وحدت نیوز(بیروت) ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے سیکرٹری امور خارجہ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ اختلافات کے باوجود ہم اس حساس موقع پر پاکستان کے اندر امریکی مداخلت کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ بیروت دفتر میں عرب ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے کہا امریکہ کی تاریخ رہی ہے وہ چھوٹے ممالک میں دھونس دھمکی یا لالچ و طمع کے ذریعے مداخلت کرتا اور ان کی داخلی و خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان میں داخلی سطح پر اس وقت اقتدار کی ایک رسہ کشی جاری ہے جو مکمل طور پر پاکستان کا داخلی معاملہ ہے اور ہم آئین اور قانون کے تناظر میں اس کا حل دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ایسے میں امریکی حکام کی طرف سے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز اور غیر سفارتی زبان کا استعمال انتہائی قابل تشویش ہے۔
ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے کہا گزشتہ کچھ عرصہ کی پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کی نقل و حرکت پر بھی پاکستان کی غیور عوام کو شدید تحفظات ہیں۔ انہوں نے کہا اب وقت ہے کہ پاکستان قوم امریکہ کی مداخلت اور دھونس دھمکیوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑی ہو اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے آزاد خارجہ پالیسی کے خواب کو پورا کیا جائے۔
ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے پاکستان کی حالیہ داخلی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا پاکستان میں اپوزیشن جماعتیں حکومتی اتحاد کے خلاف اکھٹی ہوچکی اور ان کا مطالبہ ہے کہ آئینی لحاظ سے پی ٹی آئی حکومت پارلیمان میں اکثریت کھو چکی ہے لہذا وزیراعظم عمران کو استعفی دینا چاہئے جس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی ہے۔
انہوں نے کہا پارلیمانی نظام حکومت میں یہ دیگر پارلیمانی جماعتوں کا حق ہے کہ وہ جب محسوس کریں کہ حکومت اکثریت کھو چکی ہے تو وہ اس کے خلاف قانون اور آئین کی رو سے اقدام کریں لیکن اقتدار میں تبدیلی کی ایسی کسی مہم کا خیر مقدم نہیں کیا جاسکتا جو کسی بین الاقوامی سازش یا کسی غیر ملکی عنصر کی پشت پناہی کے نتیجے میں شروع کی گئی ہو، انہوں نے کہا بیرونی عناصر کی ایما پر ایسی کوئی بھی کوشش قابل مذمت اور قوم کے اجتماعی مفادات کے خلاف ہے۔
ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے کہا پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ ایک خود مختار اور آزاد خارجہ پالیسی پر عملدرآمد یقینی بنائے اور عالمی محاذ آرائی اس کی پالیسی پر اثر انداز نہ ہو اور داخلی طور پر بین الاقوامی عناصر پر کم سے کم انحصار ہو۔