کیا پاکستانی سیاست شیعہ مسلمانوں کیلئے شجر ممنوعہ ہے؟

23 اگست 2014

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، لیکن میں نے یہ بروقت لکھ دیا کہ میں اس مارچ کو انقلاب مارچ نہیں سمجھتا۔ اس کا انجام میری بات کو ثابت کرے گا۔ بندہ عرض کرچکا کہ اس کا مثبت پہلو شیعہ سنی اتحاد ہے، تکفیریوں کی تنہائی ہے، شیعہ مسلمانوں کی قومی دھارے کی سیاست میں واپسی ہے۔ اس مارچ کی کامیابی اس کا اسلام آباد پہنچنا، پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینا اور آج 21 اگست کی رات تک ثابت قدمی سے میدان عمل میں موجود رہنا ہے۔ مولا علی (ع) کا یہ قول لکھا جاتا ہے کہ ظالم کی ہرحال میں مخالفت کرو اور مظلوم کی ہر حال میں مدد کرو، کیا سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ مسلمانوں کا ماورائے عدالت قتل ظلم نہیں، کیا اس ظلم کے خلاف مظلوم کا ساتھ دینا غلط عمل ہے؟ مجلس وحدت مسلمین نے اپنے 4 مطالبات اتحادیوں سے منوائے ہیں اور ان کے دس نکات کی حمایت کی ہے۔
کیا پاکستانی سیاست شیعہ مسلمانوں کیلئے شجر ممنوعہ ہے؟

 

تحریر: عرفان علی (بشکریہ اسلام ٹائمز)


پیامبر معصوم خدا حضرت یوسف علیہ السلام اگر بت پرست کاہنوں کی مملکت مصر کے عزیز کے مشیر ہوجائیں یا معصوم امام کے شیعہ علی بن یقطین بنو عباس کے بادشاہ کے وزیراعظم، ان کی حقانیت پر حرف نہیں اٹھایا جاسکتا۔ ان کا ان حکومتوں کا حصہ ہونا نہ ان حکومتوں کے حق ہونے کی دلیل بنتا ہے اور نہ ہی ان کا ایسا کرنا انہیں باطل پرست کرتا ہے۔ یہی سیرت انبیاء (ع) و اولیائے خدا (ع) رہی ہے۔ ہر دور کی امت اور امت کے سربراہ اپنے دور کے مخصوص ماحول اور حالات میں اپنی حکمت عملی وضع کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنا حق طلب کرنے کے لئے دربار میں جانا اور اپنا موقف بتانا، یا وقت کے حکمران کو مشورہ دینا کہ یہ کرو یہ مت کرو، جناب سیدہ سلام اللہ علیہا اور مولائے متقیان علی علیہ السلام کی وہ سیرت طیبہ ہے کہ جو تاقیامت اہل تشیع کے لئے مشعل راہ ہے۔ پریکٹیکل لوگ انسانوں کو خیالی، کتابی باتوں میں نہیں الجھاتے، راہ حل سجھاتے ہیں، عملی بنا دیتے ہیں۔

 

اگر قوم بنی اسرائیل کی ہی مثال سے سبق لیا جائے، جیسا کہ بعض ایسے دوستوں کی رائے ہے، جو مجھ سے متفق نہیں یا میں ان کے نظریئے سے اختلاف کرتا ہوں اور بعض مقالوں میں دلائل سے ان کی بات کو رد کرچکا ہوں، تب بھی اس امت کی مثال گوسالہ پرست بنی اسرائیل جیسی نہیں ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ حضرت موسٰی علیہ اسلام نے امت کو حضرت ہارون (ع) کی پیروی کی تاکید کی تھی اور گوسالہ پرستی اس حکم کی عدم تعمیل کی وجہ سے ہوئی۔ آج غیبت امام زمانہ (عج) کے اس پر فتن دور میں امت کے درمیان فقہائے عظام، مراجعین کرام بھی ہیں اور منجی عالم بشریت کے نائب برحق امام خامنہ ای بھی موجود ہیں۔ جن رہنماؤں اور ان کے پیروکاروں کو گوسالہ پرستوں سے تشبیہ دی جاتی ہے، ان میں سے کون ہے جو مرجعیت کا مخالف ہے یا ولی فقیہ کے مقابلے میں نیا مکتب ایجاد کر رہا ہے؟ اس کے لئے انسان خود کو آئینے میں دیکھے۔

 

اس تمہید کے بعد، عرض یہ کہ کیا پاکستان جیسے ملک میں شیعہ مسلمانوں کا کوئی سیاسی کردار بنتا ہے یا نہیں، اس سوال کے جواب سے ہی شیعہ مسلمانوں کا موجودہ پاکستانی سیاست کے بارے میں کنفیوژن دور ہوسکتا ہے۔ امام خامنہ ای کی ایک تصنیف معصوم آئمہ علیہم السلام کی سیاسی جدوجہد کے بارے میں ہے اور اس کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے۔ دور کیسا بھی ہو، آئمہ معصومین علیہم السلام کے دور سے زیادہ مشکل نہیں ہوسکتا، اور اس پرفتن دور میں بھی آئمہ علیہم السلام اور ان کے ثابت قدم شیعوں نے سیاست کا میدان خالی نہیں چھوڑا تھا۔ حتیٰ کہ اقتداری سیاست پر بھی ان کی نظر تھی اور امت اسلام ناب محمدی کے مفاد میں علی بن یقطین جیسے لوگوں کا بنو عباس کے دور میں حکومت کا حصہ ہونا، اسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا، جو مولا علی (ع) کے دور میں ساتھ تھا، ان میں سے کوئی امام حسین (ع) کے خلاف میدان میں آیا، کوئی مولا علی (ع) کے دور میں ان کے ساتھ نہیں تھا، لیکن امام حسین (ع) کی حمایت میں آیا۔ پریکٹیکل زندگی کی یہ حقیقت کنفیوزڈ افراد کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔

 

لبنان میں امام موسٰی ال صدر کی حزب مستضعفین سے موجودہ حزب اللہ تک، عراق میں آیت اللہ باقر الصدر کی حزب الدعوہ سے موجودہ شیعہ دینی جماعتوں تک، بحرین کے شیخ عیسٰی قاسم کی علماء تنظیم سے شیخ علی سلمان کی الوفاق تک، پریکٹیکل شیعہ خیالی پلاؤ پکانے کے بجائے حالات کی بہتری کے لئے سیاسی میدان میں فعال ہیں۔ ان کے اتحادی کب کب کون کون ہوتے ہیں، اور کب وہ تبدیل ہوجاتے ہیں؟ ہمیں ان سارے پہلوؤں پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایران کا تذکرہ کیوں نہیں کیا، تو یہ واضح کر دوں کہ شہید مرتضٰی مطہری، شہید جواد باہنر وغیرہ بھی جماعتوں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد میں مصروف رہے تھے۔ امام خامنہ ای بھی باہنر شہید کی حزب جمہوری اسلامی کے پلیٹ فارم پر کافی عرصہ متحرک رہے۔

 

انقلاب اسلامی کی کامیابی تک ایران کے سیاسی اتحادوں کی تاریخ پڑھ لیں، بنی صدر کون تھا؟ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد صدر بننے تک یہ کس کا اتحادی تھا، وہ لوگ جنہوں نے حکومت اسلامی کے قیام کے اوائل میں خیانت کی، وہ کون تھے؟ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں آیت اللہ حسن مدرس اور 1950ء کے عشرے میں آیت اللہ کاشانی کس طرح بادشاہی حکومت کے دور میں پارلیمانی سیاست میں فعال کردار ادا کرتے تھے۔ کیا وہ حکومتیں حسینی حکومتیں تھیں؟ کیا وہ نظام حسینی نظام تھا؟ کیا لبنان، بحرین میں حسینی حکومت ہے؟ وہاں پاکستان سے زیادہ خراب صورتحال ہے۔

 

اتحاد مشترکات پر بنتے ہیں، اختلافی معاملات میں اتحادی آزاد ہوتے ہیں یا کوئی ضابطہ ترتیب دیتے ہیں۔ امام خمینی کے بت شکن فرزند پاکستان کے خمینی علامہ عارف حسین الحسینی کی حکمت عملی کے عنوان کے تحت بندہ ایک مقالہ لکھ چکا ہے۔ اس کی روشنی میں کوئی آدمی یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ پاکستانی سیاست سے یا الیکشن سے لاتعلق ہوجائے۔ لہٰذا وہ شیعہ تنظیمیں اور جماعتیں جو ملکی سیاست میں کسی بھی حد تک فعال ہیں، ان سے عوام کو بیزار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو تھوڑی بہت یزیدی نظام کی مخالفت ہو رہی ہے وہ بھی ختم ہوجائے! اگر یہ مکتب جنرل ضیاء کے دور میں ہوتا تو وہ بخوشی اس کی سرکاری سرپرستی کرتے۔ شیعوں کو یہی نظریہ دے کر گمراہ کیا جاتا رہا ہے کہ سیاست ان کے کس کام کی؟ امام خمینی (رہ) کو بھی تو شہنشاہ ایران کے چمچوں نے یہی کہا تھا کہ آپ اس گند میں کیوں ہاتھ ڈالتے ہیں۔

 

بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر رضا تقوی امریکی قونصلیٹ پر لبیک یارسول اللہ (ص) کا پرچم نصب کرتے ہوئے شہید ہوجاتا ہے تو اسے جذباتی کام قرار دے کر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، دیگر تنظیمیں ریلیاں اور عوامی اجتماعات کرتے ہیں تو ان پر تنقید ہوتی ہے، لیکن خود بھی ویسا ہی اجتماع کرتے ہیں۔ یہ قول و فعل کا ایک ایسا تضاد ہے جس کی مکتب اہلبیت (ع) میں کوئی اجازت نہیں۔ کسی کے عادل ہونے کی کم سے کم نشانی یہ ہے کہ وہ دوسروں کو ایسی بات سے منع نہیں کرتا جو وہ خود کرتا ہے۔ شہید رضا تقوی مجلس وحدت مسلمین کے ایک شیعہ سیاسی کارکن تھے۔ علامہ عارف حسینی کی تحریک جعفریہ کے مجاہد شیخ الشہداء مظفر کرمانی کی پوری زندگی سیاسی شیعت پر گذری۔ اپنی ذات میں انجمن اس عظیم آدمی نے کبھی بھی خیالی پلاؤ نہیں پکائے اور لوگوں کو کنفیوزڈ نہیں کیا بلکہ واضح صراط مستقیم دکھا دی۔ بعد میں جس بات پر ان کا اختلاف ہوا وہ بھی ولایت فقیہ کی اطاعت میں ہوا تھا، ذاتی اختلاف کسی سے نہیں تھا۔ لیکن تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ شیخ الشہداء مظفر کرمانی کے جنازے میں ان کے قریب تصور کئے جانے والی ایک اہم شخصیت نظر نہیں آئی!

 

شہید محمد علی نقوی بھی تحریک جعفریہ کے سیاسی کارکن تھے۔ مفتی جعفر حسین سے لے کر علامہ صفدر نجفی تک، علامہ ضیاءالدین رضوی شہید سے علامہ علی موسوی تک، علامہ حیدر علی جوادی سے علامہ شیخ حسن صلاح الدین تک نامور و بزرگ علماء بھی سیاسی شیعہ رہنما تھے اور ہیں۔ جنرل ضیاء سے اپنا حق مانگنے وہ بھی گئے۔ علامہ حسن ترابی شہید کو دیکھیں، ان کے سیاسی کردار کی برکت تھی کہ دیوبندی علماء بھی کسی شیعہ عالم کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے، ایسا علامہ عارف حسینی کے جنازے میں بھی نہیں دیکھا گیا۔ علامہ عارف حسینی دیوبندی مولویوں سے بھی رابطے کر رہے تھے، تاکہ مکتب قرآن و اہلبیت (ع) کا وہ روشن چہرہ غیر شیعہ حضرات پر واضح کریں جو کہ اصل میں ہے، لیکن غلیظ پروپیگنڈا نے اس پر غلاف چڑھا دیا تھا۔

 

کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، لیکن میں نے یہ بروقت لکھ دیا کہ میں اس مارچ کو انقلاب مارچ نہیں سمجھتا۔ اس کا انجام میری بات کو ثابت کرے گا۔ بندہ عرض کرچکا کہ اس کا مثبت پہلو شیعہ سنی اتحاد ہے، تکفیریوں کی تنہائی ہے، شیعہ مسلمانوں کی قومی دھارے کی سیاست میں واپسی ہے۔ اس مارچ کی کامیابی اس کا اسلام آباد پہنچنا، پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینا اور آج 21 اگست کی رات تک ثابت قدمی سے میدان عمل میں موجود رہنا ہے۔ مولا علی (ع) کا یہ قول لکھا جاتا ہے کہ ظالم کی ہرحال میں مخالفت کرو اور مظلوم کی ہر حال میں مدد کرو، کیا سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ مسلمانوں کا ماورائے عدالت قتل ظلم نہیں، کیا اس ظلم کے خلاف مظلوم کا ساتھ دینا غلط عمل ہے؟ مجلس وحدت مسلمین نے اپنے 4 مطالبات اتحادیوں سے منوائے ہیں اور ان کے دس نکات کی حمایت کی ہے۔ علامہ ساجد نقوی نے مطالبات کو جائز قرار دے کر افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے کی تاکید کی ہے۔ علامہ حامد موسوی نے بعض خدشات ظاہر کئے ہیں، جو صحیح بھی ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن غیب کا علم اللہ جانتا ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سیاست ہی نہیں بلکہ اقتدار بھی پاکستانی شیعوں کے لئے شجر ممنوعہ نہیں ہے، یہ ایک ذریعہ ہے اہداف کے حصول کا۔

 

امت اسلام ناب محمدی کے عظیم فرزندوں سے درخواست ہے کہ اللہ سے پرامید رہیں، حسن ظن رکھیں۔ لیکن زیادہ لمبی امیدیں نہ باندھیں، مجھے انقلاب نظر نہیں آرہا۔ اگر حکومت تبدیل بھی ہوجائے تو یہ نقلاب نہیں کہلائے گا۔ شہنشاہ وفا قمر بنی ہاشم حضرت عباس علمدار علیہ السلام کا علم پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بلند ہوا اور لہرایا، اس میں لبیک یاحسین علیہ السلام کے نعرے لگے اور سنی بریلویوں نے شیعہ مسلمانوں کی وفا پر اظہار تشکر کیا۔ ہمارا زاویہ نظر یہ ہے کہ یہ اتحاد امت کا ایک عظیم الشان مظاہرہ ہے۔ پریکٹیکل لوگ میدان عمل میں رہتے ہیں۔ جو دوست کہتے ہیں کہ یہ نظام یزیدی ہے تو پھر اس کے مقابلے میں فیس بک کی خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری کے لئے کربلا میں حاضر و موجود رہنا ہوگا۔ تحرک پیدا کرنے کے لئے شریعتی کی تحریریں ہی بہت ہیں، جو میری رائے کے مخالف ہیں وہ متبادل بتائیں؟ یہ بھی غلط، وہ بھی غلط، صحیح کیا ہے؟ کان کو چہرے کے سامنے سے پکڑنا غلط اور وہی ہاتھ سر کے پیچھے سے گھما کر پکڑنا شاید درست ہے!

 

صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے ہر زماں جو اپنے عمل کا حساب



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree