وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) بانی انقلاب اور رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کی پچیسویں برسی کے موقع پر ملک بھر سے حضرت امام خمینی (رہ) کے لاکھوں عاشق اور ان سےمحبت اور الفت رکھنے والے کئي ملین زائرین نے ان کے روضہ اقدس پر حاضر ہوکر استقامت، پائداری،انقلاب اور بانی انقلاب کے ساتھ عشق و محبت کے شاندار اور بے مثال جلوے پیش کئے اور اپنے مرحوم پیشوا کے ساتھ دوبارہ تجدید عہد کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے اس شاداب، باطراوت اور عظیم اجتماع سے خطاب میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت ، ترقی، طاقت اور قدرت کے بارے میں اقوام عالم کے روزافزوں شوق و اشتیاق اور جستجو کی تشریح ، علل و اسباب ، اسلامی شریعت اور اس شریعت کی بنیاد پرجمہوریت کے قیام کو حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کے دو ستون قراردیا اور حضرت امام خمینی (رہ) کے اس سیاسی اور نئے مدنی نسخہ کے بارے میں ایرانی عوام اور حکام کی وفاداری پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ کی تخریب کاریاں اور رکاوٹیں، اور حضرت امام خمینی (رہ) کی تحریک کی جہت گيری ، سمت و سو اور جوش و جذبہ کا کمرنگ ہونا ، درحقیقت دو بڑے اور بنیادی چیلنج ہیں جنھیں ایرانی قوم شناخت کرکے اور ان پر غلبہ پا کر حضرت امام خمینی (رہ) کے مایہ نازاور سعادت بخش راستے گامزن رہےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس عظيم قومی اجتماع میں اپنے خطاب کے پہلے حصہ میں ، اقوام عالم بالخصوص مسلمان قوموں کے افکار و اذہان میں حضرت امام خمینی(رہ) اور اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں روزافزوں محبت ، الفت اورجاذبہ کو ایک اہم حقیقت قراردیتے ہوئے فرمایا: رہبر کبیر انقلاب اسلامی کی رحلت کے 25 برس بعد ،عوام کےمختلف طبقات بالخصوص جوان اور عالم اسلام کے دانشور شوق و اشتاق کے ساتھ اسلامی جمہوریت، نظریہ ولایت فقیہ اور انقلاب کے دوسرے مسائل کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے مشتاق ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف دشمنوں کی پیہم ، مسلسل اور وسیع تبلیغاتی اور سیاسی یلغار کو انقلاب اسلامی کے بارے میں قوموں کی مزید تحقیق و جستجو کو ایک اور عامل قراردیتے ہوئے فرمایا: عالم اسلام کی رائے عامہ پہلے سے کہیں زیادہ انقلاب کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی مشتاق ہے تاکہ وہ اس حقیقت کی تہہ تک پہنچ جائے کہ اس حکومت پر پیہم اور مسلسل یلغار کی اصل وجہ کیا ہے اور اس کی استقامت و پائداری اور کامیابیوں کی رمز اور اس کا راز کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری اور سامراجی طاقتوں کے خلاف عوامی احساسات اور جذبات کو انقلاب کے بارے میں قوموں کے ادراک ، جستجو اور تحقیق کا نتیجہ قراردیتے ہوئے فرمایا: سامراجی محاذ اسٹراٹیجک غلطی میں یہ تصور کرتا ہے کہ اس نے اسلامی بیداری کی جڑیں اکھاڑدی ہیں لیکن وہ فہم و ادراک جو اسلامی بیداری کا سبب بنا وہ ختم ہونے والا نہیں اور یہ رجحان جلد یا بدیر عالم اسلام میں پھیل جائےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کی مسلسل ، لگاتار اور پیہم ترقیات کو اسلامی جمہوریت کے بارے میں دیگر اقوام کی تحقیق اور جستجو کی ایک اور دلیل قراردیتے ہوئے فرمایا: عالم اسلام کی جوان نسل اس تاریخی اور اہم سوال کے جواب کی تلاش میں ہے کہ امریکہ کی اقتصادی پابندیوں، دشمنوں کی سیاسی ،فوجی اور تبلیغاتی عداوتوں اور سازشوں کے مقابلہ میں اسلامی نظام نے 35 سال تک کیسے استقامت و پائداری کا مظاہرہ کیا اور کیسے تنگ نظری و قدامت پرستی کے بغیر روز بروز ترقی و پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے اور قدرتمند اور طاقتور بن گیا ہے؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کی جذابیت اور محبت کے مزید علل و اسباب کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: مسلمان قومیں اور عالم اسلام کےدانشور، تعلیم یافتہ افراد اور جوان ، ایرانی قوم کی فضائی ترقیات کو مشاہدہ کررہے ہیں، سائنسی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایران کی پیشرفت اوردنیا کے پہلے دس ممالک کی فہرست میں ایران کی شمولیت کو مشاہدہ کررہے ہیں ۔ عالمی اوسط پیشرفت کی نسبت ایران کی 13 برابر سرعت و پیشرفت کو ملاحظہ کررہے ہیں اور اس بات کو بھی اچھی طرح درک کررہے ہیں کہ علاقائی پالیسیوں میں ایرانی قوم کی بات حرف اول کی حیثیت رکھتی ہے اور دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران، اسرائیل کی غاصب صہیونی حکومت کے مد مقابل استقامت کا مظاہرہ کررہا ہے اور مظلوم کا دفاع اور ظالم کا مقابلہ کررہاہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ حقائق ہر انسان کو اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں مزید جستجو اور تحقیق کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ 35 برسوں میں 32 انتخابات، اور ان میں عوام کی قابل تحسین اور حیرت انگیز شرکت، نیز 22 بہمن اور یوم قدس کی عظیم ریلیوں میں عوام کی ولولہ انگیز شرکت کو غیر ملکی افکار اور رائے عامہ کے لئے ایران کے دیگر جذاب حقائق قراردیتے ہوئے فرمایا: ہمیں ایسے مسائل کی عادت ہوگئی ہےاور ان کی عظمت و اہمیت ہماری آنکھوں کے سامنے اجاگر نہیں ہوتی لیکن یہ خوبصورت حقائق عالمی ناظرین اور دوسرے ممالک کی اقوام کے لئےسوال برانگیز اور حیران کن اور خيرہ کنندہ ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان تمام حقائق کو اسلامی انقلاب کے عظيم معمار حضرت امام خمینی (رہ) کی دانشمندانہ اور توانا فکر کا مظہر قراردیا اور امام خمینی (رہ) کے مکتب کی مختصر تصویر پیش کرتے ہوئے اپنے خطاب کو جاری رکھا۔
اس حصہ میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب کا اصلی نکتہ اس حقیقت پر مبنی تھا کہ ہدف اور مقصد تک پہنچنے کے لئے راستہ کو گم نہیں کرنا چاہیے اور اس راستہ پر آگے کی سمت صحیح طریقہ سےگامزن رہنے کے لئے اس عظیم معمار کے اصلی نقشہ کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی عقلانیت کی بنیاد پر سیاسی اور مدنی نظریہ کی بنا رکھنےکو حضرت امام خمینی (رہ) کا اصلی نقشہ قراردیتے ہوئے فرمایا: وابستہ، ڈکٹیٹر اور فاسد شہنشاہیت نظام کا خاتمہ اور ڈکٹیٹر حکومت کی تمام خصوصیات کا خاتمہ در حقیقت ایک عظيم عمارت تعمیر کرنے کا مقدمہ تھا اور حضرت امام خمینی (رہ) نے اپنی بلند ہمت اور قوم کے تعاون سے اس عظيم کام کو حسن و خوابی کے ساتھ انجام دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے مد نظر سیاسی و مدنی نظام کے اصلی ستونوں کی تشریح میں دو باہم منسلک اساسی نکتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پہلا نکتہ اسلامی جمہوریہ کی روح اور جوہر کے عنوان سے اسلامی شریعت اور دوسرا نکتہ جمہوریت اور انتخابات کے ذریعہ امور کو عوام کے سپرد کرنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: کسی کو یہ وہم و گمان نہیں ہونا چاہیے کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے انتخابات کو مغربی ثقافت سے اخذ کیا اور پھر اسے اسلامی فکر کے ساتھ مخلوط کردیا کیونکہ اگر انتخابات اور جمہوریت، اسلامی شریعت کے متن سے اخذ نہ ہوسکتی ، تو امام (رہ) اس بات کو واضح اور صریح طور پر بیان کردیتے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کی بنیاد پر اسلامی نظام کی ماہیت اور حقیقت کے عنوان سے اسلامی شریعت پر تمام امور، قانون سازی، پالیسی،عزل و نصب، عمومی رفتار اور دیگر مسائل میں کامل توجہ رہنی چاہیے اور اس کے ساتھ اس سیاسی اور مدنی نظم کی حرکت جمہوریت کی بنیاد پر ہے جو اسی شریعت کا مظہر اور اسی سے برخاستہ ہے،اور عوام بالواسطہ یا بلا واسطہ ملک کے تمام حکام کو انتخاب کرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی شریعت کے کامل نفاذ کو 4 اصلی عناصر " استقلال،آزادی، انصاف اور معنویت " کی فراہمی کا سبب قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی سعادت بخش شریعت پر عمل،مدنی اور فردی آزادی کے علاوہ سامراجی طاقتوں کی قید سے قومی آزادی یعنی قومی استقلال کا سامان بھی فراہم کرتی ہے عدل و انصاف کو عملی جامہ پہناتی ہے اور معنویت کو ہمراہ لاتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد امام خمینی (رہ) کے مکتب کے ایک اور اہم نکتہ کی تشریح اور تفصیل بیان کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب میں زور اور زبردستی اور ہتھیاروں کے ذریعہ غلبہ اور طاقت کا حصول قابل قبول نہیں ہے البتہ عوامی طاقت اور انتخاب کے ذریعہ حاصل ہونے والی قدرت و اقتدار محترم اور قابل قبول ہے اور کسی کو اس کے خلاف سینہ سپر نہیں کرنا چاہیے اگر کسی نے ایسا کام کیا تو اس کا یہ کام فتنہ کہلائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سیاسی ادبیات میں حضرت امام خمینی (رہ) کے سیاسی و مدنی نسخہ کو تازہ باب قراردیا اور اس نئے نسخے کے ایک دوسرے عنصر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امام خمینی (رہ) کے مکتب کا ایک اصلی عنصر مظلوم کی مدد و حمایت اور ظالم کے ساتھ مقابلہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی طرف سے فلسطینی عوام کی مکمل ، مسلسل و پیہم حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ظالم کے مقابلے میں استقامت اور ظالموں کے کر و فر کو ختم کرنا ، امام خمینی (رہ) کے مکتب کی ایک اہم اصل ہے جس پر ایرانی قوم اور حکام کو ہمیشہ توجہ رکھنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے سیاسی اور مدنی نسخہ کے نفاذ کو صرف تھیوری پر مبنی نظریات کے ساتھ ان کے مکتب کا آشکارا فرق قراردیا، اور یہ بنیادی سوال اٹھایا کہ: وہ عظیم کام جسے حضرت امام خمینی (رہ) نے کامیابی کے ساتھ انجام دیا کیا وہ آگے کی سمت گامزن رہےگا؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سوال کا جواب مثبت اور مشروط دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کے خوبصورت اور زیبا جدول میں قدرتی طور پر کچھ خالی خانے موجود ہیں اور ان کو بھرکر اس فیصلہ کن راہ پر آگے کی سمت بڑھنا بالکل ممکن ہے لیکن اس سلسلے میں قومی آگاہی ، ہمت اور اس راہ کے عناصر کی مراعات شرط ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے اہداف اور اصولوں پر قوم کی وفاداری کو قابل تحسین قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی رحلت کے 25 سال بعد قوم نے جس حرکت کا مظاہرہ کیا اس سے اس جدول کے تمام خالی خانہ پر ہوجاتے ہیں اور امام (رہ) کی راہ پر گامزن رہنے کے سائے میں اور اللہ تعالی کے اذن سے ایرانی قوم طاقت اور قدرت کے اوج تک پہنچ جائے گي۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے حاضرین اور قوم کی توجہ ایک دوسرے اساسی نکتہ کی طرف مبذول کرتے ہوئے فرمایا: امام خمینی(رہ) کی راہ پر گامزن رہنے اور ان کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں دوسرے مہم ہدف کی مانند ان کے اہداف کو بھی چیلنجوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہے اگر ہم ان چيلنجوں اور رکاوٹوں کو نہیں ّہچانیں گے اور برطرف اور دور کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو اس راستہ پر گامزن رہنا دشوار یا غیر ممکن ہوجائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی سلسلے میں اندرونی اور بیرونی دو چیلنجوں کو سب سے اہم چيلنج قراردیتے ہوئے فرمایا: غور و فکر کرنے والے دانشوروں ، مفکرین ، ماہرین اور جوانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان چيلنجوں پر خصوصی توجہ دیں اور ان کا گہرائی کے ساتھ دقیق جائزہ لیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بیرونی چيلنج کی تشریح میں عالمی سامراجی طاقتوں کی طرف سے مزاحمت اور مقابلہ خاص طور پر امریکی تخریب کاری اور موانع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: البتہ بعض مغربی مفکرین نے کہا ہے کہ یہ رکاوٹیں اور مزاحمتیں بے فائدہ اور غیر مفید ہیں لیکن امریکہ اسی طرح اپنے اس بڑے نقشہ کے نفاذ کے سلسلے میں اپنی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکیوں نے دیگر ممالک ، سیاسی احزاب و شخصیات کو تین گروپوں " کلی طور پر امریکہ کے پیروکار اور اس کےسامنے سر تسلیم خم کرنے والےممالک و احزاب " ،" ایسے ممالک اور احزاب جن کے ساتھ فی الحال رواداری اور مدارا کی ضرورت ہے" اور "نافرمان ممالک اور احزاب" میں تقسیم کررکھا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکہ ایسے ممالک کی مکمل حمایت کرتا ہے اور ان کی غلط اور غیر انسانی رفتار کی عالمی سطح پر توجیہ کرتا ہے جو کلی طور پر اس کے تابع فرمان اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں ۔ البتہ اس حمایت کے بدلے میں امریکی اپنے مفادات میں ان کا دودھ نکال لیتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب سلامی نے امریکہ کی ہمہ گير حمایت والی بعض رجعت پسند اور استبدادی حکومتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ ایسے ممالک کو ڈکٹیٹر نہیں بلکہ بادشاہ اور شیخ ممالک قراردیتا ہے جہاں نہ انتخابات ہوتے ہیں اور نہ ہی وہاں کی قوموں کو بات کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی ممالک کی امریکی تقسیم بندی میں دوسرے گروپ میں ایسے ممالک کو قراردیا کہ جن کے ساتھ امریکہ مشترکہ مفادات کی بنا پر فی الحال رواداری رکھے ہوئے ہے لیکن اگر اسے موقع مل جائے تو ان کے قلب میں خنجر گھونپنے سے گریز نہیں کرےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یورپی ممالک کو دوسری قسم کے ممالک میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: البتہ امریکی حکام یورپی ممالک کے ساتھ اپنے مفادات کے حصول میں رواداری کے باوجود یورپی حکام اور یورپی شہریوں کی نجی زندگی کے بارے میں جاسوسی کرتے ہیں اور حتی معافی ماںگنے کے لئے بھی حاضر نہیں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ امریکی مفادات کی خدمت کے سلسلے میں یورپی ممالک نے اسٹراٹیجک غلطی اور اشتباہ کا ارتکاب کیا ہے جو ان کے قومی مفادات کے بالکل خلاف ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تیسرے گروپ میں ان ممالک کو قراردیا جو امریکہ کی منہ زوری کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے اور امریکہ کے نافرمان ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ان ممالک کے بارے میں امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ ان پر کاری ضرب وارد کی جائے اور بغیر کسی محدودیت کے تمام وسائل سے استفادہ کرکے انھیں ختم اور نابودکردیا جائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے واشنگٹن کو باج اور ٹیکس ادا نہ کرنے والے ممالک کے ساتھ امریکہ کے مقابلے کی روش کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کے نقصانات اور خسارات کے پیش نظر اب دوسرے ممالک پر فوجی یلغار امریکی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نافرمان ممالک کے بارے میں امریکہ کی سب سے اہم حکمت عملی کو ان ممالک میں امریکہ سےوابستہ عناصر سے استفادہ کو قراردیتے ہوئے فرمایا: فوجی کودتا کی راہ فراہم کرنا یا عوام کو مظاہروں پر اکسانا وابستہ عناصر سے استفادہ کے لئے امریکہ کی اہم حکمت عملی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: کسی بھی ملک میں جو حکومت بھی اکثریت آراء کے ساتھ اقتدار میں پہنچتی ہے کچھ اقلیت اس کے خلاف بھی ہوتی ہے امریکہ اسی اقلیت سے استفادہ کرتا ہے اور مخالفین کے اصلی عناصر کو اکسانے اور تحریک کرنے کے ساتھ عوام کے بعض طبقات کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کرتاہے۔
رہبر معظم انقلاب سلامی نے فرمایا: اس کا واضح نمونہ آج بعض یورپی ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے البتہ ہم اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے لیکن امریکی سینیٹر ۔ اعتراض کرنے والے یورپی مظاہرین کے درمیان حقیقت میں کیا کام انجام دیتے ہیں۔؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے والے ممالک کا مقابلے کرنےکے لئے دہشت گردوں سے امریکی استفادہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: امریکہ ان ممالک کے خلاف دہشت گردوں سے استفادہ کرتا ہے جو اس کے سامنے سرخم نہیں کرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عراق، افغانستان،بعض عرب ممالک اور ایران کے خلاف امریکہ اس روش سے استفادہ کررہا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی جانب سے منافقین دہشت گرد گروہ کی حمایت کی طرف اشارہ کیا اور امریکی اداروں منجملہ کانگریس کے ساتھ اس دہشت گرد گروہ کے رابطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: منافقین کو آج امریکہ کی بھر پور حمایت حاصل ہے جنھوں نے ایرانی دانشوروں، سائنسدانوں، علماء اور سیاسی و ثقافتی شخصیات کو بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ قتل کیا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مستقل ممالک اور امریکہ کو ٹیکس اور باج نہ دینے والے ممالک کے بارے میں امریکہ کے دیگر طریقوں میں وہاں کےحکام کے درمیان اختلاف اور دوگانگي پیدا کرنے اور عوام کے ایمانی اور اعتقادی اصولوں میں انحراف ایجاد کرنے کو قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کے فضل و کرم سے امریکیوں کو ایرانی قوم کے مقابلے میں ان تمام میدانوں میں شکست و ناکامی نصیب ہوئی ہے اور ایرانی قوم کے ایمان اور اس کی بیداری کی وجہ سے فوجی کودتا،فتنہ پروروں کی حمایت، بعض افراد کو سڑکوں پر لانے اور حکام کے درمیان اختلافات ڈالنے میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےبیرونی چيلنجوں کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کے بعد اسلامی نظام کو در پیش اندرونی چيلنجوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ چيلنج اور بڑے خطرے ایسے وقت رونما ہوں گے جب قوم اور حکام حضرت امام خمینی (رہ) کی تحریک کی جہات و اہداف کو نظر انداز کردیں اور انھیں بھول جائیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں دوست اور دشمن کی پہچان و تشخیص اور اصلی و فرعی دشمن کی پہچان میں ناتوانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سب کو اس بات پر توجہ مبذول کرنی چاہیے اور مختلف حوادث میں اصلی دشمن کی پہچان میں غفلت اور سستی سے کام نہیں لینا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمنوں کی اصلی اور فرعی بحث کے سلسلے میں ایک مصداق کے عنوان سے شیعوں کے خلاف جاہل و نادان سلفی وہابی تکفیری گروہ کے وحشیانہ جرائم اور اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سب کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے اصلی دشمن غیر ملکی جاسوسی ادارے اور وہ لوگ ہیں جو سلفی وہابیوں کو شیعوں کے خلاف تحریک کرتے اور اکساتے ہیں اور ان کو ہتھیار اور مالی وسائل فراہم کرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: البتہ جو اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ کرنےکی فکر کرےگا اسے ایرانی قوم کی مضبوط اور مستحکم مشت کا سامنا کرنا پڑےگا اور اصلی دشمن وہ ہےجو مسلمانوں کو ایکدوسرے کے خلاف اکساتا اور انھیں آپس میں لڑاتاہے اصلی دشمن کا ہاتھ پوشیدہ نہیں ہے سلفی وہابی تکفیری گروہ تو فریب خوردہ گروہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قومی اتحاد و انسجام پر عدم توجہ،سستی اور کاہلی کا شکار ہونے، کام پر عدم توجہ، ناامیدی اور مایوسی کے حکمفرما ہونے نیز " ہم نہیں کرسکتے" اور " ہم نہیں کرسکے " کے غلط تصور کو اسلامی نظام کے دیگر اندرونی چیلنج قراردیتے ہوئے فرمایا: جیسا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے فرمایا: ہم کام انجام دے سکتے ہیں اور قومی عزم اور جہادی مدیریت کے ذریعہ ہم در پیش مشکلات کو حل اور انھیں برطرف کرسکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کا اسم مبارک اور اس عظیم معمار کا نقشہ راہ ، اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ایرانی قوم کی تمام مراحل میں مدد اور نصرت کرےگا اور امید ، نشاط اور جوش و ولولہ کے ذریعہ ایران کا مستقبل روشن و تابناک رہےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل حضرت امام خمینی (رہ) کے حرم کے متولی جناب حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے عاشقوں اور زائرین کو خوش آمدید کہا اور محرومین اور مستضعفین کی مدد کو امام خمینی(رہ) کے اصلی اہداف و جہات میں قراردیتے ہوئے کہا: رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بھی ہمیشہ اسی بنیادی اور اساسی جہت پر خصوصی تاکید کی ہے اور یہ سب کے لئے ایک سبق ہے۔
حضرت امام خمینی (رہ) کے حرم کے متولی نے اسی طرح اقتصادی مشکلات کے حل کے لئے تدبیر،عقلانیت، تینوں قوا کے درمیان باہمی تعاون اور قومی اتحاد کو ضروری قراردیتے ہوئے کہا: اقتصاد و معاشی پالیسیوں کو محرومیت دور کرنے کی ثقافت کے ہمراہ ہونا چاہیے۔