وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک)ایران میں اسلامی انقلابی کی کامیابی کو تیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ انقلاب درحقیقت ایک انتہائی مبارک اور خدائی واقعہ تھا جس نے بیسویں صدی کے آخر میں دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں اور مستضعفین کے دلوں میں امید کی کرن پیدا کر دی۔ آج اس امید بخش شجرہ طیبہ کی عمر کے تین عشرے گزر جانے کے بعد اچھی بات ہے کہ ہم اس کے چند ثمرات کی یادآوری کریں تاکہ اس عظیم نعمت کی قدر کو جانتے ہوئے خداوند متعال کے حضور شکرگزاری کی توفیق حاصل کر سکیں۔ اس عظیم اسلامی انقلاب نے ایران کی اندرونی سطح اور اسی طرح دنیا بھر میں بہت گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس خدائی معجزے کے تمام ثمرات اور مبارک اثرات کا احاطہ تقریبا ناممکن نظر آتا ہے لیکن اس تحریر میں محدود حد تک ان ثمرات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سیاسی میدان میں انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات:
1. سیاست داخلہ:
الف۔ نظریہ ولایت فقیہ کی بنیاد پر اسلام کی حاکمیت کا قیام:
الہی ادیان کا بنیادی اور حقیقی مقصد توحید کی بنیاد پر کفر، شرک اور الحاد سے مقابلے کی دعوت کے ذریعے انسان کو ترقی اور کمال کے مراحل سے گزارنا ہے۔ عالمی استعماری قوتوں نے محروم انسانوں کی لوٹ مار کی خاطر "دین سے سیاست کی جدائی" کا نعرہ بلند کیا اور اس منحوس سازش کے ذریعے اسلامی معاشروں کے نظریاتی، ثقافتی، دینی اور قومی امور پر تسلط پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسلامی دنیا میں موجود عظیم قدرتی ذخائرکی لوٹ مار میں مصروف ہو گئیں۔ دوسری طرف ان شیطانی قوتوں کی جانب سے اسلامی معاشروں کے اندر بے چارگی اور مایوسی کے احساس کو فروغ دیا گیا۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی نے ان ہرزہ سرائیوں کا خاتمہ کر دیا اور اسلام کو عالمی سطح پر ایک فعال اور منظم تحریک کی شکل دی دے۔
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے اپنے الہی قیام کے دوران صرف غاصب اور اسلام دشمن حکومتوں کا مقابلہ کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر الہی حاکمیت کے قیام کی خاطر ولایت فقیہ جیسا مقدس نظریہ پیش کرتے ہوئے اسلامی معاشرے کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس طرح سے ایک دینی سیاسی قیادت کا بے مثال نمونہ پیش کیا اور عالم اسلام کے مخدوش چہرے کی اصلاح فرماتے ہوئے عالم اسلام اور تیسری دنیا کے ممالک پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کئے۔
ب۔ ایران میں اڑھائی ہزار سال پرانی شہنشائیت پر مبنی آمریت کا خاتمہ:
انقلاب سے پہلے ایران میں شہنشاہی نظام حکومت حکمفرما تھا۔ اس دور میں ایرانی بادشاہ اس شہنشاہی نظام کے تاریخی اور قدیمی ہونے پر ناز کرتے تھے جیسا کہ پہلوی خاندان بھی بڑے فخر سے خود کو تاریخی بادشاہی نظام کا وارث قرار دیتا تھا۔ پہلوی خاندان نے ملک سے اسلامی تہذیب و تمدن کے خاتمے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور مظلوم ایرانی قوم کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والی دولت کا بڑا حصہ ایران میں اسلامی ثقافت کی جگہ شہنشاہی ثقافت کو متعارف کروانے میں خرچ کر ڈالا۔ اس مقصد کی خاطر پہلوی خاندان کی جانب سے ہر سال کئی بڑے جشن منعقد کئے جاتے تھے جن میں سب سے زیادہ معروف اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کی سالگرہ کا جشن ہوا کرتا تھا۔ اس جشن میں حد درجہ فحاشی اور بے حیائی کے مناظر دیکھنے کو ملتے تھے۔ اس کے علاوہ محمد رضا شاہ پہلوی نے ملک میں رائج ہجری تاریخ کو بھی تبدیل کر کے شہنشاہی تاریخ کو نافذ کر دیا۔ اسی طرح ملک کی معروف جگہوں کے اسلامی نام بھی تبدیل کر دیئے گئے اور آئین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرتے ہوئے غیراسلامی قوانین کو شامل کیا گیا۔ ان تمام اقدامات کا مقصد ملک سے اسلام اور اسلامی آثار کا خاتمہ تھا۔
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اپنی ایک تقریر میں ایرانی قوم کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا:
"میں ایرانی قوم کو اس حاصل ہونے والی کامیابی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے اڑھائی ہزار سالہ شہنشائیت کو اپنی عظیم ہمت اور جدوجہد اور ایمان راسخ کی بدولت سرنگون کر دیا ہے اور اس کے حامیوں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی"۔
ج۔ ملکی امور میں عوام کی سیاسی مشارکت اور ان کے سیاسی شعور میں اضافہ:
جن معاشروں میں نیا نیا انقلاب آتا ہے وہاں انقلاب کی کامیابی کے کچھ ہی ماہ بعد ملکی سطح پر آزادانہ انتخابات برگزار کروانا معمول کی بات نہیں کیونکہ یہ خوف موجود ہوتا ہے کہ کہیں عالم سطح پر انجام پانے والی سازشوں کے نتیجے میں انٹی انقلاب عناصر برسراقتدار نہ آ جائیں یا عالمی استعماری قوتیں اس کو بہانہ بناتے ہوئے اسے فوجی حملے کا نشانہ نہ بنا ڈالیں۔ لیکن ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے صرف دو ماہ بعد ہی امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے ملک میں آئندہ نظام حکومت کے بارے میں آزاد ریفرنڈم برگزار کروانے کا دستور صادر کر دیا کیونکہ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ اپنی عوام کو بہت اچھی طرح جانتے تھے اور انہیں پورا یقین تھا کہ ایران کے انقلابی عوام اسلامی جمہوریہ کے حق میں ہی ووٹ دیں گے۔ اس ریفرنڈم کے بعد اب تک ایران میں دسیوں انتخابات منعقد ہو چکے ہیں جو ایران میں حکمفرما اسلامی نظام کی جمہوریت کی واضح دلیل ہیں۔ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ اپنی ایک تقریر میں انقلاب اسلامی کے اس عظیم ثمرے کے بارے میں فرماتے ہیں:
"وہ نورانی نکتہ جو عمر کے اس آخری حصے میں میرے لئے بہت امید بخش ہے جوان نسل میں پائی جانے والی یہی بیداری اور شعور ہے جس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے"۔
د۔ خودمختاری اور آزادی کا حصول:
دنیا میں مسلمانوں کی پسماندگی اور بدحالی کی حقیقی وجہ مسلم حکمرانوں کی جانب سے عالمی استکبار سے وابستگی اور کاسہ لیسی ہے اور اس مسئلہ کا واحد حل خودمختاری کا حصول ہے۔ جس طرح ہر انسان اپنی خودمختاری کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور اس کی نسبت بہت زیادہ حساس ہوتا ہے اسی طرح ایک معاشرے کیلئے بھی خودمختاری کا مسئلہ کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا کے سیاسی نقشے پر ایک سرسری نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ممالک حکمران اور کمانڈر کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ بعض دوسرے ممالک کی حیثیت ایک مطیع نوکر سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ ایران میں بھی اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے یہی صورتحال تھی۔
مغربی دنیا بالخصوص امریکہ ایران کے قدرتی وسائل کو لوٹنے میں مصروف تھا اور کئی اعتبار سے اس ملک کو اپنی ایک کالونی میں تبدیل کر چکا تھا۔ ایرانی حکومت مکمل طور پر امریکہ کی کٹھ پتلی بن چکی تھی اور ہر کام اس کے اشاروں پر انجام دیتی تھی۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ ایرانی شاہ محمد رضا پہلوی جب کسی اہم میٹنگ میں شرکت کیلئے تیار ہوتا تھا تو لباس کے انتخاب میں بھی امریکی سفیر کو فون کر کے اس سے مشورت کرتا تھا۔ لیکن جب ایرانی قوم نے فیصلہ کر لیا کہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرے گی اور بلند ہمتی اور مردانگی کے ذریعے غلامی کی ان زنجیروں کو پارہ کر دے گی تو امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی سربراہی میں اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا اور آخرکار سیاسی، اقتصادی، علمی، ثقافتی اور نظریاتی خودمختاری حاصل کر کے ہی دم لیا۔ اب ایران اپنے فیصلوں میں آزاد ہے اور کسی کا پٹھو بننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
2. سیاست خارجہ:
الف۔ لا شرقیہ و لا غربیہ پر مبنی اصول:
اسلامی جمہوریہ ایران کی سیاست خارجہ پر حکمفرما ایک مسلم اور ناقابل تردید اصول جو اس ملک کے آئین میں بھی واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے "نہ شرقی اور نہ غربی" ہے۔ ایک ایسے وقت جب دنیا دو بڑے بلاکس یعنی مغربی بلاک اور مشرقی بلاک میں تقسیم ہو چکی تھی اور ایرانی شاہ محمد رضا پہلوی بھی مشرق وسطی میں امریکہ کا ایک اہم مہرہ ہونے کے ناطے مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی جارحانہ اور تسلط پسندانہ پالیسیوں کو اجراء کرنے میں مصروف تھا اور دوسرے اسلامی ممالک اور تیسری دنیا کے ممالک بھی دنیا پر حکمفرما دو بڑی طاقتوں یعنی مشرقی یا مغربی بلاک میں سے کسی ایک کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے پر مجبور تھے، انقلاب اسلامی ایران نے اس حساس موقع پر لا شرقیہ و لا غربیہ کے اصول پر عمل پیرا ہو کر دنیا پر حکمفرما تسلط پسندانہ نظام پر کاری ضرب لگائی اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں پہاڑ کی مانند استواری سے آن کھڑا ہوا اور اپنی خودمختاری پر آنچ نہ آنے دی۔ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ اس سنہری اصول کے بارے میں فرماتے ہیں:
"ہم نہ امریکہ کی سرپرستی میں ہیں، نہ سوویت یونین کی سرپرستی میں ہیں اور نہ ہی کسی اور طاقت کی سرپرستی میں۔ آپ لوگ جس چیز کے طالب تھے وہ اسلامی جمہوریہ کا قیام تھا۔ آپ لوگ جس چیز کے طالب تھے نہ مشرقی تھی اور نہ ہی مغربی۔ یہ ثمرہ ہے، اس کی حفاظت کریں"۔
ب۔ امریکہ کی تذلیل:
انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے اور اس کے بعد ایرانی عوام پر امریکی مظالم اور ان کے خلاف امریکہ کے مجرمانہ اقدامات اس قدر زیادہ اور سنگین تھے کہ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ امریکہ کو "شیطان بزرگ" کے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اس سفید ہاتھی اور استکباری طاقت کے خلاف ھمہ جہت مقابلہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سیاست خارجہ کا ایک مسلم اور ہمیشگی اصول رہا ہے۔ گذشتہ نصف صدی کے دوران کسی واقعہ نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی جتنا بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی عزت اور حیثیت پر کاری ضرب نہیں لگائی ہے۔ محمد رضا پہلوی جو خطے میں امریکی مفادات کا مدافع اور محافظ جانا جاتا تھا کی سرنگونی، ایران سے دسیوں ہزار امریکی ورکرز اور مختلف شعبوں میں متخصصین کا اخراج، ایران کی جانب سے سینٹو معاہدے کو ترک کیا جانا جو سو فیصد امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے تشکیل پایا تھا، تہران میں امریکی سفارتخانے جو ایران میں امریکی جاسوسی کا اڈہ بن چکا تھا پر ایرانی انقلابی اسٹوڈنٹس کا قبضہ اور سفارت کاروں کے روپ میں امریکی جاسوسوں کی گرفتاری اور ایسے ہی دسیوں واقعات جن میں سے ہر واقعہ امریکہ کی تذلیل اور تحقیر کیلئے کافی جانا جاتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسیوں کا ایک اور اہم محور اسرائیل کے وجود کو ناجائز اور غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ ہر قسم کے امن مذاکرات کو مسترد کرنا اور اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم جسے مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ کی مکمل اور بے چون و چرا حمایت حاصل ہے، کے خاتمے تک اس کے خلاف مسلح جدوجہد کو مکمل طور پر جائز اور قانونی قرار دینا ہے۔ یہ اصول اس قدر اہم ہے کہ حتی ایرانی کھلاڑی بھی تمام بین الاقوامی مقابلوں میں اسرائیل کے کھلاڑی سے آمنا سامنا نہیں کرتے۔ امریکہ کی جانب سے انقلاب اسلامی ایران کے خلاف کھلم کھلا دشمنانہ اقدامات ایران کی انہیں پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ایران کی خارجہ پالیسیوں پر اسلامی انقلاب کا ایک اور اثر ایران کی جانب سے نان الائنڈ موومنٹ کے اعضاء ممالک کی جانب جھکاو اور دنیا میں آزادی خواہ تحریکوں کی حمایت کا اعلان ہے۔
ثقافتی میدان میں انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات:
1. مغربی ثقافتی اقدار کی نفی اور ثقافتی یلغار کا مقابلہ:
جدید استعمار نے تیسری دنیا کے ممالک میں موجود قدرتی وسائل کی لوٹ مار کیلئے اپنے جدید ہتھکنڈوں کی بنیاد دنیا پر ثقافتی تسلط پر استوار رکھی ہے۔ لہذا اس مقصد کیلئے مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انتہائی منظم اور منصوبہ بندی کے تحت ثقافتی یلغار کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ مغربی سازشوں کے تحت شروع کی گئی اس ثقافتی یلغار کا مقصد بنیادی مسلمانوں کو ان کی حقیقی اسلامی ثقافت سے بیگانہ کرتے ہوئے مسلم دنیا پر اپنا ثقافتی تسلط قائم کرنا ہے۔ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے مسلمانوں کی پسماندگی کی وجوہات کو صحیح معنوں میں درک کرتے ہوئے انہیں اس طرح مخاطب قرار دیا تھا:
"ہمارے معاشرے کے بعض افراد اس قدر مغرب کے فریفتہ ہو گئے ہیں کہ گویا دنیا میں مغرب کے علاوہ کچھ اور موجود ہی نہیں۔ مغرب کے ساتھ یہ ذہنی، فکری اور عقلی وابستگی دنیا کی اقوام اور ہماری قوم کو درپیش اکثر مشکلات کا حقیقی منشاء ہے"۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسلامی ثقافت اور اسلامی اقدار کے احیاء پر خاص توجہ دی گئی اور ملک کے تعلیمی مراکز کے علاوہ مختلف قسم کے ذرائع ابلاغ جیسے ٹی وی، ریڈیو، اخبار، مجلات اور حتی سنما، تھیٹر اور دوسرے ثقافتی اور آرٹسٹک شعبوں کو معاشرے میں اسلامی ثقافت کے فروغ کیلئے بروئے کار لایا گیا۔ مغربی ثقافتی یلغار سے مقابلے کا ایک انتہائی واضح مصداق ایران میں معاشرتی انصاف کے تحقق کی کوششیں تھیں۔ عالمی سطح پر سرگرم ملٹی نیشنل کمپنیز ایران کی دولت اور قدرتی وسائل کی لوٹ مار میں مصروف تھیں اور ایران کے اندر موجود سستی افرادی قوت اور خام مال کو استعمال کرتے ہوئے بڑی سطح پر سود کما رہی تھیں جبکہ دوسری طرف پورے ملک میں ایرانی عوام غربت، افلاس، تنگدستی اور معاشی مشکلات میں ہاتھ پاوں مار رہے تھے۔ جبکہ ملک کے اندر موجود قلیل تعداد میں بڑے بڑے سرمایہ دار اور سیٹھ حضرات بھی عالمی طاغوتی کا حصہ بننے کے بعد بے حسی کا شکار ہو چکے تھے۔ اس وقت کا ایران سرمایہ دارانہ نظام کا شکار ہو کر رہ گیا تھا۔
اس میدان میں انقلاب اسلامی ایران کا ثمرہ معاشرتی برتری کے معیاروں میں بنیادی تبدیلیوں کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس طرح کہ پہلے جو حیثیت اقتصادی اور معاشی برتری کو حاصل تھی اس کی جگہ انسانی اقدار اور تقوی نے لے لی۔ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے بارہا اور بارہا معاشرے کے محروم طبقے پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر تاکید کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا کہ اسلامی نظام حکومت کا سب سے بڑا افتخار محروم عوام کی خدمت کرنا ہے۔
انقلاب اسلامی ایران کے ثقافتی ثمرات میں سے ایک اور اہم ثمرہ گھر اور معاشرے میں ایک مسلمان خاتون کے حقیقی مقام کو متعارف کروانا ہے۔ پہلوی دور حکومت میں مغرب کی جانب شدید جھکاو اور مغربی اقدار کو رائج کرنے کی کوششوں کی بدولت ایک مسلمان ایرانی خاتون کا تشخص شدید خطرات سے دچار ہو چکا تھا اور ایرانی معاشرے میں بتدریج برہنگی اور بے حیائی کی ثقافت کو رائج کیا جا رہا تھا جس کی وجہ سے معاشرے میں خواتین کی مفید فعالیت بھی کم سے کمتر ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کی برکت سے معاشرے میں ایک مسلمان خاتون کا حقیقی مقام متعارف کروایا گیا اور جیسا کہ انقلاب اسلامی کی جدوجہد کے دوران خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ فعالیت انجام دی اسی طرح اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی خواتین نے اہم معاشرتی اور سیاسی شعبوں کو خالی نہیں چھوڑا اور اسلامی حجاب کی مکمل رعایت کرتے ہوئے اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کو احسن اور بھرپور انداز میں انجام دیا ہے۔ آج ایران کا کوئی ادارہ چاہے وہ تعلیمی ادارہ ہو یا سیاسی ادارہ، اقتصادی ادارہ ہو یا ثقافتی ادارہ، خواتین سے خالی نہیں اور ایران کی مسلمان انقلابی خواتین اسلامی قواعد و مقررات کے اندر رہتے ہوئے ملک کی تعمیر و ترقی میں مردوں کے شانہ بشانہ سرگرم عمل نظر آتی ہیں۔
2. تعلیم کا عام ہونا اور شرح خواندگی میں تیزی سے اضافہ:
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے اگرچہ حکومتی سطح پر ملک میں ناخواندگی سے مقابلہ اور لوگوں کی ثقافتی سطح میں ترقی کے بارے میں بڑھ چڑھ کر دعوے کئے جاتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ایرانی عوام کی بڑی تعداد نہ صرف گاوں دیہاتوں میں بلکہ شہروں میں بھی ان پڑھ اور ناخواندہ تھی۔ لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوری نظام کی حکمفرمایی کے بعد خاص طور پر عالمی استعماری قوتوں کی جانب سے آٹھ سالہ تھونپی گئی جنگ کے بعد ملک میں ناخواندگی کے خاتمے کیلئے ایک بڑی تحریک نے جنم لیا۔ اس تحریک کے دوران بڑی تعداد میں نئے سکول بنائے گئے اور تعلیم بالغاں کا سلسلہ بھی زور و شور سے شروع کر دیا گیا۔ بعض ذرائع کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس دوران ہر سال تقریبا ایک لاکھ میٹر مربع تعلیمی مراکز میں اضافہ عمل میں آیا۔
ملک میں شرح خواندگی بڑھانے کی تحریک کے دوران ایسے لاکھوں افراد جو کسی بھی وجہ سے علم جیسی لازوال نعمت سے محروم ہو چکے تھے اور لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے بے بہرہ تھے علم کے زیور سے آراستہ ہوئے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ملک بھر میں یونیورسٹی طلبہ کی تعداد تقریبا ۱۶ ہزار تھی جبکہ اس وقت یہ تعداد ۱۰ لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ یہ اضافہ عوام کی تعلیمی سطح میں ترقی اور ملک کو درکار متخصص افراد کی فراہمی میں خاطر خواہ اضافے کی واضح علامت ہے۔ اسی تعلیمی ترقی کی بدولت آج ایران مختلف میدانوں میں علم کی چوٹیاں فتح کرنے میں مصروف ہے اور ایرانی محققین نئوکلیئر ٹیکنولوجی، نینوٹیکنولوجی، ایروسپیس ٹیکنولوجی، کلوننگ، جینیٹک انجینئرنگ اور اسٹم سیل ٹینکولوجی جیسے میدانوں میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے رقابت کرتے نظر آتے ہیں۔
اقتصادی میدان میں انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات:
محمد رضا پہلوی کے دور میں ایران کا اقتصادی نظام بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت تیسری دنیا کے ممالک کی ناکارہ قومی معاشیات کا ایک واضح نمونہ تھا۔ اس دور میں شاہ ایران خام تیل کی اندھا دھند فروخت کے ذریعے مغربی ممالک کی طرز پر ترقی یافتہ اقتصادی نظام کے تحقق کی کوشش میں مصروف تھا۔ ایران کا اقتصادی نظام مکمل طور پر خام تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی دولت پر استوار تھا اور اس دولت کا اکثر حصہ بھی شاہ ایران اور اس کے خاندان کی جیب میں جاتا تھا۔ اس غلط اور غیرمعقول اقتصادی پالیسی کی وجہ سے ایران کا زراعتی نظام بھی تباہ و برباد ہوتا جا رہا تھا کیونکہ ایک تو حکومت کی جانب سے اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی اور دوسرا زراعتی محصول کی نسبت ملک کو درپیش ضروریات خام تیل کے بدلے حاصل ہونے والی درآمدات کے ذریعے پوری کر لی جاتی تھیں۔ جبکہ ماضی میں ایران کا زراعتی نظام ملک کو درپیش تمام ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی تھا۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایران کا اقتصادی نظام عالمی سرمایہ داران نظام میں ہضم ہوتا جا رہا تھا اور روز بروز صورتحال بگڑتی جا رہی تھی۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد ایران کے خستہ حال اقتصادی نظام میں استعمار ستیزی کی روح پھونک دی گئی۔ اگرچہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے چند ماہ بعد ہی ایران پر تھونپی گئی آٹھ سالہ جنگ نے ملک کے اقتصادی نظام کو شدید نقصانات پہنچائے لیکن جنگ کے خاتمے کے بعد دو پانچ سالہ منصوبوں کے ذریعے ملک میں معاشی خوشحالی کیلئے بڑے اور موثر اقدامات انجام دیئے گئے۔ جنگ کے بعد ایران میں تعمیر نو کا کام اس قدر تیزی سے انجام پایا کہ دنیا والے حیران رہ گئے۔ آٹھ سالہ جنگ نے کئی بڑے شہروں اور سینکڑوں دیہاتوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا تھا۔ جنگ کے بعد دو پانچ سالہ منصوبوں میں نہ صرف ان نقصانات کا ازالہ کیا گیا بلکہ ملک میں ہزاروں تعمیراتی پروجیکٹس بھی مکمل کر لئے گئے۔ ان بڑے پروجیکٹس میں اصفہان اسٹیل مل کی تعمیر، اہواز اسٹیل مل کی تعمیر، ساوہ ڈیم کی تعمیر، مارون ڈیم کی تعمیر، ۱۵ خرداد ڈیم کی تعمیر، سیمنٹ فیکٹریوں کی تعمیر، مختلف پاور ہاوسز کی تعمیر، بافق ریلوے اسٹیشن کی تعمیر، بندرعباس – سرخس – مشہد – جین ہائی وے کی تعمیر اور سینکڑوں زراعتی، صنعتی، پیٹروکیمیکل اور گیس پراجیکٹس شامل ہیں۔ ان پراجیکٹس کی تکمیل نے ایران کا چہرہ ہی بدل کر رکھ دیا اور ملک کا اقتصادی نظام یونی پروڈکٹ سسٹم سے نجات پانے میں کامیاب ہو گیا۔ نان پیٹروکمیکل برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ ہونے لگا اور ملک میں معاشرتی انصاف اور دولت کی عادلانہ تقسیم کا آغاز ہو گیا۔
فوجی میدان میں انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات:
1. صدام کی بعثی رژیم کے فوجی حملوں کے مقابلے میں جانانہ دفاع:
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی عالمی استعماری قوتوں نے اس انقلاب کو ختم کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر سازشیں شروع کر دیں۔ انہیں سازشوں کا ایک حصہ ایران کے پڑوسی ملک عراق میں حکمفرما بعثی رژیم کے سربراہ صدر صدام حسین کو ایران کے خلاف اکسا کر ایران پر فوجی حملے کی ترغیب دلوانا تھا۔ صدام حسین نے مغربی و عربی ممالک کے اکسانے پر ایران پر دھاوا بول دیا۔ ایران میں اس وقت اسلامی انقلاب کو کامیاب ہوئے صرف چند ماہ ہی گزرے تھے اور ملک کی باقاعدہ آرمڈ فورسز انتشار کا شکار تھیں۔ لہذا امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے ملک کے دفاع کیلئے عام شہریوں کو نئی فوج تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔ ایرانی عوام نے اپنے انقلابی جوش و جذبے کے تحت ملک کا دفاع شروع کر دیا۔ انقلابی عوام کے ذریعے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور بسیج تشکیل دی گئی جنہوں نے شوق شہادت اور جذبہ جہاد کے ذریعے مغربی اور عربی دنیا کی مکمل حمایت سے برخوردار بعثی رژیم کی فوج کو شکست دے دی اور ملک کا ایک انچ بھی دشمن کے قبضے میں نہیں جانے دیا۔
ایران پر تھونپی گئی اس آٹھ سالہ جنگ میں نہ صرف عالمی استعماری طاقتیں اپنا کوئی ہدف حاصل نہ کر پائیں بلکہ جنگ کے خاتمے پر اقوام متحدہ کی جانب سے عراق کو جارح کے طور پر متعارف کروایا گیا جو انقلاب اسلامی ایران کی ایک اور بڑی کامیابی جانی جاتی ہے۔ اس جنگ کے بارے میں سب سے بہترین جملہ خود امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کا ہے جس میں انہوں نے فرمایا:
"ہم نے اس جنگ میں اپنا انقلاب پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے۔ ہم نے اس جنگ میں اپنی مظلومیت اور اپنے دشمنوں کے ظالم ہونے کو ثابت کر دیا ہے۔ ہم نے اس جنگ میں عالمی استعماری طاقتوں کے چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ہم نے اس جنگ میں اپنے دوستوں اور دشمنوں کو اچھی طرح پہچان لیا ہے۔ ہم اس جنگ میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمیں اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم نے اس جنگ میں دو بڑی عالمی طاقتوں یعنی مغرب اور مشرق کا رعب و دبدبہ ختم کر ڈالا ہے۔ اس جنگ کی برکت سے ہماری فوجی صنعت نے بہت ترقی کی ہے۔ سب سے زیادہ اہم یہ کہ یہ جنگ ہمارے اندر انقلابی اسلام کی روح کے زندہ اور باقی رہنے کا باعث بنی ہے"۔
2. سپاہ پاسداران اور بسیج کی تشکیل:
انقلاب اسلامی ایران کے بڑے افتخارات میں سے ایک امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کے فرمان پر سپاہ پاسداران اور بسیج کی تشکیل ہے۔ الہی جذبے سے سرشار یہ دو عوامی فورسز اپنی تشکیل کے آغاز سے ہی عالمی استعماری طاقتوں اور ملک کے اندر موجود ان کے پٹھووں کی جانب سے انجام پانے والی شیطانی سرگرمیوں اور تخریب کاریوں کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہیں۔ انقلاب کے فورا بعد امریکی ایماء پر ایران کے سرحدی علاقوں جیسے کردستان، خوزستان، سیستان بلوچستان وغیرہ میں قومی فتنوں نے جنم لیا جن کا سپاہ پاسداران اور بسیج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس کے بعد صدر صدام حسین نے مغربی اور عربی رژیموں کی ایماء پر ایران پر دھاوا بول دیا جس کے بعد آٹھ سال تک انہیں انقلابی جوانوں نے پوری شجاعت اور بہادری سے ملک کا دفاع کیا۔ ان قربانیوں نے سپاہ پاسداران اور بسیج کو امت مسلمہ کے اندر ہر دلعزیز بنا دیا اور یہ دو خدائی فورسز الہی جذبے، خلوص نیت اور ایثارگری کا بہترین نمونہ بن کر ابھریں۔
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ اپنی تقریروں کے دوران سپاہ پاسداران اور بسیج کو ان الفاظ کے ساتھ یاد کرتے تھے:
"میں سپاہ سے بہت خوش ہوں اور کبھی بھی ان سے غافل نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر سپاہ نہ ہوتی تو ملک بھی نہ ہوتا۔ کاش میں بھی ایک پاسدار ہوتا۔ بسیج خدا کا مخلص لشکر ہے۔ مجھے ہمیشہ بسیجیوں کے خلوص نیت اور دل کی پاکیزگی پر رشک محسوس ہوتا ہے اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے بسیجیوں کے ساتھ محشور کرے۔ مجھے فخر ہے کہ میں خود بھی ایک بسیجی ہوں۔ بسیج میں تربیت پانے والے افراد نے گمنامی میں اپنا نام کمایا ہے"۔
3. فوجی میدان میں خودکفائی کا حصول:
اس وقت ایران کی آرمی اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے زیر استعمال فوجی سازوسامان کی اکثریت خود ایرانی ساختہ ہے۔ ایران نے مختلف قسم کے میزائل، توپیں، راکٹ لانچرز، ہیلی کاپٹرز اور فائٹر طیاروں کے اسپیئر پارٹس، کنٹرول سسٹمز اور مختلف قسم کے جنگی آلات کی تیاری کے میدان میں خاطرخواہ ترقی کی ہے۔ ایران آرمی، سپاہ پاسداران اور وزارت دفاع کی جانب سے تیار ہونے والے فوجی آلات ایران کی فوجی خودکفائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران فوجی سازوسامان کی تیاری کے علاوہ فوجی آلات کی تعمیر، نگہداشت اور انہیں ماڈرنائز کرنے اور اسی طرح افراد کو فوجی ٹریننگ دینے کے میدان میں بھی خودکفائی کی حد تک پہنچ چکا ہے۔ لہذا آج ایران کی آرمڈ فورسز کو دنیا کی طاقتورترین فوجوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
عالمی سطح پر انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات:
انقلاب اسلامی ایران جہاں ایرانی قوم کیلئے بے شمار ثمرات اور بابرکت اثرات کا باعث بنا ہے وہاں دنیا بھر کے مستضعفین اور محروم افراد کیلئے بھی انتہائی ثمربخش واقع ہوا ہے۔ اس بارے میں چند ایک نمونے پیش کرتے ہیں۔
1. دنیا میں دین مبین اسلام کی حیات نو:
ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای عالمی سطح پر انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات میں سے ایک دنیا میں اسلام کی حیات نو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
"گذشتہ ڈیڑھ صدی سے [شیطانی طاقتوں کی جانب سے] اسلام کے خلاف انتہائی جدید اور ہمہ جانبہ منصوبہ بندی کے باوجود آج ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا میں ایک عظیم اسلامی تحریک معرض وجود میں آ چکی ہے جس کی وجہ سے اسلام کو افریقہ، ایشیا اور حتی یورپ کے قلب میں نئی زندگی عطا ہوئی ہے اور مسلمان اپنے حقیقی تشخص اور پہچان کو پا چکے ہیں"۔
اسلام کی اس حیات نو کو ایشیا کے مشرقی ترین خطوں سے لے کر امریکہ تک معرض وجود میں آنے والی اسلامی تحریکوں کے روپ میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر آج سینکڑوں افراد وائٹ ہاوس کے سامنے "اللہ اکبر" کے نعرے لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور شرک و ظلم کے عالمی مرکز کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں تو خود انقلاب اسلامی ایران کے دشمنوں کے بقول ان کی یہ خوداعتمادی انقلاب اسلامی ایران کی بدولت ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد معرض وجود میں آنے والی اسلامی تحریکوں میں فلسطین کی انتفاضہ، حزب اللہ لبنان، الجزائر کا اسلامک سالویشن فرنٹ، مصر میں اسلامی تحریک، سوڈان کی اسلامی تحریک، کشمیر، عراق، ترکی، آذربائیجان وغیرہ میں جنم لینے والی اسلامی تحریکوں کا نام لیا جا سکتا ہے جو "اللہ اکبر" کے نعرے کے ساتھ استکبار جہانی کے سامنے ڈٹی ہوئی ہیں۔ مختلف مواقع خاص طور پر حج کے موقع پر امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کے پیغامات جن میں اتحاد بین المسلمین پر زور دیا جاتا تھا مسلمانان عالم میں ایک نئی روح پھونکے جانے کا باعث بنتے تھے۔ انہیں میں سے ایک پیغام میں امام خمینی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اے مسلمانان عالم اور ظالم حکمرانوں کے زیر قبضہ مستضفین، اٹھ کھڑے ہوں اور آپس میں متحد ہو جائیں اور اسلام اور اپنی تقدیر کا دفاع کریں۔ طاقت والوں کے شور شرابے سے نہ گھبرائیں۔ یہ صدی خدا کے اذن اور ارادے سے مستکبرین پر مستضعفین اور باطل بر حق کے غلبے کی صدی ہے"۔
ان وحدت بخش پیغامات کی برکت سے لوگ مذہبی تفکر خاص طور پر دین مبین اسلام کی جانب پلٹنے لگے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں مقیم پانچ میلین مسلمانوں میں سے چالیس فیصد گذشتہ چند عشروں میں مسلمان ہوئے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو موجودہ صدی کے آخر تک امریکہ میں اسلام دوسرے بڑے دین کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گا۔ عالمی سطح پر انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات میں سے ایک اہم ثمرہ دین مبین اسلام کی جانب بڑھتا ہوا رجحان اور جھکاو ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد معاشرے اور سیاست میں دین کے کردار کے بارے میں سینکڑوں کتابیں چھپ کر بازار میں آ چکی ہیں۔ دنیا کی بہت سی یونیورسٹیز میں دین کے بارے میں تحقیق شدت اختیار کر چکی ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی سے کچھ عرصہ قبل ہی دین کو انسانی معاشرے کیلئے افیون قرار دیا جا چکا تھا۔
2. سابقہ سوویت یونین کے خاتمے کی پیشین گوئی:
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی جانب سے سابق سوویت یونین کے خاتمے کی پیشین گوئی کو بھی انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ایسے وقت جب دنیا کا کوئی سیاسی تجزیہ نگار سوویت یونین جیسی سپرپاور کے ٹوٹنے کا امکان بھی ظاہر کرنے سے گریز کرتا تھا امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے اسلام کی طاقت پر مکمل ایمان ہونے کے ناطے یہ پیشین گوئی انجام دی اور سابقہ سوویت یونین کے سربراہ کے نام اپنے تاریخی پیغام میں اعلان فرمایا کہ انہیں کمیونیزم کی ٹوٹتی ہڈیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں اور آج کے بعد ہمیں کمیونیزم کو دنیا کے سیاسی تاریخی میوزیم میں تلاش کرنا پڑے گا۔
اسی طرح امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی جانب سے اسلامی مقدسات کی توہین کرنے پر ملعون مرتد سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کا فتوا بھی انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات میں سے ایک ہے۔ امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کی جانب سے یہ شجاعانہ اقدام مغربی دنیا کی شدید تذلیل اور اسلام کی عزت و سربلندی کا باعث بن گیا۔ بانی انقلاب اسلامی ایران نے ثابت کر دیا کہ جہاں بھی اسلامی مقدسات کی توہین کی جائے گی اس کا جواب پوری طاقت سے دیا جائے گا اور اس ضمن میں کسی بین الاقوامی قانون یا سفارتی ملاحظات کو رکاوٹ بننے نہیں دیا جائے گا۔ عالمی سطح پر انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات میں مسلمان خواتین کا اسلامی حجاب کی جانب رجحان میں اضافہ، مسلمانان عالم کا اپنے حقیقی اسلامی تشخص کی جانب بازگشت، مغربی دنیا میں اسلام اور تشیع کو بہتر جاننے کی کوشش میں اضافہ وغیرہ بھی شامل ہیں۔
بشکریہ:خبرگزاری Fars News