وحدت نیوز ( اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے شعبہ خیرالعمل فائونڈیشن کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے ان کاموں میں جہاں ملک بھر کے درد مند اور صاحب استطاعت لوگوں نے دل کھول کر عطیات دیئے وہاں ہیئت امام حسین کویت، امام خمینی ریلیف فائونڈیشن ایران، امامیہ میڈیکس انٹرنیشنل امریکہ اور ادارہ جعفریہ لنڈن کا مثالی تعاون ناقابل فراموش ہے۔
2010ء کے سیلاب میں خیرالعمل فائونڈیشن کی فعالیت:
پاکستان کی تاریخ میں جس سیلاب نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ 2010ء کا سیلاب تھا، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سیلابی ریلے سے پاکستان کے چھتیس اضلاع میں دو کروڑ افراد متاثر ہوئے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے اس سیلابی صورتحال سے نبرد آزما ہونے اور متاثرین کی بحالی کے لئے ہنگامی فنڈز کا اعلان کیا اور کسی تعطل کے بغیر امدادی سرگرمیاں شروع کر دیں، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رضاکاروں نے متاثرین سیلاب کی بحالی کے لئے دن رات کام کیا، اس دوران ولی امر مسلمین حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے عیدالفطر کے موقع پر پاکستان میں سیلاب سے متاثر ہونیوالے افراد کی حالت زار پر پوری اسلامی دنیا کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی تاکید کی اور خود بھی آبدیدہ ہو گئے، جس کے نتیجے میں پوری دنیا کے لوگوں نے بھرپور توجہ دی اور امدادی سرگرمیوں کی رفتار میں تیزی آ گئی۔
خیر العمل فائونڈیشن نے امریکہ، سویڈن، کویت، دبئی ایران اور دیگر ممالک سے خطیر فنڈز اور امدادی سامان اکٹھا کیا اور اسے انتہائی ذمہ داری کے ساتھ متاثرین تک پہنچایا، خیر العمل فائونڈیشن کی جانب سے اشیائے خورد و نوش کی مد میں دو ہزار دس کے سیلاب سے متاثر ہونے والے 66686 کنبوں کو بارہ کروڑ چھبیس لاکھ اکیس ہزار روپے کی مالیت کا امدادی سامان فراہم کیا، پینتیس ہزار چھ سو مریضوں کو سڑسٹھ لاکھ چون ہزار روپے کی ادویات مہیا کی گئیں، متاثرین میں تین کروڑ ستائیس لاکھ ستر ہزار روپے مالیت کے خیمے، تیرہ ہزار آٹھ سو اٹھانوے متاثرین میں دو کروڑ ستتر لاکھ چھیانوے ہزار روپے مالیت کے کمبل تقسیم کئے گئے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا نشانہ بننے والی فصلات کے مالکان میں بیج اور دیگر زرعی ضروریات پوری کرنے لئے دس لاکھ روپے کی امدادی رقوم تقسیم کی گئیں، سیلاب دو ہزار دس کے دوران خیر العمل فائونڈیشن کی جانب سے مختلف مقامات پر خیمہ بستیاں بنائی گئیں جن پر دس کروڑ روپے خرچ ہوئے، متاثرین کے مکانات، امام بارگاہوں اور مساجد کی تعمیر و مرمت پر ایک کروڑ روپے جبکہ متفرق اخراجات کی مد میں ایک کروڑ چوبیس لاکھ پندرہ ہزار آٹھ سو ساٹھ روپے خرچ کئے گئے۔
خیر العمل فائونڈین کے ذمہ داران نے 2012 میں مون سون بارشوں سے متاثر ہونیوالے علاقوں کے ہنگامی دورے کئے اور متاثرین میں امدادی رقوم تقسیم کیں، علاوہ ازیں ادارہ جعفریہ لندن کی جانب سے بھجوایا جانیوالا لاکھوں روپے مالیت کا امدادی سامان بھی تقسیم کیا گیا، دو ہزار بارہ میں سندھ کے ضلع جیکب آباد اور بلوچستان کے ضلع ڈیرہ اللہ یار میں طوفانی بارشوں سے متاثر ہونیوالے افراد کیلئے خیمہ بستیاں قام کی گئیں اور عید الاضحی کے موقع پر اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا گیا۔
تعمیر وطن پروگرام: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کی ہدایات کی روشنی میں متاثرین کے ابتدائی ریلیف اور ریسکیو کے بعد تعمیرنو و بحالی کے پہلے مرحلے کا آغاز تعمیر وطن پروگرام سے کیا گیا۔ اس پروگرام کا افتتاح خود ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورہ کے دوران اپنے دست مبارک سے کیا۔ اس پروگرام میں، مکانات کی تعمیر، رہائشی سکیموں، مساجد کی تعمیر، ڈسپنسریوں و ہسپتالوں کے قیام، مدارس و سکولوں کی تعمیر اور یتیموں کی کفالت جیسے منصوبوں کو سر فہرست رکھا گیا۔
مکانات کی تعمیر: خیرالعمل فائونڈیشن نے بعض علاقوں میں ابتدائی طور پر جزوی ضروریات کی مد میں کمروں کی تعمیر کے ذریعے متاثرین سیلاب کی امداد کی، بعد ازاں امام خمینی ریلیف فائونڈیشن ایران کے تعاون سے سیلاب زدہ علاقوں میں غریب، نادار اور مستحق متاثرین سیلاب کو چھت فراہم کرنے کے لئے باقاعدہ گھروں کی تعمیر کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا، اس منصوبے کے تحت پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ، لیہ، رحیم یار خان، راجن پور، سندھ کے اضلاع شہداد کوٹ، کشمور، خیبر پختونخواہ کے علاقہ پہاڑ پور، بلوچستان کے علاقوں گنداخہ، اوستہ محمد اور صحبت پورہ میں پچیس پچیس مکانات تعمیر کرائے گئے۔
رہائشی سکیم: تعمیر وطن پروگرام کے پہلے مرحلے میں مکانات کی تعمیر کا کام مکمل کرنے کے بعد خیر العمل فائونڈیشن نے مزید منظم اور پروفیشنل بنیادوں پر کام کو آگے بڑھاتے ہوئے امام خمینی ریلیف فائونڈنشن کے تعاون سے رہائشی منصوبوں پر کام کا آغاز کیا، انشاء اللہ اس منصوبے کے تحت دو سو گھر تعمیر کئے جائیں گے۔
تعمیر مساجد پروجیکٹ: کسی بھی علاقے میں مساجد اور امام بارہوں کا تعمیر و آباد ہونا لوگوں کی معنوی اور روحانی مضبوطی کا سبب بنتا ہے، اس حوالے سے خیر العمل فائونڈیشن نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو خصوصی اہمیت دی، اس ضمن میں ابتدائی طور پر مختلف مقامات پر مساجد و امام بارگاہوں کو پہنچنے والے جزوی نقصانات دور کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے گئے، بعد ازاں ہیئت امام حسین کویت کے تعاون سے مساجد و امام بارگاہوں کی تعمیر کے منصوبے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا، اس منصوبے کے تحت چار کیٹیگریز میں مساجد تعمیر کی گئیں، تعمیرات کے لئے ضروری قرار دیا گیا کہ جس جگہ تعمیرات کی جا رہی ہیں وہ قطعہ اراضی ادارے کے نام منتقل ہو، اس طرح ایک سٹینڈرڈ نقشے کے تحت پورے ملک میں کام کا آغاز کیا گیا، اس وقت تک چودہ مساجد، مسجد فاطمہ زہرا ہرگیسا سکردو، مسجد امام رضا بستی گوکل لیہ، مسجد القدس بھیرہ سیداں بارہ کہو اسلام آباد، مسجد امام مہدی نور پور سیتھی چکوال، مسجد امام موسیٰ کاظم ببر پکا ڈی آئی خان، مسجد ابو الفضل العباس جمال پور پھالیہ، مسجد امام باقر نامیوالی خوشاب، مسجد فاطم زہرا بستی بخاری مظفر گڑھ، مسجد صاحب الزمان درگئی اورکزئی ایجنسی، مسجد رسول اعظم پیر اصحاب بھکر، مسجد امام مہدی وانگ راجن پور، مسجد امام حسین ریحان پورہ شیخوپورہ، مسجد نبی یوسف الصدیق لکھیوال سرگودھا اور مسجد ثامن الآئمہ کوٹ بھائی خان سرگودھا مکمل ہو چکی ہیں۔
جبکہ بیس مساجد مسجد امام مہدی جھل مگسی گنداوہ بلوچستان، مسجد حسن مجتبیٰ گوٹھ اللہ بخش گنداوہ بلوچستان، مسجد فاطمہ زہرا عالم شیر پارہ چنار، امام بارگاہ اہلبیت زیڈان پارا چنار، مسجد امام حسین مناور گلگت، مسجد امام حسین نلتر نومل گلگت، مسجد صاحب الزمان ساٹھ میل ٹائون نواب شاہ سندھ، مسجد امام مجتبیٰ جیکب آباد سندھ، مسجد امام مہدی لکھی غلام شاہ سندھ، مسجد سبطین نصر کالونی سکھر، مسجد الصادق پٹھان کالونی سکھر، مسجد امام علی بستی بلوچی والا لیہ، مسجد امام حسین بھوانہ شہر چنیوٹ، مسجد فاطمہ زہرا چاہ فتح والا مورانی بھکر، مسجد چہادہ معصومین منڈاوہ فقیر مظفر گڑھ، مسجد فاطمہ زہرا پنڈدادنخان جہلم، مسجد ابوذر غفاری سرائے مہاجر سکھر، مسجد فاطمہ زہرا تحٹہ محمد شاہ چنیوٹ، مسجد فاطمہ زاہرا ٹبی کربلا لیہ اور مسجد امیر المومنین یو ای ٹی ٹائون لاہور زیرتعمیر ہیں۔
ڈسپنسریوں و ہسپتالوں کا قیام: خیر العمل فائونڈیشن نے اس پروجیکٹ کے تحت ابتدائی مرحلے میں مختلف اداروں کے تعاون سے سیلاب زدہ علاقوں میں میڈیکل کیمپوں کے انعقاد، ادویات کی فراہمی اور ڈسپنسریوں کے قیام پر کام شروع کیا، بعدازاں فلاحی ادارے ہیئت امام حسین کے تعاون سے ایک فرسٹ کلاس ڈسپنسری اور ہسپتال کی تعمیر کے پروجیکٹ پر حسب ضابطہ کام شروع کر دیا گیا۔ اس وقت مختلف علاقوں میں ڈسپنسریاں اور ہسپتال بنائے جا رہے ہیں، اس منصوبہ پر کام شروع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ علاقہ میں پہلے سے طبی سہولیات میسر نہ ہوں، ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں کو چلانے کے لئے سٹاف موجود ہو اس کے ساتھ ساتھ زمین کا ادارے کے نام منتقل ہونا بھی ضروری ہے۔
متاثرین سیلاب کی امدادی سرگرمیوں کے دوران ڈیرہ غازیخان کی سطح پر عوام الناس کو صحت کی سہولیات مہیا کرنے کے لئے ماوا، امامیہ میڈیکس انٹرنیشنل اور الخدیجہ ویلفئیر ٹرسٹ کے تعاون سے درجنوں میڈیکل کیمپس لگائے گئے اور بعض مقامات پر فرسٹ ایڈ سنٹر قائم کئے گئے، علاقے میں صحت کی ضروریات اور ٹیم کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے خیر العمل فائونڈیشن نے اس علاقے میں الخدیجہ میڈیکل سنٹر کے نام سے ایک معیاری ہسپتال کے قیام کا فیصلہ کیا اور اب اس منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے، اس وقت بستی لیہ میں اہلبیت کلینک، ٹھٹہ محمد شاہ چنیوٹ میں امام الہادی کلینک، کچورہ گمبہ سکردو میں امام رضا کلینک کے نام سے ڈسپنسریاں اور جام پور میں خدیجة الکبریٰ میڈیکل سنٹر کے نام سے ایک ہسپتال زیر تعمیر ہے۔
سکولوں اور مدارس کا قیام: بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے تعلیم کے فروغ پر توجہ دینا بےحد ضروری ہے، تعلیمی میدان میں خرچ ہونیوالے وسائل کبھی ضائع نہیں ہوتے، بلکہ انہیں سب سے زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا ہے، بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان میں تعلیمی نظام انحطاط کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ معیاری اور اچھے تعلیمی اداروں کا فقدان ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گلی، محلے کی سطح پر کئی سکول قائم ہیں جہاں محنتی اور علم دوست افراد کام کرتے ہیں لیکن وسائل کی کمی کے باعث ان اداروں کا معیار تعلیم ایسا نہیں جو معاشرے کے لئے کار آمد ہو۔ خیر العمل فائونڈیشن نے معیاری تعلیم کی سہولیات کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا تاکہ وہ تمام علاقے جہاں اچھی اور معیاری تعلیم کی ضرورت ہو اور فروغ تعلیم کے لئے کام کرنے والے افراد کے پاس وسائل نہ ہوں وہاں انہیں سپورٹ کر کے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے، اس حوالے سے مختلف علاقوں سے درخواستوں کی وصولی کا کام شروع کر دیا گیا ہے اور بعض مقامات پر باقاعدہ کام کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بارہ کہو اسلام آباد میں المعصومہ گرلز سیکنڈری سکول کے نام سے ایک تعلیمی ادارے کی عمارت زیر تعمیر ہے۔
یتیموں کی کفالت کا منصوبہ: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دنیا میں کسی یتیم کی پرورش کرے گا وہ جنت میں مجھ سے اتنا قریب ہو گا جتنی میری یہ دو انگلیاں (حضور اکرم ۖ نے اپنی دو انگلیوں کی طرف اشارہ کیا)۔ آئمہ طاہرین ایتام کی کفالت پر بہت زیادہ زور دیتے تھے، اس لیے خیر العمل فائونڈیشن نے اپنی الٰہی و مذہبی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے کفالت ایتام منصوبے پر کام شروع کیا، اس منصوبے کا آغاز گلگت بلتستان سے کیا گیا اور پہلے مرحلے میں کفالت کے لئے چار سو اٹھاسی یتیم بچوں کا اندارج کیا گیا اور جون 2013ء میں ان یتیم بچوں میں اٹھارہ لاکھ روپے تقسیم کئے گئے، انشاءاللہ بہت جلد ملک کے دیگر علاقوں میں بھی اس منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔
امدادی کاروان امن 2012ء:
پارا چنار کے مسلمان پاکستانی دہشت گردوں کے محاصرے کے سبب مسلسل اپنے وطن سے کٹے رہے اور راستوں کی بندش کے سبب وہاں خوراک، اجناس اور ادویات کی قلت پیدا ہو گئی، اس صورتحا ل میں خیر العمل فائونڈیشن نے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں محصورین پارہ چنار کے لئے ملک بھر سے غذائی اجناس ادویات پر مشتمل امدادی امن کارواں پارا چنار بھیجنے کا فیصلہ کیا اور بےپناہ مشکلات و رکاوٹوں کے باوجود امدادی سامان پارا چنار پہنچا کر پوری دنیا کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کی۔ اس کے علاوہ خیر العمل فائونڈیشن نے مختلف مواقع پر اجتماعی قربانیوں، فطرہ کی تقسیم، پانی کی فراہمی اور روزے داروں کی افطاریوں کے علاوہ دیگر فلاحی کام بھی کئے اور ان پر تقریباً چالیس لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
نیکی اور بھلائی کے ان کاموں میں جہاں ملک بھر کے درد مند اور صاحب استطاعت لوگوں نے دل کھول کر عطیات دیئے وہاں ہیئت امام حسین کویت، امام خمینی ریلیف فائونڈیشن ایران، امامیہ میڈیکس انٹر نیشنل امریکہ اور ادارہ جعفریہ لنڈن کا مثالی تعاون ناقابل فراموش ہے۔ خیر العمل فائونڈیشن کی جانب سے تعمیر کئے جانیوالے ایک مکان پر تقریباً تین لاکھ روپے، مسجد، امام بارگاہ اور ڈسپنسری پر اوسطاً اٹھارہ لاکھ روپے اور فراہمی آب کے منصوبے پر ایک لاکھ روپے فی منصوبہ خرچ کئے جاتیں ہیں۔ جبکہ کفالت ایتام کے منصوبے کے تحت فی نفر دو روپے ماہانہ اخراجات ہیں، اس لیے مخیر شخصیات اور اداروں سے اپیل کی جاتی ہے کہ آگے بڑھیں اور محروم و مستعضف افراد کی امداد میں خیر العمل فائونڈیشن کے ہمسفر بنیں۔