتستان نے شہید کے بارے میں اپنا مقالہ پیش کیا اور شہید فخرالدین کے نمایاں اوصاف اور ہماری ذمہ داری کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بعض شخصیات کسی ایک فن کی ماہر ہوتی ہیں مگر شہید وہ شخصیت ہیں، جو ایک بہترین طالب علم، قومیات میں سب سے فعال قومی شخصیت، تنظیموں میں سرگرم رہنماء اور علمی و فکری میدانوں میں سب سے نمایاں تھے۔ مرحوم نے بلتستان میں آئی ایس او کا تعارف کرایا۔
کوئی پروگرام ایسا نہیں ہوتا تھا، جس میں شہید نہ ہوتے۔ یوم حسین میں مرکزی خطیب ہوتے تھے۔ دعائیہ پروگراموں میں بہترین آواز میں دعا پڑھتے تھے۔ وہ بہترین قاری قرآن اور آفاقی سوچ کے حامل تھے۔ امام زمان (عج) کے ظہور کے لیے کام کرتے تھے، خط ولایت کا پرچار کرتے تھے، امام راحل اور رہبر معظم کے حقیقی عاشق تھے۔ اپنی تقاریر میں قرآن اور نہج البلاغہ سے خوب استفادہ کرتے تھے۔ انہوں نے کم وقت میں اعلیٰ علمی و سماجی مقام حاصل کیا، جس کا اعتراف ملک اور بیرون ملک کی مختلف علمی شخصیات نے کیا ہے۔ شہید سے محبت اور عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم شہید کے افکار و نظریات اور خدمات کو ہمیشہ زندہ رکھیں اور آنے والی نسلوں تک پہنچاتے رہیں۔