وحدت نیوز(آرٹیکل) آج کے عالمی سیاست میں دو چیزیں انتہائی اہم اور حساس ہیں، ایک پیٹرول دوسرا ڈالر ان دونوں کے بغیر عالمی معیشیت اور سیاست کی کہانی شروع نہیں ہوتی بلکہ سیاست اور حکمتوں کا زوال و عروج بھی انہیں دو چیزوں پر منحصر ہے۔

اگر ہم پیٹرو-ڈالر کو مدنظر رکھ کر آج کے عالمی حالات پر نظر دوڑائیں تو ہم پر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جن جن ممالک میں تیل اور گیس موجود ہیں یا جہاں سے ان کا گزرا ہونا ہے وہاں یا تو جنگ چھڑی ہوئی ہے یا خانہ جنگی کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہے اور اس ناامنی اور خانہ جنگی کے پیچھے ڈالر ہے، یعنی آپ کسی بھی صورت سیاست، غربت، خانہ جنگی، دھشت گردی کے پیچھے پیٹرو-ڈالر کے کردار کو رد نہیں کرسکتے۔افغان وار ہو یا عراق پر حملہ، شام کی جنگ ہو یا لیبیا کی خانہ جنگی، القاعدہ طالبان ہو یا داعش کی خلافت، یمن پر آل سعود کی مسلط کردہ جنگ ہو یا ایران پر پابندیاں، چین امریکہ کی معاشی جنگ ہو یا امریکی بحری بیڑے کی خلیج فارس میں موجودگی ان سب کا تانا بانا آخر تیل و گیس سے جڑتا ہے۔

آپ ایک نظر قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک کی جانب کریں، سعودی عرب، وینزویلا، افریقہ، ایران، پاکستان، شام، عراق، لیبیا اور افغانستان ہر جگہ یا تو صاحب ڈالر امریکہ نوازوں کی حکومت ہے جیسے سعودی عرب، جہاں امریکہ جو چاہے کرسکتا ہے، ایک فون پر اربوں ڈالر منگوانا ہو یا کسی بھی ممالک کے مقابلہ میں سعودیہ کو کھڑا کرنا ہو امریکہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ باقی ممالک شام، عراق، لیبیا وغیرہ پر جنگ مسلط کر رکھی ہے، کبھی براہ راست حملہ کر دیا جاتا ہے اور کبھی خانہ جنگی، دہشتگردی کی صورت حال پیدا کیا جاتا ہے تاکہ وہ ملک ہمیشہ دست و گریبان رہے اور کبھی اپنے گھٹنے پر کھڑے ہونے کی ہمت نہ کر سکے۔ ان میں سے کچھ ممالک عالمی قوتوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کی جابرانہ نظام کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں جیسے ایران اور وینزویلا تو انہوں نے ان کے خلاف گهیرا تنگ کر رکھا ہے، آئے روز اقتصادی پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور آج کل تو ایسے فضاء بنایا ہوا ہے کہ ابھی نہیں تو کل جنگ چھڑنے والی ہے۔

رہی بات پاکستان کی تو سمندر میں تیل کے ذخائر کا انکشاف ہوتا قوم کو خوشخبری بھی دی جاتی ہے، مگر کھودائی کا شروع ہوتے ہی بھرائی کا کام شروع ہوجاتا ہے کیونکہ پیٹرو-ڈالر مافیاء کو یہ برداشت نہیں ہے کہ پاکستان کا اقتصاد بہتری کی جانب جائے اور پیٹرول گیس میں خّود کفیل ہوں۔ یہ طاقتیں کبھی یہ نہیں چاہتی کہ کوئی بھی قدرتی وسائل سے مالامال ملک پُرامن اور خودمختار ہوں کیونکہ جس دن ان ممالک کے باشندوں نے آزادی اور امن کی سانس لی تو یہ ایران کی طرح عالمی طاغوتوں کے لئے درد سر بن جائیں گے لہٰذا یہ لوگ کبھی ایسا ہونے نہیں دیتے بشرط کہ ہم خود بیدار اور متحد ہوں جائیں۔

اب ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ تیل، گیس کے ذخائر والے ممالک اور جہاں سے ان وسائل نے گزرنا ہے مختلف مسائل میں گیرا ہوا کیوں ہیں۔سعودی یمن جنگ کے پیچھے امریکہ اسرائیل کیوں ہیں اور کس طرح یمنیوں کو باغی دہشتگرد بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، اس کے پیچھے موجود امریکی مقاصد کا اندازہ بین الا اقوامی ڈرلنگ کمپنی کی طرف سے جاری کردہ جدید سائنٹفک تحقیق سے لگایا جاسکتا ہے جن میں ان کا انکشاف کرنا ہے کہ "یمن میں موجود تیل کے ذخائر تمام گلف ریاستوں کے موجودہ مجموعی ذخائر سے زیادہ ہے"۔

 دوسری نظر ذرا یمن کے ڈرون حملوں کی طرف کرتے ہیں جس نے عالمی میڈیا میں نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ سعودی عرب میں امریکہ فضائی دفاعی نظآم کی موجودگی میں یہ حملہ کیسے ممکن ہوا؟ یہاں حالات دو صورتوں سے خالی نہیں ہوسکتا، پہلا یہ کہ واقعی میں انصاراللہ کے پاس یہ ٹیکنالوجی موجود ہے کہ وہ امریکہ ساختہ سعودی دفاعی نظام کو چکمہ دے سکے۔ دوسرا یہ کہ امریکیوں نے جان بوجھ کر انصآراللہ کے حملوں کو نہیں روکا ہے تاکہ سعودی عرب سے مزید ڈالر بٹورا جا سکے۔ (ایک عقیدتی بات کو واضح کرتا چلوں کی ظالم کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو یا ان کی ٹیکنالوجی کتنی ہی جدید کیوں نہ ہو مظلوم کی صرف ایک آہ کی غضب میں نیست و نابود ہو سکتا ہے یعنی مظلوموں کے ساتھ خدا کی غیبی طاقت و مدد میں کوئی شک نہیں۔)

یہ بات حقیقت یہ کہ امریکی پشت پناہی میں یمن پر مسلط کردہ سعودی جنگ اب شکست سے دوچار ہے اور سعودی عرب میں موجود امریکی دفاعی نظآم جس کے بدلے میں امریکہ نے اربوں ڈالر حاصل کئے ہیں در حقیقت ایک ڈمی کے سوا کچھ نہیں تھا جس کا ثبوت یمنی ڈرون حملے ہیں۔ دنیا اس حملے کو سعودی اور اس کے اتحادیوں کی خصوصا امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کی شکست قرار دے رہی ہیں کیونکہ سعودی دفاعی بجٹ انہی ممالک کے اسلحوں کی نظر ہوجاتی ہے۔ لیکن ان سب میں پھر ڈالر کی سیاست کا عمل دخل ہے کیونکہ آپ کو یاد ہو تو ۲۰۱۷ میں امریکی صدر اور سعودی بادشاہ کے درمیان ایک معاہدہ پر دستخط ہوا تھا جس میں ایک سو دس بلین ڈالر کا اسلحہ فوری خریدنے اور تین سو پچاس بلین ڈالر کا اگلے دس سالوں میں خریدنے کا معاہدہ شامل تھا۔

سعودی عرب پر حالیہ حملے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے یہ سعودیہ کو خطرہ دیکھا کر پیسے نکالنا چاہتا ہے۔ سعودی تیل پر حملے کے بعد امریکہ نے ایران اور حوثیوں کو دیکھا کر حال ہی میں آٹھ اشاریہ ایک بلین ڈالر اسلحے کی فروخت کا اعلان کیا ہے جسے سعودی اور اس کے اتحادی بڑے خوش ہیں۔ نہیں معلوم ان عرب اور مسلمان خائن حکمرانوں کو کب عقل آئے گی اور اپنے دشمنوں کو پہچانگے۔ امریکہ اور دوسری طاقتیں ہمارے ہی وسائل پر قبضہ جماتے ہیں، ہمیں آپس میں لڑواتے ہیں اور الٹا مسلمانوں کو لڑوانے اور ترقی کی راہ سے دور رکھنے کے لئے بھی ہم سے ہی پیسے وصول کرتے ہیں پھر بھی ہماری بے وقوفی دیکھیں ہم اسی میں خوش ہیں کہ امریکہ ہمارا دوست ہے۔ اور یہی ہماری سب سے بڑی ناکامی کا سبب ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کرتے، عالمی طاقتوں نے جس کسی کو بھی اپنا ہمنوا بنایا ہے اس کا انجام ردی کی کاغذ کی طرح ہوا ہے کیونکہ ان کا اصل مقصد وسائل کا استعمال اور ڈالر کی ارزش سے وابسطہ ہے درمیان میں کون پسے کون مرے ان سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ر
ہی بات ہماری بیداری کا تو جتنی دیر سے بیدار ہونگے ہمیں اُسی حساب سے قربانیاں بھی دینی ہوگی۔


تحریر : ناصر رینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل)حضرت عباس علیہ السلام جو "ابوالفضل" اور "علمدار کربلا" کے نام سے مشہور ہیں حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ام البنین کے فرزند ہیں۔ حضرت عباس 4 شعبان العمظم سن 26 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔حضرت عباس،شیعوں  کے نزدیک،آئمہ (ع) کی اولاد میں اعلی ترین مقام و مرتبت رکھتے ہیں اور اسی اعلی مرتبت کی بنا پرمحرم کا نواں دن آپ سے مختص کیا گیا ہے اور اس روز حضرت عباس(ع) کی عزاداری کی جاتی ہے۔ شیعہ مصادر و منابع میں آپ سے متعلق بہت سے کرامات نقل ہوئی ہیں۔ اسی طرح آپ کو ادب، شجاعت اور سخاوت کا مظہر، وفا کا پیکر اور امام معصوم کی اطاعت میں نمونۂ کاملہ سمجھا جاتا ہے۔آپ کو نہایت خوش چہرہ نوجوان ہونے کے ناطے قمربنی ہاشم کا لقب دیا گیا ہے۔ آپ کربلا میں اپنے بھائی حسین بن علی (ع) کی سپاہ کے علمدار اور سقا تھے اسی بنا پرشیعیان اہلبیت (ع)  کے درمیان علمدار کربلا اور سقائے دشت کربلا کے لقب سے مشہور ہیں۔ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اسلامی تاریخ کی پیشانی پر ایک عظیم ترین رہنما اوربہادر ترین جرنیل کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے۔

حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت و بہادری اور ان کے تمام فضائل وکمالات کی مثال ونظیر پوری تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی۔ کربلا کے میدان میں حضرت عباس علیہ السلام نے جس عزم وحوصلہ ، شجاعت وبہادری اور ثابت قد می کا مظاہرہ کیا اس کو بیان کرنے کا مکمل حق ادا کرنا نہ تو کسی زبان کے لئے ممکن ہے اور نہ ہی کسی قلم میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اسے لکھ سکے۔ جناب عباس علیہ السلام نے اپنے مضبوط ترین ارادہ اور عزم و حوصلہ کے اظہار سے ابن زیاد ملعون کے لشکر کو نفسیاتی طور پر بالکل ایسے ہی بھاگنے پر مجبور کر دیا جیسے انھوں نے میدان جنگ میں تنہا ان ملعونوں کو اپنی تلوار اور شجاعت سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔

آج تک لوگ حضرت عباس علیہ السلام کی بہادری اور شجاعت کو مکمل عقیدت و احترام اور پورے جوش وجذبہ کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا گیا کہ جو اتنے زیادہ دکھ درد اور غموں سے چور ہونے کے باوجود ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہزاروں فوجیوں پر اکیلا ہی حملہ کر کے انھیں میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور کر دے۔

مؤرخین کہتے ہیں کہ میدان کربلا میں جب بھی حضرت عباس علیہ السلام دشمن کی فوجوں پر حملہ کرتے تو ہر سامنے آنے والا موت کے گھاٹ اترتا اور فوجی خوف اور دہشت سے ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے یوں بھاگتے جیسے سب کو یقین ہو کہ موت ان کے پیچھے آرہی ہے اور ان کی کثرت ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتی۔

حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت وبہادری اور ہر فضیلت و کمال فقط مسلمانوں کے لئے باعث فخر نہیں ہے بلکہ ہر وہ انسان جس کے اندر معمولی سی بھی انسانیت ہے وہ جناب عباس علیہ السلام کے فضائل و کمالات پہ ایمان رکھنے پہ فخر محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو جناب عباس علیہ السلام کا عقیدت مند کہنا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہے۔

حضرت عباس علیہ السلام عظیم ترین صفات اور فضائل کا مظہر تھے شرافت ، شہامت ، وفا ، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔ واقعہ کربلا میں جناب عباس علیہ السلام نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرے لمحات میں اپنے آقاومولا امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کی اور مکمل وفا داری کا مظاہرہ کیا اور مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر ٹوٹتے ہوئے دیکھا لیکن ان کے عزم وحوصلہ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہ پڑا اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباس علیہ السلام نے کیا ان پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا فقط اس کے لئے ہی ممکن ہے کہ جو خدا کا مقرب ترین بندہ ہو اور جس کے دل کو خدا نے ہر امتحان کے لئے مضبوط بنا دیا ہو۔

حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کی خاطر جتنی بھی قربانیاں دیں وہ اس لئے نہیں تھیں کہ امام حسین علیہ السلام ان کے بھائی ہیں بلکہ حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کو اپنا حقیقی امام، خدائی نمائندہ اور عین اسلام سمجھتے ہوئے ان کی خاطرتمام تر مصائب و مشکلات کو برداشت کیا اور اپنی جان ان پر قربان کر دی اور اس بات کا انھوں نے کئی بار اظہار بھی کیا اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام جب بھی امام حسین علیہ السلام کو پکارتے یا ان کا ذکر کرتے تو انھیں بھائی کی بجائے اپنا مولاو آقا اور امام کہتے۔ پس ادب کا کوئی ایسا رنگ نہیں جو حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے حق میں اختیار نہ کیا ہو، کوئی ایسی نیکی نہیں جو انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ نہ کی ہو، کوئی ایسی قربانی نہیں کہ جو انہوں نے اپنے آقا امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر نچھاور نہ کی ہو۔ جانثاری وفا،اور ایثار کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی، جب حضرت عباس علیہ السلام نے تن و تنہا ہزاروں کے لشکر پر حملہ کر کے فرات کو دشمن سے خالی کیا تو تین دن کی پیاس اور شدید جنگ کرنے کے باوجود بھی فقط اس لیے پانی نہ پیا کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے بچے اور اہل و عیال پیاسے تھے جناب عباس علیہ السلام کی وفا و غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل و عیال تو پیاسے ہوں اور وہ پانی پی لیں لہٰذا اپنے آقا اور بچوں کی پیاس کو یاد کرکے بہتے دریا سے پیاسے واپس آئے۔ دنیا کی پوری تاریخ کو ورق ورق چھاننے سے بھی اس طرح کی وفا کی نظیر نہیں مل سکتی کہ جس کا مظاہرہ جناب عباس علیہ السلام نے میدانِ کربلا میں کیا۔جناب عباس علیہ السلام نے ان بلند ترین مقاصد اور عظیم ترین اصولوں کی خاطر شہادت کو گلے لگایا کہ جن کی خاطر امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا تھا۔

 پس جناب عباس علیہ السلام نے انسانیت کی آزادی،عدل و انصاف کے فروغ، لوگوں کی فلاح و بہبود، قرآنی احکام کی نشر و اشاعت اور پوری انسانیت کو ذلت کے گڑھے سے نکال کرعزت و شرف اور سعادت دلانے کے لیے اپنے بھائی و آقا امام حسین علیہ السلام کی طرح شہادت کو اختیار کیا ۔جناب عباس علیہ السلام نے حریت و آزادی اور کرامت و شرف کی مشعل روشن کی اور عزت و سعادت کے میدان میں اترنے والے شہداء کے قافلوں کی قیادت کی اور ظلم و جور کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کی مدد و نصرت کو اپنا فریضہ سمجھا۔
جناب عباس علیہ السلام پوری انسانیت کے لیے بھیجے گئے خدائی دستور اور زمین کی ترقی کے لائحہ عمل کی خاطر میدانِ جہاد میں اترے۔ پس جناب عباس علیہ السلام نے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مل کر ایسا عظیم انقلاب برپا کیا کہ جس کے ذریعے حقیقی اسلام اور بنی امیہ اور سقیفہ کے خود ساختہ اسلام میں فرق واضح ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے اصل وارث کے بارے میں ہر شک و شبہ ختم ہو گیا اور سقیفہ کے بنائے ہوئے ظلم و جور کے قلعے پاش پاش ہو گئے۔

حضرت ابو الفضل عباس علیہ السلام کا کعبہ کی چھت پر عظیم الشان خطبہ
«بسم الله الرّحمن الرّحیم»
«اَلحَمدُ لِلّهِ الَّذی شَرَّفَ هذا (اشاره به بیت الله الحَرام) بِقُدُومِ اَبیهِ، مَن کانَ بِالاَمسِ بیتاً اَصبَح قِبلَةً. أَیُّهَا الکَفَرةُ الفَجَرة اَتَصُدُّونَ طَریقَ البَیتِ لِاِمامِ البَرَرَة؟ مَن هُوَ اَحَقُّ بِه مِن سائِرِ البَریَّه؟ وَ مَن هُوَ اَدنی بِه؟ وَ لَولا حِکمَ اللهِ الجَلیَّه وَ اَسرارُهُ العِلّیَّه وَاختِبارُهُ البَریَّه لِطارِ البَیتِ اِلیه قَبلَ اَن یَمشیَ لَدَیه قَدِ استَلَمَ النّاسُ الحَجَر وَ الحَجَرُ یَستَلِمُ یَدَیه وَ لَو لَم تَکُن مَشیَّةُ مَولایَ مَجبُولَةً مِن مَشیَّهِ الرَّحمن، لَوَقَعتُ عَلَیکُم کَالسَّقرِ الغَضبانِ عَلی عَصافِیرِ الطَّیَران.اَتُخَوِّنَ قَوماً یَلعَبُ بِالمَوتِ فِی الطُّفُولیَّة فَکَیفَ کانَ فِی الرُّجُولیَّهِ؟ وَلَفَدَیتُ بِالحامّاتِ لِسَیِّد البَریّاتِ دونَ الحَیَوانات.هَیهات فَانظُرُوا ثُمَّ انظُرُوا مِمَّن شارِبُ الخَمر وَ مِمَّن صاحِبُ الحَوضِ وَ الکَوثَر وَ مِمَّن فی بَیتِهِ الوَحیُ وَ القُرآن وَ مِمَّن فی بَیتِه اللَّهَواتِ وَالدَّنَساتُ وَ مِمَّن فی بَیتِهِ التَّطهیرُ وَ الآیات.وَ أَنتُم وَقَعتُم فِی الغَلطَةِ الَّتی قَد وَقَعَت فیهَا القُرَیشُ لِأنَّهُمُ اردُوا قَتلَ رَسولِ الله صلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِه وَ أنتُم تُریدُونَ قَتلَ ابنِ بِنتِ نَبیّکُم وَ لا یُمکِن لَهُم مادامَ اَمیرُالمُؤمِنینَ (ع) حَیّاً وَ کَیفَ یُمکِنُ لَکُم قَتلَ اَبی عَبدِاللِه الحُسَین (ع) مادُمتُ حَیّاً سَلیلاً؟ تَعالوا اُخبِرُکُم بِسَبیلِه بادِروُا قَتلی وَاضرِبُوا عُنُقی لِیَحصُلَ مُرادُکُم لابَلَغَ الله مِدارَکُم وَ بَدَّدَا عمارَکُم وَ اَولادَکُم وَ لَعَنَ الله عَلَیکُم وَ عَلی اَجدادکُم.

ترجمہ
آپ علیہ السلام نے یہ خطبہ امام حسین علیہ السلام کی ۸ ذی الحجہ سن ۶۰ ہجری کو مکہ سے کربلا روانگی کے موقع پر خانہ کعبہ کی چھت پر جلوہ افروز ہو کر ارشاد فرمایا:حمد ہے اللہ کے لیے جس نے اسے (کعبے کو ) میرے مولا (امام حسینؑ) کے والد گرامی (امام علیؑ) کے قدم سے شرف بخشا جو کہ کل تک پتھروں سے بنا ایک کمرہ تھا ان کے ظہور سے قبلہ ہو گیا ۔اے بد ترین کافروں اور فاجروں تم اس بیت اللہ کا راستہ نیک اور پاک لوگوں کے امام کے لیے روکتے ہو جو کہ اللہ کی تمام مخلوق سے اس کا زیادہ حق دار ہے اور جو اس کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اگر اللہ کا واضح حکم نہ ہوتا اور اسکے بلند اسرار نہ ہوتے اور اس کا مخلوق کو آزمائش میں ڈالنا نہ ہوتا تو یہی اللہ کا گھر خود اڑ کر میرے مولاکے پاس آجاتا لیکن میرےکریم مولانے خود اس کے پاس آکر اس کوعظمت بخشی بے شک لوگ حجراسود کو چومتے ہیں اور حجر اسود میرے مولا کے ہاتھوں کو چومتا ہے ۔ اللہ کی مشیت میرے مولاؑ کی مشیت ہے اور میرے مولا کی مشیت اللہ کی مشیت ہے خدا کی قسم اگر ایسا نہ ہوتا تو میں تم پر اس طرح حملہ کرتا جیسے کہ عقاب غضبناک ہو کر اڑتا ہوا چڑیوں پر حملہ کرتا ہے اور تم کو چیر پھاڑ دیتا کیا تم ایسے لوگوں سے خیانت کرتے ہو جو بچپن ہی سے موت سے کھیلتے ہوں اور کیا عالم ہوگا ان کی بہادری کا جب کے وہ عالم شباب میں ہوں ؟ میں قربان کر دوں اپنا سب کچھ اپنے مولاءپر جو کہ اس پوری کائنات پر بسنے والے انسانوں اور حیوانوں کا سردار ہے ۔ اے لوگوں ! تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے کیا تم غور و فکر نہیں کرتے ( کیا موازنہ ہے خاندان یزیدلعنہ کا خاندان رسالتﷺ سے ؟ ) ایک طرف شراب پینے والے ہیں اور دوسری طرف حوض کوثر کے مالک ہیں ایک طرف وہ ہیں جن کا گھر لہو لہب اور سارے جہان کی نجاستوں کی آماجگاہ ہے اور دوسری طرف پاکیزگی کے جہان اور آیات قرانیہ ہیں اور وہ گھر جس میں وحی اور قرآن ہے اور تم اسی غلطی میں پڑ گئے ہو جس میں قریش پڑے تھے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اور تم اپنے نبیﷺ کے نواسے کو قتل کرنے کا ارادہ کر رہے ہو ۔ قریش اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ امیر المومنینؑ کی ہیبت و جلال کے آگے ان کی ایک نہ چل سکی اور کیسے ممکن ہوگا تمہارے لیے ابا عبداللہ الحسینؑ کا قتل جب کہ اسی علی ؑکا بیٹا رسول ﷺکے بیٹے کی حفاظت پر مامور ہے اگر ہمت ہے توآؤ میں تمہیں اس کا راستہ بتاتا ہوں میرے قتل کی کوشش کرو اور میری گردن اڑاؤ تا کہ تم اپنی مراد پا سکو اللہ تمہارے مقصد کو کبھی پورا نہ کرے اور تمہارے آباء و اولاد کو تباہ کرے اور لعنت کرے تم پر اور تمہارے آباء و اجداد پر ۔


تحریر : ظہیرالحسن کربلائی

وحدت نیوز(آرٹیکل) گزشتہ دنوں ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے پاکستان کا دورہ کیا۔اس دورہ میں مہمان وزیر اعظم کو ملک میں شایان شان پروٹوکول دیا گیا یقیناًوہ اسی کے مستحق تھے۔مہاتیر محمد بظاہر بہت ضعیف العمر شخص نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ توانا اور طاقت ور دکھنے والے مسلمان رہنماؤں سے کئی گنا زیادہ مضبوط اور طاقتور انسان ہیں۔مہاتیر محمد کی پاکستان سے دوستی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔جب وہ پاکستان کے دورے پر تشریف آور ہوئے تو اس وقت خبریں گردش کر رہی تھیں کہ بھارت نے سفارتی ذرائع سے مہاتیر محمد کو پیغام بھجوایا ہے کہ وہ پاکستان کا دورہ منسوخ کر دیں یا کم سے کم ملتوی ہی کر دیں لیکن جواب میں مہاتیر محمد نے اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھا کہ بھارت سے ان کے تعلقات خراب ہو جائیں گے یا نہیں، انہوں نے پاکستان سے اپنی والہانہ محبت اور اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کا دورہ کرنے کا اصولی موقف اپنائے رکھا اور بھارتی دشن کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔مہاتیر محمد نے پاکستان کا دورہ ایسے وقت میں کیا کہ جب قرار داد پاکستان کی یاد گار منانے کے دن یعنی 23مارچ کی رسومات کیا دائیگی ہونا تھی اور یہ بھی طے تھا کہ مہمان وزیر اعظم افواج پاکستان کی پریڈ کا معائنہ بھی کریں گے اور اس تقریب میں مہمان خصوصی ہوں گے جبکہ دوسری طرف بھارت کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح پاکستان کے اس قومی دن کو خراب کیا جائے جس کے لئے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردوں نے کاروائیاں کر کے اس دن کی اہمیت کو سبو تاژ کرنے کی کوشش بھی کی اور دوسری طرف یہ تاثر بھی عام تھا کہ شاید بھارت یوم پاکستان کے موقع پر اسلام آباد یا کسی اور شہر کو نشانہ بنا سکتا ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود مہاتیر محمد کی پاکستان سے بے مثل دوستی میں کوئی دراڑ قائم نہیں ہوئی ۔

انہوں نے قوم دن کی تقریبات میں شرکت بھی کی اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے عنوان سے سرگرمیوں کا حصہ بھی بنے۔پاکستان اور ملائیشیا میں جہاں اور کئی باتیں مشترک پائی جاتی ہیں وہاں ایک اہم ترین بات فلسطین سے دونوں ممالک کی نظریاتی وابستگی اہمیت کی حامل ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کی تحریک کے اوائل میں ہی فلسطینیوں کی زمین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست کے قیام کی امریکی و برطانوی کوششوں کی کھل کر مخالفت اور مذمت کی تھی اور دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اگر مغرب کو لگتا ہے کہ صہیونیوں کے لئے الگ ریاست قائم ہونی چاہئیے تو پھر یہ فلسطین میں کیوں ؟ امریکہ یا برطانیہ کیوں اپنی زمین پر قائم نہیں کر لیتے؟ قائد اعظم نے کہا تھا کہ مسلمانان ہند فلسطین کے ساتھ ہونیو الی ناانصافی اور فلسطین کی سرزمین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست کے قیام پر خاموش نہیں بیٹھے رہیں گے اور فلسطینیوں کے حقوق کے لئے جس قدر ہو گا جد وجہد کریں گے۔

مہاتیر محمد کی بات کرتے ہیں کہ جنہوں نے پاکستان کے دورے کے دوران ایک ایسے وقت میں قائد اعظم محمد علی جناح کی یاد کو زندہ کیا ہے کہ جب پاکستان کی حکومت پر عرب ممالک کے بادشاہوں کی جانب سے امریکی دباؤ ڈالا جا رہاہے کہ اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے راستے کھولے جائیں یا کم سے کم اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے جائیں۔ اس کام کے لئے حکومت پر اندرونی اور بیرونی ذرائع سے دباؤ ڈالا جا رہا تھا ۔سابق صدر پرویز مشرف کی نام نہاد قومی سلامتی پریس کانفرنس میں بھی حکومت پر اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے دباؤ ڈالا جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے۔اسی طرح سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کی عمران خان سے ہونے والی ملاقات کے احوال میں بھی آیا ہے کہ عمران خان نے عادل الجبیر کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ اگر سعودی عرب پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے تو بس کرے لیکن اسرائیل پاکستان تعلقات پر کوئی بات نہیں ہو گی۔مہاتیر محمد نے سرمایہ کاری کے عنوان سے بلائی جانے والی کانفرنس میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں بیان کیا کہ ملائیشیا کا کوئی دشمن نہین سوائے اسرائیل کے۔

ان کاکہنا تھا کہ اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیاہے۔دوسروں کی زمین پر قبضہ کرنا ڈاکوؤں کا کام ہے ۔ہمارا اسرائیل کے سوا کوئی دشمن نہیں، باقی تمام ممالک سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔ اسرائیل سے ہم نے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم یہودیوں کے خلاف نہیں مگر دوسروں کے ملک پر قبضہ کرنا ڈاکوؤں کا کام ہوتا ہے۔ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کے یہ کلمات یقیناًپوری ملائیشین قوم کی ترجمانی کر رہے تھے۔کیونکہ اگر مہاتیر محمد کی ملائیشیا کے حوالے سے جد وجہد کی بات کی جائے تو نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔انہوں نے بھی عمران خان کی طرح اپنے ملک میں کرپشن کے خلاف عملی اقدامات کئے ہیں۔دراصل مہاتیر محمد کے ان جملوں میں بڑی تاثیر موجود تھی جو بیک وقت فلسطینی اور پاکستانی قوم کے لئے ایک سنگ میل کی حیچیت رکھتی ہے تو دوسری جانب اسرائیل اور بھارت کے لئے بھی سنگین پیغام رکھتی ہے۔مہاتیر محمد اپنے دورہ پاکستان سے قبل پاکستان بھارت کشیدگی اور فلسطین سے متعلق پاکستان پر عرب حکمرانوں کے دباؤ سے بخوبی آگاہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سرمایہ کاری کانفرنس میں پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کے سامنے اپنا پیغام ہی نہین بلکہ پاکستان کا پیغام بھی پہنچا دیا ہے کہ پاکستان اور ملائیشیا فلسطین کے بے مثال دوست ہیں اور اسرائیل ایک جعلی اور ڈاکوؤں کی ریاست ہے۔

دراصل مہاتیر محمد کے اس خطاب نے پاکستان کی اصل روح کو زندہ کیا کہ جس روح کو قائد اعظم محمد علی جناح کی صورت میں دیکھا گیا تھا۔خلاصہ یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان بھی مہاتیر محمد کی طرح تحسین کے حق دار ہیں ۔کیونکہ مہاتیر محمد کی زبان سے ادا ہونیوالے تمام الفاظ کہ جن میں اسرائیل کی جعلی ریاست کی مذمت اور فلسطینیوں کی حمایت پنہاں تھی نہ صرف مہاتیر محمد کے الفاظ تھے بلکہ پاکستان کے وزیر اعظم اور عوام پاکستان کی ترجمانی بھی تھی۔اسی کانفرنس میں عمران خان نے مہمان وزیر اعظم کی خصوصیات بیان کی تھیں جن میں ایک خصوصیت یہ بھی بیان ہوئی تھی کہ مہاتیر محمد ایک ایسے بے باک اور بہادر لیڈر ہیں جو حق بات کہہ دیتے ہیں جبکہ بہت سے مسلمان ممالک کے حکمران ایسا کرنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔یقیناًمہاتیر محمد نے فلسطین کے حق میں بات کر کے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست کی حقیقت کو آشنا کر کے ثابت کر دیا ہے کہ مہاتیر محمد پاکستان و فلسطین کے بے مثال دوست ہیں۔

 تحریر: صابر ابو مریم
 سیکرٹری جنرل
 فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز (آرٹیکل) الحمد اللہ رب العالمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان اپنا ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے اپنے قیام کے دسویں برس میں داخل ہوگئی ہے، تمام مظلومین ومستضعفین پاکستان کو اس پر مسرت موقع پر مبارک باد پیش کرتے ہیں،خدا وند متعال کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایم ڈبلیوایم پاکستان شہدائے کربلاؑسے درس حریت واستقامت لیتے ہوئے ملت جعفریہ پاکستان کے پامال اور غصب شدہ حقوق کے حصول اور پاسبانی کرتے ہوئےسردار شہدائے پاکستان شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی آرزووں اور ارمانوں کی تکمیل کے لئے شہید علامہ دیدار جلبانیؒ،شہید آغا آفتاب حیدرجعفریؒ،شہید عالم ہزارہ،شہید صفدر عباس ، شہید علی شاہ ،شہید استاد غلام حسین ودیگر بے شمار قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے باوجود آج بھی مادر وطن کے استحکام اور سلامتی کیلئے عالمی استعماری ، شیطانی، نمرودی، یزیدی اور شدادی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہے۔

پاکستان کو بیرونی خطرات کے بچانے اور دشمنان دین وطن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے اپنی تاسیس سے لیکر آج تک ہر لمحہ اتحاد بین المسلمین کو مقدم رکھا ، امام علیؑ کی وصیت ’’ہر ظالم کےمخالف اور ہر مظلوم کے حامی بنے رہنا‘‘اورشہید قائد کے فرمان کہ ’’ہم ہرظالم کے مخالف ہیں چاہے وہ شیعہ ہی کیوں نا ہواور ہر مظلوم کے مددگارہیں چاہے وہ کافرہی کیوں نا ہو‘‘کی عملی تصویر بنی رہی ، ہمیشہ ملک اور بیرون ملک شیعہ ،سنی،سکھ ، عیسائی اور ہندوغرض ہر مظلوم پر ہونے والے ظلم پر بلا تاخیر سب سے پہلے صدائے احتجاج بلند کرنا اس کا افتخاررہا، اس کی قیادت کی شجاعت ، جواں مردی، اخلاص ، حکمت، تدبر اور بصیرت کے باعث نا فقط اہل وطن بلکہ دیار غیر میں مقیم پاکستانی بھی جس سیاسی ومذہبی جماعت پر سب سے زیادہ اعتمادکرتے اور امید وابستہ رکھتے ہیں وہ یہی ایم ڈبلیوایم ہے،نا فقط اتحاد بین المسلمین بلکہ اتحاد بین المومنین بھی ہمیشہ اس جماعت کی قیادت اور کارکنان کے مطمع نظررہاہے ، ملک کے طول وعرض میں ہمیشہ ہر قومی وملی ایشو پر علماءاورذاکرین کے درمیان یعنیٰ ممبر اور محراب کے درمیان بہترین ہم آہنگی کیلئے مضبوط رابطے اور تعلقات کو پروان چڑھایا گیااور قومی سانحات اور واقعات پر مشترکہ موقف کے حصول کیلئےتاریخ گواہ ہے کہ چاہے کوئٹہ ، مستونگ، کوہستان ، ڈیرہ اسماعیل خان ، پاراچنار ،کراچی میں دہشت گردی کے خلاف دھرنے ہوں ،آل شیعہ پارٹیز کانفرنسز ہوں یا اجتماعات ملک بھر کےقومی وملی تنظیمات، ذاکرین عظام ، شعراءاور نوحہ خوانوں کی اکثریت جس دینی وسیاسی جماعت سے سب سے زیادہ قربت رکھتی ہے قابل فخر طور پر یہی ایم ڈبلیوایم ہے۔

ملک کو درپیش چیلنجز ، کرپشن، دہشت گردی ، انتہاپسندی ،غربت اور مہنگائی کے خلاف ہمیشہ صف اوّل میں دیکھی جانے والی جماعت یہی ایم ڈبلیوایم ہےجو اپنی فعالیت اور عوامی پزیرائی کے باعث ملک کی تمام مقتدر قوتوں ، سیاسی ومذہبی جماعتوں کے درمیان نمایاں مقام ومنزلت رکھتی ہے جس نقش ورول پاکستان کی خارجہ وداخلہ پالیسی پر نمایاں طور پر دیکھا جاسکتاہے ، خدا کے فضل وکرم اورشہداءوصدیقین کی عنایات کی بدولت سرزمین پاکستان پر محروموں اور مظلوموں کی سب سے توانا آواز یعنی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا سفر اپنے دسویں برس میں داخل ہوگیاہے ، ہماری دعاہے کہ خدا وند متعال اس جماعت کی قیادت اور کارکنان خصوصاًحضرت علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ کی تمام ترزحمتوں اور قربانیوں کو اپنے بارگاہ میں شرف قبولیت عنایت فرمائے اور مظلوموں کے حقوق کے حصول اور یزیدان عصرکے خلاف یہ جدوجہدبلاخوف خطر تا ظہور امام عصر عج جاری وساری رکھنے کی توفیق بخشے۔۔۔۔۔ انشاءاللہ


تحریر:سید احسن عباس رضوی
مدیر اخبار وحدت

وحدت نیوز(آرٹیکل )یہ تحریر نیوزی لینڈ میں رونما ہونے والے دلخراش اور غمناک سانحہ کے چند دن بعد اس لئے لکھ رہا ہوں کیونکہ اس سانحہ پر دنیا بھر میں مذمت کا اظہار بھی کیا گیا اور ساتھ ساتھ شہداء کے لواحقین سے ہمدردی اور یکجہتی سمیت تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے دل جوئی کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جس کے گھر سے کوئی سہارا چلا جائے اس پر کیا گزرتی ہے وہ تو ہی بتا سکتا ہے۔جیسے کہاوت مشہور ہے کہ قبر کا حال تو مردہ ہی جانے ہے۔

تا وقت تحریر نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک سفید فام نے دو مساجد میں گھس کر نہتے عبادت گزاروں کو جس بے رحمی سے قتل کیا اس کی منظر کشی دنیا کے کسی ذرائع ابلاغ کو دکھانے یا پیش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ دہشتگرد قاتل نے یہ سارا منظر خود اپنے کیمرے میں ضبط کرنے کے بعد سوشل میڈیا کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے پوری دنیا میں نشر کر دیا۔کرائسٹ چرچ کا سانحہ ہوتے ہی جہاں ایک طرف پوری دنیا کے مسلمانوں میں اضطراب کے ساتھ غم وغصہ کی لہر پیدا ہونا فطری عمل تھا کیونکہ مسلمان دین الہیٰ اور پیغمبر گرامی قدر حضرت محمد مصطفی (ص) کی احادیث کی روشنی میں جسد واحد کی طرح ہیں اور جب جسم کے کسی ایک حصہ کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔

بہر حال ایک طرف نیوزی لینڈ میں پچا س سے زائد اسلام کے نام لیواؤں کو بے رحمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا تو دوسری جانب مغربی دنیا اس خطر ناک سانحہ کی پردہ پوشی کرنے کے لئے نئے ہتھکنڈوں کو سامنے لانے میں بالکل سست نظر نہیں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر عام وخاص کی زبان پر ایک ہی بات دہرائی جا رہی تھی کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔یقیناًالہیٰ ادیان کا دہشتگردی سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں اس بات کی تکرار کرنے کی ضرورت پیش آ رہی تھی ؟ دراصل اس نعرے کا پرچار کروانے والی مغربی نام نہاد تہذیب اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ دہشت گردی کا مذہب ، مسلک ، رنگ و نسل یا جو بھی کہہ لیجئے یقیناًموجو دہے او ر اس کے تانے بانے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا اصل مذہب ہی ’’صہیونزم‘‘ ہے۔لیکن کیونکہ صہیونیوں نے امریکی سیاست سمیت یورپی ممالک تک اپنے پنجہ گاڑھ رکھے ہیں تو کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ کوئی یہ کہہ دے کہ دنیا میں ہونیو الی دہشتگردی اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے میں صہیونی ملوث ہیں ، حالانکہ اس بات کے شواہد موجود ہیں۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان کا ذرائع ابلاغ بھی یقیناًاپنے کاروبار کی فکر میں رہتا ہے اور اس فکر میں پھر کسی بات کی گنجائش نہیں رہتی، یا پھر دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی اسی ذرائع ابلاغ کی بدولت مغرب پرست یا مغرب سے اس قدر متاثر ہو چکا ہے کہ جو کچھ مغرب کہہ دے اسے بالکل تسلیم کر لیا جاتا ہے جبکہ خود اسلامی تعلیمات کو دقیانوسی اور نہ جانے کیا کچھ کہہ کر رد کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔آج ہماری نسل نو کو مغربی تہذیب و تمدن اس طرح گھو ل گھول کر پلائی جا رہی ہے کہ ہم اپنی اصل سے ہی منحرف ہو رہے ہیں۔

یہ مغربی تہذیب سے متاثر ذرائع ابلاگ اور عناصر ہی ہیں کہ جنہوں نے نیوزی لینڈ میں ہونے والی ہولناک دہشت گردی کو چند گھنٹوں میں ایک فرد کا عمل قرار دے کر پورے معاشرے سے ذمہ داری سلب کر لی۔جبکہ اگر پاکستان کی بات کریں تو ہم یہاں گذشتہ چالیس برس سے اسی ہی قسم کی دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ہمارے ستر ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں کہ جن میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ملتے ہیں۔لیکن اس معاملے میں کیونکہ مغرب کا ایجنڈا تھوڑا سا مختلف تھا تاہم انہوں نے پاکستان کو اور بالخصوص اسلام کو شدت پسند بنا کر پیش کیا۔

صرف بات یہاں تک ہی نہیں رکی بلکہ مغرب نے اسلام کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے نت نئے ناموں سے مقبوضہ علاقوں میں دہشت گرد گروہوں کی پرورش کی اور انہیں پھر مختلف ممالک کی سرزمینوں پر اسلام کے جھنڈے کے ساتھ بھیج کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام ہی دنیا میں دہشت گردی کا سبب بن رہا ہے ۔حقیقت میں ان دہشت گرد گروہوں کو پیدا کرنے سے مالی و مسلح معاونت دینے تک میں استعماری طاقتیں بالخصوص امریکہ، اسرائیل اوریورپ خود ملوث تھے۔

جب سنہ1969ء میں مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو ایک صہیونی جا کر نذر آتش کر دے تب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس شخص کا دماغی توازن ٹھیک نہ تھا اور اسی طرح جب سنہ2019ء میں کرائسٹ چرچ کی مساجد میں مسلمانوں کا قتل عام کر دیا جائے تب بھی دہشت گردی کے مذہب ومسلک اور جڑ صہیونزم کی پردہ پوشی کرنے کے لئے یہی کہا جاتا ہے کہ دہشتگرد ی کاکوئی مذہب نہیں اور اندھا دھند گولیاں چلا کر معصوم انسانوں کی جان لینے والا نفسیاتی مریض یا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔یقیناًمغرب وصہیونزم کا دماغی توازن درست نہیں ہے ورنہ آج فلسطین سے کشمیر تک معصوم انسانی جانیں لہو لہان نہ ہوتیں ۔آج ہمیں یہ مان لینا چاہئیے کہ دنیا میں اگر دہشت گردی کی کوئی جڑ موجود ہے تو وہ خود استعماری قوتیں جو اپنے من مانے ناپاک عزائم کو حاصل کرنے اور تکبر و گھمنڈ کو برقرار رکھنے کے لئے دنیا بھر میں قتل عام کرتی پھرتی ہیں ، دراصل دہشت گردی کی اصل ذمہ دار یہی استعماری قوتیں ہیں جن میں امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک شامل ہیں۔آج ہمیں مغربی زیر اثر ذرائع ابلاغ سے ایک ہی سبق پڑھایا جا رہاہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ۔ہم اس بات کو کیسے مان لیں کہ چالیس سال تک پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں قتل ہونیو الے ستر ہزار انسانوں کے قتل میں امریکن بدنام زمانہ سی آئی اے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل اور موساد سمیت خطے میں ان کے نمک خوار اس کے ذمہ دار نہ تھے ؟

ہم ا س بات کو کیسے تسلیم کرلیں کہ آج ستر برس سے فلسطین کی سرزمین پر جو صہیونیوں کی جانب سے دہشت گردی کی نت نئی مثالیں قائم کی جا رہی ہیں اس کا تعلق صہیونزم سے نہیں ہے ؟کیا ہم افریقہ میں نسل پرستی اور اب فلسطین میں صہیونیوں کی نسل پرستی کو فراموش کر دیں اور کہہ دیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ؟ کیا صہیونیوں کے مذہب کے مطابق صہیونی دنیا کی سب سے اعلیٰ مخلوق نہیں کہلواتے ؟ کیا صہیونیوں کی مذہبی تعلیمات اورعقائد میں کسی انسان کو صہیونزم کے مفاد پر قتل کرنے کو ہم کس طرح سے دہشت گرد ی اور صہیونزم کو جدا کر سکتے ہیں؟کیا ہم کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی کو بھول جائیں جس کے پس پردہ بھی صہیونیزم موجود ہے ؟کیا گذشتہ دنوں صہیونزم کی مدد سے بھارت نے پاکستان کیخلاف جو دہشت گردی انجام دی اس کو بھی فراموش کر دیں ؟ کیا ہم نیوزی لینڈ کے واقعہ کی طرح یہ کہہ دیں کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی انتظامیہ نفسیاتی مریض یا پاگل ہے ؟ اگر یہ کہہ دیا جائے تو پھر ضروری ہے کہ نفسیاتی مریضوں اور پاگل عناصر کو پاگل خانوں اور اسپتالوں میں رکھا جائے نہ کہ انہیں انسانوں کے قتل عام پر مامور کیا جائے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ پر مغرب نے اس بات کی مکمل کوشش کی ہے کہ مغرب کو دہشت گردی کا لیبل نہ دیاجائے حالانکہ اگر طول تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان کی تہذیب دہشتگردی کی بے پناہ داستانوں سے بھری پڑی ہے۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے مسلمانوں کی ہمدردی لینے کے لئے سرکاری ریڈیو اور دیگر مقامات پر اذان دلوا کر دنیا کے مسلمانوں کو خوش کر لیا ہے اور ساتھ ساتھ صہیونزم کی پردہ پوشی بھی کر گئی ہیں تا کہ دنیااصل حقائق نہ جان سکے ۔بے چارے مسلمان بھی کتنے سیدھے ہیں کہ ازانیں سن سن کر اس قدر خوش ہو رہے ہیں لیکن اس بات سے بے خبر ہیں کہ دہشت گردی کی ماں صہیونزم کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں روزانہ اذان پر پابندی عائد کی جاتی ہے لیکن پھر بھی کہا جاتا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو ، تحقیق اور مشاہدے سے ثابت ہوا ہے کہ صہیونیزم دہشت گردی کے پیچھے کارفرما ہے ۔دنیا کا کائی حصہ ایسا نہیں جہاں دہشتگردی کے واقعات میں صہیونیزم کا ہاتھ شامل نہ رہاہو۔اس بنیاد پر میں کہتا ہوں کہ دہشت گردی کا یقیناًالہیٰ ادیان سے کوئی تعلق نہیں البتہ صہیونزم ہی دہشت گردی کا اصل مذہب ومسلک اور رنگ و نسل بھی ہے۔


 تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات، جامعہ کراچی

وحدت نیوز(آرٹیکل) مسلمان بالکل تہی دست تھے،  1936ء و  1937ء کے عام انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو مکمل طور پر شکست ہو چکی تھی، ۱۱ صوبوں میں سے کسی ایک صوبے میں بھی مسلم لیگ کو حکومت بنانے کا موقع نہیں ملاتھا، اس شکست سے مسلم لیگ کا یہ دعوی بھی خطرے میں پڑ گیا تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ تنظیم ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب آج کل کی طرح انفارمیشن اور رابطے کے وسائل بھی نہیں تھے، مسلمانوں کی سیاسی تربیت ،اجتماعی شعور  اور نظریاتی سدھار کے سامنے ہزار طرح کی رکاوٹیں تھیں۔

سیاست ،وطن، جمہوریت، آزادی، خودمختاری اور ملت کی ایک تعریف ہندو حضرات اور  کانگرسی علما اور دوسری تعریف   مسلم لیگ کے رہنما کر رہے تھے۔اگر بظاہر دیکھا جائے تو انتخابات میں شکست کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماوں کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا چاہیے تھا، اپنے موقف سے عقب نشینی کر لینی چاہیے تھی اور اپنے نظریے سے دستبردار ہوجانا چاہیے تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

بلکہ اس کے برعکس کانگرس کو  دو سال اور چند ماہ کے بعد  مستعفی ہونا پڑا اور مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر 22 دسمبر 1939ء کو یوم نجات منایا۔اس کے بعد  آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس  تین دن کے لئے 22 مارچ۱۹۴۰ کو لاہور میں شروع ہوا۔اجلاس  کے ابتدائی سیشن سے  قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے بھی خطاب  کیا، 23 مارچ کو مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی   جس کے بعد اس قرار داد کے حق میں تقاریر جاری رہیں اور  24 مارچ 1940ء کو رات کے ساڑھے 11 بجے یہ قرارداد منظور کی گئی۔ قرارداد لاہور کو اس وقت کے میڈیا نے بڑھا چڑھا کر  پیش کرنے کے لئے قراردادِ پاکستان کا نام دیا اور یوں یہی قراردادِ پاکستان ہی حصولِ پاکستان کے لئے مشعلِ راہ  بن گئی۔

۱۹۴۰ سے ۱۹۴۷ تک کے سات سالوں کے اندر مسلم لیگ نے مسلمانوں میں مطلوبہ  سیاسی بیداری بھی پیدا کی اور انہیں اس قرارداد کے مطابق ایک آزاد وطن بھی حاصل کر کے دیا۔ قائداعظم کی وفات کے چھے ماہ بعد 12 مارچ 1949 کو دستور کے مقدمے کے طورپر قراردادِ مقاصد  منظور کی گئی اس قرارداد کےمطابق پاکستان نے ایک اسلامی جمہوریہ بننا تھا اور پہلا پاکستانی آئین  29 فروری 1956 کو منظور اور 23 مارچ 1956 کو اسے نافذ العمل ہوا۔چنانچہ    ۱۹۵۶ سے  تئیس مارچ کو سرکاری سطح پر منانے کا سلسلہ شروع ہوا اوراس روز کوآج تک  کبھی ہم نے  یومِ جمہوریہ اور کبھی یوم پاکستان  کے نام سے منایا تاہم  اس دن کے ساتھ ہم آج تک  انصاف نہیں کرپائے، ہم نے نہ ہی تو اسلامی جمہوری اقدار کی پابندی کی اور نہ ہی پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی آبیاری کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم پاکستان کی کسی بھی سیاسی تنظیم کو پاکستانی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم نہیں کہہ سکتے،  اور آج ہم پاکستان بننے کے  ۷۲ سالوں کے بعد بھی ایک قومی سطح کی قیادت کے حوالے سے بحران کے شکار ہیں۔

قراردارِ پاکستان کی روشنی میں پاکستان بنانے کا مقصد مسلمانوں کو غیرِ خدا کی غلامی سے نجات دلا کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پناہ اور امان میں لانا اور مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست کا قیام تھا اور یہی قراردادِ مقاصد کا بھی لبِ لباب ہے  لیکن آج ہمارے پاس ایک ایسا پاکستان ہے ،جس میں آج بھی  قائداعظم کے مخالف کانگرسی علما کا قبضہ ہے،سیاسی پارٹیاں انگریزوں اور یورپ کی کاسہ لیس ہیں اور سیاسی لیڈر یوٹرن لینے پر عمل پیرا ہیں۔آج کا پاکستان ، اسلام اور مسلمانوں کا پاکستان نہیں بلکہ فرقوں، شدت پسندوں  اور دہشت گردوں کا پاکستان ہے، ہم بحیثیت قوم، قراردادِ پاکستان سے منحرف ہو چکے ہیں۔یہ انحراف اس قدر زیادہ ہے کہ ہم اب  مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو نظریاتی مسئلہ سمجھنے کے بجائے علاقائی مسئلے کے  طور پر پیش کرتے ہیں، ہم اب یہ سوچتے بھی نہیں کہ ہم کس منزل کی تلاش میں نکلے تھے اور کس کوچے میں کھڑے ہیں۔ہم اب تک اپنے ریاستی و نظریاتی دوستوں اور دشمنوں میں بھی فرق نہیں کر سکے، کہنے کو تو ہم نے ریاست ِمدینہ اور مدینہ  فاضلہ  کا خواب دیکھا تھا لیکن یقیناً ہم نے اپنی منزل کھو دی ہے۔

منزل کھونے کا احساس بہت اہم ہے ،اس احساسِ زیاں کی حفاظت ضروری ہےلیکن فقط حالات کا نوحہ لکھنے، ماضی کا ماتم کرنے، کانگرس نواز مولویوں پر تنقید کرنے  اور حکمرانوں کو کوسنے سے تاریخ بدل  نہیں سکتی اور مستقبل سنور  نہیں سکتا۔اگر ہم نے  تاریخ کے دھارے کو بدلنا اور قومی مستقبل کو سنورنا ہے تو ہمیں  اپنے حال کو قراردادِ پاکستان کے قالب میں ڈھالنا ہوگا۔ہماری قومی ، سیاسی اور دینی  تنظیموں کو قرارداد پاکستان کو سامنے رکھ کر پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا بصورت دیگر اس کھوئی ہوئی منزل کو تلاش کرنا اور بھی دشوار ہو جائے گا۔جس طرح بیماری کے علاج کے لئے بیماری کا احساس ضروری ہے اسی طرح کسی بھی طرح کے زیاں کے جبران اور تلافی کے لئے اس زیاں کا احساس بھی ضروری ہے۔ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ جو قراردادِ پاکستان ہمارے اجداد نے پیش کی تھی ہم عملاً اس کو کھو چکے ہیں اب اس زیاں کی تلافی کا وقت ہے،قراردادِپاکستان سے لئے گئے ہر یو ٹرن نے ہمیں  ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

مختصر بات یہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں خزانوں کا خالی ہونا، تہی دست ہونا اور انفارمیشن و رابطے کی سہولتوں کا فقدان اتنا ضرررساں نہیں جتنا سیاسی رہنماوں کا اصولوں اور نظریات سے یو ٹرن لینا ہے، خصوصا ایسا یوٹرن جس کے بعد احساسِ زیاں بھی نہ رہے۔

 

تحریر:نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Page 10 of 77

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree