وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری جانی پہچانی شخصیت ہیں، اس وقت مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر کام کر رہے ہیں، ملک گیر دوروں اور سیاسی محاذ پر دن رات انتھک محنت کر رہے ہیں، سبھی سیاسی جماعتیں اس وقت مجلس وحدت مسلمین کو خاص اہمیت دے رہی ہیں، علامہ صاحب اپنے اخلاص کی بدولت عوام میں بےحد مقبول ہیں، اسلام ٹائمز نے علامہ ناصر عباس جعفری سے پاکستان عوامی تحریک، پاکستان تحریک انصاف، سنی اتحاد کونسل اور مسلم لیگ قاف کے ساتھ ہونے والے ممکنہ اتحاد اور حکومت مخالف تحریک سمیت غزہ کی صورت حال اور مسلم حکمرانوں کی بےحسی پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر جو تحریک شروع کر رہی ہے اس کے مقاصد کیا ہیں، دوسرا آپ کی جماعت کس حد تک اس تحریک میں ساتھ دے گی۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ ہمارے ملک کو کون کون سے خطرات درپیش ہیں اور پاکستان کے عوام کو کیا کیا مشکلات درپیش ہیں، جب یہ جان لیں گے تو پھر آگے بڑھ سکیں، موجودہ حکومت کے بارے میں تمام جماعتوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ حکومت جعلی مینڈیٹ کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ موجودہ حکومت دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے، لٰہذا اس حکومت پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے۔ کراچی سے لیکر پشاور تک الیکشن کے نتائج تبدیل کیے گئے اور انگوٹھوں کے نشانات سے واضح ہوچکا ہے کہ بڑی سطح پر دھاندلی کی گئی ہے۔ عوام نے جن لوگوں کو چنا تھا وہ اسمبلیوں میں نہیں پہنچے بلکہ جعلی لوگ وہاں پر پہنچ گئے ہیں، اس لئے یہ قانونی، آئینی اور اخلاقی لحاظ سے حکمران کہلانے کے قابل نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ کہ نواز شریف سعودی عرب کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے اور سعودی عرب نے پاکستان کو اسٹریٹجک ڈیبتھ بنایا ہوا ہے۔ نواز شریف کے آنے سے دہشتگردی میں اضافہ ہوا ہے، تکفیریت مضبوط ہوئی ہے، ان کی موبیلیٹی میں اضافہ ہوا ہے، دہشتگردوں کو جیلوں سے رہا کیا گیا ہے، کیونکہ ان دہشتگردوں نے اپنے اعلانات کے ذریعے سے نواز شریف کو الیکشن میں سپورٹ کیا تھا اور اس کا نواز شریف نے مکمل فائدہ اٹھایا ہے۔ نواز شریف دہشتگردوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہے، دنیا جاتنی ہے کہ سعودی عرب شام، لبنان، عراق اور دیگر ممالک میں دہشتگردوں کو پرموٹ کرنے میں اہم کرادار ادا کر رہا ہے۔ اگر نواز شریف حکومت میں رہتا ہے تو ملک میں دہشتگردی بڑھے گی، تکفیریت مضبوط ہوگی، اس سے اہل تشیع پر حملے اور قتل و غارت گری میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان کو، عوام کو اور ہمیں یہ سوٹ کرتا ہے کہ جعلی حکمرانوں کا راستہ روکنا چاہیے۔
اسلام ٹائمز: عمران خان اور طاہرالقادری کے ایجنڈے میں واضح فرق ہے، مجلس وحدت کس کے ساتھ کھڑی ہے اور کھڑے ہونے کی شرائط کیا ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں اس معاملے میں عمران خان کی مخالفت کی اپنی وجہ ہوسکتی ہے، قاف لیگ کی مخالفت کی وجہ اپنی ہوسکتی ہے، طاہرالقادری کی مخالفت کی وجہ اپنی ہوسکتی ہے، لہٰذا ہماری مخالفت کی اپنی وجہ ہے، جو اوپر بیان کر دی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، جو جعلی انتخاب کے ذریعہ سے اقتدار میں آئے ہوں، جو سعودی عرب کے اسٹریٹیجک پارٹنر ہوں، جو جہان اسلام میں دہشتگردی پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہوں، انہیں راستہ سے ہٹانا جائے، لہٰذا ہماری مخالفت کی وجہ یہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے منہاج القرآن کے ساتھ کیا کیا ہے، ان کے بندوں کو شہید کیا ہے، ریاستی دہشتگردی کی انتہاء دیکھی ہے، عورتوں کے منہ میں گولیاں برسائی گئی ہیں اور پیغام دیا گیا ہے کہ ہم پرامن تحریک کے لوگوں پر گولیاں تک برسا سکتے ہیں، انہوں نے ہم سب کو پیغام دیا کہ ہم اپنے مخالفین کو برداشت نہیں کریں گے۔ راولپنڈی سانحہ عاشورہ میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ یہ لوگ دہشتگردوں کے حامی ہیں اور تکفیریوں کے ساتھی ہیں، انہوں نے فرقہ وارانہ کیس میں خود وکیل کیا ہے۔ آج تک ریاست ایسے کسی کیس میں خود عدالت نہیں گئی، لیکن یہ گئے ہیں۔ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد آپ دیکھیں کہ سعودیوں کی پاکستان میں آمد بڑھ گئی ہے، بحرین میں قاتل بھیجے گئے، شام کے حوالے سے پالیسی تبدیل کی گئی۔ اس وجہ سے ہمسائے ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔
آپ دیکھیں کہ ایک ماہ گزر گیا ہے لیکن سانحہ ماڈل کی ایف آئی آر تک درج نہیں کی گی۔ مدعی آج بھی قاتلوں کی گرفتاری کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ہم نے راولپنڈی واقعہ میں ان کا مقابلہ کیا اور اب بھی کریں گے۔ اب ہم اپنا نقش اور رول ادا کریں گے۔ نواز حکومت فوجی آپریشن نہیں چاہتی تھی۔ ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے اہل سنت بھائیوں کے ساتھ ہیں، ان کے قاتلوں کی گرفتاری چاہتے ہیں، اس کیلئے جہاں تک جانا پڑا جائیں گے۔ حکمرانوں کیخلاف عوامی ضرب عضب آپریشن ہوگا اور ضرور ہوگا، اگر یہ اقتدار میں رہے تو ہر جگہ یہ گلو بٹ لیکر آئیں گے، ان کا ہر وزیر گلو بٹ ہے۔ یہ ہر گلی محلہ میں گلو بٹ لیکر آئیں گے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ یہ اپنے مخالفین پر گولیاں تک چلوا سکتے ہیں، ہمارے سنی بھائیوں نے راولپنڈی واقعہ میں ہمارا ساتھ دیا اور ہم بھی ان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے، ہم حضرت عباس باوفا کے ماننے والے ہیں۔ ہم اس فاسد حکومت کے خاتمہ میں منہاج القرآن کیساتھ ہیں۔
اسلام ٹائمز: اگر آپ لوگ حکومت مخالف تحریک چلاتے ہیں اور حکومت راست اقدام کرتی ہے اور اسکے نتیجے میں افراد مارے جاتے ہیں جیسا کہ ہم نے سانحہ ماڈل ٹاون میں دیکھا تو ایسی صورتحال میں معاملات کس طرف جاسکتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: سانحہ ماڈل ٹاون سمیت دیگر واقعات کے ذمہ دار خود حکمران ہیں۔ اگر انہوں نے دوبارہ سے وہ اقدامات کیے تو پھر یہ نہیں رہ سکیں۔ اگر انہوں نے مہینے میں جانا ہوا تو یہ دنوں میں جائیں گے۔ عوام کے ارادے کے آگے یہ نہیں ٹھہر سکتے۔ انہیں جانا ہوگا، ہم فاسد حکومت کے خاتمہ کیلئے طاہرالقادری اور دیگر جماعتیں کے ساتھ ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں شفاف الیکشن کمیشن بننا چاہیے، عوام کا حق رائے دہی نہیں چھیننا چاہیے، جو بیلٹ بکس میں ڈالیں وہی نکلنا چاہیے، اس ملک کو بہتر بنانے کیلئے ہم تماشہ گر نہیں بنیں گے۔ ضیاء دور میں ہمارے ریاستی اداروں میں نظریاتی تبدیلیاں لائی جاتی رہیں اور ہمارے لوگ دیکھتے رہ گئے، حتیٰ فوج سے یاعلی ؑ کا نعرہ تک نکال دیا گیا، لیکن اب ہم ان معاملات سے الگ نہیں رہ سکتے۔ ہم اس مادر وطن کے باوفا بیٹے ہیں، ہماری ذمہ داریاں ہیں، وطن اور اہل وطن کے حوالے سے ہم اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ جہاں تک طاہرالقادری اور شرائط کی بات ہے، میری ان سے ملاقات ہوئی ہے اور میں نے انہیں کہا ہے کہ اس ایجنڈے میں مظلوموں کی چیزیں بھی شامل کر لی جائیں تو یہ ایجنڈا پاکستان کے تمام مظلوموں کی آواز بن جائیگا۔
اس ایجنڈے کے اندر گلگت بلستان کے آئینی حقوق کو تسلیم کیا جانا چاہیے، اقلیتیوں جن کے جان و مال محفوظ نہیں، ان کے حقوق کو یقینی بنایا جائے، شیعہ اوقاف شیعوں اور سنی اوقاف سنیوں کے حوالے کئے جائیں، عام طور پر وزیر اوقاف ایسے بندے کو بنایا جاتا ہے جو اولیاء اللہ کو مانتا تک نہیں، وہ اس چیز کا قائل ہی نہیں ہوتا، لیکن اسے وزیر بنایا دیا جاتا ہے۔ شیعہ سنی کے وسائل دشمنوں کے ہاتھوں چلے جاتے ہیں اور استعمال میں لائے جاتے ہیں، الیکشن میں متناسب نمائیدگی کا نظام لانا چاہیے، آئین میں تبدیلی لائی جائے، آئین کے اندر مسلمہ مکاتب فکر کا ذکر ہونا چاہیے کہ یہ مسلمہ مکاتب فکر ہیں۔ تکفیریت کے حوالے سے باقاعدہ واضح اور روشن چیز لکھی جانی چاہیے کہ تکفیریت کو جڑھ سے اکھاڑ باہر پھینکا جائیگا، اسے واضح انداز میں ایجنڈے میں درج ہونا چاہیے، جن لوگوں نے معصوم انسانوں کا خون بہایا ہے، ان میں سے ایک وہ ہیں، جن کیخلاف فوج کارروائی کر رہی ہے اور ایک وہ ہیں، جو ان کے وکیل صفائی بن گئے، وہ بھی مجرم ہیں، انہیں بھی کیفردار تک پہنچنا چاہیے، جنہوں نے قاتلوں کو سپورٹ کیا اور تعاون کیا انہیں کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے اور ان چیزوں کو اس ایجنڈے کا حصہ بننا چاہیے اور اسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔
ہماری سیاسی جدوجہد ان چیزوں کیلئے ہوگی، ہماری طاہرالقادری صاحب سے اس موضوع پر بات ہوئی ہے اور انہوں نے اس چیز کو تسلیم کیا ہے اور اب رسمی طور پر اس پر کام ہونا ہے۔ اس ایجنڈے کے تحت ہم اس جدوجہد کا حصہ ہوں گے۔ ملک سے نفرتیں مٹانے کیلئے، فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے، اقلیتیوں کو ان کے حقوق دلانے کیلئے ہم جدوجہد کریں گے۔ یہ تاریخ کا اہم موڑ ہے کہ پاکستان میں پہلی بار شیعہ سنی اسٹریٹیجک پارٹنر بن رہے ہیں۔ اگر شیعہ سنی اکٹھے ہوجائیں تو سب مسئلے حل ہوسکتے ہیں، دونوں کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں، دونوں کا پاکستان کیخلاف کوئی اقدام نہیں، تکفیریت کے خلاف، اکٹھا ہونا ضروری ہے۔ ماضی میں ملک میں ایک اقلیت کو سیاسی، معاشی اور ہر لحاظ سے طاقتور کیا گیا۔ پاکستان کے اندر بحران پیدا ہوگیا، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اس بحران کا خاتمہ بھی شیعہ سنی اتحاد سے ہوگا۔ شیعہ سنی وحدت کو نچلی سطح تک لے جائیں گے، محبت، امن اور رواداری کو نچلی سطح تک پہنچائیں گے اور وہ ٹولہ جو ہمیں تنہا کرنا چاہتا تھا، ہم اسے تنہاہ کر دیں گے۔ طاہرالقادری، صاحبزدہ حامد رضا کے ساتھ ہمارا سلسلہ بڑھا ہے اور پاکستانی عوام کیلئے بہتری کا پیغام ہے۔
اسلام ٹائمز: غزہ میں جاری صیہونی بربریت پر کیا کہیں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: نام نہاد مسلم صہیونسٹ ہیں، جنہوں نے جہان اسلام کو مشکلات کا شکار کیا ہے، آج سے چند سال پہلے جب اسرائیل نے حزب اللہ سے جنگ لڑی تو اس میں اسرائیلوں نے تسلیم کرلیا تھا کہ وہ براہ راست مسلمانوں سے نہیں لڑ سکتے۔ وہ اسرائیل جو نیل سے فرات تک کا خواب دیکھ رہا تھا، اس نے اپنے اردگر گرد دیواریں کھڑی کرنا شروع کر دی ہیں۔ اسرائیلوں نے اسی جہادی ٹولے کے ذریعے سے جہان اسلام اور بالخصوص مقاومت کے بلاک کیلئے مشکلات کھڑی کیں اور انہیں الجھایا، نام نہاد جہادیوں کے ذریعے سے شام، لبنان، عراق اور پاکستان کو الجھایا گیا ہے، اس سے فائدہ اسرائیل نے اٹھایا، اسرائیل کیلئے آسانیاں پیدا ہوگئیں۔ ان حالات میں اسرائیل کو فرصت ملی ہے کہ وہ غزہ میں بیگناہوں کا خوب بہائے۔ البتہ مقاومت کے بلاک نے ثابت کیا ہے کہ جب بھی انکے ساتھ جنگ لڑی گئی ہے وہ اور مضبوط ہوئے ہیں، آج اگر غزہ پر اسرائیل بمبار ی کر رہا ہے تو حماس بھی جواب میں اسرائیل پر راکٹ پھینک رہی ہے۔ اس کے آگے جھکے نہیں ہیں، اسرائیل تمام تر طاقت کے باوجود فلسطنیوں کو نہیں جھکا سکا۔ ان کی مقاومت جاری ہے۔ آپ دیکھیں، جب شام میں یہ تکفیری بشار الاسد کیخلاف لڑ رہے ہوتے ہیں تو ان کا علاج اسرائیل میں ہوتا ہے، یہ کیسے جہادی ہیں جن کا علاج اسرائیل میں ہوتا ہے۔ یہ کیسے مجاہدین ہیں، جو آج غزہ کے مظلوموں کی حمایت کرنے کی بجائے شام، لبنان، عراق اور پاکستان کے اندر لڑ رہے ہیں۔ یہ فلسطین کے حامیوں پر حملے کرتے ہیں۔ اسرائیل نے سوچا کہ ایک طرف عراق میں اس کی پروردہ داعش لڑ رہی ہے، اسی طرح شام اور دیگر ممالک میں اس کے حامی گروہ لڑ رہے تو وہ فرصت سے فائدہ اٹھا کر فلسطینی مقاومت کو کچل دے، یہ ناممکن ہے کہ مقاومت کو کچل دیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مقاومت انقلاب اسلامی کے بعد سے شروع ہوئی ہے، مقاومت مکتب امام خمینی سے شروع ہوئی ہے، اسے کچلنا اتنا آسان نہیں ہے، امام خمینی نے لوگوں کو بصیرت، شعور اور حوصلہ دیا، جنہوں نے تل ابیب پر براہ راست میزیل داغے۔ آج کسی مسلمان حکمران میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ لڑے، لیکن مقاومت کا بلاک لڑ رہا ہے۔ یہ باور کرایا ہے کہ استعماری قوتوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔ آج حماس کو میزائل کس نے دیئے ہیں؟، اسلامی جمہوری ایران میں اتنی جرات ہے جو حماس کو راکٹ اور ہر طرح کی مدد کر رہا ہے، باقی کسی اور ملک میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں کو میزائل دے یا ٹرینگ دے، یہ فقط مکتب امام خمینی میں ہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے فرعون کے ساتھ بھی لڑا جاسکتا ہے۔ غزہ کی مقاومت کا تعلق اس گروہ سے ہے، جس نے گذشتہ پینتیس برسوں سے اسرائیل کو ہر محاذ پر شکست دی ہے۔ اس وقت غزہ میں فلسطینی مظلوم ہیں، مسلمانوں کو آپس میں الجھایا گیا ہے۔ اس وقت فلسطینیوں کی حمایت کرنی چاہیے۔ انہیں تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ تکفیری ٹولہ استعماری طاقتوں کو سپورٹ کر رہا ہے۔ پوری دنیا کو پتہ چل جانا چاہے کہ مسلمانوں کا اصل حامی ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای ہیں۔ وہ ہمارے رہبر ہیں، جنہوں نے فلسطینیوں کو مسلح کیا، اور انہیں کھڑا کیا، انہیں اسرائیل کے سامنے کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا اور مکمل سپورٹ کیا ہے۔ کہاں وہ گلیل اور پتھر سے لڑائی اور کہاں آج راکٹ اور میزائلوں سے لڑائی۔ آج اسرائیل کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے کہ حماس کے پاس یہ ٹرینگ کہاں سے آگئی اور میزائل کس نے دیئے ہیں۔ ہمیں دیکھ لینا چاہیے کہ اگر اللہ پر بھروسہ کرکے لڑا جائے، بھلے آپ پتھروں سے لڑیں تو اللہ آپ کی مدد کرتا ہے، ایک وقت میں پتھر ہوتے ہیں، تو بعد میں اللہ میزائل اور راکٹ دیدیتا ہے، بس ایمان کامل ہونا چاہیے۔ اللہ کی راہ میں قیام کریں فرشتے بھی مدد کرتے ہیں۔ اللہ نے ہر فرعون سے لڑنے کیلئے اپنے بندوں کی مدد کی ہے۔ عالمی استکباری عمارتوں کی دیواروں میں داڑیں پڑ گئی ہیں۔
اسلام ٹائمز: موجودہ حالات کو دیکھتے ہیں یوم القدس پر کیا پیغام دیں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: اس سال یوم القدس پوری دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص زبردست طریقہ سے منانا چاہیے۔ پاکستان کے تمام طبقات کو دعوت دینی چاہیے۔ ڈاکٹرز، انجینئیرز، وکلا، صحافی، سول سوسائٹی سمیت تمام طبقات کو دعوت دینی چاہیے اور انہیں یوم القدس کے جلوسوں میں شامل کرنا چاہیے۔ فلسطینی مظلوموں کی حمایت کیلئے سب کو ساتھ ملانا چاہیے۔ یوم القدس کو وسعت دینی چاہیے، یہ عبادت ہے کہ ہم مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں سب کو ساتھ ملائیں۔ امام خمینی رہ نے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس منانے کا اعلان اس لئے کیا تھا کہ پوری دنیا کے مسلمان ملکر فلسطینیوں کی حمایت کریں۔ قدس کیلئے سب کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے اور تکفیریوں کو اس موقع پر رسوا کرنا چاہیے۔ اس کیلئے تمام توانائیاں صرف کرنی چاہیے۔ ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم فلسطین کو نہیں بھولے ہیں۔ اس سے ظالم کی حوصلہ شکنی ہوگی اور مظلوموں کے حوصلے بڑھیں گے۔