The Latest
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے یوم وفات بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح پر صوبائی دفتر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بانی پاکستان بابائے قوم نے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست، عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ، مذہبی آزادی، امن، محبت اور بھائی چارہ کو مدنظر رکھتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے حاصل کیا تھا، شومئی قسمت سے یہاں کے حکمرانوں کو ذہنی غلامی سے نجات نہ مل سکی اور اغیار پر بھروسہ کر کے آج اس مملکت خداداد کو اس موڑ پر پہنچا دیا ہے شائد ہی کوئی نجات دہندہ اس ملک کو قائد کے اصولوں کی طرف واپس لائے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں عدل و انصاف کا حال یہ ہے کہ قاتل دندناتے پھرتے ہیں اور مقتول کے ورثا اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں کہ انہوں نے کب اور کس جگہ اس ملک کو خیر باد کہنا ہے، کئی مائیں اپنے گمشدہ بیٹوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں تو کوئی بچہ پوسٹر لئے قاضی وقت سے سوال کر رہا ہے کہ مجھے میرے بابا واپس دلا دو، میرا بابا کس جرم میں مارا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم نے تو مذہبی آزادی کے زریں اصول دئیے تھے لیکن آج کوئی مسلمان محفوظ نہیں، نہ مسجدوں میں نہ عزا خانوں میں اور نہ اقلیتی برادری اپنے مندروں اور چرچز میں محفوظ ہیں۔
علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک محب وطن لوگوں کو اس ملک میں یا تو قیدو سلاسل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑی ہیں یا تو ان کو اس وطن دوستی کے جرم میں اپنی جان کی بازی ہارنا پڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تکفیری گروہ اور دہشت گردوں کو اگر اب بھی لگام نہ دی گئی تو سمجھ لیا جائے کہ پاکستان میں خونی انقلاب آنے میں اب کوئی دیر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی سالمیت اور امن کے لئے صبر کرنے والوں کو کمزور سمجھا جا رہا ہے اور جب یہی لوگ ملک اور اسلام کے دفاع کے لئے نکلیں گے تو یہ وہ وقت ہو گا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ بے شک اللہ کا گروہ ہی غالب آنیوالہ ہے۔
علامہ اسدی نے مزید کہا کہ قرآن میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے اس زمین کے وارث مستضعفین کو ہی بنانا ہے، جب پاکستان کے مستضعفین جاگ گئے اور انہوں نے اپنی زمین کی ملکیت کا دعویٰ کر دیا تو حکمرانوں کو کہیں منہ چھپانے کیلئے جگہ نہیں ملے گی، حکمران فرانس کے انقلاب کو یاد رکھیں جب حکمرانوں کو لٹکا دیا گیا تھا۔ علامہ عبدالخالق اسدی نے بانی پاکستان کے درجات کی بلندی کے لئے دعائے مغفرت کی۔ تقریب میں علامہ محمد اقبال کامرانی، علامہ حسنین عارف، سید اسد عباس نقوی نے بھی خطاب کیا اور بانی پاکستان سے اظہار محبت اور ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کی۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی آفس سے جاری ایک بیان کہا گیا ہے کراچی اور لاہور میں فیکٹریوں پر آگ لگ جانے کے سبب دو سو سے زائد افراد کا جاں بحق ہونا قومی سانحہ اور اس قومی سانحے پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا جاتا ہے
بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے اس سانحے کے اسباب کی فوری تحقیقات کر کے منظرعام پر لایا جائے اور قصوار افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے
بیان میں قوم سے اپیل کی گئی ہے کہ زخمی افراد کی صحت یابی کے لئے دعا کی جائے بیان میں جاں بحق افراد کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کی گئی
اسلام آباد آج شیعہ ٹاگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی کیمپ کا دسواں دن تھا آج کیمپ میں بانی پاکستان کی برسی کی مناسبت سے ایک تقریب ہوئی جس میں بانی پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور فاتحہ خوانی کی گئی
برسی کے اس پروگرام میں علامہ اقبال بہشتی ،علامہ اصغر عسکری اور علامہ فخر علوی کے علاوہ قائد اعظم یونیوسرسٹی کے پروفیسر نقوی نے بھی شرکت کی مقررین نے بابائے قوم کی برسی کی مناسبت سے قائد کی زندگی کے مختلف پہلو پر گفتگو کی اور قائد اعظم کے فرمودات کو قوم کے لئے مشعل راہ قراردیا
مقررین نے اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کیاکہ ریاست آج ملک بھر میں اہل تشیع کے قتل عام کی روک تھا م کے لئے کوئی بھی مناسب اقدام نہیں کر رہی یہاں تک کہ عدلیہ بھی اس مسئلے پر خاموش ہے
مقررین نے کہا کہ عوام کی جانب سے ظلم و ستم کا قبول نہ کرنا اور ظلم کے خلاف پرامن احتجاج قائد اعظم کے فرمودات کے عین مطابق ہے ۔
مقررین نے کہا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کے قتل پر خاموشی اس قتل میں شریک ہونے کے برابر ہے ،مقررین کاکہنا تھا کہ کسی بھی مذہب یا مسلکی مقدسات کی توہین فقہ جعفریہ میں حرام ہے اور گذشتہ سال اس حرمت کے بارے میں ایک بار پھر دنیائے تشیع کی شرعی سپریم اتھارٹی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فتوا دیا ہے
لیبیا کے شہر بن غازی میں مسلح افراد کے ایک گروہ نے ملعون امریکی پادری کی جانب سے بنائی اس فلم کے خلاف احتجاجاً امریکن قونصلیٹ پر بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی، جس فلم میں پیامبر گرامی اسلام ص کی شان اقدس میں گستاخی کی کوشش کی گئی ہے امریکی سفارت خانے پر حملے میں ایک امریکی شہری ہلاک ہوگیا۔ لیبیا میں مظاہرین ملعون امریکی پادری ٹیری جونز کے تعاون سے بننی والی ایک فلم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، جس میں اسلام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ مسلح مشتعل مظاہرین نے احتجاج کے دوران امریکی قونصلیٹ کو آگ لگا دی، جس سے ایک امریکی اہلکار ہلاک ہوگیا۔ امریکی قونصل خانے کے اہلکار کا کہنا تھا کہ انکی عمارت پر مسلح افراد نے بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ مظاہرین نے عمارت کو آگ بھی لگائی۔ اسی موقع پر مسلح گروپ اور سکیورٹی اہلکاروں میں شدید جھڑپیں بھی ہوئی
ادھر مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مظاہرین نے امریکی سفارت خانے پر دھوا بول دیا اور امریکی پرچم کو سفارت خانے کی عمارت سے اتار کرنظر آتش کردیا
ملی یکجہتی کونسل پاکستان صوبہ سندھ کا سربراہی اجلاس آج ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں منقعد کیا جا رہا ہے جس میں چالیس سے زائد مذہبی جماعتوں کے قائدین شرکت کریں گے ،تمام تر تیاریاں مکمل کر لی گئیںجبکہ سربراہی اجلاس میں سندھ میں ملی یکجہتی کونسل کی تنظیم سازی کے اہم امور انجام دئیے جائیں گے۔مولانا مرزا یوسف حسین
کراچی( )ملی یکجہتی کونسل پاکستان صوبہ سندھ کا سربراہی اجلاس آج ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں منقعد کیا جا رہا ہے جس میں چالیس سے زائد مذہبی جماعتوں کے قائدین شرکت کریں گے ،تمام تر تیاریاں مکمل کر لی گئیںجبکہ سربراہی اجلاس میں سندھ میں ملی یکجہتی کونسل کی تنظیم سازی کے اہم امور انجام دئیے جائیں گے۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما مولانا مرزا یوسف حسین نے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کیا ۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنما مولانا مرزا یوسف حسین کاکہنا تھا کہ ملی یکجہتی کونسل پاکستان صوبہ سندھ کے سربراہی اجلاس کے تمام تر انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی اور چالیس سے زائد مذہبی جماعتوں کو دعوت نامے دئیے گئے ہیں جن میں سے تمام مذہبی جماعتوں نے شرکت کی یقین دہانی کروائی ہے ان کاکہنا تھا کہ ملی یکجہتی کونسل پاکستان صوبہ سندھ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے اب تک جماعت اسلامی،جمعیت علماء پاکستان (سواد اعظم)،جمعیت علمائے اسلام (ف)،جمعیت علمائے اسلام (س)،جماعۃ الدعوۃ،تحریک منہاج القرآن،تنظیم العارفین،تنظیم فیضان اولیائ،اسلامی تحریک پاکستان،وفاق المدارس (شیعہ)،وفاق المدارس (العربیہ)،تنظیم المدارس،جعفریہ الائنس پاکستان،نظام مصطفی پارٹی،سنی تحریک پاکستان،متحدہ علماء محاذ،جمعیت اہل حدیث،جمعیت غرباء اہلحدیث،مرکزی جمعیت اہلحدیث،جماعت اہلحدیث،تحریک خلافت پاکستان،اتحاد علماء پاکستان،اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان،ھئیت آئمہ مساجد و علماء امامیہ،جامعہ بنوریہ العالمی کے مفتی محمد نعیم سمیت دیگر قائدین کو دعوت نامے دئیے گئے ہیں۔
گلگت میں امن و امان کی بحالی کے لئے کی جانے والی ہرکوشش کی حمایت کرتے ہیں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
اسلام آباد مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں امن کی بحالی اور مسلمانوں کے مابین اتحاد اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے لیے کی جانے والی کوششیں لائق تحسین ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان کوششوں کے نتیجے میں ہونے والے امن معاہدہ پر درست طریقے سے عمل درآمد یقینی بنائے ، ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے ایک پریس میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں امن معاہدوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب ہی حالات خراب ہوئے اب حکومت کو اس مجوزہ معاہدے پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کرانا ہو گا ، انہوں نے کہا کہ ہم آغا راحت الحسینی کی جانب سے امن کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلوں کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کا بھر پور ساتھ دیں گے ، ہماری آرزو ہے کہ مسلمان متحد ہوں ، گلگت بلتستان میں ایک بار پھر امن لوٹ آئے اور عوام اپنی روائتی دوستی اور آشتی کے ساتھ رہیں ، انہوں نے امن و امان کے حوالے سے جدو جہد کرنے والی تما م قوتوں کو خراج تحسین پیش کیا اور مجوزہ امن معاہدے کو ان کی محنت کا ثمر قرار دیا
تحریک منہاج القرآن کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے پارا چنار میں بم دھماکے کی شدید ترین مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانیت کے قاتل کسی رعائت کے مستحق نہیں، یہ اسلام اور پاکستان کے کھلے دشمن ہیں، ایسے عناصر انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی بدترین لہر پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس ناسور کے خاتمے کیلئے امن سے محبت رکھنے والوں کو دہشت گردی کے خلاف متحرک ہونا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سطحی اقدامات کی بجائے دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اور انتہائی سخت پالیسی بنائے اور مصلحتوں سے تائب ہو کر انسان نما درندوں کا سر کچل دے، جو آئے روز انسانی خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا تسلسل ملکی معیشت اور سلامتی دونوں کیلئے خطرناک ہے، اس لئے اس کے تسلسل کو ہر صورت روکنا ہو گا۔ انہوں نے پارا چنار بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کیلئے دعا کی اور لواحقین سے اظہار ہمدردی کیا ہے۔
قائد اعظم محمد على جناح کی زندگی
قائد اعظم محمد على جناح (25 دسمبر 1876ء - 11 ستمبر 1948ء) آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈر تھے جن کی قیادت میں پاکستان نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے۔ آغاز میں آپ انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہوئے اور مسلم ہندو اتحاد کے ہامی تھے۔ آپ ہی کی کوششوں سے 1916 میں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگرس میں معاہدہ ہوا۔ کانگرس سے اختلافات کی وجہ سے آپ نے کانگرس پارٹی چھوڑ دی اور مسلم لیگ کی قیادت میں شامل ہو گئے اور مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کئے۔ مسلم لیڈروں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے آپ انڈیا چھوڑ کر برطانیہ چلے کئے۔ بہت سے مسلمان رہنماؤں خصوصا علامہ اقبال کی کوششوں کی وجہ سے آپ واپس آئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنمبھالی۔ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی بیشتر نشستوں میں کامیابی حاصل کی۔ آخر کار برطانیہ کو مسلم لیگ کے مطالبہ پر راضی ہونا پڑا اور ایک علیحدہ مملکت کا خواب قائد اعظم محمد على جناح کی قیادت میں شرمندہ تعبیر ہوا۔
ابتدائی زندگی
آپ کراچی، سندھ میں وزیر منشن میں 25 دسمبر 1876 کو پید اہوئے۔ آپ کا نام محمد علی جناح بھائی رکھا گیا۔ آپ اپنے والد پونجا جناح کے سات بچوں میں سے سب سے بڑے تھے۔ آپ کے والد گجرات کے ایک مالدار تاجر تھے جو کہ کاٹھیاوار سے کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ آپ کا تعلق خوجہ خاندان سے تھا جو پہلے اسماعیلی شیعہ کہلاتے تھے لیکن بعد میں جس طرح اکثر خوجہ نے اسماعیلی سے شیعہ اثناعشری مذہب اپنایا آپ نے بھی اپنا مسلک تبدیل کرتے ہوئے شیعہ اثنا عشری مذہب اپنایا لیکن آپ مسالک و مذاہب سے بالاتر ہوکر سوچتے تھے آپ کی قیادت برصغیر کے تمام مسلمانوں کے لئے تھی
آپ نے باقاعدہ تعلیم کراچی مشن ہائی سکول سے حاصل کی۔
1887 کو آپ برطانیہ میں گراہم سپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں کام سیکھنے کے لئے گئے۔ برطانیہ جانے سے پہلے آپ کی شادی آپ کی ایک دور کی رشتہ دار ایمی بائی سے ہوئی جو کی آپ کے برطانیہ جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی وفات پا گئیں۔ لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ملازمت چھوڑ دی اور لنکن ان میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا اور 1896 میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت آپ نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔
انڈیا واپس آنے کے بعد آپ نے ممبئی میں وکالت شروع کی اور جلد ہی بہت نام کمایا۔
ابتدائی سیاسی زندگی
ہندوستان واپسی کے بعد جناح صاحب نے ممبئی میں قیام کیا۔ برطانیہ کی سیاسی زندگی سے متعثر ہو کر ان میں اپنے ملک کو بھی اس ہی روش پر بڑھتے ہوئے دیکھنے کی امنگ نمودار ہوئی۔ جناح صاحب ایک آزاد اور خود مختار ہندوستان چاہتے تھے۔ ان کی نظر میں آزادی کا صحیح راستہ قانونی اور آئینی ہتھیاروں کو استعمال کرنا تھا۔ اس لئے انہوں نے اس زمانے کی ان تحریکوں میں شمولیت اختیار کی جن کا فلسفہ ان کے خیالات کے متابق تھا۔ یعنی انڈین نیشنل کانگریس اور ہوم رول لیگ۔
اس ہی دوران میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک اہم جماعت بن کر سیاسی افق پر ابھرنے لگی۔ جناح صاحب نے مسلمانوں کی اس نمائندہ جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ جناح صاحب ہندوستان کی سیاسی اور سماجی اصلیتوں میں مذہب کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس بات کے قائل تھے کہ ملک کی ترقی کے لئے تمام تر لوگوں کو ملک مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس لئے انہوں نے ہندوستان کے دو بڑی اقوان یعبی ہندو اور مسلمان دونوں کو قریب لانے کی کوشش کی۔ جناح صاحب کی اس ہی کوشش کا نتیجہ 1916 کا معاہدہ لکھنؤ تھا۔
قائد اعظم محمد على جناح پاکستان کے بانی تھے-23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش ہوا جہاں سے پاکستان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔
قائدِ اعظم کے متعلق اہلِ نظر کی آراء
[ترمیم] علامہ شبیر احمد عثمانی
آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن اور ممتاز عالمِ دین جنہوں نے قائدِ اعظم کی دوسری بار نمازِ جنازہ پڑھائی۔ قائدِ اعظم کے متعلق فرماتے ہیں۔ "شہنشاہ اورنگزیب کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا جس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کو کامرانیوں میں بدل دیا ہو"۔
علامہ سید سلیمان ندوی
عظیم سیرت نگار، برِ صغیر پا ک و ہند کے معروف سیاستدان اور صحافی جناب سید سلیمان ندوی نے ١٩١٦ء میں مسلم لیگ کے لکھنئو اجلاس میں قائدِ اعظم کی شان میں یہ نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
اک زمانہ تھا کہ اسرار دروں مستور تھے
کوہ شملہ جن دنوں ہم پایہ سینا رہا
جبکہ داروئے وفا ہر دور کی درماں رہی
جبکہ ہر ناداں عطائی بو علی سینا رہا
جب ہمارے چارہ فرما زہر کہتے تھے اسے
جس پہ اب موقوف ساری قوم کا جینا رہا
بادہء حبِ وطن کچھ کیف پیدا کر سکے
دور میں یونہی اگر یہ ساغر و مینا رہا
ملتِ دل بریں کے گو اصلی قوا بیکار ہیں
گوش شنوا ہے نہ ہم میں دیدہء بینا رہا
ہر مریضِ قوم کے جینے کی ہے کچھ کچھ امید
ڈاکٹر اس کا اگر " مسٹر علی جینا" رہا
مولانا ظفر علی خان
"تاریخ ایسی مثالیں بہت کم پیش کر سکے گی کہ کسی لیڈر نے مجبور و محکوم ہوتے ہوئے انتہائی بے سرو سامانی اور مخالفت کی تندوتیز آندھیوں کے دوران دس برس کی قلیل مدت میں ایک مملکت بنا کر رکھ دی ہو" ۔
علامہ عنایت اللہ مشرقی
خا کسار تحریک کے بانی اور قائدِ اعظم کے انتہائی مخالف علامہ مشرقی نے قائد کی موت کا سن کر فرمایا - "اس کا عزم پایندہ و محکم تھا۔ وہ ایک جری اور بے باک سپاہی تھا، جو مخالفوں سے ٹکرانے میں کوئی باک محسوس نہ کرتا تھا"۔
لیاقت علی خان
پا کستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور قائد کے دیرینہ ساتھی نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا۔ "قا ئدِاعظم بر گزیدہ ترین ہستیوں میں سے تھے جو کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ تاریخ ان کا شمار عظیم ترین ہستیوں میں کرے گی"
رپورٹ: نزاکت حسین گلگتی
مرکزی خطیب جامع مسجد اہلسنت و الجماعت مولانا قاضی نثار احمد اور مرکزی خطیب جامع مسجد امامیہ اہل تشیع آغا راحت حسین الحسینی نے مشترکہ طور پر گلگت بلتستان کے اندر اور باہر جتنے بھی اجتماعی و انفرادی دہشتگردی کے سانحات اور واقعات رونما ہوئے ہیں ان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسالک اہلسنت و اہل تشیع اسلامی فرقے ہیں اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ اسلامی فریضہ ہے۔ لہٰذا مسلکی بنیادوں پر ایک دوسرے کو قتل کرنا غیر اسلامی اور غیر شرعی فعل ہے۔ اس بات کا اعلان دونوں خطباء نے پارلیمانی امن کمیٹی اور مساجد بورڈ کے زیراہتمام چنار باغ کے سبزہ زار میں ان کے اعزاز میں دی گئی ایک پروقار اور روح پرور تقریب میں کیا۔
تقریب میں وزیراعلٰی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ، اسپیکر قانون ساز اسمبلی وزیر بیگ، صوبائی وزراء، ممبران قانون ساز اسمبلی و کونسل، پارلیمانی امن کمیٹی اور مساجد بورڈ کے ممبران کے علاوہ اعلٰی سرکاری حکام نے شرکت کی۔ تقریب میں اسٹیج سیکریٹری کے فرائض رکن قانون ساز اسمبلی مولانا سرور شاہ نے انجام دیئے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امام جمعہ و الجماعت مرکزی جامع امامیہ مسجد گلگت علامہ سید راحت حسین الحسینی نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں توفیق دی ہے کہ ہم ملت کی بگڑی ہوئی حالت کو سنوارنے کیلئے اکھٹے ہوئے ہیں، تاکہ علاقے میں امن قائم ہوسکے اور ہر کوئی آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی فرائض سرانجام دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس پہلے بھی ہوتے رہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم مخلص ہو کر دو چیزوں پر عمل کریں تو امن قائم ہوسکتا ہے۔ تقویٰ اختیار کریں اور دوسرا عدل قائم کریں۔ یہ قانون صرف علماء کیلئے نہیں ہے بلکہ سب کیلئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج جو دہشتگردی اور انارکی پھیل رہی ہے وہ عدل نہ ہونے کی وجہ سے ہے، کوئی ملک کفر کے ساتھ تو چل سکتا ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا حکومت عدل قائم کرے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی گناہ کرتا ہے تو وہ اپنے اوپر ظلم کرتا ہے اور وہ کبھی عدل قائم نہیں کرسکتا۔ جو خود عادل ہوگا وہ معاشرے میں بھی عدل قائم کریگا۔ لہٰذا تمام بیوروکریسی اور حکومتی افراد تقویٰ اختیار کریں، تاکہ معاشرے میں عدل قائم ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ عدل یہ ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ اپنے دوسرے بھائی کیلئے بھی پسند کرو، پھر معاشرہ سدھر سکتا ہے۔ مذہب کے نام پر ظلم کرنا یا ناانصافی کرنا، یہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ظلم ہے اور ہمارا علاقہ اس وباء کا شکار ہے۔
علامہ سید راحت الحسینی نے کہا کہ ہم دنیا کو سنوارنے کیلئے آخرت کو برباد نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ حدیث رسول (ص) ہے کہ اگر کسی علاقے میں کسی کا قتل ہو تو وہاں کے تمام لوگ اس قتل میں شریک ہیں۔ آغا راحت نے کہا کہ مولا علی (ع) کو شدت عدل کی وجہ سے شہید کیا گیا۔ ہمارے حکمرانوں کو وہ خطبہ پڑھنا چاہیے جو انہوں نے مالک اشتر کو مصر کا گورنر بناتے وقت دیا تھا، یہ حکمرانوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ ہمیں روز آخرت سے ڈرنا چاہیے، یہ چند دن کی دنیا ہے، ہمیں اس کیلئے اپنی آخرت خراب نہیں کرنی چاہیے۔ 23 سال میں رسول خدا (ص) نے 7 لاکھ سے 70 لاکھ افراد کو مسلمان بنایا۔ رسول خدا نے خود کہا کہ میرے بعد 73 فرقے ہونگے، لہٰذا ہمیں آپس میں اتحاد و یگانگت سے رہنا چاہیے۔ مدینہ میں بھی اہل کفار رہتے تھے مگر رسول خدا (ص) نے ان کی حفاظت کی تھی، لہٰذا ہمیں سنت نبوی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
امام جمعہ و الجماعت مرکزی جامع امامیہ مسجد گلگت کا کہنا تھا کہ عدل کے ذریعے امن، خوشحالی اور ترقی ممکن ہے، عدل ہو تو دنیا جنت بن سکتی ہے۔ امام علی (ع) نے امام حسین (ع) کو وصیت کی کہ عدل قائم کرو، چاہے تم کسی بھی حالت میں ہو۔ اگر ہم دل، دماغ اور زبان سے ایک ہی بات کہیں اور اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو امن قائم ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضابطہ اخلاق 2012 پر میرے اور قاضی صاحب کے دستخط کے بعد ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ تمام فرقے عین اسلامی ہیں۔ ہمیں اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔ صحابہ(ر) اور آئمہ (ع) پر اتفاق اور دستخط کے بعد فساد کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو امن قائم ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضابطہ اخلاق 2012ء کے مطابق شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں۔ گلگت بلتستان میں جتنی بھی دہشتگردی ہوئی ہے، ان تمام واقعات کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔ ہمیں بحیثیت قوم مل کر دہشتگردی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی ثابت کرے کہ میں نے آج تک قتل کا فتویٰ دیا ہے یا ایک گولی خرید کر بھی دی ہے تو میں ابھی استعفٰی دیکر گھر جانے کو تیار ہوں۔ مجھے بہت دکھ ہوتا ہے جب کوئی قتل ہوتا ہے، چاہے وہ سنی ہو یا شیعہ۔ مجھے قتل کا فتویٰ دیکر اپنی آخرت کو خراب نہیں کرنا ہے۔ اس وقت پاکستان داخلی اور خارجی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، ہمیں مل کر ان بحرانوں پر قابو پانا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی خطیب جامع مسجد اہلسنت و الجماعت مولانا قاضی نثار احمد نے کہا کہ تلخ حالات کے بعد یہ موقع اللہ تعالٰی نے دیا ہے کہ ہم مل بیٹھ کر امن قائم کرسکیں۔ اس عظیم دین کو اللہ تعالٰی نے اپنے نبیوں کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس پر عمل پیرا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے لیکن شرک کبھی معاف نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالٰی نے ہمیں اسلام کی دولت سے نوازا ہے، بہت سی مشکلات سہنے کے بعد ہمیں یہ ملک ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج گلگت بلتستان پر PPP کی حکومت ہے اور PPP ایک تاریخ رکھتی ہے۔ انہوں نے تاریخی فیصلے کئے ہیں، چاہے وہ ختم نبوت کا قانون ہو یا جمعہ کی چھٹی اور میں امید رکھتا ہوں آئندہ بھی پی پی پی حکومت ایسے تاریخی فیصلے کرتی رہے گی۔ نواز شریف کو قوم کی بددعا اس لئے لگی تھی کہ انہوں نے جمعہ کی چھٹی ختم کی تھی۔ میں وزیراعلٰی سے کہتا ہوں کہ وہ جمعہ کی چھٹی کا اعلان کریں۔
انہوں نے کہا کہ میں ماضی میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ بدنام مذہبی گروہ ہی ہو رہا ہے۔ 2005ء کے بعد ہمیں گرفتار کیا گیا اور ایک امن معاہدہ ہوا، لیکن اس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ میں نے بارہا کہا کہ اس پر عملدرآمد کرائیں لیکن ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ معاہدے کی ایک شرعی اور اسلامی حیثیت ہوتی ہے لیکن انتظامیہ عمل کروانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ لہٰذا جو بھی حالات خراب ہوئے میں اس کی ذمہ داری نہیں لیتا کیونکہ میں نے اپنی حجت تمام کی تھی، ہمیں گلگت بلتستان کا امن عزیز ہے۔
میں نے کہا کہ امن معاہدے کے بعد ضابطہ اخلاق کی کیا ضرورت ہے، لیکن اس دفعہ کابینہ اور پارلیمانی امن کمیٹی نے یقین دہانی کروائی ہے کہ اس ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد ضرور ہوگا۔ امن کے لئے مجھے جہاں کہیں بھی بلایا جائے گا، میں جانے کیلئے تیار ہوں، لیکن حکومت اپنی رٹ قائم کرے اور میں علامہ راحت حسینی صاحب سے اتفاق کرتا ہوں کہ عدل ہونا چاہیے، تاکہ علاقے میں امن قائم ہوسکے، فورسز ناکام ہوچکی ہے اور میڈیا بھی اس کی تائید کرتا ہے، لہٰذا اس کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔
قاضی نثار نے کہا کہ میں نے ضابطہ اخلاق 2012ء پر دستخط کئے ہیں اور اس پر قائم ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ حکومت ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کروائے گی۔ میں نے بارہا خطبے میں بھی کہا ہے کہ معاہدوں پر عملدرآمد ہونا چاہیے، تاکہ علاقے میں امن قائم ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اور علامہ راحت حسینی صاحب نے اپنی ذمہ داری پوری کی۔ اب اگر حکومت عمل نہ کروا سکے تو یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ حکومتی نمائندے اور فورسز اپنے کردار کو نبھائیں، ہم اپنا کردار نبھا رہے ہیں، ہم نے ہمیشہ بڑے بھائی کا کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے، بہت ہی اچھا ہوتا کہ اس تقریب میں اسماعیلی ریجنل کونسل کو بھی دعوت دی جاتی تو بڑا اچھا ہوتا۔
مرکزی خطیب جامع مسجد اہلسنت و الجماعت نے کہا کہ میں علامہ راحت حسینی صاحب کی تائید کرتا ہوں کہ شیعہ شیعہ رہے اور سنی سنی ہی رہے، یہاں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں، اپنے عقیدے کو چھوڑیں نہیں اور دوسروں کے عقیدے کو چھیڑیں نہیں تو امن قائم ہوسکتا ہے۔ تمام مسالک شیعہ سنی اور اسماعیلی و نور بخشی آپس میں بھائی بھائی ہیں اور اسلامی فرقے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی قدر کرنی چاہیے، لہٰذا ان کا قتل غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے۔ گلگت بلتستان میں دہشتگردی کے جتنے واقعات ہوئے ہیں، میں ان تمام کی مذمت کرتا ہوں، بحیثیت قوم ہمیں مل کر حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا اور امن کیلئے یکجا ہو کر بحیثیت قوم آگے بڑھنا ہوگا