وحدت نیوز (آرٹیکل) سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ ہے حالانکہ سلیکشن اسی دن ہوگئی تھی جس دن خائن ممبران نے اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنے مفاد میں بل پاس کیا جس کو کورٹ میں چیلینج کیا گیا جس کے بعد اسی سے ملتا جلتا بل پاس کرکے دیا گیا اور پھر اسی کے تحت الیکشن کی تیاریاں کی جانے لگی دوسرا مرحلہ حلقہ بندی کا تھاجس طرح وہ سرانجام دیا گیا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپانہیں اگر فقط ان دومراحل کی تفصیل لکھی جائے تو ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔بحرحال تیسرا مرحلہ الیکشن کمیشن کا ہے جو کہ اس وقت درپیش ہے جس میں ریٹرنگ آفیسر پہلے عدالتی افسران(جج) ہوتے تھے تب بھی یہ سیاسی آقا اپنی مرضی چلاتے تھے اب تو ان کے سامنے دن رات ہاتھ باندھ کرکھڑے ہونے والے لوگوں کو ریٹرننگ آفیسر بنایا گیا ہے جو بیچارے حکومتی آقاؤں کے سامنے لب ہلانے کی توفیق بھی نہیں رکھتے وہ بھلاکیا آر، او، کا غیر جانبدارانہ کردار اداکریں گے ان ریٹرننگ افسران کو معلوم ہے کہ چار دن کی یہ افسری ہے اس کے بعد یہی حکمران ہونگے لہٰذا جتنے اس دوران ان سے اچھے تعلقات بنا سکتے ہیں بنالو ۔ کہتے ہیں کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انصاف ہوتاہوانظر آئے مگریہاں کاتومنظرہی عجیب ہے صبح سے الیکشن لڑنے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے لائن میں کھڑے محلوں کے معزز بیچارے کبھی بجلی کے بل کی فوٹوکاپی لارہے تھے توکبھی گیس کے بل کی کبھی کسی اعتراض کو ختم کرنے کی کوشش کررہے تھے تو کبھی کسی اعتراض کورفع کرنے کے لئے رکشہ یا موٹر سائیکل پرسندھ کے رہنے والوں کی قسمت کی طرح پسینے پسینے دوڑدھوپ میں لگے ہوئے تھے اور آر،او، صاحب تھے کہ جیسے آج ہی ان کو پورے شہر میں دوڑا کرہی رہیں گے بعد میں پتا چلا کہ ان آر ، اوز کو مخصوص نام دیئے گئے تھے کہ ان کے فارم ہی نہیں لینے اور ایسا ہی ہوا بہت سے لوگوں کے فارم رات بارہ بجے تک نہیں بھرے جاسکے۔
دوسری طرف حکومتی آقاؤں کے فارم بھرنے کا انداز ہی نرالا تھا ان کے امید وار ایک شان حکمرانی سے آتے اور آتے ہی کہیں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں تو کہیں تعلقے کے کسی بڑے افسر کے ایئرکنڈیشن روم میں اپنے فل پروٹوکول سے بیٹھ جاتے اور چائے پانی کے بعد ایم این اے یا ایم پی اے اور پولیس کے پروٹوکول کے ساتھ ان کے وکیل یا کوئی دوسرا شخص ریٹرننگ آفیسر کو ان کے کاغذات نامزدگی دیتا اور امیدوار شان بے نیازی سے ریٹرننگ افسر کے سامنے بیٹھے مسکراتے رہے ریٹرننگ آفیسر نہایت ہی عقیدت و احترام سے کاغذات نامزدگی جمع کرکے خوشامندانہ انداز میں ان حکومتی آقاؤں کو الوداع کرتا اسی مرحلے پر باقی امیدواران کی شان و شوکت کو دیکھ کر شرمندہ ہو جاتے اور ان کو اپنی اوقات یاد آجاتی اور ان کو بلدیاتی الیکشن کا نتیجہ صاف نظرآنے لگ جاتا اور آقاؤں کے ساتھ ان کے چمچے ان باقی امیدواروں کو لائن میں کھڑا دیکھ کر ان پر حقارت کی نظر ڈالتے ہوئے طنزیہ اندازمیں مسکراتے گذر جاتے جبکہ ان کے چمچوں کا تعلق بھی اسی لائن میں کھڑے
لوگوں کے طبقے سے ہے اسی لئے چھوٹے آقاؤں نے بھی بڑے آقاؤں کی طرح کسی سیاسی چمچے کے بجائے بلدیاتی الیکشن میں اپنے ہی بیٹوں کو میدان میں اتارا ہے اور اس بات سے چمچے بے خبر اور بے پرواہ ہیں کہ جمہوریت کے نام پر انھوں نے مورثی حکمرانی کو قائم کردیا ہے مگرصرف ان آقاؤں کے جئے جئے کے نعرے لگانے نے ان کو بھی تھوڑی بہت جھوٹی ہی سہی مگر شان و شوکت عطا کی ہے جس پر وہ اِترارہے ہیں اور یہ لوگ پوری قوم بیچنے کے لئے بخوشی تیار ہوگئے ہیں اس حالت کودیکھ کر الیکشن کمیشن کے کردار سے لے کر نتیجے تک کے حالات سمجھ میں آگئے بزرگ کہتے ہیں کہ کسی کاانجام سمجھنا ہو تواس کی ابتد ا کودیکھ لیں۔
ہمارا تعلق شاید معاشرے کے اس طبقے سے ہے جس کی آنکھیں ماضی میں ہمیشہ آزادی کے خواب دیکھتی رہتی تھیں، خوش قسمتی سے ایک غلامی سے آزادی ملتی تھی تو دوسری غلامی کی زنجیریں ہمارے لئے آزادی کے عنوان سے پہلے سے ہی تیار ہوتی تھیں شاید اس لئے ہماری اس نسل نے اس کا خوبصورت حل نکال لیا ہے اور نئی غلامی سے بچنے کے لئے پہلی غلامی کہ جس سے یہ مانوس ہیں سے نکلنا ہی نہیں چاہتے اور نہ ہی اسے ناپسند کرتے ہیں جس غلامی میں ہمیں ہمارے آقا رکھتے ہیں اس میں خوشی سے نہ صرف رہتے ہیں بلکہ اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں بقول شاعر
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
کہ رہائی ملی تو مرجائیں گے
اس سے غلاموں کو کوئی سروکارنہیں کہ ان کے آقاؤں کی حکومت میں لوگوں کو پانی مل رہا ہے یا نہیں ، پیٹ بھر کھانا میسر ہے یا نہیں ، سر پر چھت ہے کہ نہیں ، بجلی ہو یا نہ ہو ،جان اور مال کی حفاظت ہے یانہیں، ملک ترقی کررہا ہے یا تباہ ہورہاہے ، صحت ،تعلیم ، روڈ راستے ،کاروبار، عدالتیں ، ملکی وعوامی حفاظتی ادارے کس حال میں ہیں ان سے بے پرواہ یہ صرف یہ دیکھ کر پھولے نہیں سماتے کہ ہمارے آقا کا پانی فرانس سے آتاہے، ہمارے آقاؤں کے دسترخوان پر ستر قسم کے کھانے سجتے ہیں ، ہمارے آقاؤں کے محلات کوروشن کرنے کے لئے اربوں روپیہ کے پاورجنریٹر پلانٹ لگائے جاتے ہیں ،آقا کی حفاظت کے لئے ہزاروں محافظ پورے شہر میں ایک اشارہ ابروپر پھیل جاتے ہیں اور آقا ایک جم غفیر کے جھرمٹ میں ہمیں کہیں دیدار کرا دیتا ہے جس کے قصے یہ مرچ مسالہ لگاکر بڑی شان سے سنا کر اپنے دوستوں کو مرعوب کرتے ہیں اور ان آقاؤں کا سارا روپیہ پیسہ فارن اکاٗونٹس میں محفوظ ہے،غلام خوش ہیں کہ ملک میں ہمارے ہی آقاؤں کی حکومت ہے ، آقاکو اگر چھینک بھی آتی ہے تو دنیا کے بڑے بڑے ڈاکٹر آجاتے ہیں ،آقاکی اولادیں جو کہ مستقبل میں ہمارے نئے آقا ہونگے فارن کی بڑی بڑی یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ہم پر فن حکمرانی سیکھ رہے ہیں ،آقا کا محل اگر ویرانوں میں بھی بنتاہے تو وہاں اتنے بڑے ڈبل روڈ بنتے ہیں کہ جس کے سامنے ہماری قومی شاہراہیں بھی شرماتی ہیں ، ان کے کاروبار دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جن کو محفوظ بنانے کے لئے ہماری قومی اسمبلیاں دیگر ادارے روزانہ کی بنیاد پر قانون سازی کے فرائض انجام دے رہی ہین ، علالتیں ان کے احترام میں سزاوجزا کا فیصلہ صادرفرماتیں ہیں ، ملکی و عوامی حفاظتی ادارے ان کے ایک اشارے پر ہروقت مستعد نظر آتے ہیں ۔
اب ایسا آقاچھوڑ کر کسی فقیر صفت درویش ، انسان دوست ، سادگی پسند ، عادل شخص کو اپنا آقا ماننے کو دل ہی نہیں کرتا بلکہ اگر ایسا کہیں ماضی یا حال میں کہیں نظر آبھی جائے تو اسے اپنے ذہن کے مخصوص خانے میں سجاکر اپنے اسی جاہ جلال والے آقا کی پوجا میں مصروف ہوجاتے ہیں اور سیاست خبیثہ کو سرانجام دینے والے سیاست دانون کی طرح اسے فقط نعروں اور تقاریر میں استعمال کرتے ہیں اور نگاہوں میں اپنے اسی حاکم آقاکو رکھتے ہیں۔
ان حالات میں ایسے فرعون صفت آقاؤں سے الیکشن لڑنے کے لئے فقط فارم بھرنا ہی ابابیل کی چونچ میں نمرود کی لگائی آگ کو بجھانے کی کوشش کی یاد تازہ کرانے کا عملی مظاہرہ ہے۔لائق درود و سلام ہیں وہ لوگ جو ان کے سامنے مقابلے کے لئے آئے ہیں اور ان کے اختیار اور دولت کو اپنے کردار کی پختگی سے شرمندہ کر دیتے ہیں میرے نزدیک ان کے سامنے فارم بھرنا ہی باکردار لوگوں کی جیت ہے ، اور یہی ہار ہے بد کردار لوگوں کی باقی الیکشن کے نتائج ہم نے بلدیاتی الیکشن کے بل پاس ہونے ، حلقہ بندیوں سے لیکر فارم بھرنے تک کے طریقہ کارسے ہی سمجھ لیا ہے کہ ووٹ سے زیادہ انجنیئرڈ دھاندلی ہی اس الیکشن میں جیت کی ضمانت ہے ایک سوال عدل کے ایوانوں سے کہ کیا آپ اس کو انصاف کہتے ہیں یا آپ بھی اسی پر راضی ہیں ۔
تحریر ۔۔۔۔۔عبداللہ مطہری