وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) جب سے مجلس وحدت مسلمین نے حقیقی سنی بریلوی برادران سے اتحا دکیا ہے بہت سے تکفیریوں کیساتھ ساتھ ان کے اتحادیوں کے پیٹ میں بھی مروڑ اٹھ رہے ہیں،اور وہ ان کی محبت و یارانے میں مارے مارے پھرتے ہیں ان کے چیلے چانٹے سوشل میڈیا پر ظالم و شیعہ دشمن حکومت سے جان چھڑوانے کی جدوجہد پر مجلس وحدت مسلمین کی مخالفت میں لغویات بکنے اور افتراءسے کام لینے میں مشغول دکھائی دیتے ہیں،جو لوگ اس وقت مجلس وحدت مسلمین کی مخالفت کر رہے ہیں ان کو بھول گیا ہے کہ موجودہ نواز حکومت جسے چودہ ماہ ہو چکے ہیں اصل میں پنجاب کی شیعہ دشمن حکومت کا ہی تسلسل ہے،اس بارے معروف کالم نگار جناب ارشا د حسین ناصر کے کالم ؛آذادی و انقلاب مارچ ،منظر و پس منظر؛کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں،کہ پنجاب میں گزشتہ چھ سال سے ملت تشیع کس کرب میں مبتلا ہے اور کیا چاہتی ہے۔
ارشاد حسین ناصر کے کالم کا ایک حصہ؛
پاکستان کے چاروں صوبوں میں 11مئی3 201ءکے دن ہونے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ نواز نے وفاقی حکومت قائم کی تھی،پنجاب میں یہ پہلے سے برسر اقتدار تھے بس انتخابات کروانے کیلئے تین ماہ نجم سیٹھی کو نگران وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا،لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عملی طو پہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں گذشتہ چھ برس سے نون لیگ ہی برسر اقتدار ہے ، صوبہ کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت اسلامی برسر اقتدار ہیں ،سندھ پاکستان پیپلز پارٹی کے حصہ میں آیا ہوا ہے جبکہ بلوچستان میں مسلم لیگ نواز نے اکثریت کے باوجود مشترکہ حکومت ہی بنائی ہے ،پنجاب میں چھ سالہ اقتدار اور ملت تشیع پر ہونے والے حملوں ،ظلم و زیادتیوں،اور متعصب رویوں کی داستان بہت طوالت رکھتی ہے،اسی دوران پنجاب جسے امن و امان کے حوالے سے بہت آئیڈیل پیش کیا جاتا رہا ہے میں جو واقعات و سانحات پیش آئے ان میں سانحہ سرپاک امام بارگاہ چکوال، سانحہ ڈیرہ غازی خان،سانحہ چہلم خان پور و رحیم یارخان،سانحہ راولپنڈی جلو س محرم،سانحہ گوجرانوالہ،سانحہ ملتان و چشتیاں،سانحہ کربلا گامے شاہ اور پنجاب کے شہروں لاہور ،فیصل آباد،رحیم یارخان،لیہ،بھکر،دریاخان،راولپنڈی،چنیوٹ اور کئی شہروں میں معروف شیعہ شخصیات ،علماءو وکلاءو ،قائدین ،اور شعبہ جاتی ماہرین کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ،انہی میں مولانا ناصر عباس،ڈاکٹر شبیہ الحسن ہاشمی،ڈاکٹر علی حیدر آئی سرجن،وکیل شاکر رضوی ،کے نام نمایاں ہیں اس ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ اس حکومت نے شیعہ شخصیات کے قاتلوں کو باعزت بری کیااور نامور دہشت گردوں جن میں ملک اسحاق اور غلام رسول شاہ جو انہی کے گزشتہ ادوار میں گرفتار کیئے گئے تھے کو نہ صرف رہا کیا گیا بلکہ انہیں رہا کروا کے استقبالات بھی کروائے گئے ،اور اس کے ساتھ ساتھ اس شیعہ دشمن حکومت نے قاتلوں کو رہا کر وا کے کھلی چھوٹ دے دی جنہوں نے ملک بھر میں اپنے نیٹ ورک کو مزید فعال کیا اور جگہ جگہ فسادات ہونے لگے ،یہ عجیب بات تھی کہ قاتلوں کو عزت و وقار سے نوازا گیا جبکہ مظلوموں اور مقتولوں کے ورثا ءکو زندگی سے محروم اور جینا دو بھر کر دیا گیا،اس کے ساتھ ساتھ ہم نے دیکھا کہ پنجاب میں بہت ہی معمولی باتوں پر توہین صحابہ کے سنگین پرچے درج اتنی زیادہ تعداد میں درج ہوئے کہ تاریخی ریکارڈ ہے،295سی،بی یا اے کے تحت درج ہونے والی ایف آئی آر جس پر درج ہو جائے وہ جیل میں جا کر شدید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے ،اس کی ملاقات اور ضمانت نہیں ہوتی ،ایسے ہی ہم نے دیکھا کہ اہل تشیع کی مشکلات اور مصائب میں منظم طریقہ سے اضافہ کیا گیا،حکومت پنجاب کے سب سے زیادہ بااختیار وزیر رانا ثناءاللہ نے ایک طرف تمام قاتلوں و دہشت گردوں کو جیلوں رہا کروانے کا پورا پورا اہتمام کیا دوسری طرف ہمارے لیئے مشکلات کھڑی کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی،بھکر میں ایک سو سے زیادہ لوگوں کو فورتھ شیڈول جیسے ظالمانہ قانون کا شکار کرتے ہوئے ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا ،جبکہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ معمولی میسیج یا فیس بک پر غلط شیئرنگ کرنے پر پرچے کاٹنے والی حکومت نے ٹیلی ویژن پر مولا علی ؑ کی شان میں گستاخی کرنے والے ڈاکٹر اسرار احمد کے خلاف دس گھنٹے تک پریس کلب لاہور سے لیکر مال روڈ اسمبلی ہال کے سامنے چوک میں پر امن احتجاج کے باوجود نہیں کاٹی تھی ایسے ہی ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ دشمنی اور تعصب کی انتہا کرتے ہوئے پنجاب حکومت نے حالیہ دنوں میں مولا علی ؑ کے خطبات،کلمات،اور خطوط پر مشتمل معتبر ترین کتاب نھج البلاغہ پر پابندی کی سازش کرتے ہوئے اس کی فروخت کے جرم میں ایک سید پر ایف آئی آر کاٹی اور جیل میں بھیجا،اب بھی اس سرمایہءاسلام کو پابندیوں میں لانے کی سازش پر عمل کیا جا رہا ہے، اس وقت سب سے زیادہ جیلوں میں توہین صحابہ کی ایف آئی آر والے شیعہ ہیں ،جن کا کوئی پرسان حال نہیں ،حکومت قاتلوں و دہشت گردوں کو تو کھلی چھوٹ دے چکی ہے مگر بے گناہوں اور معصوم اہل تشیع کیلئے اس کا قانون فوری اور سختی سے عمل درآمد کرنے پر تل جاتا ہے ،آپ دیکھیں کہ اخبارات کے پہلے صفحے پر تکفیریت کے خلاف اشتہارات چھپوائے جاتے مگر پریس اور میڈیا کے سامنے پولیس و انتظامیہ کی موجودگی میں ہر جلسے و احتجاج میں شیعہ کافر کے نعرے لگانے والوں کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگاتا،یہ سب کچھ گزشتہ چھ سال سے ہو رہا ہے ،آپ اے ظلم کہیں یا تعصب کی انتہا،اپنی کمزوری کہیں یا سیاسی میدان میں اپنی لاتعلقی کا نتیجہ،باہمی خلفشار اور انتشار کا نتیجہ سمجھیں یا گزشتہ کئی برس سے تکفیری قوتوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا عکس العمل،یہ سب کچھ ہو رہا ہے ،ملت ایسے حکمرانوں سے الٹے ہاتھ کر کر کے نجات چاہتی ہے،ملت ایسے شیعہ دشمنوں کو ایک لمحہ کیلئے بھی اقتدار پر متمکن نہیں دیکھنا چاہتی،اگر کوئی کسی بھی شکل میں ایسی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کر رہا ہے تو اور کیا دلیل سامنے لائی جائے اس مطالبہ کی صداقت و سچائی ثابت کرنے کیلئے؟
میں سمجھتا ہوں کہ یہی وہ منظر نامہ تھا جس پر مجلس وحدت مسلمین نے تکفیریت اور اس کے حامی حکمرانوں کو ان کے کئے کی سزا دینے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں معتدل و محبان اہلبیت ؑ پارٹیوں کیساتھ ملکر ایوان اقتدار سے ہٹانے کی جدوجہد شروع کی ہے،یہ جدوجہد کیا رخ اختیار کرتی ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اس سے قطع نظرہم کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیئے کہ اگرچہ یہ ایک سیاسی اتحاد ہے اور فی الحال اس کے مقاصد سیاسی ہیں مگر اس اتحادسے فرقہ واریت کے خاتمہ،سنی شیعہ وحدت کے قیام و باہمی اخوت و بھائی چارہ کے فروغ،باہمی اختلافات کو کم سے کم کرنے کا ماحول بنایا ہے۔اسکا عملی ثبوت وہ نعرے ہیں جو اس دھرنے اور جلوس میں لگائے جا رہے ہیں ۔کبھی کبھی تو مجلس کا ماحول بن جاتا ہے۔سنی اتحاد کونسل کے ساتھ تو پہلے ہی یہ اتحاد کام کر رہا تھا اب اہل سنت کی ایک برجستہ شخصیت نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کر کے ایک دوسرے کو سمجھنے کی عملی کوششیں اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیاہے ۔دعا کی جائے کہ یہ سنی شیعہ وحدت ایسے ہی قائم رہے اورمستقبل میں اس وحدت کے ذریعے ملک پاکستان میں نفرتوں اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ملک کی خدمت ہو سکے۔ ۔۔۔!
قارئین محترم؛
اگر آپ کا تعلق مکتب جعفری سے ہے تو بہ طور شیعہ علی اس دور میں کون ہے جو پنجاب کی ظالم و جابر کھلی شیعہ دشمن حکومت کو ایک دن بھی اقتدار میںبرداشت کرنے کو تیار ہے۔شائد ہی کوئی شیعہ ہو جس کے شخصی مفادات اس حکومت سے وابستہ ہوں وگرنہ کوئی بھی قومی و اجتماعی سوچ رکھنے والا انسان ایسی حکومت جس میں فیس بک پر ایک پوسٹ پر تبصرہ کرنے اور ایک میسیج کو فارورڈ کرنے کے جرم میں شدید ترین جرم کی دفعہ لگا کر شیعہ نوجوانوں کو پس دیوار زندان ڈال دیا جاتا ہے جبکہ ہمارے مولا و آقا امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ کی شان میں برسر عام گستاخی پر ڈاکٹر اسرار احمد کے خلاف پرچہ نہیں کاٹا جاتا،آپ کی معتبر ترین کتاب نھج البلاغہ کو پابندیوں کی ذد میں لایا جاتا ہے اس کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں اور آپ کے خلاف فرقہ وارانہ و اشتعال انگیز لٹریچر و کتب سر عام چھپ کر تقسیم کی جاتی ہیں اور گلی گلی میں نعرے لگائے جاتے ہیں تو کوئی پوچھتا نہیں،اب تو سرکاری اداروں میںبھرتی کیلئے باقاعدہ طور پر یہ لکھا جاتا ہے کہ یہ سیٹ صرف دیوبندی مسلک والوں کیلئے ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس سے پہلے ہمیں بہ طور مکتب تسلیم کیا گیا ہو اور ہمارے مطالبات کو باقاعدہ تسلیم کیاگیا ہو ،پاکستان عوامی تحریک کے جتنے بھی مطالبات ہیں وہ جائز ہیں اور ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے ،یہ ظلم نہیں کہ ایک گروہ کے چودہ بے گناہ قتل کر دیئے گئے،اور ان کی ایف آئی آر تک درج نہی کی گئی بلکہ اس کے مقابل مظلوموں کے خلاف کئی ایف ۔آئی۔آر کاٹی گئی ہیں۔۔۔
کیا مظلوم کی مدد۔۔کربلا کی تعلیمات کے خلاف ہے ؟
کیا مقتول کا ساتھ دینا۔۔۔اسلام کی آفاقی تعلیمات کے خلاف ہے؟
کیا ظالموں،متعصب حکمرانوں کے خلاف میدان میں نکلنا۔۔۔پاکستان کے آئین و دستور کے خلاف ہے؟
کیا اپنے قومی دشمن حکمرانوں کو نکیل ڈالنے کی کوشش کرنا ۔۔۔حکمت و تدبر و سیاست کے خلاف ہے؟
کیا تکفیری قوتوں کے سرپرستوں کے خلاف ۔۔اپنے جیسے مظلوموں ،کمزوروں کے ساتھ ملکر جدوجہد کرنااور اتحاد و وحدت کی فضا کو جنم دینا ،ملکی بنیادوں کو ہلانے کے مترادف ہے یا اس سے ولایت فقیہ کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں،کیا عراق میں تکفیری قوتوں کو لگام ڈالنے کیلئے اہل سنت( بریلوی جو قبلاً سنی صدام کے ساتھ کھڑے تھے) کے ساتھ ملکر جدوجہد کی پالیسی نہیں اپنائی گئی،کون نہیں جانتا کہ عراق و پاکستان سمیت کئی ممالک میں سعودیہ نے پیسے خرچ کر کے اپنے لوگوں کو اقتدار میں لانے کی سازشیں کیں۔ پاکستان کے موجودہ حکمران اسی سعودی حکمرانوں کی تیار کردہ سازش کے تحت وجود میں آئے تھے،جنہوں نے جمہوری اسلامی کے ساتھ ہونے والے ایک ہی معاہدہ جس کا فائدہ بالآخر پاکستانی عوام کو ہونا ہے وہ بھی کینسل کر دیا ہے۔
جو لوگ مجلس وحدت مسلمین کی حکومت مخالف جدوجہد میں فعالیت و تحرک کے مخالف ہیں،انہیں یہ حکمران مبارک ہوں۔۔۔!
تحریر:غلام رسول جوادی