وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعر جب بھی پڑھتا ہوں تو سوچ میں غرق ہوجاتا ہوں کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ جوان، پیروں کے استاد ہوجائیں، لیکن جلد ہی آنکھوں کے سامنے ایسے مناظر گھومنے لگتے ہیں جس سے اندازہ ہو کہ ہاں جوان بھی پیروں کے استاد ہوسکتے ہیں اور وہ ایسے ایسے کام کر دکھاتے ہیں جو پیروں کے بس میں نہیں ہوتے۔ عالم اسلام کی حالیہ بیداری کی لہر، جس میں جوانوں نے مصر سے بحرین تک حکومتی ایوان کے در و دیوار ہلا دیئے اور ان جوانوں کی قربانیوں، عزم و حوصلے کے سامنے چار عشروں سے قائم آمریتیں ریت کے گھروندوں کی مانند زمین بوس ہوتی رہیں، جوانوں کی استادی کی اس سے بڑی مثال شاید کوئی نہیں۔ وطن عزیز میں بھی جوان ہر شعبہ زندگی میں بزرگوں سے بڑھ کر کارنامے سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔ اگر جوانوں کی یہ پیش رفت بزرگوں کے احترام کے ساتھ جاری رہے تو اس جیسی کوئی دوسری شے نہیں۔
ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ قم سے پلٹے ہوئے چند جوان علماء نے، ملک میں موجود چند جوانوں کے ساتھ مل کر ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی، یہ تنظیم جب وجود میں آئی تو کوئی بھی توقع نہ کرسکتا تھا کہ یہ تنظیم اتنی جلدی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ملک میں تشیع کی رہبری و قیادت کا فریضہ سرانجام دے گی۔ جوانوں کے اس قافلے کو ابتدائے سفر میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہوا۔ جس میں سب سے بڑی مشکل خود ان کی جوانی اور نوعمری تھی۔ بزرگ کسی طرح بھی ان جوانوں کے تحت یا ساتھ کام کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ بزرگوں کی عدم سرپرستی اور حمایت کے باوجود ان جوانوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ہم بزرگوں کے خلاف نہیں بلکہ ملت کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین کے نوجوان علماء اور کارکنوں نے قوم کو مایوسیوں کے اندھیروں سے نکالا۔ خاموشی جو ہمارے بہت سے مسائل کا بنیادی سبب تھی ٹوٹی اور قوم ایک مرتبہ پھر میدان عمل میں وارد ہوئی۔ دنیا کو معلوم ہوا کہ شیعہ فقط مرنا ہی نہیں بلکہ اپنی شہادتوں کا تحفظ کرنا بھی جانتے ہیں۔ کوئٹہ کے دھرنے جو بنیادی طور پر شہداء کے ورثاء کی آواز تھی، پر ان جوان علماء اور ان کے رفقاء نے لبیک کہا۔ یہ لبیک ہر شیعہ شہری کے دل کی آواز تھی۔ وطن عزیز میں یہ طبقہ گذشتہ تین دہائیوں سے انجانے جرم کے سبب قتل و غارت کا شکار ہے۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ کوئی بھی ان کی آواز سننے والا اور ان سے ہمدردی کرنے والا نہیں تھا۔ واقعہ کے روز چند تک بیانات سامنے آتے اور پھر اگلے واقعہ کا انتظار شروع ہو جاتا۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ شیعہ کا امن ایک قتل سے دوسرے قتل کے مابین کا وقت ہے۔ صورتحال اس نہج تک کیوں پہنچی، میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ میری نظر میں جب معاملات درست سمت چل پڑیں تو گڑھے مردے اکھاڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
بہرحال مجلس وحدت مسلمین نے چند ہی سالوں میں قوم کے اندر وہ رسوخ حاصل کیا جو کسی بھی تنظیم یا گروہ کے لیے درکار ہوتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ میں مجلس کے ہر فیصلے کو درست سمجھتا ہوں ممکن ہے اور بھی بہت سے حضرات مجلس کے بہت سے فیصلوں سے اختلاف رکھتے ہوں، تاہم جو چیز مجھے مجلس کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے، ان کا بروقت اقدام کرنا اور موثر قدم اٹھانا ہے۔ سانحہ عاشورہ، راولپنڈی کو ہی لے لیجئے، ملت عجیب سی سراسیمگی کا شکار تھی۔ عاشور کی رات بہت سے امام بارگاہوں پر حملے ہوئے، لیکن اس کے باوجود شیعہ قوم میڈیا کے واویلا کے سبب عجیب سی گھبراہٹ اور تجسس سے دوچار تھی۔ ایسے میں مجلس وحدت مسلمین کی قیادت ایک مرتبہ پھر میدان میں آئی اور اس نے میڈیا پر آکر اصل صورتحال سے پردہ اٹھایا، جس کے سبب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا۔ عام پاکستانی کو اصل حقائق کا علم ہوا اور مسلکی نفرت کی آگ ٹھنڈی ہوئی۔
مجلس وحدت کا تازہ اقدام دہشت گردی کا شکار ہونے والی پاکستان کی مختلف اقلیتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور شدت پسند گروہ کے خلاف ایک اتحاد کو تشکیل دینا ہے۔ یہ ایک نہایت کٹھن اور پرپیچ راہ ہے، جس پر اب تک مجلس وحدت مسلمین کی قیادت عزم و استقلال سے رواں دواں ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کا ایک اور اہم عمل سنی اتحاد کونسل کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کا آغاز ہے، جس نے ثابت کیا کہ مجلس وحدت امت پر یقین رکھتی ہے، ساتھ ہی ساتھ اس اقدام نے ملک کے تکفیری ٹولے کو جو ہمیشہ سے ملت تشیع کو تنہا کرنے کی کوشش میں ہے، تنہا کر دیا گیا۔
مجلس نے جہاں بین المسالک ہم آہنگی کے لیے اقدام کیا وہیں اس تنطیم کی قیادت نے ملت کے اندر پائے جانے والے مختلف گرہوں کو مشترکہ مفادات کے تحفط کی بنیاد پر مجتمع کیا، یہی وجہ ہے کہ آج مجلس کے اجتماعات میں جہاں ہمیں علماء نظر آتے ہیں وہیں ذاکر، ماتمی دستوں کے سالار بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ تاہم یہ سب کچھ ابتدائے سفر ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ مجلس کی قیادت ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ملت کے تمام گروہوں کو چاہے یہ گروہ ان کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں، ایک پرچم تلے جمع کرنے کی سبیل کرے۔ اسے چاہیے کہ وہ سیاسی میدان کے ساتھ ساتھ تربیتی میدان پر بھی اپنی بھرپور توجہ مبذول رکھے، کیونکہ یہی تربیت شدہ افراد کسی بھی تنظیم کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ علامہ سید عارف حسین الحسینی کے روحانی فرزندوں کا یہ کاروان تبھی اپنی درست سمت پر رواں دواں سمجھا جاسکتا ہے کہ جب یہ اپنے محبوب قائد کی فکر اور تعلیمات سے نہ صرف پیوستہ رہے بلکہ عملی طور پر بھی ثابت کرے کہ یہ ایک نظریاتی گروہ ہے، جو حق کی سربلندی کے لیے سرگرم عمل ہے۔
تحریر: سید محمد سبطین شیرازی