وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) امریکا میں کانگریس اور حکومت میں اختلافات ختم نہ ہوسکے، معیشت کو روزانہ 30 کروڑ ڈالر کے نقصان کے ساتھ امریکی حکومت کے ڈیفالٹ کرجانے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بوینر کا کہنا ہے کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ شٹ ڈاؤن کب ختم ہوگا لیکن یہ صدر اوباما کے صوابدید پر ہے کہ وہ ریپبلکنز کے ساتھ بیٹھیں اور اس سلسلے میں مذاکرات کریں۔ ٹی وی رپورٹ کے مطابق امریکا میں یکم اکتوبر سے وفاقی اداروں اور منصوبوں کی فنڈنگ روک دی گئی۔ 8 لاکھ سرکاری ملازمین کو گھر بھیج دیا گیا جبکہ 13 لاکھ بغیر تنخواہ کے کام کر رہے ہیں۔ امریکی معیشت کو یومیہ 30 کروڑ ڈالرز کا نقصان کا سامنا ہے۔ معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے طویل شٹ ڈاؤن سے امریکا کے ڈیفالٹ ہوجانے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے جو عالمی معیشت کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔
امریکی شٹ ڈاؤن کے باعث امریکی انتظامیہ کو 2000 ملین ڈالرز سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے جبکہ مسئلہ حل کرنے کے بجائے، ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں جاری ہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 17 اکتوبرکے بعد ادائیگیوں کے حوالے سے حکومت کو رقوم کی کمی کا سامنا ہے۔ 17 اکتوبر تک شٹ ڈاؤن کا مسئلہ حل نہ ہوا تو بر وقت قرض کی ادائیگیاں نہ ہونے کے ساتھ سود کی شرح تیزی سے بڑھ جائے گی جبکہ ڈالر کی قدر گرنے سے عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا ہے کہ قومی دیوالیہ امریکا کی جمہوریت، اعتماد اور برسوں سے عالمی موقف کو تباہ کر دے گا، ری پبلکن کے پاس قرض کی حد بڑھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
وائٹ ہاؤس حکام اور ایوان زیریں کے اسپیکر جان بویہنر نے کہا ہے کہ 17 اکتوبر تک حکومتی قرضے کے حد 16.7 کھرب ڈالرز ہے۔ ری پبلکن پارٹی نے اگر مزید رقوم دینے کا بل منظور نہ کیا تو امریکا کی معاشی حالت بدتر ہو جائے گی، ڈیفالٹ کی صورتحال امریکیوں کو بھیانک سزا دینے کے مترادف ہوگا۔ اسپیکر نے کہا کہ امریکی ایوان زیریں صدر باراک اوباما کو مالی مشکلات میں یرغمال نہیں بنا سکتا۔ خبر ایجنسیوں کے نمائندوں کے ساتھ ناشتے پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 17 اکتوبر تک بل منظور نہ ہوا تو امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈیفالٹ کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بویہنر نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریپبلکنز حکومت کا کاروبار چلانے کے معاملے پر بات چیت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ امریکا اپنے بلوں کی ادائیگی کیونکر ممکن بنائے گا۔
جان بویہنر کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ شٹ ڈاؤن کب ختم ہوگا لیکن یہ صدر اوباما کے صوابدید پر ہے کہ وہ ریپبلکنز کے ساتھ بیٹھیں اور اس سلسلے میں مذاکرات کریں۔ اسپیکر جان بویہنر کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کے قرضوں کی شرح میں اضافے کے لیے ووٹنگ اس وقت تک نہیں کرائی جائے گی جب تک کہ اوباما حکومت ریپبلکنز کے ساتھ حکومتی اخراجات کے حوالے سے ریپبلکنز کے خدشات کو دور نہیں کرتی۔ ٹی وی کے مطابق ری پبلیکنز ہیلتھ کیئر اصلاحات کے مخالف ہیں، ان کی کوشش ہے کہ اس پروگرام کے لیے مختص فنڈز کو ختم کیا جائے یا پھر انھیں موخر کیا جائے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ ری پبلکن پارٹی امریکی معیشت اور ملک کی عزت کو خطرے سے دوچار کر رہی ہے۔ وہ اپنی اس شرط سے دستبردار نہیں ہوں گے کہ معیشت کے لئے قرض کی حد کو غیر مشروط طور ختم کیا جائے۔ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ ''اگر ناگزیر ہوا تو وہ ایک قلیل المدتی سمجھوتے پر متفق ہو سکتے ہیں'' جس کے ذریعے اس بحران سے باہر نکلا جاسکتا ہے، تاہم وہ کسی بھی حالت میں اپنے نظریات پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ باراک اوباما کے مطابق کانگریس کی دو بنیادی ذمہ داریاں ہیں جنہیں اسے پورا کرنا چاہیے۔ ایک یہ کہ وہ بجٹ منظور کرے اور دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ یہ ممکن بنائے کہ امریکی عوام اپنے بل ادا کر رہے ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان میں اکثریتی ری پبلکن پارٹی کے ارکان اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ حکومتی اخراجات کے لیے قرضے کی حد میں اضافے کا بل اسی صورت میں منظور کریں گے، اگر اوباما کے ہیلتھ کیئر پلان کے نفاذ میں ایک سال کی تاخیر کر دی جائے۔ یہ ہیلتھ کیئر پلان پہلی اکتوبر کو نافد کیا جانا تھا۔
اس ساری صورتحال کے پیش نظر ایک اسرائیلی اخبار Yedioth Ahronoth نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ میں موجودہ بحران کے پیچھے یہودی لابی ہے، کہ جس نے امریکہ اور ایران کے صدور کے مابین ٹیلی فونک گفتگو کے بعد کانگریس کے اراکین میں ایک کثیر سرمایہ خرچ کرکے اس بحران کو پیدا کیا ہے۔ صورتحال اب اس جانب بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے کہ اگر واقعاً اس بحران کا حل نہ نکالا گیا اور امریکی معیشت ڈیفالٹ کرگئی تو امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت ختم ہوجائے گی اور دنیا یہ کہنے پر مجبور ہوگی کہ ایران کو معاشی پابندیوں کی زد میں لاکر وہاں موجود انقلاب اسلامی کے کے اثرات اور انقلابیوں کو نقصان پہنچانے کی پلاننگ کرنے والا امریکہ آج خود اقتصادی بحران کو شکار ہوگیا ہے۔