وحدت نیوز(سکردو)اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی و پارلیمانی لیڈر مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کاظم میثم نے کہا ہے کہ حکومت اور حکمران جماعتوں کی کوشش ہے کہ اپوزیشن بھی حکومتی فیصلے کی حمایت کرے۔ اپوزیشن کا دو ٹوک اور صاف موقف ہے کہ صوبائی حکومت وفاق کے سامنے ڈٹ جائے ورنہ عوام انکے سامنے ڈٹ جائے گی۔ گندم کی قیمتوں کے تعین کے علاوہ صوبائی حکومت کی وفاق نمائندگی اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش لمحہ فکریہ ہے۔ وفاقی سیاسی جماعتوں کی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری خطے کے حقوق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں گلگت بلتستان کی نمائندگی کرتے ہوئے وفاق سے حقوق کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ سیاسی حکمران اپنا قبلہ درست نہ کرے تو عوام کا اس سیاسی نظام سے ہی اعتماد اٹھ جائے گا۔
کاظم میثم نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت ایک دفعہ وفاق کے ڈٹ تو جائے پھر دیکھتے ہیں مسائل حل ہوتے ہی کہ نہیں۔ آج کوئی وفاق میں مالیاتی بحران کا بہانہ کرتا ہے تو یہ بحران ہمارا نہیں بلکہ انکا اپنا پیدا کردہ ہے۔ جو افراد گلگت بلتستان کے عوام اور خطے کی وکالت نہیں کرسکتا انہیں الیکشن وفاق میں جاکر لڑنا چاہیے۔ ہمیں سیاست ہی خطے کی تعمیر و ترقی کے لیے کرنی چاہیے نہ کہ وفاقی جماعتوں کی سہولت کاری ہے۔ پرانے سیاست مداروں کا وقت گنا جاچکا ہے یوتھ اسوقت اہل بھی ہے، آگاہ بھی ہے اور فعال بھی۔ انکو انکے حقوق کا پورا علم بھی ہے۔ انکے سامنے وہی مقدس ہے جو گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرے۔ فیلئیر کو ری انفورس کرنا تزویراتی غلطی ہے جس کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔
گلگت بلتستان کی یوتھ مجموعی طور پر اکثر وفاقی سیاسی حکمرانوں سے زیادہ اہل ہیں لیکن انکا جرم گلگت بلتستان کا شہری ہونا ہے جس کے سبب انہیں نیشنل پالیٹکس میں مقام کبھی نہیں مل سکتا اور نہ ہی گلگت بلتستان انہیں سیاسی دھارے میں شامل ہونے دی جا رہی ہے۔ لیکن یہاں کی یوتھ کے عزم اور حوصلے کے سامنے سارے علاقائی کارڈز، مسلکی کارڈز، قومی کارڈز، لسانی کارڈز سب مات کھائیں گے۔ یہاں کے عوام اور جوانوں کو نئی سیاسی صف بندی کرنے کی ضروری ہے۔ روایتی سیاست کسی کو پروٹوکول اور کمیشن تو دے سکتے ہی لیکن حقوق نہیں۔ منفی طاقتوں کی کوشش ہے کہ سیاسی عمل سے لوگوں کو بدظن کرے، روایتی سیاست، وفاق زدگی اور ابن الوقت بننے کی روایت ڈالے اور شعور کے جن کو بوتل میں رکھیں۔ یہاں ایسے لوگوں کو مسلط کریں جو کسی بھی حوالے سے لیڈرشپ کے کسی بھی پیرامیٹر پر پورا نہ اتر سکے اور خطے کی اجتماعی نفسیات اور حوصلہ پست رہے۔ آج گلگت بلتستان کا مسئلہ یہ ہے کہ رائیٹ مین فار رائیٹ جاب نہیں ہے۔ سیاست یرغمال ہے اور اہل پڑھے لکھے قائدانہ صلاحیت رکھنے والوں کو سیاست شجرہ ممنوعہ بناکر پیش کیا گیا ہے نتیجے میں پورے خطے کی مورل لیول ہی اتنی پست رہے گی کہ حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو ہی بے وقوف سمجھا جائے گا۔
اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ بعض کہ بھرپور کوشش کر رہے اپوزیشن کے خلاف باتیں کرکے عوامی مطالبات کو کمزور کرائیں۔ ہم نے دانستہ طور پر گندم کے ایشو پر عوام کے ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ عوام ایک روپے اضافہ پر بھی مان جاتی ہے تو ہم عوام کو سمجھائیں کہ یہ حکومت بڑی قربانیوں کے بعد بنی ہے۔ یہ حکومت سبسڈی ایشو کو حل کرنے اور بجٹ خسارا پورا کرنے کے اعلان کے ساتھ جمہوری اقدار کا قتل کرکے بنی ہے، ہارس ٹریڈنگ کی جی بی میں تاریخ رقم کرکے بنی ہے، وفاداریوں کو تبدیل کراکے سیاسی نمائندوں کو روسیاہ کرکے بنی ہے، کوئی عام حکومت ہوتی تو مذاکرات کوئی ایشو نہیں تھا اب اس حکومت سے کیا مذاکرات کرے جس کا فلسفہ وجود ہی جبر زور زبردستی کی ہو۔ اس سے بڑھ کر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حکومت کی اتحادی جماعت کے سربراہ نے عوام میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کی مخالفت کر دی ہے۔ اسی جماعت کی بیساکھی پر حکومت بنی ہے۔ پیپلز پارٹی آج بھی گلبر رجیم کو بیساکھی فراہم نہ کرے تو گندم کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔ عوام کو آگاہ کردوں گندم کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ٹریلر ہے ابھی فلم چلنی باقی ہے۔ وفاق میں جس پی ڈی ایم کے ذریعے شرمناک فیصلے کروائے اس سے خطرناک فیصلے یہ حکومت کرے گی۔ عوام ہشیار اور آمادہ رہیں۔ سکردو ائیرپورٹ سمیت تمام وسائل پر نگاہ رکھیں۔ عوام ہی خطے کا محافظ بن سکتی ہیں اتحادی جماعتیں اس حکومت کی فارمیشن میں مجبور تھی تو آگے کیسے مجبور نہیں ہوگی۔ کل کے ایک وفاقی وکیل کی پریس بریفنگ کے بعد اندازہ ہوجانا چاہیے اور ایسے بندوں کے نام کے آگے گلگتی، بلتی، نگری، استوری، داریلی وغیرہ کی بجائے چکوالی، پوٹھوہاری، لاہوری وغیرہ لگانا چاہیے۔