وحدت نیوز (مانیٹرنگ ڈیسک) مصر خانہ جنگی کے دھانے پرصدر کا مستعفی ہونے سے انکار، رات گئے صدر مرسی نے قبہ نامی صدارتی محل سے ٹی وی کی سکرین کے توسط سے مصر عوام کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے ملک میں جاری کشیدگی کو بدھ تک ختم کرنے کے لیے فوج کی طرف سےملنے والی الٹی میٹم کو مسترد کر دیا ہے۔واضح رہے کہ قبہ محل کے باہر اپوزیشن کے ہزاروں مظاہرین دھرنا دئے ہوئے ہیں۔ منگل کو رات گئے قوم سے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں صدر مرسی نے کہا کہ وہ مرتے دم تک اپنے آئینی عہدے کی حفاظت کریں گے کیونکہ وہ صاف و شفاف انتخابات کے ذریعے ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ مرسی نے ملک کے آئینی صدر ہونے پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی سے ڈیکٹیشن نہیں لیں گے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ان سے غلطیاں ہوئیں تاہم انھوں نے قوم سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔
دوسری جانب مصر کے مختلف علاقوں میں صدر کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں کم سے کم 16 افراد ہلاک ہو گئے۔ صدر مرسی نے ملک میں جاری کشیدگی کا الزام بدعنوانی اور سابق صدر حسنی مبارک کے دورِ حکومت کی باقیات پر لگاتے ہوئے مظاہرین کو قانون کی پاسداری کرنے کو کہا۔جبکہ اپویشن کا کہنا ہے کہ صدر مرسی گذشتہ ایک سال میں ملکی اھم مسائل کو حل کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں تحریر اسکوئر میں صدر مرسی پر اسرائیل اور عرب شیخ نوازی کا بھی الزام لگایا گیا ہے جس میں اھم ترین نکتہ کیمپ ڈیویڈ جیسے بدنام زمانہ معاہدے کی پاسداری ہے۔
مرسی نے اپنی تقریرمیں مفاہمت اور میڈیا کے لیے ضابطۂ اخلاق بنانے کے لیے ایک کمیٹی بنانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ قومی سطح پر مذاکرات کے لیے تمام گروپوں اور شخصیات سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔ جبکہ اپوزیشن شام کچھ جماعتوں اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ صدر مرسی نے آئین میں ایسی تبدیلیاں کی ہیں جس کے بعد وہ ملک میں مطلعق العنان اختیارات حاصل کرچکے ہیں اور یوں وہ منتخب صدر سے دینی خلیفہ بننا چاہتے ہیں تحریر اسکوائرمیں لگنے والے نعروں میں صدر اور اخوان المسمین پر مذہبی ڈکٹیٹرشب اور شدت پسندی کا بھی الزام لگ رہا ہے۔
خیال رہے کہ مصری فوج نے اڑتالیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر حکومت اور اس کے مخالفین ’عوام کے مطالبات‘ ماننے میں ناکام رہے تو فوج مداخلت کرے گی۔ اس سے پہلے مصر کی فوج نے ملک کے مستقبل کے لیے تیار کر دہ منصوبے کو لیک کیا تھا جس میں ملک کے موجودہ پارلیمان کو تحلیل کرنے اور ملک میں نئے صدارتی انتخابات کرانے کی بات کی گئی ہے۔ بی بی سی کو موصول ہونے والے معلومات کے مطابق فوجی منصوبے کے تحت ملک کے نئے آئین کو بھی معطل کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب مختلف زرائع بتا رہے ہیں کہ صدر مرسی کی پوزیشن ہر گزرتے منٹ کے ساتھ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ عرب زرئع ابلاغ کے مطابق ایک ایک ٹیکنوکریٹس اور سویلین افراد پر مشتمل ایک ایسی کونسل بنانے کی تجویز زیر غور ہے جو ملکی نظم و نسق کو چلائے گی۔
خیال رہے کہ حزب اختلاف کی تحریک تمرد یعنی’باغی‘ نے پیر کو الٹی میٹم جاری کیا تھا کہ اگر صدر مرسی مقامی وقت کے مطابق منگل کی شام پانچ بجے تک اقتدار سے الگ نہیں ہوئے تو ان کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی۔ اس کے بعد مصری فوج نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکومت اور اس کے مخالفین عوامی مطالبات ماننے میں ناکام رہے تو فوج مداخلت کرے گی۔ صدر محمد مرسی نے ملک کے فوج کے سربراہ جنرل عبدالفاتح السیسی سے منگل کے روز مسلسل دوسری ملاقات کی ہے۔ منگل کو ہونے والی دوسری ملاقات میں وزیراعظم ہاشم قندیل بھی شامل تھے تاہم اس ملاقات میں ہونے والی بات چیت کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ ان تک حکومت کے دس وزرا کے مستعفی ہونے سے جن میں وزیرِ خارجہ محمد کامل امر بھی شامل ہیں صدر مرسی پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔جبکہ صدر کے دو اہم ترجمان بھی استعفی دے چکے ہیں۔
مصر کی عدالتِ عالیہ نے بھی صدر مرسی کی جانب سے مقرر کیے جانے والے پراسیکیوٹر جنرل کو برخاست کرنے کے فیصلے کو بھی برقرار رکھا ہے۔ اپوزیشن نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ فوری انتخابات کے مطالبے کی ایک پٹیشن پر دو کروڑ بیس لاکھ افراد نے دستخط کیے ہیں۔جبکہ مصر کی سلفی تحریک کی ترجمان جماعت النور نے بھی فوری انتخابات کو بحران کا حل قراردیا ہے۔ مرسی 30 جون 2012 کو انتخاب میں کامیابی کے بعد مصر کے پہلے اسلامی صدر بنے تھے۔ان کی صدارت کا ایک سال سیاسی بے اطمینانی اور معیشت میں گراؤٹ کی زد میں رہا۔