آئین کا تقدس

12 ستمبر 2014

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) آج کل آئین کے بارے میں ہر ایک اپنی اپنی رائے کا اظہار کررہاہے سوچا چلو ہم بھی طبع آزمائی کرتے ہیں تو معاملہ اتنا پیچیدہ نکلا کہ شروعات کرناہی مشکل ہوگیا ۱۹۷۳ سے شروع کررہا ہوں تو موجودہ لات لکھنا سمجھ نہیں آتا اگر حال سے شروع کرتا ہوں توآئین کے گذشتہ ادوار سمجھانا مشکل ہورہاتھا۔ خیر سوچاکہ چلوپہلے آئین تو سمجھیں کہ ہوتا کیاہے بہت غور کے بعد سمجھ میں آیا کہ شاید کسی ملک اور ملت کو چلانے کے لئے اداروں کے مابیں قوائد و ضوابط حقوق و فرائض کے مجموعہ کو آئین کہتے ہیں۔ویسے تو کسی بھی ملک کا آئین سمجھنے کیلئے مندرجہ ذیل کے نظام کو سمجھنا پڑتاہے۔
۱۔ پارلیمینٹ کا نظام ۔ ۲۔ وفاق کا نظام۔ ۳۔ نظریہ 


اب سوال پاکستان کے آئین کا ہے تو یہ وہ ڈاکیومینٹ ہے جس کو ۱۹۷۳ میں بنایا گیا جس کی تھوڑی سی تاریخ یہاں بیان کرنا ضروری ہے ۔

پہلی دستور ساز اسمبلی ۲۶ جولائی ۱۹۴۷ میں وجود میں آئی جس کا پہلا اجلاس ۱۰ اگست ۱۹۴۷ میں ہوا فقط دو رپوٹس ہی پیش کیں تھیں کہ اس کو ۱۹۵۴میں توڑ ا گیا۔اس کے بعد ۱۹۵۶ میں دستور پیش کیا گیا ۔ پھر ۱۹۶۲ میں عبوری دستور پیش کیا گیا ۔پھر ۱۹۷۲ میں عبوری دستور اسمبلی سے پاس کرایا گیا ۔ جو ۹ یا دس مہینے چلا ۔ اس کے بعد دستوری کمیٹی نے ۱۰ ۱پریل ۱۹۷۳ کو اسمبلی میں آئین پیش کیا جو منظور ہوا جس میں ۷۰ کی دہائی میں ۳۴ ترمیم کی گئیں ۱۰ اسمبلی کے ذریعے اور ۲۴ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ۔بعدازاں ہونے والی ترامیم کے نتیجے میں آئیں میں صدر کو اختیار تھا کہ وہ اسمبلی کو توڑ سکتا ہے ۔ اس اختیار کو ۱۹۸۸ سے ۱۹۹۶ تک چار مرتبہ استعمال کیا گیا ۸ مئی ۱۹۷۴ سے ۱۶ مئی ۱۹۷۷ تک ۔ یہ سب ترامیم اسی اسمبلی نے کیں جس نے یہ آئین بنایا تھا۔اس کے بعد ضیاء الحق کو سپریم کورٹ نے محدود پیمانے پر صدارتی آرڈر کے ذریعے ترامیم کرنے کا اختیار دیا۔ جس سے فیبر وری ۱۹۷۹ سے ۱۹۸۵ تک آئین میں ایسی ترامیم کی گئیں کہ آئین کی اصل شکل ہی تبدیل کردی۔ دوسرے لفظوں میں آئین کی روح تک کو زخمی کیا گیا۔


اور اس کے بعد کی کی گئیں ترامیم بھی آئین کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہیں جس میں ۱۹۷۴ سے ۲۰۱۲ تک کی ۲۰ کی ۲۰ ترامیم ثبوت کے طور پر ہیش کی جاسکتی ہیں سوائے چند ایک کے۔اور ان ترامیم کی وجہ سے سینکڑوں آئین کے آرٹیکلس متاثرہوئے ہیں جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہےاور آئین مین غیر آئینی تبدیلیاں کی گئیں اور وہ بھی اسمبلیوں کے ذریعے اور چونکہ ماضی کی مسلسل مارشلاء کی وجہ سے آئین نے ہمیشہ مرکز کو یعنی وزیراعظم کو مظبوط کرنے والی شقوں کو سامنے رکھا ہے اور کبھی بھی نظریاتی ،عدالتی اور عوامی بہتری کا نہیں سوچا گیا ۔اس کے علاوہ مرکزی سیاسی قائدین میں خوداعتمادی ، فکری اورتعلیمی کمی رہی ۔اس کی مثالیں عام طور سے دیکھی جاسکتی ہیں کہ بدقسمتی سے اسمبلیوں میں انگوٹھا چھاپ وزیر تعلیم ، جن کو دس پڑوسی اسلامی ممالک کا نام تک نہ آتاہو وہ وزیر خارجہ،جو بیوروکریٹ سے بجٹ بنوائے وہ وزیر خزانہ، جس کو سورہ اخلاص نہ آئے وہ ماہر قانون جیسے نظارے اسمبلیوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔اور یہی لوگ جمھوریت کا راگ الاپتے ہیں اور ہمارے لئے مقدس اور غیر مقدس کا فیصلہ کرتے ہیں۔جبکہ ان کی تمام وزارتیں بیوروکریٹس ہی چلاتے ہیں۔اور اسمبلیوں میں انہی بیوروکریٹس کا لکھا پڑھ کر وزیر سناتے ہیں۔


جب دستور بنا تو کہا گیا تھا کہ سات سال کے اندر دستور کے سارے قوانین کو اسلای تعلیمات کی روشنی میں اسلامی احکام سے ہم آہنگ اور روشناس کرایا جائے گا جو اس دستور کا نظریاتی منبع ہے۔لیکن آج تک دستور میں کی گئی تمام ترامیم حکمرانوں نے اپنے اختیار اور مفاد کی خاطر کیں عوامی سہولیات کی ایک بھی ترمیم نہیں دکھائی جاسکتی ہے جس کی وجہ سے آئین کا حلیہ بگڑ کر رہ گیا ہے ۔



آج عوام پہلی مرتبہ اپنے حقوق کی خاطر ان مفاد پرست ایوانوں کے مدمقابل آیاہے تو تمام با اختیار اشرافیہ طبقہ ایک ساتھ ہوکر اپنے مفاد کی خاطر آئین اور پارلیمینٹ کا سہارا لے کر عوام کو پھر سے حقوق سے محروم کرنے پر یکجا ہو گیا ہے چاہے اس کا تعلق حزب اقتدار سے ہو یا حزب اختلاف سے ہے۔
اور آئین نے عدالتوں کو تنازعہ وحدتوں یاوحدت کے درمیان ثالث کا کردار دیا ہے لیکن جب عدالتوں پر بھی سوالیہ نشان بننے لگے ۔تو محروم طبقے کی ذمیداریاں بڑھ جاتی ہیں لیکن محروم طبقہ اب بھی منتشر نظر آرہا ہے جبکہ ان کو اپنے حقوق کے لئے بااختیار طبقہ سے زیادہ متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ آئینی حقوق حاصل کرسکیں۔فیصلہ آپ کریں کہ آئین اور پارلیمینٹ کا تقدس عوام نے پامال کیا یا اسمبلیوں میں بیٹھ کر آئین اور پارلیمینٹ کی گردان کرنے والوں نے۔



تحریر:عبداللہ مطہری



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree