وحدت نیوز(پشاور) محرم کمیٹی پشاور کے رہنماوں نے کہا ہے کہ اگر پشاور میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ نہ رکا تو اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے دھرنے اور حکومت مخالف تحریک شروع کی جائے گی، پشاور پریس کلب میں جامعہ شہید علامہ عارف الحسینی کے خطیب علامہ عابد حسین شاکری، علامہ ارشاد حسین خلیلی، مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی رہنماء ارشاد حسین بنگش، امامیہ جرگہ کے رہنماء مظفر علی اخونزادہ، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پشاور کے رہنماوں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پشاور میں شیعہ مسلمانوں کی منظم انداز میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ نے ہمیں شدید عدم تحفظ کا شکار کردیا ہے، گزشتہ کئی سالوں سے استعمار و استبداد کے ایجنٹ اور وقت کے خوارج دین، دیس سے دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے نہتے شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور پھر پشاور شہر کے گلی کوچوں کو مظلوم اور بے گناہ شیعہ مسلمانوں کے خون سے رنگین کر رہے ہیں۔ دیگر عام شہریوں اور محب وطن پاکستانیوں کے ساتھ شیعہ مسلمان رہنماؤں اور کارکنوں کو چن چن کر قتل کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران کئی شیعہ مسلمان جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور کوئی ایسا ہفتہ نہیں گزرا جس میں یہ دہشتگرد انسانیت کے خلاف جرم کا ارتکاب نہ کریں اور کسی شیعہ مسلم رہنماء اور کارکن کو شہید نہ کریں، لیکن ان تمام تر حالات کے باوجود ریاستی فورسز و خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی، قاتلوں کو گرفتار اور نشان دہی و سزا دینے میں پولیس اور دیگر اداروں کی مجرمانہ غفلت نے درندوں اور قاتلوں کے حوصلے مزید بڑھا دئیے ہیں اور وہ جب چاہیں، جہاں چاہیں معصوم و نہتے اور بے گناہ شہریوں کو ٹارگٹ کر کے اپنی درندگی کی پیاس بجھانے کی کوششں کرتے ہیں۔ اگر کوئی دہشت گرد پکڑا بھی جائے تو ناقص تفتیش اور عدالتیں اتنی خوف زدہ ہیں کہ اُنہیں سزا دینے کی بجائے باعزت رہا کیا جاتا ہے، اور گرفتار شدہ دہشت گردوں کو جیلوں میں مہمان کی طر ح رکھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں۔؟ کیا ہماری حفاظت ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے۔؟ اگر ہم اس ملک کے شہری ہیں، جس سے ہماری بے پناہ محبت و الفت تمام تر ریاستی جبر و تشدد کے باوجود پاکستان زندہ باد کے نعرے کا ہر مقام و ہر جگہ اظہار کرتے ہیں تو پھر ہمارے قاتلوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا۔؟ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا اس ملک کی سیکیورٹی ایجنسیاں اتنی ناواقف و نااہل ہیں کہ وہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں بے گناہ انسانوں کے ایک قاتل کو بھی گرفتار نہیں کر سکتیں۔؟ افسوس کا مقام ہے کہ پشاور میں ہونے والی اس قتل و غارت گری کا مرکزی و صوبائی حکومت کی جانب سے اب تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا، بلکہ کسی حکومتی شخصیت نے دو سطر کا مذمتی بیان تک جاری کرنے کی زحمت گوارہ نہ کی، اس حوالے سے عوام کے منتخب نمائندوں یعنی اسمبلی میں بیٹھے معزز اراکین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کردار بھی انتہائی افسوسناک رہا ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تمام ترمظالم کے باوجود دہشتگردوں کیخلاف کسی قسم کی کارروائی کا نہ کیا جانا حکومت کی نااہلی، دہشتگردوں کے سامنے بے بسی یا پھر نیم رضامندی کی طرف اشارہ کرتا ہے، لیکن ہم ان تمام تر مظالم کے باوجود بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہم کسی بھی صورتحال کیلئے تیار اور چوکس ہیں، ہماری خاموشی کو ہماری کمزوری نہ تصور کیا جائے، ہم اس مملکت خداداد پاکستان کے پر امن شہری ہیں اور آئین پاکستان کے تحت ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم اپنی مذہبی رسومات جہاں چاہیں، جس جگہ چاہیں آزادی سے ادا کرسکتے ہیں، ہم کسی صورت میں مٹھی بھر دہشت گردوں کی دھمکیوں، احتجاجی جلسوں، جلوسوں، ٹارگٹ کلنگ سے ڈرنے والے نہیں، صوبائی حکومت کو وہ تمام گروہ معلوم ہیں جو ٹارگٹ کلنگ کے اس گھناؤنے جرم میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم شیعان حیدر کرار و پیروان اہلبیت (ع) یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہم نے کبھی صحابہ کرام کی توہین کی ہے اور نہ ہی ہمارے علماء کہ جن کے خلاف غلاظت پھیلائی جارہی ہے نے توہین صحابہ کی ہے، بلکہ اس سلسلے میں رہبر شیعان جہان کا فتویٰ ہی کافی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو غلیظ باتوں کو ہوا دیکر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں قانون کی گرفت میں لایا جائے، ہمارے معتبر علماء کی توہین کو بند کیا جائے اور ان علماء پر پابندیاں عائد کرکے شیعہ مسلمانوں کے زخموں پر مزید نمک پاشی نہ کی جائے، انہوں نے صحافیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے نوٹس میں یہ بات بھی لانا چاہتے ہیں کہ ایک منظم سازش کے تحت ایک کالعدم تنظیم کے کارندے مختلف تنظیموں کے پلیٹ فارم پر فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں، یہ کالعدم سپاہ صحابہ کے عہدیدار، کارندے رہے ہیں، ان کے خلاف قانونی کارروائی کر کے ان کو پابند کیا جائے، اس سلسلے میں یکم محرم سے پہلے اور آج تک یہ دہشت گرد گروہ اور کالعدم تنظیموں کے کارکن جس طرح قانون کو ہاتھ میں لے کر خلاف ورزیاں کر رہے ہیں، ضلعی انتظامیہ، صوبائی حکومت اور پولیس کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ پشاور میں جاری ٹارگٹ کلنگ کو فوری طور پر روکنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر فوجی آپریشن کیا جائے، ٹارگٹ کلنگ کے محرکات جاننے اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے، اگر مطالبات پر عملدر آمد نہ کیا گیا تو حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی، اور اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر دھرنا دیا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ تھانہ خان رازق میں تکفیروں کے خلاف دائر درخواست پر مجرمان کے خلاف فوری طور پر ایف آئی آر درج کی جائے، تکفیری گروہ کی طرف سے محرم الحرام اور اس کے علاوہ کئی مرتبہ اشتعال انگیز تقاریر، وال چاکنگ اور غلیظ لیٹریچر و شیعہ مسلمانوں کی دل آزاری پر مبنی نعرے بازی کی جاتی رہی ہے اور انتظامیہ خاموش تماشائی رہی۔ اس پر ہم یہ متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آئندہ ایسا ہونے دیا گیا تو ہم اپنا دفاع پر مجبور ہونگے اور یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ان غلیظ کاموں میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کیجائے۔
شیعہ رہنماوں نے مزید کہا کہ پشار میں شیعہ مسلمانوں کو دھمکی آمیز خطوط، ٹیلی فون کالز کو روکنے کیلئے پشاور پولیس میں ایک سیل قائم کیا جائے، جو فوری طور پر اس پر عمل در آمد کرے، شیعہ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات دہشت گردی ایکٹ کے تحت ساتھ ساتھ پاکستان پروٹیکشن ایکٹ کے تحت بھی درج کئے جائیں، دہشت گردی میں شہید ہونے والے شیعہ مسلمانوں کو شہید پیکج دیا جائے اور ان کے لواحقین کو مختلف ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ الاٹ کئے جائیں، انہوں نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کی ملک جرار حسین ایڈووکیٹ ٹارگٹ کلنگ کیس میں صوبائی و ضلعی حکومت و پولیس کو جو ہدایات دی گئی ہیں اس کی روشنی میں شیعہ مسلمانوں کی زندگی کو محفوظ بنایا جائے، ہم آخر میں صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فی الفور ہماری گزارشات پر عمل در آمد کرائے، بصورت دیگر ہم اس سلسلے میں ہم احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔