وحدت نیوز(مظفرآباد) خوشحال اور پرامن پاکستان کشمیریوں کی منزل ہے ملت کشمیر آزادی کے بعد الحاق پاکستان اپنی منزل جانتی ہے لیکن پاکستانی حکمرانوں کے رویے وادی میں نفرت کے بیج بو رہے ہیں جس کی حالیہ مثال سیلاب زدہ علاقوں میں ریسکیو کے لئے جانے والے ہمارے کارکنان کی گرفتاریں اور پولیس تشدد ہے ، ہمارے جوانوں پر پولیس نے بد ترین تشدد کیا نماز کی ادائیگی کی اجازت بھی نہ دی گئی اس طرح کا رویہ انڈین اور اسرائیلی فوجی بھی کشمیری وفلسطینی مسلمانوں سے روا نہیں رکھتے ہیں ،آزادکشمیر کے نوجوان سیلاب زدہ علاقوں میں عوام کی خدمت کے لئے جا رہے تھے رات کی تاریکی میں گیسٹ ہاوس میں گھس کر گرفتار کیاگیا،نوجوانوں کو حبس بے جا میں رکھا گیا ایسے نواجوان جنہوں نے ملک کی بین الاقوامی سطح پر نمائندگی کی ،جنہوں نے معاشرے میں استاد کا پیشہ اختیار کر کہ تعمیر معاشرہ میں اپنے حصہ کا کردار ادا کرنا شروع کیا ،جنہوں نے لاء گریجویشن کر کہ معاشرے کی خدمت کے خواب سجا رکھے ہیں ان نوجوانوں کے ساتھ پولیس نے انتہائی متشددانہ رویہ اختیار کیا جو صرف نواز شریف کو خوش کرنے اور آزادکشمیراور دیگر علاقوں میں ’’گونوازگو ‘‘کے نعروں کے انتقام کے طور پر کیا جارہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیرعلامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے مظفرآباد میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو صرف کشمیری ہونے کی بنا پر سزا دی جارہی ہے پولیس باضابطہ ان کی کشمیریت کے حوالے سے غیر اخلاقی گفتگو کرتی ہے وادی کے اس پار کے کشمیریوں پر ہندوستانی فوجی ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور اس طرف یہ ذمہ داری اسلام آباد پولیس نے اپنے ذمہ لے لی ہے کیوں کہ امن کی بھاشہ اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی راہ میں کشمیری ہی تو رکاوٹ ہیں یہ کشمیری ہی ہیں جو پاکستانی حکمرانوں کو ہندوستان کے ساتھ کشمیر کا سودہ کرنے سے باز رکھے ہوئے ہیں ،انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں انصاف فراہم نہ کیا گیا تو ہم اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوجائیں گے ،علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے مزیدکہا کہ پارلیمنٹ ہاوس کے باہر موجود دھرنے کو ختم نہ کروا سکنے کا غصہ اتارنے کے لئے اسلام آباد انتظامیہ کشمیری نواجوں پر ظلم کرتی رہی ، ستم ظریفی یہ کہ گرفتار کر کے جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات قائم کیئے گئے، جن کا سرے سے ان گرفتار کارکنان سے کوئی تعلق نہیں بنتا، جمہوریت کا راگ الاپنے والے بتائیں کیا یہی جمہوریت ہے؟ پرامن و نہتے شہریوں کو اٹھا لیا جائے، ان پر بیہمانہ تشدد کیا جائے، جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات کا الزام دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یاد رکھا جائے حکومت کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں ، بوکھلاہٹ کی شکار حکومت کو خود نہیں معلوم کے وہ کیا کر رہی ہے، ان سارے اقدامات کی روشنی میں کشمیری قوم بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ یہ جمہوریت نہیں بادشاہت ہے، بادشاہت نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے جہاں امیر کے لئے الگ قانون ہے غریب کے لئے الگ ایف آئی آر حکمرانوں کے خلاف بھی درج ہے لیکن انہیں پروٹوکول دیا جاتا ہے جب کہ غریب شہریوں کے لئے ایف آئی آر پہلے سے تیار ہے بس انہیں اٹھایا اور اس میں شامل کیا جاتا ہے ، مملکت خداداد پاکستان میں جنگل کاقانون نافذ ہے اس کے خلاف ریاست جموں وکشمیر کے شہریاں ہرسطح پر آواز اٹھاتے رہیں گیانہوں نے کہا کہ گھس بیٹھیے پارلیمنٹ کے اجلاس میں جمہوریت کے نام پر اپنی کرسیاں بچاتے نظرآئے ہیں لیکن ان کے اقتدار اور وی آئی پی کلچر کی دیواروں میں دراڑ پڑھ چکی ہے۔