وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ عصرِ حجر نہیں بلکہ اکیسویں صدی کا پیشرفتہ اور ترقی یافتہ دور ہے،  ایک ایسا دور جہاں کسی کے پاس دوسروں کے لیے کوئی وقت نہیں، آپس میں تمام  قرابتی رشتے ٹوٹ چکے ہیں، گھر بیٹھ کر فیس بک اور واٹس ایپ اور ایس ایم ایس کے ذریعہ خوشیوں پر مبارکباد اور غموں پر تعزیتی پیغامات بھیج دیے جاتے ہیں، ہر کوئی اپنے اپنے مشغلوں میں محو ہے، کوئی عیش و نوش کے نشے میں مست ہے تو کوئی کمانے کی چکر میں ہے۔

لیکن ایسے ہماہمی اور نفسا نفسی کے پرآشوب دور میں بھی ایسے عاشق اور جیالے موجود ہیں جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر امام وقت (عج) کو پرسہ دینے کے لیے پیدل، پابرہنہ سوئے کربلا رواں دواں ہیں۔ ان جیالوں کی تعداد ہزاروں یا لاکھوں میں نہیں، بلکہ کروڑں میں ہے۔ انہیں داعش، طالبان اور دیگر تکفیروں گروہوں کی دھمکیوں کا بھی علم ہے اور راستے کی مشکلات اور سختیوں سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کوئی بھی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں ، انکے دل عشق حسین (ع) سے لبریز اور آنکھیں غمِ حسین (ع) میں پُرنم ہیں، یہ امام وقت (عج) سے کئے ہوئے عہد کو نبھانے اور دل میں "لیتنا کنا معکم" کی آروز لے کر سیدالشہداء ابی عبداللہ الحسین (ع) کے استغاثے پر لبیک کہتے ہوئے سوئے کربلا قدم بڑھا رہے ہیں۔

اگرچہ پیدل چل چل کر انکے پاؤں زخمی ہو چکے ہیں، پاؤں سے خون بہہ رہا ہے، تلووں پر چھالے پڑ گئے ہیں، تھکاوٹ سے جسم چور چور ہے،  لیکن انہیں اپنی جان کی کوئی فکر نہیں بس انہیں وہ منظر رلا رہا ہے جب اہل حرم کا قافلہ در بہ در پھرانے کے بعد اربعین کو واپس کربلا پہنچا تھا تو ایک کہرام برپا ہو گیا تھا۔

ان راہیانِ کربلا میں کچھ ایسے عاشق بھی موجود ہیں جو جسمانی طور پر تو معذور ہیں لیکن عشق حسین(ع) انہیں گھٹنوں  کے بل چل کر کربلا پہنچنے پر مجبور کررہاہے، ایک آگ  ہے جو سینوں میں لگی ہے، ایک شعلہ ہے جس نے عقل و شعور کے سارے خرمن جلا دیے ہیں،اک حرارت ہے جو ٹھندی نہیں ہورہی ،اے حسینؑ ! اے آقا! اے مولا! آپ نے ایسا کیا کردیا کہ دنیا آپ کی طرف کچھی چلی آرہی ہے۔آپ نے ایسا کونسا چراغ جلا دیا کہ لوگ پروانوں کی طرح آپ کے حرم کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں،بوڑھے ،بچے،ضعیف،جوان،مرد ،عورتیں،بچے سب  تمام تر خطرات کی پرواہ کئے بغیر آپ کے مزار کی جانب رواں دواں ہیں۔

مولا! آپ نے ایسا کیا معجزہ دکھایا کہ  ہر جگہ ،نگر نگر ، گلی گلی، قریہ قریہ میں لبیک یا حسین (ع)، لبیک یا حسین (ع) کی صدائیں گونج رہی ہیں۔

مولا! اس راہ میں  ماضی میں بھی عاشقانِ کربلا کے سر قلم  کئے گئے، ان کے سروں سے دیواریں بنا ئی گئیں، انہیں آگ میں زندہ جلایا گیا اور آج بھی سعودی،وہابی،سلفی اور تکفیری  دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن آپ کے چاہنے والے ان ساری دھمکیوں سے بے نیاز آپ کی تربتِ مبارک کی طرف بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔

اس عشق کی حقیقت کو سمجھنا عام انسان کی سمجھ سے کہیں بالاتر ہے، اس کے لیے دل میں معرفت حسین (ع) اور سینے میں جزبہ حسینی چاہیے،  امام حسین (ع) نے اپنے پاکیزہ لہو سے رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے ہدایت کا دیا روشن کردیا ہے، اب جس کا جی چاہے ہدایت پائے اور جس کا جی چاہے  در در ٹھوکریں کھاتا رہے۔

اب جس کے جی میں آئے وہ پائے روشنی


تحریر۔۔۔۔ ساجد مطہری

وحدت نیوز (آرٹیکل) اس مقالہ میں ایک آسمانی شہر کی سیاحت کا سفرنامہ  پیش کیا گیا ہے۔ دراصل، اس سفرنامے میں مصنف نے  قدیم و جدید فلاسفرز کے مدینۂ فاضلہ یا یوٹوپیا کے تصوّر اور افسانہ نگاروں کے دیومالائی شہر کے تخیل کے واقعی وجود کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ آج کی دنیا میں ہمارے اِس کرۂ خاکی پر ٍنہ فقط اِس ترقی یافتہ انسانی سماج  کا قیام ممکن، بلکہ اس سے بھی بہتر، ایک آسمانی شہر کا قیام تحقق پذیر ہے۔ لہذا اِس سفرنامے کا دعوی یہ ہے کہ اس کے مصنّف نے ایسے ہی آسمانی شہر کا زمینی نمونہ کشف کیا ہے۔

اس داستان میں جو کہ تخیلات سے زیادہ حقائق پر مبنی ہے، مذکورہ  آسمانی شہر کے اعلی سماجی نمونوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کا مدینۂ فاضلہ کے تصور کے ساتھ مقایسہ بھی کیا گیا ہے۔ نیز عصر حاضر کے فلاسفرز اور ماہرین سیاست و اخلاق اور سماج دوستوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اس محیر العقول ترقی یافتہ انسانی جمہور یا بشری سماج کی شہریت حاصل کریں اور اس سلطنتِ عشق کی سرحدوں میں  وسعت لانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ وہ اپنی گم گشتہ متاع پا سکیں۔

مقالہ نگار کے مطابق ہمارے کرہٴ خاکی پر "مدینہٴ فاضلہ" سے کہیں بہتر "عشق کی سلطنت" آباد کرنا عین ممکن ہے۔ لیکن  اِس شہر کی بنیاد، فلسفی حکمت پر نہیں، قلبی عشق پر رکھی جائے گی۔ تاہم  سوال یہ ہے کہ عشق کی سلطنت کے باشندوں کا رہن سہن کیسا، اُن کی شناخت کیا اور اس کے حاکم کی خصوصیات کیا ہیں؟ اِس مقالے میں اِنہی سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنّف کے بقول، عشق کی سلطنت  کے باشندے باہمی اخوّت، رواداری، ایثار اور خیرسگالی کے جذبے سے زندگی گزارتے اور  اچھے، برے، سب حالات میں سلطنت کے وفادار رہتے ہیں۔ وہ حاکم کے عشق میں حکومت کا کوئی قانون  نہیں توڑتے۔ لہذا ایسی سلطنت میں شاذ و نادر ہی کوئی معاشرتی ناہنجاری پیش آ سکتی ہے۔

البتہ ایسی سلطنت کا حاکم فقط حسین ابن علی علیہ السلام جیسا معصوم  امام ہی بن سکتا ہے جس میں صبرِ مسیح         ؑاور جراٴت سقراط سے بڑھ کر صبر و جراٴت پائی جاتی ہو۔  جو کربلا کے دشتِ بلا و غم میں اپنا سب کچھ لٹانے کے بعد بھی خدائے یکتا کی بارگاہ میں " صبراً علیٰ قضائہ و تسلیماً لامرہ" کا نعرہ بلند کر سکتا ہو۔ اِس مقالہ میں انسانی سماج کے معماروں کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ اگر وہ کسی اعلیٰ انسانی سماج کی تشکیل کے درپے ہیں تو عشق کی سلطنت کا مشاہدہ کرنے کی غرض سے سید الشہداء کے چہلم کے موقعہ پر نجف و کربلا میں جمع ہونے والے کروڑوں زائرین کے اجتماع کی عظیم الشان روئیداد کا مطالعہ کریں۔

عرشی،  فرشیوں  کے مہمان

جب ہم اپنے کرۂ خاکی کے دینداری اور نظام مملکت داری کے لحاظ ایک بہترین شہر کی حدود سے نکلے تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ہم  ایک آسمانی شہر کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں۔ لیکن میرے وہم و گمان میں ہو یا نہ ہو، بہر صورت، ہم ایک آسمانی شہر کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔ اس امر کا سب سے پہلا اشارہ  یہ تھا کہ اُس پار  کی بارڈر پر ہمارے خاکی سیارے کے  ممالک کے امیگریشن نظام کے عام عرف سے بالکل برعکس  نہ کوئی ویزا، نہ ویزا فیس اور نہ ہی کوئی انٹری تھی۔آسمانی شہر کی سرحد پر آنے والے مسافروں کےلیے اس سے بڑا سائن بورڈ اور کیا لگایا جا سکتا تھا۔

ہو سکتا ہے کوئی مسافر اس سائن بورڈ کی طرف متوجہ نہ ہو سکا ہو، لیکن جب تک تجاہلِ عارفانہ جیسے سنگین جرم کا ارتکاب نہ کر لیا جائے، اِس واقعہ کو معمولی وقوعہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے خاکی کرہ پر سیاحت (Tourism) حکومتوں کےلیے ایک انتہائی منافع بخش صنعت ہے۔ عام طور پر جن ممالک کا بیرونی سیاح کثرت سے سفر کرتے ہیں، وہ فقط ویزا دینے پر  اتنا کچھ کما لیتے ہیں کہ جس سے نہ فقط اُن کے بیرونِ ممالک سفارتخانوں کا سارا خرچہ نکل آتا ہے، بلکہ کافی مقدار میں  زرِ مبادلہ بچ بھی جاتا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری اپنی دھرتی پر جہاں میزبان ممالک ’’بیت اللہ‘‘ یا ’’مقامات مقدسہ‘‘ کو اپنی ملکی میراث سمجھ کر ااُن کی سیاحت (جسے شرعی اصطلاح میں حج وعمرہ اور زیارت کا نام دیا جاتا ہے) کےلیے جانے والے مسافروں سے  ہوشرُبا ویزا فیس اور دیگر ٹیکس وصول کرتے ہیں، وہاں ڈیپارچر پر ہر مسافر سے اُس کا اپنا ملک بھی کسی نہ کسی فرضی عنوان کے تحت ضرور بھتا وصول کر لیتا ہے۔ بہرصورت، ہمارے فرشی نظام میں عبادت پر بھی سیاحت کے چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔ لیکن جس عرشی شہر کی سیاحت کی میں بات کر رہا ہوں، اُس کے ارباب بست و گشاد کی سوچ ایسی نہ تھی۔ لہذا لاکھوں تو کجا، کروڑوں سیاحوں سے کوئی ویزا فیس وصول نہ کی گئی!!

خیر! یہ تو ہمارے ذرائع ابلاغ کی منافقت اور استحصالی نظاموں کی غلامی اور اُن سے وابستگی کا کھلا ثبوت ہے کہ انہوں نے اتنی بڑی روئیداد کو محض اس لیے اتنی سادگی اور بے نیازی سے نظر انداز کر دیا کہ مبادا اُن کے کرم فرما ناراض نہ ہو جائیں۔ یہی وجہ تھی کہ زمینی مواصلاتی نظام کو آسمانی شہر کی بارڈر کی یہ خبر وصول ہونے کے باوجود، اس خبر کو دنیا کی تبلیغات ادبیات میں کہیں شہ سرخی کی حیثیت حاصل نہ ہو سکی۔ البتہ کچھ لوگوں نے اس تعجب برانگیز رووئیداد کو اپنی بشری طبیعت کے تقاضوں کے عین مطابق طاقِ نسیاں کے سپرد کر دیا اور بہت سارے تو ویسے بھی غافلین کی صف میں شمار ہوتے ہیں جو آنکھیں رکھنے کے باوجود دیکھتے نہیں اور کان ہونے کے باوجود سنتے نہیں۔

آسمانی شہر کی سرحدوں میں داخل ہونے کے بعد ایک زمینی مخلوق کے ناطے میں تو یہی سوچ رہا تھاکہ ہمیں اپنی اگلی منزل تک پہنچانے کےلیے بہت جلد کسی اچھی اے.سی.گاڑی کا انتظام کر دیا جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ دراصل، آسمانی شہر کی بارڈر پر زمینی باشندوں کو لینے آنے والی کوچز،  اپنی تمامتر بہتات کے باوجود کم پڑ گئی تھیں۔ لہذا جو براق  میسّر آتی، ترجیحی بنیادوں پر اُس پر بچوں اور لیڈیز جیسے فرشتوں اور حوروں کو بٹھا دیا جاتا۔ باقی رہے مجھ جیسے گنہگار بشر، تو انہیں اِس مقدس وادی میں داخل ہونے کےلیے برزخ نما صحرا کے سفر کی چند مزید سختیاں جھیل کر اپنے گناہوں سے طہارت حاصل کرنا تھی۔  لہذاہمیں کوئی گاڑی میسر نہ آ سکی۔ ہاں گڈز ٹرانسپورٹیشن کےلیے استعمال میں لایا جانے والا ایک [ٹبر گھِیل] بہت لمبا  سا ٹریلر ضرور میسر ہو گیا۔

ٹریلر پر اتنے کمال کا رَش لگا کہ تل دھرنے کی جگہ باقی نہ رہی۔ زمینی مخلوق کے ناطے مجھے یہ حق پہنچتا تھا کہ میں یہ سوچوں کہ اب ڈرائیور کے وارے نیارے ہو گئے۔ کیونکہ وہ ہماری بشری مجبوری سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اتنا کرایہ وصول کرے گا کہ کم از کم ۱۰ دن کی دھاڑی ایک ہی دن بنا لے گا۔ میں ایسا سوچنے میں بالکل حق بجانب تھا۔ کیونکہ جس انسانی سماج سے میرا تعلق تھا، اس میں بالکل یہی فارمولا چلتا تھا۔ لیکن تعجب تو اس بات پے ہے کہ لگ بھگ پانچ چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہمیں اتار کر ڈرائیور کرایہ وصول کرنے کی بجائے ہمارا شکریہ ادا کر تے ہوئے اس عاجزی سے چل دیا کہ گویا ہم نے اُس کے دلدل میں پھنسے ٹریلر کو دھکا لگا کر اس کی مشکل آسان کر دی ہو۔

جس سڑک پر ہم اترے، اُس کے کنارے ہوٹل نما ایک خیمہ لگا تھا جس میں وہ چائے پلائی جا رہی تھی جسےمیں تھکاوٹ یا سردَرد میں’’شراباً طہوراً‘‘  کہہ دیا کرتا ہوں ۔ویسے بھی کم وبیش  ۲۴ گھنٹے کے سفر کی تھکاوٹ کے بعد اگر چائے کی گرما گرم پیالی میسّر آجائے تو کیا اس  غیر مترقبہ نعمت کو ’’شراباً طہوراً‘‘ کہہ دینا کوئی گناہ ہے؟ میں نہیں مانتا کہ ایسا فتوی لگایا جا سکے۔  بالخصوس جب ساقی التجا کے انداز میں یہ شراب آپ کے ہاتھ میں بغیر کوئی قیمت وصول کیے تھما رہا ہو۔

خیر! اگلی منزل تک پہنچنے کےلیے کسی گاڑی کی تلاش ہماری پہلی ترجیح تھی۔ لیکن معلوم ہوا کہ ابھی کوئی ڈیرھ دو کلومیٹر کا فاصلہ  پیدل چل کر ’’گراج‘‘ تک پہنچنا ہو گا۔ لہذا ہم نے زمین پر اپنے لیے گناہوں کا جتنا بوجھ آمادہ کیا تھا اُسے پیٹھ پر اٹھائے، چلتے، رینگتے ’’گراج‘‘ تک پہنچ ہی گئے۔ لیکن یہاں بھی ہمیں منزل مقصود تک لے جانے کےلیے کوئی گاڑی میسر نہ تھی۔ شاید ہمارے مقدّر میں ٹریلر ہی لکھے تھے۔ اللہ اللہ کر کے ایک ٹریلر میسر آیا یا ہم ٹریلر کو میسر آ گئے۔ دوسری شقّ میں زیادہ وزن محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ لگ یہی رہا تھا  کہ کئی مہینوں سے بیچارے اِس ٹریلر پر کسی نے کوئی سامان نہیں لادا۔ اُس کی لوہے کی اندورنی دیواروں پر ایسا زنگ لگا تھا جس ہمارے استری شدہ صاف و شفاف کپڑے یا اجلے اجلے بیگ ہی اتار سکتے تھے۔

لیکن ہماری مشکل اُس وقت دوچنداں ہو گئی جب اہلِ زمین کو آسمانی شہر کے ڈرائیور کی زبان ہی سمجھ نہ آ سکی۔ تمام مترجمین کے اجتماعی ترجمہ سے بس اتنا معلوم ہو سکا کہ یہ صاحب ہمیں ۵ کلومیٹر کے فاصلے تک لے جائیں گے جہاں سے بس میسر ہو جائے گی۔ لیکن جب لگ بھگ ۲۵ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیا تو مجبورا یہ تصحیح کرنا پڑی کہ متن میں ۵۰ کلومیٹر لکھا تھا جسے مترجمین نے سہوا ۵ کلومیٹر ترجمہ کر ڈالا ہے۔ اب کیا کر سکتے تھے۔ ترجمہ ٹھیک ہو یا غلط، ۵۰ کلومیٹر، ۵۰ کلومیٹر ہی رہتے ہیں: ؎

چشم معنی آشنا میں ہے مقام ان کا وہی              سہو کاتب سے مقدم ہوں مؤخر سینکڑوں

اس سفر میں ٹریلر کی تیز رفتاری اور اس کےجانشینوں کا گرنا، سنبھلنا، چیخنا، چلانا بھی یادگار ہے۔ گویا یہ روڈ پر نہیں، ہَوا کے دوش پر اڑ رہا تھا۔ میں تو مرحوم علامہ اقبال کے سفرِ حجاز کی خیالی داستاں بنا  اِس ٹریلر کو اونٹنی قرار دیتے ہوئے علامہ اقبال ہی کے الفاظ میں یہ التجا کر رہا تھا کہ:  ؎

سحر با ناقه گفتم نرم تر رو    که راکب خسته و بیمار و پیر است

یعنی: [سفر کے دوران]’’سحر [کے وقت] میں نے اپنی اونٹنی سے

 کہا  کہ آہستہ چلو !کیونکہ تمہارا سوار تھکا ہارا، بیمار اور بوڑھا ہے!‘‘

لیکن عجیب اتفاق ہے کہ میں نے  لوہے اور پلاسٹک کے کَل پرزوں سے اسمبل شدہ، ڈیزل کی گردش پر بھاگتی اونٹنی کا وہی ردّ عمل دیکھا جو حکیم الامّت نے گوشت پوست سے بنی، خون کی گردش پر چلنے والی اونٹنی سے  دیکھا تھا۔ یعنی: ؎

قدم مستانه زد چندان که گویی  بپایش ریگ این صحرا حریر است

یعنی: ’’اونٹنی نے تو یوں مستانہ وار قدم مزید آگے بڑھا دیے

 کہ جیسے اُس کے قدموں میں اس صحرا کی ریت، ریشم ہو۔‘‘

خیر! غروب آفتاب سے کوئی آدھ گھنٹہ قبل لوہے کے اِس  سفینے نے اللہ کے گھر کے سامنے لنگر ڈالا۔ سب اترے اور اپنا اپنا سامان مسجد میں رکھ دیا۔ جن لوگوں نے ہنوز نماز عصر ادا نہ کی تھی، انہوں نے نماز ادا کی اور کچھ نے کمر سیدھی کرنے لیٹ گئے۔ زمینی مخلوق کو اپنی بشری طبیعت کے تقاضوں سے سے دست و گریباں رہتے ہوئے کئی گھنٹوں بعد فتح کی عندیہ اُس وقت ملا جب انہیں سارے دن کے سفر کے بعد رفعِ حاجت کا پہلا آبرومندانہ موقعہ فراہم آیا۔ لیکن یہاں بھی آسمانی شہر کے قوانین نرالے نظر آئے۔ کیونکہ مسجد کے دروازے پر تو بس ایک ہی واش روم تھا جو سہولت فراہم کرنے کی بجائے ہر مسافر کے احساسِ رفعِ حاجت  کو مزید اجاگر کر رہا تھا۔ لیکن یہ سارا منظر اُس وقت بدل گیا جب چند بچے مسافروں کو پکڑ پکڑ کے اپنے بنگلوں، کوٹھیوں اور گھروں کے کھلے دروازے دکھانے لگے۔ ہر گھر کے صحن میں سنگ مرمر سے مزین واش روم آرامکدے محسوس ہو رہے تھے۔ اگر عرشیوں کا یہ ایثار نہ ہوتا تو کئی فرشی نا قابل تلافی حوادث کی لپیٹ میں آ جاتے۔

البتہ ہم فرشی مخلوق بھی عجیب مخلوق ہیں۔ دراصل، ہماری ساخت و ساز عجیب و غریب اور اس کے تقاضے متضاد ہیں۔ ایک لمحہ قبل  جو لوگ رفعِ حاجت کے لیے تڑپ رہے تھے، اب پھر سے ٹینکیاں بھرنے کےلیے بےتاب نظر آنے لگے۔ لیکن چونکہ آسمانی شہر میں ہر انسانی تقاضے کا بندوبست موجود تھا، لہذا فرشیوں کے ان فطری طور پر متصادم میلانات کے درمیان بھی کوئی تصادم نہ ہوا۔ سوپ اور برگر تو میرے ہاتھ میں گویا زبردستی ہی تھما  دیے گئے تھے، لیکن  سب سے زیادہ ہوس تو مجھے  ’’شراباً طہوراً‘‘کی تھی۔  جی ہاں! پریشانی کی کوئی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ کیونکہ شیشے کے جام، چائے کی ’’شراباً طہوراً‘‘ سے لبریز نہ فقط چمک ، بلکہ مئے گساروں کی طرف لپک رہے تھے۔ میرا کیا قصور؟  میں نے بھی ایک نہیں، دو جام چڑھا لیے۔

آئل چینجنگ کے بعد سب نے سکھ کا سانس لیا اور تازہ دَم ہو گئے۔  لیکن منزل مقصود سے ابھی کوسوں دور تھے۔ لہذا:؏ ’’پھر وہی پاؤں، وہی خارِ مغیلاں ہوں گے!‘‘ کے مصداق ہم تھے اور روڈ کا کنارہ۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ پرندے آشیانوں میں سر چھپا رہے تھے، لیکن ہم آہنگ پرواز لیے سڑک کے کنارے کسی براق  کے میسر آ جانے کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔ چند ملائیکہ نے ہمیں گھیرے میں لیا ہوا تھا اور بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ : ؏

’’دن ڈھلا، رات پھر آگئی، سو رہو! سو رہو!‘‘

فقط یہی نہیں، وہ ہمیں کہکشاؤں کے راستے بھی دکھا رہے تھے۔ کہتے تھے کہ یہ قریب کی منزل آمادہ ہے۔ آپ راضی تو ہو ں، ہم  ڈراپ کر دیں گے۔’’مرتا کیا نہ کرتا!‘‘  ہم بھی راضی ہو گئے۔ لیکن جب ملائیکہ نے ہمارا کارواں دو الگ الگ ٹولیوں میں بانٹ لیا اور اپنے اپنے حصے کو مال غنیمت سمجھ کر اپنی مخصوص اماریوں میں بھرنا شروع کیا تو مجھے ایک اماری میں بند شیشوں کے پیچھے جگہ مل گئی۔ میں خوش تو تھا لیکن دل میں یہ احساس بھی کروٹ لے رہا تھا کہ میرے دوست پیچھے کھلی ہوا میں ٹھنڈ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ لیکن اس احساسِ گناہ کو میں اس وقت بھول گیا جب مجھے یہ محسوس ہوا کہ آسمانی مخلوق بھی جھوٹ بولتی ہے!!

بس فرق فقط اتنا ہے کہ فرشی ’’منفعت آمیز‘‘ جھوٹ بولتے ہیں اور یہ عرشی ’’مصلحت آمیز‘‘ جھوٹ بول رہے تھے۔ جی ہاں! اخلاقیات کے باب میں ایک معرکۃ الآراء بحث یہی ہے کہ آیا جھوٹ اپنی ذات میں ایک برائی ہے یا جھوٹ کا انگیزہ اُسے برائی یا اچھائی بناتا ہے؟ فلسفۂ اخلاق میں اس بحث کا  نتیجہ جو بھی ہو، مجھے اُس سے سروکار نہیں۔ میں تو اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ جن عرشیوں سے ہمارا پالا پڑا، اُن کے اخلاق پر یہی منطق حاکم تھی کہ جھوٹ اگر مصلحت آمیز  ہو تو نہ فقط برائی نہیں، بلکہ عین اچھائی ہے۔  لہذا انہوں نے چند گز کے فاصلے پر جس منزل کا نشان پتہ دیا، تیز رفتار اماریوں کی پرواز صاف صاف بتا رہی تھی کہ ایسا نہیں ہے۔

اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر آسمانی مخلوق، اہل زمین سے یوں فراڈ کرنے لگے تو زمینیوں کا کیا حال ہو گا؟ ہمیشہ فرشی مخلوق اپنی چیرہ دستیوں کے ذریعے عرشیوں کو ورطۂ حیرت  میں ڈالتی ہے لیکن آج تو عرشیوں نے وہ  ہاتھ دکھائے کہ فرشی انگشت بہ دنداں تھے۔ بلکہ تھوڑی ہی دیر میں معاملہ حیرت کی وادی سے نکل کر خوف کے دہشت میں جا پہنچا۔ اب ہم شہر کی روشنیوں سے باہر نکل چکے تھے۔ ہر طرف اندھیرے ہی اندھیرے تھے اور تاریکیوں کے درمیان سے ویرانوں کی طرف بڑھتا ایک فرعی روڈ۔ سچ پوچھیں تو میں بھی دل ہی دل میں ڈر رہا  تھا۔ مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا  کہ ہم کسی کے چکر میں تو نہیں آ گئے۔ البتہ عرشیوں کا انداز گفتگو، چہروں کی نورانیّت اور مہمان نوازی کا اہتمام، خوف کی ان چنگاریوں پر راکھ بن کر انہیں بجھا رہا تھا۔

بہرصورت، خوف و رجاء کی وہ حالت جو عرفان اور سیر و سلوک کا منتہی ہے، جس کی مجھے کبھی ہوا نہیں لگی، آج یہ حالت مجھ پر از خود ہی طاری ہوتی جا رہی تھی کہ اتنے میں کیبن سے باہر بیٹھے مسافروں میں سے ایک نے شیشہ بجا ہی دیا۔ دراصل، وہ اس عرفانی حالت میں مجھ سے بھی آگے نکل چکے تھے اور اُن پر رجاء کی بجائے خوف کی حالت کچھ زیادہ ہی طاری ہو گئی تھی۔ میں نے شیشہ اتارا۔ پوچھا: ’’بھائی! کیا مسئلہ ہے؟‘‘ کہنے لگے: ’’ہمیں کہیں شہید کروانے تو نہیں لے جا رہے؟‘‘ میں نے انہیں تو جھوٹی سچی تسلی   دی، لیکن خود ایک طرح کے احساسِ مسوولیت میں ڈوبنے لگا۔  تاہم جن کا سہارا خدا  ہو وہ ڈوبتے نہیں۔ لہذا اس سفر کے نقطۂ آغاز سے محض ۱۷ ؍کلومیٹر کے فاصلے پر جا کر یہ ساری تشویش ختم ہوئی۔ ہم ایک ایسی عمارت  کے سامنے رکے جسے میں مہمان خانہ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اس سے پہلے کہ اس عمارت  کا کوئی نام تجویز کروں، اس حصے کی آخری بات پہلے سن لیں!

وہ یہ کہ ہماری اماری ’’ولدانٌ مخلدّون‘‘کا دَم خم رکھتے ’’ہر دَم، تازہ دَم‘‘ نوجوانوں کی آغوش میں رکی۔ اِن لڑکوں نے تو اپنے انوکھے سلیقے سے خدمتگزاری کے سب سلیقے پیچھے چھوڑ دیے۔ گویا ہمارا سامانِ سفر ہم سے چھین کر ایک خاص ترتیب سے ٹھکانے لگا دیا اور بڑوں کے اشاروں پر ہماری خدمت میں مصروف ہو گئے۔  کوئی وضو خانہ کی طرف رہنمائی کر رہا ہے تو کوئی تولیہ صابن کا بندوبست کر رہا ہے۔ کوئی مصلیٰ بچھا رہا ہے تو کوئی صفیں سیدھی کر رہا ہے۔۔۔

آسمانی شہر یا مدینۂ فاضلہ؟

اگرچہ میری سپیشلائزیشن اسلامی فلسفہ میں ہے تاہم آشنائی کی حد تک چند یونانی اور یورپی فلاسفرز کے نظریات بھی سن، پڑھ رکھے ہیں۔ قدیم یونان میں انسانی سماج یا ’’جمہور‘‘ کے بارے میں ارسطو اور افلاطون کے نظریات کا اجمالی تعارف، نیز اسلامی فلسفہ میں فارابی کے ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کا ایک اجمالی تصوّر میرے ذہن میں طالبعلمی کے زمانہ سے موجود ہے۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یورپی ادبیات میں ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کے مترادف یا متشابہ ’’یوٹوپیا‘‘ (Utopia) کا تصوّر پایا جاتا ہے۔ بہر صورت، ارسطو و افلاطون کا ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ ہو یا فارابی کا ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ یا  تھامس مور کا ’’یوٹوپیا‘‘ اِن سب کا مرکزی خیال ایک ایسے خیالی، لیکن مثالی شہر یا انسانی سماج کا ہے جس میں انسان اپنے سماجی سفر کی آخری ممکنہ تکاملی منزل پر پہنچ جائے گا۔

البتہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تصور اتنا خیالی ہے کہ اس کے تحقق کا کوئی امکان ہی نہیں۔ لہذا فلسفی  ادبیات میں بعض دانشوروں نے ’’یوٹوپیا‘‘ کو ’’ناکجا آباد‘‘،  ’’لا مکان‘‘ یا عام الفاظ میں ’’دیو مالائی‘‘ شہر قرار دیا ہے۔ یعنی ایک ایسا سماج جو اس دھرتی پر تحقق نہیں پا سکتا۔ البتہ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ خیال درست نہیں ہے۔ کیونکہ مغرب کا ’’یوٹوپیا‘‘ہو یا ارسطو و افلاطون یا فارابی کا ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ قطعا  ان کے تحقق کے امکان کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔یہ عین ممکن ہے کہ  انسانی سماج اپنے تکاملی سفر میں اس نہائی منزل تک پہنچ جائے۔

خلاصہ یہ کہ مدینۂ فاضلہ کا قیام اس کرۂ خاکی کے تمام فاضل افراد کی ہمیشہ سے گم گشتہ متاع رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ فضلاء اپنے تمام تر عقلی تأملات کے باوجود ایسا شہر تأسیس نہیں  کر پائے اور نہ ہی قریب قریب انہیں اس کے قیام کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ لیکن جس شہر آسمانی شہر کی سیاحت کا سفر نامہ میں لکھ رہا ہوں، وہ نہ فقط ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کی تمام خصوصیات سے مزین تھا، بلکہ اس میں ایسی امتیازی خصوصیات بھی پائی جاتی تھیں جن کا تصوّر ہمیں مدینۂ فاضلہ یا یوٹوپیا کے ڈھانچے میں کہیں نظر نہیں آتا۔ دوسرے الفاظ میں میرا دعوی یہ ہے کہ  میں نے اس سیاحت میں مدینۂ فاضلہ سے بہتر انسانی سماج کشف کیا ہے۔ لہذا میں نے اس کا نام ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کی بجائے ’’آسمانی شہر‘‘ تجویز کیا ہے۔

کیونکہ ارسطو و افلاطون اور فارابی کے مدینۂ فاضلہ کی تمام بنیادی خوبیاں عدالت، حکمت، شجاعت اور خودداری میں منحصر نظر آتی ہیں۔فارابی کے مطابق مدینۂ فاضلہ ایک ایسا سماج ہے جو اقوام کے جغرافیائی امتیازات اور سرحدوں سے بالا تر ہے اور انسانی سعادت یا ’’خیرِ برتر‘‘ اس سماج کی نشانی ہے۔ حکیم (فلسفی) اس شہر کا سلطان یا بادشاہ ہے۔ فلاسفرز کے مدینۂ فاضلہ میں قانون، قانون کا اجراء کرنے والے ادارے، پولیس یا فوج کا وجود اس لیے کمتر نظر  آتا کیونکہ  اس شہر کا ہر انسان اپنے اندر سے قانون مند ہے اور خود اپنے لیے پولیس مین ہے۔خلاصہ یہ کہ جس سماج میں یہ خصوصیات پائی جائیں وہ فلاسفرز کا ’’مدینۂ فاضلہ‘‘  نام پاتا ہے۔ جہاں تک ہمارے آسمانی شہر کا تعلق ہے تو اُس میں نہ فقط یہ سب خوبیاں، بلکہ اضافی خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا ترقی یافتہ سماج ہے جس میں وطن کا تصّور اتنا وسیع ہے جتنی اللہ تعالی کی زمین وسیع ہے۔ بقول علامہ اقبال

صحراست کہ دریاست، تہ بال و پر ماست

ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست

یعنی: ’’صحرا ہو یا دریا، سب ہمارے پروں تلے ہیں۔ ہر ملک

 ہمارا ملک ہے، کیونکہ ہر ملک ہمارے خدا کا ملک ہے۔‘‘

لہذا آسمانی شہر میں داخلے کے وقت مختلف ممالک کے درمیان انٹرنیشنل باؤنڈریز اور ایمیگریشن کے قوانین میں سے کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا تھا۔ یہ قصّہ  آپ اوپر پڑھ چکے ہیں۔  مزید وضاحت میں اتنا سن لیجئے کہ اس شہر میں کسی قسم کی کوئی نسلی، لسانی، قومی اور جغرافیائی سرحدیں وجود نہیں رکھتیں ۔ میں نے اس شہر کے سب باشندے کو بُتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ایک ہی ملت میں گم پایا۔ نہ تورانی باقی تھا، نہ ایرانی اور نہ ہی افغانی۔ باقی رہے پاکستانی یا ہندوستانی، تو جب حکیم الامت نے اپنے اشعار میں ان کا نام لینا مناسب نہیں سمجھا تو میری کیا مجال کہ اُن کا ذکرِ خیر کروں؟ کیوں نہ مثبت تأویل کی جائے اور وہ یہ کہ پاکستانی اور ہندوستانی اور دیگر مسلم اقوام کے باشندے، تورانیوں، ایرانیوں اور افغانیوں سے کمتر نسلی، لسانی اور جغرافیائی امتیازات کے قائل ہیں اور وہ جلد ان امتیازات کو بھول کر ایک ہی ملت میں گم ہو جاتے ہیں۔ لہذا انہیں ایسی دعوت دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

معاف کرنا! یہ تو  سبقتِ لسانی کے سبب بات سے بات آگے نکل گئی۔ میں اصل بات تو یہ بتانا چاہتا تھا کہ اگر فارابی کا مدینۂ فاضلہ اقوام کے جغرافیائی امتیازات اور سرحدوں سے بالا تر ہے اور انسانی سعادت یا ’’خیرِ برتر‘‘ اس سماج کی علامت ہے تو ہمارے آسمانی شہر میں بھی یہ سب خدّوخال نمایاں تھے۔ بلکہ اِس سماج کی نشانی، ’’فوزو فلاح‘‘ ہے جو مدینۂ فاضلہ کے تصوّر میں اس خصوصیت کے ساتھ نہ مل سکے گی۔ اور اگر ہم مدینۂ فاضلہ کے اساسی تصوّر یعنی ’’عدالت‘‘ کو لے لیں تو آسمانی شہر میں عدالت تو پائی ہی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ یہاں عدالت سے بڑھ کر ایثار اور عفو و درگذر کی ناقابل فراموش داستانیں رقم کی جاتی ہیں۔

آپ خود فیصلہ فرمائیں کہ آیا یہ عدالت کے منافی تھا کہ جن ڈرائیورز نے اپنے ٹریلرز میں بٹھا کر ہمیں لگ بھگ ساٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کروایا، وہ ہم سے مناسب کرایہ وصول کر لیتے؟یقینا یہ عینِ عدالت تھا۔ لیکن قابلِ غور بات یہ  ہے کہ ہمارے کرۂ خاکی پر جس قدر ناانصافی ٹرانسپورٹرز کرتے ہیں، شاید ہی کوئی دوسرا طبقہ کرتا ہو۔ ہو سکتا ہے میرا یہ بیان مبالغہ آمیز ہو، تاہم اجنبی شہروں اور ملکوں کا سفر کرنے والے اجنبی مسافر خوب جانتے ہیں کہ ٹریول ایجنسیوں سے لے کر ٹیکسی ڈرائیورز تک، پورے ٹرانسپورٹننگ سسٹم میں بیچارے مسافروں کو کتنا لوٹا جاتا ہے۔ اب اس کے برعکس، اگر کسی شہر کا ٹرانسپورٹننگ سسٹم اس حد تک انسانی اور اخلاقی بن جائے کہ اُس کا ایک ٹریلر ڈرائیور بھی نہ فقط اپنا جائز کرایہ وصول نہ کرے بلکہ لفٹ دینے پر مسافر کا شکریہ بھی ادا کر رہا ہو اور یوں ایثار کی معراج کو چھو لے تو آیا اس سماج کو ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کا نام دینا بہتر ہے یا ’’آسمانی شہر‘‘ کہنا مناسب تر؟

اب ذرا ہوٹلننگ کے نقطۂ نظر سے بھی آسمانی شہر کا ماحول ملاحظہ فرمائیے! ہمارا مشاہدہ تو یہی بتاتا ہے کہ صدیوں سے فکر و فلسفہ اور اخلاق و سیاست کے ناخدا ہمارے کرۂ خاکی کے باشندوں کو اتنا ایثار نہیں سکھا سکے کہ اگر چند اجنبی کسی ہوٹل میں اکٹھے ہو جائیں تو ہوٹل مالک ان سے رہائش کا کرایہ نہ لے یا ایک مسافر دوسرے اجنبی مسافر کا کھانے کا بل ادا کر دے۔ یوٹوپیاکے معماروں کا سماج  تو آج یہاں کھڑا ہے کہ اگر باپ بیٹا  کسی ہوٹل پر اکٹھے ہو جائیں تو دونوں الگ الگ اپنا اپنا بل ادا کرتے ہیں۔ اب اگر ایسے میں انسانی سماج کا کوئی معمار اُسے مدنی تکامل کی اس منزل پر پہنچا دے کہ اقامت فراہم کرنے والے اربوں مسافروں کو مفت میں رہائش فراہم کر دیں اور لاکھوں ڈالرز کا کھانا مفت میں کھلا دیں تو آیا ایسے معمار کو جھک کر سلام نہیں کرنا چاہیے؟ آیا اس سماج کو محض مدینۂ فاضلہ قرار دے دینا ناانصافی نہیں ہو گا؟

ایک اور زاویے سے یہی  انفاق کتنی بڑی شجاعت ہے؟ اِس کا اندازہ مال و دولت کے پوجاریوں سے لگوائیے! بات فقط اس انفاق پر نہیں رکتی بلکہ اس انفاق پر آسمانی شہر کے لوگ کتنی مسرت محسوس کرتے ہیں ؟ اس کا معمولی سا ادراک اس تگ و دو سے کیا جا سکتا ہے کہ میزبان سترہ کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر کے سڑک  کے کنارے سارا دن مسافروں کا منہ تکتے ہیں اور ساتھ ساتھ خدا سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ آج کی رات کےلیے چند مہمان ہمارے رزق میں عطا فرما دے!

آیا تاریخ بشریت میں کوئی فلسفی ایسا سماج قائم کر سکا؟ آیا کسی سیاسی  نظام نے ایسا مدینۂ فاضلہ دیا؟ آیا کوئی حکیم ایسی سلطنت قائم کر پایا؟زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک حکیم اس نوع کی ضیافت کی شرافت کا عقل سوز فلسفی تأملات کے بعد ادراک کر لے۔ لیکن کیا حکمت عشق کے ان مظاہر کی تفسیر پیش کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں!جب ایسا ہے تو کیا عشق کی سلطنت کو حکمت کے شہر کے مساوی قرار دیا جا سکتا ہے؟ہرگز نہیں!یقینا سطانِ حکمت جب تک کمر خمیدہ، لباس دریدہ، تھکا ہارا، بیمار اور بوڑھا نہ ہو جائے، سلطانِ عشق کی سرحدوں میں داخلے کی اجازت اُسے  نہیں مل سکتی۔

مذکورہ داستان کے مطابق جب آسمانی شہر کو مدینۂ فاضلہ پر ہر لحاظ سے برتری حاصل ہے تو کیا میں انسانی سماج کے تعمیر کاروں کو یہ دعوت نہیں دے سکتا کہ: ’’ائے کرۂ خاکی کے سادہ لوح باشندو! آٹوپیا یا مدینۂ فاضلہ کے خیالی تصورات سے دل نہ بہلاؤ۔ کیونکہ نہ فکر و فلسفہ کے افاضل کے خالص عقلی تأملات کی بیساکھیوں کا سہارا لے کر یہ شہر آباد کیا جا سکتا ہے اور  نہ ہی فلسفۂ  اخلاق کے دانشوروں کے رشحاتِ قلم سے بنی ناؤ پر سوار ہو کر ناکجا آباد پہنچا جا سکتا ہے۔ میدانِ سیاست کے مکاروں اور چالبازیوں کی ریشہ دوانیوں سے بھی یہ حقیقت تعمیر نہیں کی جا سکتی ہے ۔ ملکوت ندیدہ، عالمِ مُلک کے آبادکاروں کا مدینۂ فاضلہ یایوٹوپیاہمیشہ ’’ناکجاآباد‘‘ رہے گا اور یہ معاشرہ ہمارے کرۂ خاکی پر کبھی تحقق نہ پا سکے گا۔ لہذا آؤ میرے ساتھ چلو!  عالمِ ملکوت کی سیر کرتے ہیں اور آسمانی شہر کی سیاحت کا سفرنامہ جاری رکھتے ہیں!‘‘

مہمان خانہ یا عزا خانہ؟

میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ آسمانی شہر کے سفر میں ہم جس عمارت کے سامنے رکے، میں اُسے مہمان خانے کا نام نہیں دے سکتا۔ تو کیا نام دوں؟ دراصل، یہ نام پہلے سے دیا جا چکا ہے۔کیا؟ ’’عزا خانہ‘‘۔  یعنی، وہ عمارت جس میں فخر الرسل حضرت ختمی مرتبت ﷺ کے نواسۂ گرامی اور نورِ عین حضرت امام حسین علیہ السلام کی دردناک شہادت پر مجلسِ عزا بپا ہوتی ہے اور گریہ و ماتم کیا جاتا ہے۔آپ پوچھیں گے: کیا آسمانی شہروں میں بھی عزا خانے ہوتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ: کیوں نہ ہوں! جبکہ پیغمبر اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ  حسینؑ زمین اور آسمانوں کی زینت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں حسینؑ پر فرشی مخلوات گریہ کرتی ہیں، عرشی بھی اس عبادت میں پیچھے نہیں رہتے اور وہ بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو آتے ہیں اور آپؑ کی مظلومانہ شہادت پر گریہ و ماتم کرتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ دن بھر عرشیوں کے ہمراہ سفر کرتے کرتے ہم نے بھی عرشی تہذیب کے چند آداب سیکھ لیے تھے۔ لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ اس سے قبل کہ ہمارے سامنے کوئی آسمانی مائدہ لگایا جائے، عرشیوں کا کچھ قرض اتار دیاجائے۔ لہذا تھکے ماندوں نے نماز مغربین کی نماز باجماعت ادا کی اور نماز کی صفوں پر ہی صف عزا بچھا  دی۔ سامنے نظر آنے والوں کے علاوہ نواسۂ رسول پر رونے اور کون کون حاضر ہوا؟ اس سوال کا جواب، میں نہیں دے سکتا۔ جب مجلس ختم ہوئی تو اُس کا سارا ثواب ہم نے اٹھا کر اپنے میزبانوں اور اُن کے مرحومین کو ادا کرنا چاہا کہ احسان کا کچھ  بدلہ تو اتر جائے۔ لیکن مجلسِ عزا کا  ثواب اتنا زیادہ تھا کہ نہ فقط میزبانوں اور اُن کے مرحومین میں بٹا، بلکہ تمام مؤمنین اورخود ہمارے مرحومین نے بھی اِس سے اپنی اپنی جھولیاں بھریں۔

آسمانی شہر یا سلطنتِ عشق؟

میرے سفر نامہ میں اب تک جس سماج کا نام ’’آسمانی شہر‘‘ رہا، اب مجھے اُس کی نامگذاری پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ یہاں سے بعد کے واقعات ایسے ہیں جن کی توضیح و تفسیر یا Justification  نہ تو میں فلاسفرز کے عقلی تأملات کی بنیاد پر کر سکتا ہوں اور نہ ہی کسی دیگر مادی و معنوی معیار پر۔ اگر میں افلاطون و فارابی کے مدینۂ فاضلہ کی سیسہ پلائی اساس یعنی ’’حکمت‘‘ کو بھی بنیاد بنا کر اِن واقعات کی توضیح پیش کرنا چاہوں، پیش نہیں کر سکتا۔  کیونکہ ان واقعات میں مجھے تو افلاطون و فارابی کی ’’حکمت‘‘ ،  آتش نمرود کے دہانے کھڑی ’’عقل‘‘ کا وہی مضطرب منظر پیش کرتی نظر آتی ہے جس کی تصویر کشی علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کر دی ہے:

بے خطر کود پڑا، ا ٓتشِ نمرود میں عشق              عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

لہذا اب ہم انسانی سماج کی جن حسین اور دلکش وادیوں میں داخل ہو رہے ہیں، اُن کی بادشاہت کا حق فارابی کے مجسمۂ فضائل ’’حکیم‘‘ کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کہ فارابی کا حکیم، مملکتِ عقل کا بادشاہ تو بن سکتا ہے، سلطنتِ عشق کا سلطان نہیں بن سکتا۔

کیونکہ سلطنتِ عشق  کا بے تاج تو کیا بے سر بادشاہ وہ ہے جس کے ہاتھ میں جامِ جم نہیں بلکہ ہاتھ جامِ جَم سے زیادہ شفاف ہیں۔ اتنی شفافیت کہ وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں، اپنی سلطنت کے ہر نقطہ پر موجود اپنی رعایا کا ہر اچھا بُرا کام مشاہدہ کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف اُس کی رعایا کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ جہاں بھی ہوں، اپنے بادشاہ کے حضور میں حاضر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سلطنتِ عشق میں آپ کو سرے سے کوئی پولیس والا نظر نہیں  آئے گا۔اس سلطنت کا کوئی مدنی قانون بھی نہیں ہے۔ یہاں قانون بنانے والے ادارے اور قانون دان بھی نظر نہیں آتے۔ ہاں! اس ساری مملکت پر فقط ایک ہی قانون حکرانی کرتا  ہے اور وہ یہ کہ: ’’کہیں میرا محبوب مجھ سے ناراض نہ ہو جائے!‘‘

ہم نے یہ رات الکوت کے شہر میں بسر  کی تھی۔ اور آج  صبح جب ہمارے مہربان میزبانوں نے ہمیں شہر کے جنرل بس سٹینڈ پر اتارا تو ایک ایسا عالم دیکھنے میں آیا کہ میزبان اور مہمان دونوں مات و مبہوت رہ گئے۔ دراصل، کوت کا شہر، دریائے دجلہ کے کنارے واقع ہے اور دریائے دجلہ میں ضرور سیلاب آتا ہے۔لیکن  جو سیلاب گذشہ شب آیا، اِس شہر میں ایسے سیلاب کا کوئی سابقہ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کرم فرما بھی اُس رات پیش آنے والی صورتحال کا  صحیح  اندازہ نہ لگا سکے اور ہمیں بھی معلوم نہ تھا کہ ہم دجلہ کے کنارے تو کیا ،  دو ایسے طوفانی دریاوں کے سنگھم پر رات گزار رہے ہیں جو پانی کے قطروں سے  نہیں، اشکوں کے قطروں سے بنے  ہیں۔

درحقیقت،اس شہر میں دو طرف سے حضرت امام حسین علیہ السلام کے  زائرین کا سیلاب امڈ آیا تھا۔ جنوب میں کوئی 330 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بصرہ  سے، اور  بصرہ سے  بھی دور، خرم شہر کی ایرانی بارڈر سے زائرین کا ایک دریا، نجف کے بحرِ ولایت میں گرنے کےلیے ٹھاٹھیں مارتا آگے بڑھ رہا تھا اور شمال مشرق میں کوئی 85 کلومیٹر کے فاصلے سے مہران بارڈر سے پیروجوان زائرین کا دوسرا دریا بھی الکوت کی جانب بہتا نجف کے ساحل کی طرف بڑھ رہا تھا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کے چہلم میں شرکت  کی غرض سے ایران، پاکستان اور انڈیا جیسے ممالک کے باشندے کچھ اِس طرح نجف اشرف کی طرف رواں دواں تھے جیسے کوہ ہمالیہ کی بلندیوں سے پگھلنے والی برف کا پانی بحیرۂ عرب میں جا گرنے کےلیے رواں دواں ہو۔  مجھے تو دور دراز کے علاقوں سے نجف اور کربلا کی طرف بڑھتے قافلوں اور کوہ ہمالیہ سے بحیرۂ عرب کی طرف بڑھتے ندی نالوں اور دریاوں میں بڑی مماثلت نظر آئی۔ جو پانی چکر (Water Cycle) بحیرۂ عرب کے پانی اور کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں پر جمی برف کے  درمیان نظر آتا ہے، وہی حضرت  امام حسین علیہ السلام کے زائرین اور نجف و کربلا کے درمیان نظر آ رہا تھا۔

پانی چکر میں آفتاب کی طمازت کے نتیجے میں سمندروں کے دل سے بادلوں کا خمیر مایہ اٹھتا ہے، بادل بنتے ہیں جنہیں ہوائیں اڑاتی، آسمانوں کی سیر کراتی، کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں تک لی جاتی ہیں اور جب یہ بادل اِن بلندیوں کی سرد فضا میں پہنچتے ہیں تو برف بن جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ اپنے سرچشمۂ حیات سے دوری کے بعد  جب آفتاب کی طمازت کے نتیجے میں یہ برف پگھلتی ہے تو ندی نالوں کی صورت میں بہتی، دریا تشکیل دیتی، وہاں پہنچتی ہے جہاں سے اُس کا خمیر اُٹھا تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کا چہلم منانے کی غرض سے  کربلا و نجف کی طرف رواں دواں قافلوں کی داستان بھی بالکل ایسی ہی تھی۔ اِن کا خمیر مایہ بھی مشیت الہی کی طمازت کے نتیجے میں کربلا و نجف میں مدفون معصوم ائمہ طاہرین علیہم السلام کی ولایت کے سمندر سے اٹھا تھا۔ جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

شِیعَتُنَا خُلِقُوا مِن فَاضِلِ طِینَتِنَا وَ عَجِنُوا بِمَاءِ وِلَایَتِنَا ([2])

یعنی: "ہمارے شیعوں کا خمیر ، ہماری اضافی طینت سے اٹھایا اور ہماری ولایت کے پانی میں گوندھا گیا ہے۔"

لہذا مجھے یہ کہنے دیجئے کہ زائرین کے ان قافلوں کی مثال، بالکل اُس پانی کی مانند ہے  جسے مشیت الہی کے آقتابِ عالم تاب کی طمازت نے بخارات بنایا اور گردش زمانہ کی ہوائیں اڑاتی  دور دراز کی سرزمینوں تک لے گئیں۔ یہ وہاں کے  سرد ماحول میں کچھ عرصہ منجمد رہے۔ لیکن اس سال بھی ہر سال کی طرح، محرم الحرام میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی  سوزش نے اِن  کے قلوب کو ایسا گرمایا  کہ یہ دل رکیک ہو کے قطرے بننے اور  اشکوں کی صورت، آنکھوں سے ٹپکے۔ مظولمِ کربلا کی شہادت کے غم نے زائرین کے ابدان کو بھی ایسا گھائل کیا کہ وہ ندیوں، نالوں اور دریاوں  کی طرح زمین و آسمان کے راستوں، جوق در جوق نجف اور کربلا کی طرف بہہ چلے۔ اِن کے تار و پود میں ولایت معصومین علیہم السلام کے آبِ زلال کی چاشنی اور اِن کی آنکھوں میں غمِ حسین میں بہنے والے اشکوں کی کہانی رچی بسی تھی۔  یہ ایک  قتیل العبرات ( آنسووں کے کشتہ) کا چہلم منانے نجف و کربلا جا رہے تھے۔ ہر شخص کی زبان پر بس ایک ہی جملہ تھا:  "یاحسینؑ !" یہ جملہ اُن کے خشک ہونٹوں سے نکلتا اور آنکھوں کو بگھو دیتا تھا۔ درحقیقت، ہونٹوں پہ "یاحسینؑ !" اور آنکھوں میں "اشک" عشق کی سلطنت کے ہر باشندے کی بنیادی شناخت ہے۔ جس کے پاس یہ سند نہ ہو وہ عشق کی سلطنت کا مسافر یا سیّاح تو ہو سکتا ہے، باشندہ تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔

٭٭٭٭

معاف کرنا! میرے قلم کی مطلق العنانی، بعض اوقات مجھے اِس کی عنان سنبھالنے سے عاجز کر دیتی ہے اور آج تو ویسے بھی اس کی حکمرانی ہے کیونکہ کربلا کے مسافروں کی داستان رقم کر رہا ہے۔ بات یہاں سے ایک اور سمت نکلی  کہ آج  صبح جب ہمارے میزبانوں نے ہمیں الکوت شہر کے جنرل بس سٹینڈ پر اتارا تو اتنا رش لگا تھا کہ میزبان اور مہمان دونوں مات و مبہوت رہ گئے۔ہر طرف حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین نظر آ رہے تھے۔ ان میں سے اکثر نجف کے راہی تھے؛ لیکن آج نجف کی کوئی گاڑی میسر نہ تھی۔ یہ حالت دیکھ کر شوق اور خوف کا ملا جلا احساس ابھر رہا تھا۔ گویا ایک بار پھر ہمیں خوف و رجاء کی وادی میں اتارا گیا ۔ خوف اس بات کا کہ الکوت سے نجف کا فاصلہ تقریبا 205 کلو میٹر بتایا جا تا ہے  اور یہ فاصلہ طے کرنے کےلیے کوئی گاڑی میسر نہ تھی۔ اُمید یہ لگی تھی کہ کوئی نہ کوئی بندوبست ہو ہی جائے گا۔

لیکن خوف و رجاء کی آمیزش سے ایک تیسری کیفیت جنم لے رہی تھی اور یہی   اصل کیفیت تھی۔ کیونکہ یہ شوق کی کیفیت تھی۔ میں تو اِس کیفیت سے اُس وقت گذرا جب چند ایرانی زائرین ایک وین ڈرائیور سے نجف لے جانے کی بات کر نا چاہتے تھے۔ ان کے ہمراہ چند بیبیاں بھی تھیں۔ ایرانیوں کو عربی نہیں آتی تھی۔ ہمارے ساتھیوں میں سے ایک کو اُن کی ترجمانی کا فریضہ انجام دینا پڑا۔ وین  ڈرائیور کہہ رہا تھا کہ نجف سے ایک سو کلو میٹر کے فاصلے تک راستہ بلاک ہے، گاڑی نہیں جا سکتی۔ اِن بیبیوں کا کہنا تھا کہ ڈرائیور سے  کہہ دو ہمیں نجف سے ایک سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہی اتار دے۔ باقی ماندہ راستہ ہم  پیدل چلیں گے،چلنے  ہی تو آئے ہیں۔ یقین جانیے! یہ سُن کر میں تو لمحہ بھر کے لیے  شوق کی وادیوں میں کھو گیا۔ واہ! اُس ناز پروردہ معاشرے سے تعلق رکھنے والی بیبیاں جو چند قدم کا سفر کاٹنے کےلیے بھی  گھر کے دروازے پر ٹیکسی منگواتی ہیں،  آج سراپا راہ نوردِ شوق بنی، کسی محمل و ساربان کے بغیر،  خارِ مغیلاں پہ سفر کرنے کےلیے آمادہ نظر آئیں!

؏"یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے!"

البتہ شوق کا جو عالم میں نے دیکھا، حضرت امام حسین علیہ السلام کے چہلم پر جانے والا ہر زائر ایسے کئی عوالم کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ الگ بات  کہ ہر فرد اپنے مشاہدات کو سپردِ  قلم نہیں کر سکتا۔ لیکن جو مشاہدات کو قلم کی زبان عطا کر سکتے ہیں وہ انہیں ضرور قلمبند کرتے ہیں۔ اسد کاظمیؔ نے بھی ایک ایسا مشاہدہ قلمبند کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

"رات تاریک تھی اور ہوا بے مہر ۔۔ پاؤں رکھنے کو ہموار زمین تک نہ تھی اور نہ ہی آنکھوں میں اتنی سکت کہ زمین کے نشیب و فراز کی گتھیاں سلجھا سکتیں ، کیونکہ غور سے دیکھنے کے لئے توقف درکار تھا اور توقف وہاں کہاں تھا ؟ چاروں جانب گاڑیاں ، کاریں ، بسیں،ٹرالر، سائپا کے وانٹ، چھوٹے اور بڑے ٹرک، الغرض ہر قسم کی چیزیں موجود تھیں۔۔ لمبی قطاریں اور چیختے ہارن۔۔ رات کا آخری پہر آخری دموں پہ تھا اور یہ کچھ جاننے والے ہی جانتے ہیں کہ رات کے آخری پہر کی سرد مہری کیسی ہوتی ہے۔۔۔ میں نے موبائل فون میں جھانکا۔۔ چار بج کر چوبیس منٹ ہوئے تھے۔۔۔ ایسے وقت میں تو تہجد گذار بیبیاں بھی اپنے گھروں سے نکلنے کا سوچتی تک نہیں ۔۔ میں نے ایک بچہ گاڑی کے پاس سے گذرتے ہوئے سوچا ۔۔ "یہ کون سی کشش ہے جو رات کے اس پہر میں ان معصوم بچوں کو ماؤں سمیت کشاں کشاں لئے جاتی ہے ؟" ۔۔ بچہ گاڑی پھنس گئی تھی اور مادر شیر خوار کا زور اسے نکالنے کو ناکافی تھا۔۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔ اور بچہ گاڑی پتھروں میں راستہ بناتی آگے چل پڑی۔۔ میں نے بے ساختہ اپنا وہی گردآلود ہاتھ اپنی آنکھوں پہ رکھ لیا۔۔"[3]

سبحان اللہ! ایک ماں کا سخت سردیوں کی رات، صبح چار بجے، اپنے شیرخوار معصوم کو بچہ گاڑی میں ڈالے کربلا کی طرف کشاں کشاں پیدل سفر!(یاد رہے! اِس بی بی اور اُس کے شیر خوار کی تصویر نہیں اتاری جا سکی۔  تاریکی تو تھی ہی، لیکن قلبی کیفیات کو Capture  کرنے کے لیے کوئی کیمرہ  بھی ایجاد نہیں ہوا)سبحان اللہ! ایک  پردہ نشین بی بی کا خوشی خوشی  100 کلو میٹر کا فاصلہ پیدل چلنے کا عزم و ارادہ اور جوش و ولولہ! سبحان اللہ! ایک بڑھیا ماں کا بچوں کی طرح ویل چیر پر سینکڑوں کلو میٹر کا سفر!اور یہ طفلِ معصوم جو ابھی اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکتا لیکن ہاتھوں اور زانووں کے سہارے  علی اصغرؑ کا غم منانے  چلا ہے۔ یقینا  اِس عزم و ارادے کی توضیح و تفسیر، عصر حاضر کے میٹیریالسٹ ماہرین انسانیات کے بس کا روگ نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میرے لیے  تعجب سے بڑھ کر اِس سوال کا جواب ڈھونڈنا اہمیت اختیار کر گیا  کہ ایسے لوگوں کےلیے جو حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپؑ کے عشق سے آشنا نہیں،  عشقِ حسینؑ کے ان بے نظیر مظاہر کی کیا توجہیات پیش  کی جا سکتی ہیں ؟  یقینا میرے آپ کےلیے یہ معمہ حل شدہ ہے کہ جن بیبیوں کے دلوں میں ایک ایسے امام کی زیارت کا شوق موجزن ہو جس کی دلدادہ بہن نے مدینہ سے کربلا، کربلا سے کوفہ، کوفہ سے شام ، شام سے کربلا اور کربلا سے مدینہ تک کا اتنا طولانی اور طاقت فرسا  سفر محض امامت کا حق ادا کرنے کےلیے طے کیا، ایسی بیبیوں کےلیے اُس امام کے چہلم کا حق ادا کرنے کےلیے 100 کلومیٹر کا پیدل سفر طے کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔

لیکن اس سفرنامے کے بیان میں میرا اصل مخاطب تو ایسے لوگ ہیں جنہیں کسی نے کربلا کی کہانی نہیں سنائی۔یقینا ایسے لوگوں کو یہ راز سمجھانے کےلیے میں اپنی بات کا آغاز یہاں سے کرنا چاہوں  گا کہ عشق کی سلطنت کے باشندوں کی دوسری اہم شناخت یہی ہے کہ وہ امام حسین علیہ السلام کے عاشق ہوتے ہیں۔ دراصل، عشق، چاہت کے شباب کا نام ہے اور چاہت، ارادے کی گود میں جنم لیتی ہے۔ فلسفیوں کے بقول ارادہ بذات خود معرفت کا محتاج  ہے۔ لہذا انسانی عشق و شوق اور عزم و ارادے کی جن کیفیات کا بیان اوپر گزرا ، اُن کی گہرائی تک پہنچنے کےلیے ہمیں حضرت امام حسین علیہ السلام کی معرفت درکار ہے۔ امام حسین علیہ السلام کون ہیں؟ آپؑ کی معرفت کیا ہے؟

یقینا ایک سفرنامے میں اس موضوع پر کوئی تفصیلی بات نہیں بتائی جا سکتی۔ بس اتنا جان لیناضروری ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام، بوستانِ بتول سلام اللہ علیہا میں اگنے والے اُس سروِ آزادی کا نام ہے جس نے صرف اللہ تعالی کے ذات کے سامنے سر جھکانا سیکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم و استبداد کے سامنے سر جھکانے سے واضح انکار کیا۔  یزید یہ چاہتا تھا کہ آپ کا سر اپنے آستانۂ جبر و استبداد پر جھکا دے لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔ آپؑ کا سر کاٹا تو جا سکا،  جھکایا نہ جا سکا۔اور جب  آپؑ کا سر کاٹ کر نیزے کی نوک پر چڑھایا گیا تو یہ قرآنِ ناطق، ایسا ناطقِ قرآن بنا کہ خود کھلی کتاب بن گیا۔ لہذا اب قیامت تک قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ حضرت امام حسینؑ کی کہانی بھی دہرائی جاتی رہے گے۔ہر سال لاکھوں، کروڑوں مسلمان اِس نواسۂ  رسولﷺ کا چہلم منانے نجف و کربلا میں جمع ہوتے رہیں گے۔  اور جگر گوشۂ بتول قیامت  تک اپنے چاہنے والوں کو  آزادی اور حرّت کا درس دیتے رہیں گے۔  حضرت امام حسین علیہ السلام اہل دنیا کے سامنے ہمیشہ کھلی، وہ روشن کتاب ہیں جس کے سر ورق پر یہی لکھا ہے کہ انسان اپنے زمانے کے ظالم اور جابر حکمرانوں اور اپنے دور کے استعمار اور طاغوت سے اُس وقت نجات پا سکتا ہے جب اپنی گردن اُس یکتا معبود کی بارگاہ میں جھکا دے جس نے انسان کو اپنی بندگی پر بھی مجبور نہیں کیا۔ بلکہ اُسے بندگی اور سرکشی کے درمیان مکمل اختیار دے کر حرّیت اور آزادی کو انسان اور غیر انسان میں وجہ امتیاز بنا دیا ہے۔ اللہ تعالی نے عالمِ تکوین پر اپنا جبر حاکم فرمایا ہے لیکن عالمِ تشریع کی بنیاد اپنے بندے کے اختیار اور آزادی پر رکھی ہے۔ لہذا جس  بندگی کی بنیاد، انسان کی آزادی اور اختیار پر نہ رکھی جائے اللہ تعالی کو وہ بندگی  قبول نہیں ہے۔حضرت امام حسین علیہ السلام کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ آپؑ نے اللہ تعالی کی بندگی  کو آزادی، اختیار اور حریّت کی وہ اساس فراہم کر دی کہ اب قیام تک اللہ کی بندگی کو کوئی جبر قرار نہیں دے سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعارف کرواتے ہوئے حکیم الامت علامہ اقبال فرماتے ہیں:

بہر حق در خاک و خون غلطیدہ است            پس بنائے لا الہ گردیدہ است

۔۔۔

تیغ لا چون از میان بیرون کشید       از رگِ ارباب باطل خون کشید

نقش الا اللہ بر صحرا نوشت            سطر عنوان نجات ما نوشت

یعنی حضرت امام حسینؑ حق کی خاطر خاک و خون میں غلطاں ہو کر "لا الہ الاّ اللہ" کی محکم بنیاد بن گئے ۔۔۔ آپؑ نے جب یزید کی بیعت کے انکار کی تلوار نیام سے نکالی تو قیامت تک کے اربابِ باطل کی رگوں کا سارا خون بہا دیا۔ آپ نے کربلا کے صحرا پر ہمیشہ کے لیے "فقط اللہ کی بندگی" کا نقش گاڑھ دیا اور یوں ہماری نجات کی سطر کا اصل عنوان رقم کر دیا۔

 خلاصہ یہ کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی معرفت میں کم از کم اتنا جان لینا بہت ضروری ہے کہ آپؑ وقت کی وہ گونجتی آواز ہیں جو ہر جابر و ظالم حکمران اور  استعماری اور طاغوتی نظام کو للکار رہی ہے۔ اور آپ کا چہلم منانے وہی نکلیں جو آپؑ کے مکتب پر مکمل یقین رکھتے ہوں اور  آپؑ کی صدائے استغاثہ پر لبیک کہہ سکتے ہوں۔

٭٭٭٭

بلند حوصلوں کے مالک تو الکوت ہی سے پیدل نجف کے طرف چل پڑے۔ ہم جیسے کمزور بدن، کمزور ایمان کسی سواری کی تلاش میں تھے۔ کافی دیر بعد ایک دیو ہیکل ٹریلر زائرین سے بھرتا نظر آیا۔ سب نے دوڑ لگائی اور سوار ہو گئے۔ شہر سے نکلے تو کسی نے راستہ روک لیا۔ میں تو پریشان ہوا کہ پولیس والوں نے روک دیا ہے، نہیں معلوم ڈرائیور ان سے کوئی مک مکا کر بھی پاتا ہے یا نہیں۔ لیکن جب مک مکا ہونے لگا تو معلوم ہوا کہ جب تک سواریاں نیاز نہ کھا لیں آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ویسے یہ بڑا دلچسپ مک مکا تھا جو مجھے بہت یاد رہے گا۔

خیر چل پڑے لیکن ہر چند کلومیٹر کے فاصلے پر رک کرنیاز تقسیم کرنے والوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ مک مکا کرنا ہی پڑتا۔ روڈ کے ایک طرف پیدل چلنے والے زائرین کا ٹریک تھا جو دو  سو کلومیٹر پیدل چلنے کا سودا سر مول لیے سوئے منزل رواں دواں تھے۔ جوں جوں نجف اشرف کے قریب تر ہوتے جا رہے تھے لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ ٹریلر بھی 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ تیز نہیں چل سکتا تھا۔ لہذا ہمیں لگ بھگ چار گھنٹے بھاگتے ٹریلر  میں پاؤں کے بل  کھڑے  سفر کاٹنا پڑا۔

میرے پاؤں پر سوجھن چڑھنے لگی۔ حوصلہ جواب دینے لگا۔ اِس تکلیف دہ صورتحال کو برداشت کرنا آسان نہ تھا۔ اپنے حوصلے کو امکان کی آخری حد تک بڑھایا۔ لیکن تھک اتنا گیا تھا کہ ایک قدم رکھتا، ایک اٹھاتا،  وہ رکھتا، دوسرا اٹھاتا۔ بارِ الہا! یہ سفر کب کٹے گا! میں نے زندگی میں کبھی اتنا طولانی سفر یوں کھڑے ہو کر اس کربناک حالت میں نہیں کیا تھا۔ تاہم جب میری ہمت بالکل جواب دینے لگتی تو اُن لوگوں کو دیکھ کر جوان ہونے کی کوشش کرتا  جو سڑک کے دوسرے ٹریک  پر پیدل چل رہے تھے۔ اس سے حوصلہ کافی بڑھ جاتا تھا۔ لیکن جو بات سب سے زیادہ حوصلہ افزا تھی وہ یہ خیال تھا کہ اُن مسافروں کے عشق میں سفر کی یہ صعوبت اٹھا رہے ہیں جنہوں نے بے پلان بھاگتے اونٹوں پر سفر کاٹے! ہم جوان ہیں، مرد ہیں، ہمارے ہاتھ پسِ گردن نہیں بندھے، ہماری گود میں معصوم بچے نہیں جن کے گر جانے کا خدشہ ہو۔

ہمارے سفر کی سختی کہاں اور  اُن مسافروں کے سفر کی سختی کہاں جو بے پلان اونٹوں پر سوار تھے۔ جن کے ہاتھ پابندِ رسن تھے۔ جن میں مرد کم، کبھی سفر نہ کرنے والی بیبیاں زیادہ تھیں۔ جن کی گودیوں میں معصوم بچے بھی تھے جنہیں سنبھالا نہ جا سکتا تھا۔  اِن مسافروں کو راستے میں نذر ونیاز، شربت پانی تو درکنار، دھوپ میں ٹھہرایا جاتا اور احوال پُرسی تو کجا،  تازیانے مارے جاتے تھے۔  ستم بالائے ستم یہ کہ یہ کوئی عام مسافر نہ تھے۔ یہ اُس نبی کی بیٹیاں تھیں جن کی رسالت کی منافقانہ گواہی  ساربان دے رہے تھے۔یقینا جب فوج اشقیاء سے "اشہد انّ محمدا رسول اللہ" کی آواز بلند ہوتی ہو گی تو رسول ﷺ کی بیٹیاں آپ کی بارگاہ میں اپنی کسمپرسی کا شکوہ ان الفاظ میں کرتی ہوں گی: "وا محمداہ! صلی علیک ملیک السماء و نحن بناتک سبایا" (وا محمداہ! آپ پر آسمان کے ملائیکہ کا دورد و سلام اور ہم آپ کی بیٹیاں قیدی بنا لی گئی ہیں!)

جب ہم نجف سے کوئی بیس تیس کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچے تو ٹریفک جام ہونے لگا۔ میری تمنا تو یہ تھی کہ ٹریلر والا ہمیں یہیں اتار دے۔ کہیں یہ بیچارہ ٹریفک میں ایسا نہ پھنس جائے کہ نکل نہ سکے۔ نیز ہماری آسانی بھی اسی میں تھی کہ نیچے اترتے تو کچھ دیر سستا لینے کا موقعہ فراہم آ جاتا۔ لیکن مجھے ڈرائیور پر بہت  تعجب تھا۔ گویا اُس نے اپنا عزم اس بات پر جزم  کر رکھا تھا کہ زائرین کو حضرت علی علیہ السلام کے مقدس آستان کی قریبی ترین سرحد تک پہنچائے بغیر واپس نہیں لوٹے گا۔یہاں تک کہ اس نے نجف کے اُس محلے میں پہنچا دیا جسے "نزلہ" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

نجف، سرزمینِ امن و سکون!

جب ہم نجف پہنچے، عصر کا وقت ڈوب رہا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک بی بی تنور پر کھڑی روٹیاں لگاتی نظر آئی۔  میں نے سوچا یہ بی بی اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کا بندوبست کر رہی ہے۔ لیکن جب ٹریلر سے اتر کر چند لڑکے بھاگے بھاگے تنور کی گرم گرم روٹی پر لپکے تو معلوم ہوا کہ زائرین کا پیٹ بھرنے کا بندوبست جاری ہے۔میں نے الکوت سے یہاں تک کم و بیش کچھ نہ کھایا تھا۔ بس ایک آدھ مرتبہ نیاز چکھ لی تھی۔ یوں ایک لحاظ سے تو میں کامیاب ہوا کیونکہ جہاں کئی مسافرین نے رفع حاجت کی فرصت پیش نہ آنے کی مسلسل شکایت کی، میں انتہائی سکون سے رہا۔ لیکن اب   5/6 گھنٹے کی تھکاوٹ اور بھوک کے بعد تنور کی گرم گرم روٹی کھانے کو میرا جی بھی للچایا۔ اتفاق سے آدھی روٹی میرے حصے میں بھی آئی۔ گرم گرم! دو تہہ میں پکی روٹی اپنے پیٹ میں پیاز اور دھنیا جیسی نیم پکی، نیم کچی  سبزیاں لپیٹے، برگر سے کم لذیذ نہ تھی!

نجف اشرف کوئی اتنا بڑا شہر نہیں ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں لگ بھگ چالیس پچاس لاکھ زائرین کا بیک وقت سما جانا معجزے سے کم نہیں([4]) ۔

یہ معجزہ خود اہل عراق اور اہل نجف دکھاتے ہیں۔ یہاں مدینہ منوّرہ میں باندھے جانے والے عقدِ اخوت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ چہلم کے موقعہ پر کسی نجفی کا گھر اُس کا شخصی گھر نہیں رہتا۔ کم و بیش ہر نجفی سال بھر اِن ایّام کے انتظار میں رہتا ہے اور مولٰی علی مرتضیٰ اور مظلومِ کربلا کے زائرین کی مہمان نوازی کی تیاریاں کرتا رہتا ہے۔ لہذا چہلم کے ایام میں جب تک نجفیوں کے گھروں میں تل دھرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے، اُن  کا دروازہ زائرین پر کھلا رہتا ہے۔ اور جب سب مکان بھر جاتے ہیں تو نجف کے گلی کوچے اور سڑکیں مسکن بن جاتی ہیں۔درحقیقت، یہ ایمانی اخوت اور ایثار و فداکاری عشق کی سلطنت کے باشندوں کی تیسری بڑی شناخت ہے۔ جس میں یہ علامت نہ پائی جاتی وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی نگری کا باشندہ نہیں کہلا سکتا۔

یاد رہے!  چہلم کے موقعہ پر مولیٰ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حرم کے سنہری گنبد کو دور سے دیکھ لینا اور دُور سے آپؑ کا زیارتنامہ پڑھ لینا کافی ہے۔ لیکن اگر کوئی زائر ضریح کے پاس پہنچے بغیر اپنی زیارت کو ناقص تصور کرے تو  اُسے چاہیے کہ الگ سے دھکم پیل نہ کرے؛ بلکہ اپنے آپ کو ضریح کے گرد دیوانہ وار  طواف کرنے والے زائرین کی موجوں کے حوالے  کر دے۔ وہاں لمحہ بہ لمحہ زائرین کا ایک سیلابی ریلہ "حیدر! حیدر! لبیک یا حیدر!" کہتا ضریح کے پاس سے گذرتا ہے۔ اگر اس ریلے میں  شریک ہو جائیں تو ضریح کا نیم طواف ہو سکتا ہے، بصورت دیگر، اپنی شخصی طاقت پر کوئی کمتر ہی ضریح کے پاس پہنچ پاتا ہے۔

بہرصورت، ہر زائر کی توجہ اِس بات پر جمی رہے کہ زیارت کا اصل مفہوم، مولیٰ کی خدمت میں عرضِ ادب اور حالِ دل بیان کرنے میں پوشیدہ ہے۔  جی ہاں! حالِ دل کا بیان اپنے اندر عجیب لذت رکھتا ہے۔ دراصل، اسلامی ادبیات میں حالِ دل کا بیان "مناجات"  کا ایک اساسی رکن شمار ہوتا ہے۔ مناجاتِ الٰہی میں لذّت، کیف اور جذب و مستی کا عنصر، حالِ دل کے واقعی بیان ہی سے شامل ہوتا ہے۔ اور حال دل کا واقعی بیان یہ ہے کہ ایک تہی دست، کنگلا فقیر، اپنے آپ کو ایک ہر لحاظ سے غنی ذات کے دربار میں حاضر پا کر اپنے ٹوٹے دل کی کرچیاں اپنی دونوں ہتھیلیوں پہ رکھے اُس غنی کی بارگاہ میں یہ عرض کر رہا ہو کہ:

پروردگارا! میرے پاس اس ٹوٹے ظرف کے سوا کچھ نہیں؛  میرے فقر پر رحم فرما!

بارگاہِ الٰہی کے مقرّبین کی تعلیمات یہ بتاتی ہیں کہ اللہ تعالی نے ایسی دعاوں میں اپنی حتمی قضا کو بدل دینے  کی طاقت رکھ دی ہے۔ جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی زیار کے بعد کی منقول دعا میں یہ جملہ وارد ہوا ہے:  اسئلک بالقدرۃ النافذۃ فی جمیع الاشیاء و قضائک المبرم الذی تحجبہ بایسر الدعاء ([5])

 لہذاا بقول علامہ اقبالؔ

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ

کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے، نگاہ آئینہ ساز میں!

مناجاتِ الہی کی طرح مقرّبانِ بارگاہ الہی اور معصومین علیہم السلام کی زیارت میں بھی لذّت کا عنصر حالِ دل کے بیان سے شامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر زائرین اپنے مولیٰ و آقا کی خدمت میں اپنے تمام دکھوں، پریشانیوں اور مصیبتوں کا حال سناتے ہیں اور اُنہیں بارگاہ الٰہی میں اپنا شفیع بناتے ہیں۔لیکن بعض زائرین بھی کمال کے لوگ ہوتے ہیں۔ میں ایک ایسے زائر کی بات کروں گا۔ یہ زائر جب مولٰی امیر المؤمنین علیہ السلام کی ضریح کے پاس  پہنچا تو اُس کی ساری توجہ اپنے مولٰی کو ایک ایسی بیٹی کا حالِ دل سنانے پر لگی تھی جس نے خدا کی راہ میں کربلا کے میدان میں عون و محمد جیسے بیٹے ، علی اصغر جیسے شیرخوار، علی اکبر و قاسم جیسے بھتیجے اور عباسؑ علمدار اور حضرت امام حسین علیہ السلام جیسے بھائی قربان کیے۔ لیکن یہ بیٹی کربلا میں لٹ جانے کے بعد کبھی اپنا بابا اور مولٰی کی خدمت میں حاضر ہو کر حالِ دل بیان نہ کر  سکی تھی۔

 یقینا اِس زائر کو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے اس قلق کا شدّت سے احساس تھا۔ لہذا وہ  بی بی زینب سلام اللہ علیہا کا ترجمان بن کر آپ کے بابا کی بارگاہ میں بی بی کا حالِ دل اپنے الفاظ میں سنا رہا تھا۔ لیکن بہت مختصر۔اُس نے کربلا کی ساری کہانی بیان نہیں کی اور نہ ہی کربلا کے ایک ایک شہید کی شہادت پر بی بی کے دل پر ٹوٹنے والے کوہِ غم کا نوحہ سنایا۔ اُس نے بی بی کے حالِ دل کی ترجمانی کرتے ہوئے بس ایک ہی جملہ اپنے مولی ٰو آقا  کی خدمت میں بیان کیا اور اُس کے بعد مصائب کے بحرِ بیکراں میں ڈوب گیا۔ وہ جملہ یہ تھا:

"بابا! مجھے رسن بستہ، بازاروں اور درباروں میں لے جایا گیا!"

زینب کی یہ مصیبت، کربلا کے تمام مصائب سے بڑی مصیبت تھی۔ اِس مصیبت پر جس قدر گریہ کیا جائے کم ہے۔ ایک بیٹی اپنے بابا کی خدمت میں اس سے بڑی کس مصیبت کا حال سناتی! بی بی  کی چادر لوٹ لی گئی تھی اور آپ کو نامحرموں کے ہجوم میں کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں گھمایا گیا! درحقیقت، یہ مصیبت بی بی زینب کی نہیں، عالمِ اسلام کی سب سے بڑی مصیبت ہے۔ اس لیے  کہ سن 61 ہجری میں بھی لوگوں کا خیال یہ تھا کہ زینبؑ، علیؑ کی بیٹی ہے اور لوگ آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ زینبؑ، علیؑ کی بیٹی تھی۔ لیکن کوفہ کے دربار میں بی بی نے قیامت تک کے لیے اِس سوچ پر خطِ بطلان کھینچ دیا تھا۔ آپ نے اپنے خطبہ کی ابتداء میں فرمایا تھا: الحمد للہ و الصلاۃ علی ابی محمد! یعنی: "سب ثنائیں اللہ تعالی کے ساتھ مخصوص ہیں اور درود و سلام  ہو میرے بابا محمد (ﷺ)پر !" بی بی نے اپنے خطبہ میں واضح کر دیا کہ میں علی کی بیٹی ہونے سے پہلے محمد ﷺکی بیٹی ہوں۔ لہذا جس مسلمان کا حضرت محمد ﷺکے ساتھ کوئی رشتہ ناطہ ہے، اُس کا قیامت تک یزید اور یزیدی طرزِ تفکر کے ساتھ کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہو سکتا۔ اور جسے ناموسِ رسالت کا کچھ پاس ہے، وہ  وقت کے یزید سے نبی کی بیٹی کی چادر کا انتقام لیے بغیر  نہیں رہ سکتا۔ البتہ علی علیہ السلام کی بیٹی نے جہاں عام مسلمانوں کی یہ غلط فہمی ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دور کر دی  کہ علی کی بیٹی ہونے اور نبی کی بیٹی ہونے میں کوئی فرق نہیں، وہاں آپ نے یزید ملعون کی ایک غلط فہمی بھی ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دور کر دی۔ یزید کا خیال تھا  کہ  وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کر کے حضرت علی علیہ السلام کا ذکر اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی یاد تک مٹا دے گا۔ لیکن بی بی نے دربارِ شام میں دوٹوک الفاظ میں یزید کو بتا دیا کہ : " کِدْ کَیْدَکَ وَ اجْھَد جُھْدَکَ فَوَ اللہِ الَّذِیْ شَرَّفَنَا بِالوَحْیِ وَالکِتَابِ وَ النُبُوَّۃِ وَ الاِنْتِخَابِ لَاُتدْرِکُ اَمَدَنَا وَ لَاتَبْلُغُ غَایَتَناَ وَ لَاتَمْحُو ذِکرَْنَا"

 یعنی: "(ائے یزید!) تو ہر حربہ اپنا لے اور اپنا پورا زور لگا لے! اُس اللہ کی قسم! جس نے ہمیں وحی، کتاب، نبوّت اور برگزیدہ ہونے کا اعزاز بخشا ہے، نہ تو ہمارے جیسی شان و شوکت حاصل کر سکتا ہے، نہ ہماری انتہاء کو پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی ہمارا ذکر مٹا  سکتا  ہے۔" ([6]) مولیٰ علی علیہ السلام کی بیٹی کی پیشین گوئی کی صداقت کی گواہی نجف سے کربلا کے راستے پر لگے چند  بینرز پر نقش ایک تسبیح کے عکس  کے نیچے  سرخ قلم سے لکھا یہ جملہ  دے رہا ہے : "لن تمحو ذکرنا" (تو کسی صورت ہمارا ذکر نہیں مٹا سکتا!)

نینویٰ کے مسافر

نینویٰ کے مسافروں کی داستان، ایک ایسی داستان ہے جسے نہ سن 60 ہجری کے  میڈیا نے کوئی کوریج دی اور نہ ہی عصر حاضر کا پلید اور آلودہ میڈیا کوئی اہمیت دیتا ہے۔ اگر سن 60 ہجری  میں نینویٰ کے مسافروں کی داستان کی تشہیر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خطبوں سے ہوئی تو عصر حاضر میں نینویٰ  کے مسافروں کی داستان بھی  حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین، آپ کے چہلم کے موقعہ پر نجف سے کربلا تک اپنی "مشی" (پیدل چلنے) کے ذریعے رقم کرتے ہیں۔

درحقیقت،وہ میڈیا جو یزیدیّت اور صیہونیّت  کی تجوریوں پر پلتا اور چلتا ہو، کب اُس سے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اہلِ دنیا کے سامنے نینویٰ کے مسافروں کی داستان پیش کرے گا؟یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ استعمار کے آلہٴ کار، حضرت امام حسین علیہ السلام کی للکار کو اہلِ اقطارِ   تک پہنچائیں؟ یہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح یزید نے چاہا تھا کہ کربلا کی کہانی، کربلا میں دفن ہو جائے تاکہ اُس کی بادشاہی کو دوام حاصل رہے، اسی طرح عصر حاضر کی یزیدیّت بھی نہیں چاہتی کہ نینویٰ کے مسافروں کی کہانی دہرائی جائے، مبادا اُس کی حکمرانی کی بنیادیں ہلا دی جائیں۔

لہذا آج حضرت  زینب سلام اللہ علیہا کے ماننے والوں کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ زینبی فریضہ انجام دیتے ہوئے نینویٰ کے مسافروں کی داستان کا جگہ جگہ پرچار کریں۔ ہر عزادار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نینویٰ کے مسافروں کی کہانی کی ایسی تشہیر کرے کہ یہ داستان  مشرق و مغرب کے ہر زندہ ضمیر انسان کے عقل و قلب پر نقش ہو جائے۔ اِسی جذبے کے تحت میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے چہلم کے موقعہ پر نجف سے کربلا تک کے اُس روحانی سفر کی داستان رقم کر رہا ہوں جو اگرچہ  2014 کے اربعینِ حسینی کی داستان ہے،لیکن ایک لحاظ سے یہ سن 60 ہجری کے نینویٰ کے مسافروں کی داستان کا بیان بھی ہے۔

*****

17 صفر کی صبح، نماز صبح کے بعد ہم نے نجف اشرف سے کربلائے معلی کے پیدل سفرکا آہنگ کیا۔ عربی عرف عام میں اس پیدل سفر کو "مَشِی" کہا جاتا ہے۔جب ہم نجف، کربلا شاہراہ پر آئے تو ہر طرف زائرینِ حسینی کا ایک سیلاب یوں رواں دواں تھا گویا کسی  دریا  کے پیندے میں  ایک بہت بڑا سیلاب بڑھا چلا آ رہا ہو۔  ہمیں 80 کلومیٹر سے زائد فاصلہ پیدل طے کرنا تھا۔ سب پیر و جوان اور بچے، عورتیں ایک خاص جذبے کے ساتھ نینویٰ کی طرف قدم بڑھا رہے تھے۔ کوئی اڑھائی تین گھنٹے سفر طے کرنے کے بعد بھوک غلبہ کرنے لگی۔ ناشتہ کی ہوس دل میں لیے ہم سڑک کے وسط میں چلنے کی بجائے ایک کنارے لگ گئے۔

اگرچہ وافر مقدار میں نذر و نیاز کا بندوبست تھا لیکن میرا جی روٹی کھانے کی طرف راغب تھا۔ سامنے ایک بہت بڑے تھال میں چند مؤمنین انڈے فرائی کرنے میں مصروف تھے۔ انڈے فرائی کرنے کا انداز یہ تھا کہ ایک شخص کا کام کوکنگ آئل کی بوتل لیے تھال میں آئل انڈیلنا تھا۔ دو تین افراد مسلسل انڈے توڑتے تھا ل کے ایک خاص زاویے میں ڈالے جا رہے تھے۔ ایک فرد انڈوں کو تھال کے اگلے حصے کی طرف کچھ اس طرح سے بڑھا رہا تھا کہ جب انڈا تھال کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کی مسافت طے کرتا تو فرائی ہو چکا ہوتا تھا۔چند لڑکے روٹی کی تقسیم پر اس طرح مامور تھے کہ ایک روٹی اٹھاتا، اُسے کھولتا اور دوسرے کے ہاتھ پر رکھ دیتا۔ دوسرا روٹی اُس شخص کے آگے کر دیتا جو تھال سے فرائی  انڈے اٹھا اٹھا کر روٹی  پر رکھتا جا رہا تھا۔ جب انڈا روٹی  پر آ جاتا تو کھانے والے خود ہی سنبھال لیتے تھے۔

میں اور میرے ساتھی نے اپنی قسمت ہاتھوں میں لی اور برگر بنا کر کھانے میں مصروف ہو گئے۔ اسی دوران میری نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو ناشتہ کروانے والی ٹیم کی پشت پر ایک خاص انداز سے کھڑا، لبوں پر مخصوص مسکراہٹ سجائے ناشتہ کروانے والی ٹیم کی کارکردگی کا پوری توجہ سے جائزہ لے رہا تھا۔ اُس کےشکل و شباہت سےصاف ظاہر تھا کہ وہ کوئی معمولی شخص نہ تھا۔  لہذا میں اُس کے قریب ہوا اور اپنی ٹوٹی پھوٹی عربی میں اس سے پوچھا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)

[1] ۔ ڈائریکٹر نور الہدی مرکز تحقیقات، استاد اصول و فقہ و فلسفۂ اسلامی ،جامعۃ الرضا، بارہ کہو،  اسلام آباد۔

[2] ۔ الشیخ محمد مھدی الحائری، شجرہ طوبی، منشورات المکتبہ الحیدریہ، نجف الاشرف؛ ج1، ص 3۔العلامہ المجلسی، بحار الانوار، دار احیاء التراث العربی،  بیروت، لبنان،  ج 53، ص 303۔

[3] ۔ https://www.facebook.com/notes/syed-asad-ali-kazmi

[4] ۔ شیعہ نیوز کے مطابق اس سال (2014) 19 ملین زائرین حضرت امام حسین علیہ السلام کے چہلم میں حاضر ہوئے۔ جبکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے حرم کے امام جمعہ نے چہلم کے موقعہ پر اپنے نماز جمعہ کے خطبے میں بتایا کہ اِس سال  ایک  کروڑ چالیس لاکھ ( 14 ملین) عراقی اور غیر عراقی زائرین نے چہلم کے موقعہ پر حضرت امام حسین علیہ السلام کے حرم کی زیارت کی ہے۔ لہذا اگر 14 ملین ہی کو مسلم تعداد مانا جائے تو یہ اندازہ لاگیا جا سکتا ہے کہ اس تعداد میں سے اگر 6 ملین زائرین نجف و کربلا کے مابین یا دیگر راستوں پر اور باقی تعداد کا نصف نصف بھی نجف اور کربلا میں ہوں تو اربعین سے تین دن پہلے تک کم از کم 4 ملین زائر نجف میں موجود ہوتے ہیں۔

[5] ۔ العلامہ المجلسی، بحار الانوار، دار احیاء التراث العربی، لبنان، بیروت، ج، 99، ص 55۔

[6] ۔ الشیخ الطبرسی، الاحتجاج، دار النعمان للطباعۃ و النشر، النجف الاشرف۔1966؛ ج2، ص 37۔

 

 

تحریر۔۔۔۔ڈاکٹر شیخ محمد حسنین

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

 

وحدت نیوز (آرٹیکل) دانش مند کہلانا کسے پسند نہیں!؟البتہ دانش مندوں کی بھی اقسام ہیں، ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن  کا کہنا ہے کہ  اگر لکھنے لکھانے  اور میڈیا سے کوئی اثر اور فائدہ ہوتا تو سارے انبیائے کرام ؑ  آکر پہلے لوگوں کوانٹر نیٹ سکھاتے،فیس بک سمجھاتے اورکمپیوٹر کی تجارت کو رواج دیتے۔

ان کے نزدیک لکھنے لکھانے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہیں ،نفرتیں پیدا ہوتی ہیں،دوریاں جنم لیتی ہیں اور غیبت وحسد کے دروازے کھل جاتے ہیں۔لہذا وہ ہمیں اکثر مسائل کا حل خاموشی اختیار کرنے ،منّت سماجت سے کام نکالنے اور حسبِ استطاعت کچھ لے دے کرمعاملہ نمٹانے میں بتاتے ہیں۔

ہمارے خیال میں ایسے دانشمندوں کے افکار و نظریات انسانوں کو بے حس کرنے والی دوائیوں کے بہترین متبادل ثابت ہوسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہمارے ہاں کے دانشمندوں کی ایک اور قسم بھی ہے ،یہ ایسے دانشمند ہیں جو اصلاً دو جملے بھی نہیں لکھ سکتے،یا پھر خیر سے ایک جملہ بھی ٹھیک سے نہیں لکھ پاتے،البتہ اپنی  باتوں سے یہ عالمِ امکان کو زیروزبر کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔یہ اپنے آپ کو ہرفن مولا ثابت کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔آپ دنیا کا کوئی مسئلہ ان کے سامنے پیش کریں یہ اس میں اپناسنہری  تجربہ آپ کے سامنے رکھ دیں گے۔

اپنے اندر کے احساسِ کمتری کو چھپانے کے لئے ان کے پاس چند رٹے رٹائے جملے بھی  ہوتے ہیں،مثلاً ہم تو تنظیمی ہیں،ہم تو انقلابی ہیں،ہم تو اتنا تجربہ رکھتے ہیں،ہم تو۔۔۔وغیرہ وغیرہ

سونے پر سہاگہ یہ کہ ایسے دانشمند فیڈبیک کے بنیادی اصولوں سے بھی آگاہ نہیں ہوتے اورانہیں کہیں پر کمنٹس دینے کا بھی پتہ نہیں ہوتا ،یہ اگر کہیں اپنے کمنٹس کے ذریعے تیر مارنا  بھی چاہیں تو  سیدھا وہاں مارتے ہیں جہاں نہیں مارنا ہوتا۔

مثلاً اگر کوئی آدمی فوری طور پر کہیں سے رپورٹنگ کرے  یا کوئی خبر نقل کرےکہ فلاں جگہ فلاں حادثے میں اتنے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں تو ایسے دانشمند فوراً کمنٹس میں لکھیں گے کہ” ہلاک نہیں شہید ہوئے “اس کے بعد یہ بحث کو کھینچ کر ہلاک اور شہید میں الجھا دیں گے اور اصل مسئلہ  ان کی قیل و قال میں ہی دفن ہوجائے گا۔ایسے دانشمند ہماری ملّی توانائیوں کو خواہ مخواہ ضائع کروانے میں یہ یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔

علاوہ ازیں ہمارے ہاں اس طرح کے دانشمند بھی  بکثرت پائے جاتے ہیں جو سارے مسائل کو لغت اور اصطلاح کی روشنی میں  کُلی طور پرحل کرنا چاہتے ہیں۔مثلاًاگر کہیں پر شراب کی خرید و فروخت کا دھندہ ہورہاہو اور آپ اس کے خلاف آواز اٹھائیں یا کوئی میدانی تحقیق کریں  تو فوراً یہ دانشمند ناراض ہوجاتے ہیں۔ان کے نزدیک شراب فروشی اور شراب خوری کا علاج یہ ہے کہ آپ زمینی تحقیق کرنے کے بجائے  شراب پر ایک علمی مقالہ  اس طرح سے لکھیں :۔

شراب در لغت۔۔۔۔ شراب در اصطلاح۔۔۔۔شراب کا تاریخچہ۔۔۔۔ شراب کے طبّی فوائد و نقصانات ۔۔۔دینِ اسلام میں شراب کی حرمت۔۔۔۔شرابی کے لئے دنیا و آخرت کی سزائیں۔۔۔اور آخر میں حوالہ جات

آپ انہیں لاکھ سمجھائیں کہ قبلہ میڈیا میں میڈیم کے بغیر لکھا ہوا ایسے ہی ہے جیسے آپ نےکچھ لکھا ہی نہیں لیکن وہ اپنی ہی بات پر ڈٹے رہیں گے۔

معاشرے کے زمینی حقائق سے اربابِ علم و دانش کو دور رکھنا ایسے دانشمندوں کا اصلی فن ہے۔

اس کے علاوہ بھی ہمارے ہاں دانشمندوں کی ایک  بہت ہی نایاب قسم  بھی پائی جاتی ہے۔یہ تعداد میں جتنے کم ہیں معاملات کو بگاڑنے میں اتنے ہی ماہر ہیں۔یہ ایک چھوٹے سے مسئلے کو پہلے بڑھا چڑھا کر بہت بڑا بناتے ہیں اور پھر آخر میں اس کا حل ایک چھوٹی سی مذمت کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔

مثلاً اگر اسلام آباد میں کہیں  پر خود کش دھماکہ ہوجائے اور آپ علاقے کو فوکس کرکے وہاں کے سیاستدانوں،بیوروکریسی,مقامی مشکوک افراد اور دیگر متعلقہ لوگوں اور اداروں کے بارے میں زبان کھولیں  اور عوام کو شعور دینے کی بات کریں تو ہمارے ہاں کے یہ  نایاب دانشمند فوراً ناراض ہوکر میدان میں کود پڑتے ہیں۔

اس وقت ان کا بیان کچھ اس طرح سے ہوتا ہے:

خود کش دھماکے کہاں نہیں ہورہے،پاکستان ،عراق،شام ،افغانستان وغیرہ وغیرہ  ۔یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور ان دھماکوں میں مارے جانے والے لوگوں  کی اپنی غفلت کا بھی بہت عمل دخل ہے۔لوگ خود بھی اپنے ارد گرد کھڑی گاڑیوں ،موٹر سائیکلوں اور مشکوک افراد پر نگاہ نہیں رکھتے،ہم عوام کی غفلت کی مذمّت کرتے ہیں۔

یہ پہلے چھوٹی سی بات کو گھمبیربناتے ہیں،ایک سادہ سے مسئلے کو پیچیدہ کرتے ہیں،کسی بھی مقامی ایشو کے ڈانڈے  بین الاقوامی  مسائل سے جوڑتے ہیں اور آخر میں ایک سطر کا مذمتی بیان دے کر یا لکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔

ایسے دانشمندوں کا ہنر یہ ہے کہ یہ خود بھی  کسی مسئلے کو اٹھانے کے فنّی تقاضوں سے آگاہ نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی بولنے کا موقع نہیں  دیتے۔

میں ان کی ایک مثال اور دینا چاہوں گا کہ مثلاً آپ انہیں کہیں کہ پاکستان کے فلاں علاقے میں ایک مافیا رشوت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔یعنی فلاں جگہ پر   مافیا انسانوں کا خون پی رہاہے۔

اس کے بعد ہمارے ہاں کے ” نایاب دانشمند “کچھ اس طرح سے قلمطراز ہونگے کہ دنیا میں جب تک پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوتا اس وقت تک لوگ ایک دوسرے کا خون پینے پر مجبور ہیں۔یہی صورتحال پاکستان سمیت  متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہے ۔ دنیا میں جہاں جہاں پینے کا صاف پانی میسّر نہیں ہم وہاں کے محکمہ واٹر سپلائی کی مذمت کرتے ہیں۔

قارئینِ کرام ! اپنے ہاں پائے جانے والے دانشمندوں کے بیانات،تقاریر،کمنٹس  ،نگارشات اور تحقیقات  کا جائزہ لیں اور فیصلہ آپ خود کریں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ  ہماری سوئیاں بھی اپنی اپنی جگہ  اٹکی رہیں اور ہمارے  ملّی و قومی مسائل بھی حل ہوجائیں۔

 

 

تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) امام حسین (ع) اور انکے باوفا ساتھیوں کا چہلم منانے کے لئے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان سے بھی عاشقان اور موالیانِ سیدالشہداء (ع) کے قافلے کربلا کی جانب رواں دواں ہیں، لیکن انہیں اپنے دیس میں ہی طرح طرح  کی مشکلات کا سامنا ہے، ان قافلوں میں سے بعض قافلے ایسے بھی ہیں جو بیس دنوں سے اپنے سفر کا آغاز کرچکے ہیں، تاہم وہ ابھی تک ایران بارڈر تک بھی نہیں پہنچ سکے ہیں۔ میری آج کی ٹیلی فونک معلومات کے مطابق زائرین کو کانوائے بنانے کے بہانے سے ژوب، کویٹہ سمیت ملک کے مختلف مقامات پر رشوت وصول کرنے کے لئے زبردستی روک لیا جاتا ہے، یاد رہے کہ زائرین کو ایسے علاقوں میں بھی روکا جاتا ہے، جو زندگی کی ابتدائی سہولیات سے بھی محروم ہیں اور جب یہ قافلے ایران کے بارڈر تفتان پہنچتے ہیں تو پاکستانی دفتر کے سامنے کئی کلو میٹر تک لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے راستے میں تعینات پولیس اور فوجی افسران گاڑیوں میں سوار زائرین سے بھاری رشوت  وصول کرتے ہیں۔

ملک کے ریاستی اداروں، ذرائع ابلاغ کے ٹھیکیداروں اور خاص طور پر آرمی چیف سے ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر ہمیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ کیا آئینِ پاکستان کے مطابق نواسہ رسولؐ کے چہلم میں شریک ہونا جرم ہے؟ آخر سرکاری اہلکاروں کو کھلی چھٹی کیوں دی گئی ہے؟ پاکستانی ذرائع ابلاغ اس مسئلے میں خاموش کیوں ہیں؟ ہم اعلٰی حکام کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دشمن ممالک اور ایجنسیاں حکومتی اداروں، خاص طور پر مسلح افواج سے عوام کا اعتماد ختم کرنا چاہتی ہیں، یہ رشوت خور سرکاری کارندے دراصل دشمن ایجنسیوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ لہذا انہیں فوری طور پر لگام دی جائے۔ ہماری زائرین سے بھی گزارش ہے کہ زائرین کو ستانے والے اور رشوت لینے والے اہلکاروں کی ویڈیوز بناکر سوشل میڈیا میں شیئر اور مجرمین کو بے نقاب کریں۔ زائرین کربلا، ستانے والے یزیدیوں سے ہرگز نہ ڈریں۔
یہ درس کربلا کا ہے
خوف بس خدا کا ہے


رپورٹ:۔۔۔۔ساجد مطہری

وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو سیاسی قوت بن کر ابھرتی ہیں۔ اپنے نظریات اور افکار کا تحفظ کرتی ہیں اور چھپی سازشوں کا سدباب کرتی ہیں۔ اگر کسی ملت اور قوم کی سیاسی قوت نہیں تو وہ ہمیشہ اپنے حقوق کی بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ ان کی سیاسی جدوجہد سڑکوں پر احتجاج اور پارلیمنٹ کے سامنے حکمرانوں کو متوجہ کرنے سے آگے نہیں بڑھتی۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جماعتیں اور گروہ آگے بڑھ سکے، جنہوں نے سیاسی میدان میں کام کیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کا نام لیں یا پھر جماعت اسلامی کا، دونوں جماعتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے ہر الیکشن میں اپنا کوئی نہ کوئی رول ضرور ادا کیا ہے، یوں ان کے نمائندے ایوانوں میں موجود رہے اور ہر آنے والی حکومت کا حصہ بنے رہے۔ دونوں جماعتیں مکتب دیوبند کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی آبادی کا تناسب نکالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں سب سے زیادہ آبادی اہل سنت کی ہے، جنہیں بریلوی مکتب فکر کے عنوان سے جانا جاتا ہے، یعنی ملک میں مکتب اہل سنت آبادی کا تقریباً 70سے 75فیصد ہیں، اسی طرح اہل تشیع کے بارے میں محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد آبادی کے لحاظ سے 15 سے 20 فیصد بنتی ہے، جبکہ مکتبہ دیوبند اور اہل حدیث کی ملاکر تعداد آبادی کے لحاظ سے تقریباً 8 سے 10 فیصد بنتی ہے۔ لیکن سیاسی افق پر سب سے زیادہ مضبوط مکتب دیوبند کی جماعتیں ہیں، جو ہر دور حکومت میں اسمبلیوں میں موجود رہی ہیں، جبکہ دوسری جانب اہل سنت اور اہل تشیع سیاسی میدان میں وہ کامیابیاں نہیں سمیٹ سکے، جو آبادی کے تناسب کے لحاظ سے انہیں سمیٹنی چاہیں تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی میدان کو خالی چھوڑنا اور کسی حکمت عملی کا نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ بنی کہ ریاستی اداروں نے بھی ہر معاملے میں فقط انہی لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا، جن کی سیاسی قوت موجود تھی جبکہ جو لوگ سیاسی لحاظ سے کمزور تھے یا انہوں نے اس میدان میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، انہیں مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ کلی طور پر مذہبی جماعتوں کے عوام میں پذیرائی کا نہ ہونا بھی ایک موضوع ہے، جو فی الوقت ہمارا موضوع بحث نہیں ہے۔

پس سیاسی قوت بنے بغیر اس ملک میں کوئی اہم کردار ادا کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی نے 6 جولائی 1987ء کو مینار پاکستان پر منعقد ہونے والی عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس میں سیاسی میدان میں اترنے اور اسلامی حکومت کے احیاء کے حوالے سے واضح اعلان کرکے دشمن کو پیغام دیا تھا کہ مکتب اہل بیت ؑ اب سیاسی میدان کو خالی نہیں چھوڑے گا، لیکن دشمنوں نے ہم سے ہمارا عظیم قائد چھین لیا، ضیاء دور کے بعد الیکشن میں اپنی شناخت کے ساتھ حصہ لیا گیا، لیکن اس کے بعد اس میدان کو خالی چھوڑ دیا گیا۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ رائے رکھیں کہ ہمیں سیاسی جماعتوں کے اندر رہ کر ہی کوئی رول ادا کرنا چاہیئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ چکے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے پیش نظر ان کا سیاسی ایجنڈا ہوتا ہے، جس کو وہ فالو کرتی ہیں۔ حتٰی ان سیاسی جماعتوں میں موجود شیعہ حضرات جنہیں اسمبلیوں میں پہنچایا گیا، وہ بھی فقط اس وجہ سے کوئی کردار ادا نہ کرسکے کہ ان کے آگے سیاسی جماعتوں کی پالیسی آڑے آجاتی رہی۔ پارا چنار کا تین سال کا محاصرہ ہو یا پھر ڈی آئی خان میں سینکڑوں لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ، سیاسی جماعتیں ان معالات کو اٹھانے اور انہیں رکوانے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئیں۔ عموماً تصور کیا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی اہل تشیع اور اہل سنت (بریلوی) پر مشتمل جماعت ہے، کیونکہ اس جماعت کا بیشتر ووٹ بینک ان دو مکتب فکر پر مشتمل ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پارا چنار کا تین سال کا محاصرہ اسی جماعت کے دور حکومت میں پیش آیا، ڈیرہ اسماعیل خان سے لوگ ہجرت پر اسی جماعت کے دور حکومت میں مجبور ہوئے، لیکن ان حالات میں اس جماعت نے کوئی ایسا بڑا اقدام نہیں کیا، جو مکتب تشیع میں یہ اطمینان پیدا کرسکے کہ اس کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھائے گئے۔

حد تو یہ تھی کہ پیپلز پارٹی نے اہل تشیع کو اپنا ووٹر تک نہ سمجھا، سانحہ چلاس ہو یا پھر سانحہ لالوسر، ہر جگہ اس جماعت کی خاموشی نے اس تاثر کو مزید گہرا کر دیا کہ سیاسی جماعتیں اپنی مصلحت کے پیش نظر کچھ بھی نہیں کرسکتیں۔ شیعہ ٹارگٹ کلنگ پر پیپلز پارٹی میں واحد سینیٹر فیصل رضا عابدی تھے جو بابانگ دہل بولتے تھے، لیکن سیکولر جماعت ہونے کی دعویٰ دار اس جماعت سے یہ برداشت نہ ہوسکا اور فیصل رضا عابدی سے استعفٰی لیکر اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گھر بھیج دیا گیا۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ سینکڑوں شیعہ مرتے رہے لیکن سیاسی جماعتوں کے رہنما تعزیت تک نہ کرنے آئے، اس مادر وطن پر اہل تشیع کو تیسرے درجہ کا شہری ہونے کا تاثر دینا شروع کر دیا گیا۔ اہل تشیع کو اس حد تک کمزور و نحیف سمجھا گیا کہ ان کو فٹ بال بنا دیا گیا، پیپلزپارٹی سے نکلے تو نون لیگ میں اور نون لیگ سے نکلے تو پھر پیپلزپارٹی میں۔ لیکن ان دونوں جماعتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کو مقدم جانا۔ تکفیریوں کو چند ووٹوں کی خاطر مضبوط کرتے رہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ کالعدم جماعت کا رہنما مولانا احمد لدھیانوی برملا اظہار کرتا رہا کہ دونوں جماعتوں کے درجنوں ایم این اے ان کے ووٹوں کی وجہ سے جیتے۔ سچ تو یہ  ہے کہ پارا چنار کے تین سالہ محاصرے اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ نے تشیع کے اندر احساس محرومی پیدا کر دیا تھا، حتٰی تشیع کے حقوق کے دفاع کے نام پر بننے والی جماعتوں نے بھی خاموشی سادھ لی تھی تو ریاستی اداروں نے یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ وہ ایک خاص پالیسی پر گامزن ہیں، شیعوں کا ووٹ اینٹھنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی کچھ نہ بولنے کی قسم اٹھا لی۔

حالات تیزی سے تبدیل ہونے لگے اور ملت کے مخلص لوگوں کو مل بیٹھنے اور اس ظلم کیخلاف آواز اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ یوں حالات کے ستم نے ملت کے خواص کو مکتب کیخلاف ہونے والی منظم سازشوں سے نمٹنے کیلے اجتماعی رول اور نقش ادا کرنے پر مجبور کر دیا۔ ایسے میں مجلس وحدت مسلمین معرض وجود میں آئی اور ملک بھر میں پھیلے امامینز اور مخلص علمائے کرام نے اپنے ناتواں کندھوں پر ملت کا بوجھ اٹھانے کی ٹھان لی۔ مخلص اور بےلوث افراد نے کرم ایجنسی کے پہاڑوں میں دبی آواز کو نہ صرف پارلیمنٹ اور میڈیا پر اٹھایا بلکہ اس ظلم کو دنیا کے سامنے عیاں کیا، ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ میں کمی آئی تو ملت کے اندر حوصلہ بڑھا۔ کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ برادری پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تو یہ جماعت سینہ تان کر ہر ستم کا مقابلہ کرنے کیلئے آگے آگئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستان میں پہلی بار اہل تشیع نے تاریخ ساز احتجاج کیا اور صوبائی حکومت کو اس ظلم پر خاموشی اختیار کرنے پر سزا دیتے ہوئے چلتا کیا۔ یوں یہ جماعت ملک بھر میں پھیل گئی اور مظلوموں کی ڈھارس بن گئی۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
سانحہ عاشورہ راولپنڈی کے وقت بھی اسی جماعت نے آگے آکر عزاداری سیدالشہداء کے خلاف ہونے والی منظم سازش کا مقابلہ کیا اور عزاداری سیدالشہداء ہماری شہہ رگ حیات کے قائد شہید کے جملوں کو عملی کرکے دکھایا۔ اس کامیابی نے ملت کے اندر حوصلہ پیدا کیا اور خواص اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاسی کردار ادا کئے بغیر ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، یوں مجلس وحدت مسلمین کی شوریٰ عالی نے سیاسی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں سیاسی شعبے نے بہت ہی کم وقت میں اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا اور ملک بھر میں الیکشن مہم کا آغاز کر دیا گیا۔

وہ سیاسی جماعتیں جو کبھی مکتب اہل بیت علیہ السلام کے ماننے والوں کو اہمیت نہیں دیتی تھیں، انہیں احساس ہونا شروع ہوگیا کہ اہل تشیع کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، مسلم لیگ قاف کے سربراہ چودھری شجاعت حسین، اے این پی کے رہنما اور ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے مجلس وحدت مسلمین کی قیادت سے براہ راست رابطے کئے اور ایم ڈبلیو ایم کے دفاتر آکر ملاقاتیں کیں۔ یوں سکوت ٹوٹنے لگا اور سیاسی اتحاد کی باتیں سامنے آنے لگیں۔ 2013ء کے الیکشن میں مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ سے ایک ایم پی اے منتخب کرانے میں کامیاب ہوئی تو کئی جگہوں پر اپنا ووٹ بینک بنانے میں کامیاب ہوئی، یوں اہل تشیع کا بکھرا ہوا ووٹ جمع ہونے لگا، حکومت مخالف تحریک میں نئے اتحاد وجود میں آئے تو پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے عظیم الشان مظاہر دیکھنے کو ملے۔ گلگت بلتستان کے الیکشن میں بھی اس جماعت نے پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا اور اپنے دو نمائندے جتوانے میں کامیاب ہوئی اور گلگت بلتستان میں ووٹوں کے اعتبار سے دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔

یہ بات یاد رہے کہ تحریک انصاف کو موجودہ پوزیشن پر آنے کیلئے بیس سال لگے، سیاسی قد کاٹھ بنانے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے، سیاسی تجربات سے گزرنا پڑتا ہے، میدان میں غلطیاں ہوتی ہیں اور ان غلطیوں کی روشنی میں اپنے سفر کو جاری و ساری رکھنا پڑتا ہے۔ اگر ہم ماضی میں شروع کئے گئے سیاسی سفر کو جاری رکھتے تو یقیناً آج ہمارا ووٹ بینک بن چکا ہوتا ہے اور کئی افراد پارلیمنٹ میں بھی پہنچ چکے ہوتے، سیاسی میدان کو دو دھاری تلوار سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے، آج جب ہم حزب اللہ کی مثال دیتے ہیں تو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ انہیں بھی اس مقام تک پہنچے میں دہائیاں لگی ہیں۔ امید کرتے ہیں ایم ڈبلیو ایم اپنے سیاسی تجربات کی روشنی میں غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھے گی اور ملت کا نام روشن کرے گی۔ وقتی مفاد کے بجائے دائمی مفاد کو مقدم جاننا ہوگا، اپنی توانائیوں کو غیر ضروری کاموں میں صرف کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ الیکشن میں اتحاد بنانے اور براہ راست امیدوار کھڑے کرنے سے قبل اپنی توانائی اور مالی امور کو دیکھ کر پاوں پھیلانا ہوں گے۔ جہاں جہاں یقین ہو کہ تھوڑی محنت سے سیٹ نکل سکتی ہے، وہاں پر اپنی توانائیاں صرف کی جائیں اور جہاں اندازہ ہو کہ امیدوار کامیاب نہیں ہو پائے گا، وہاں جانے سے گریز کرنا ہوگا۔ سیاسی کونسل اور تھینک ٹینکس بنانے کے ساتھ اس کی آراء کی روشنی میں اپنے امور کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے تو ایک دن ضرور پارلیمنٹ میں اپنی نمائندے بھیجنے میں کامیاب ہوں گے۔ مذہبی جماعت ہونے کے ناطے قائد شہید کی نصیحت کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی رنگ کو مذہبی رنگ پر غالب نہ آنے کی پالیسی کو قائم رکھنا بھی بیحد ضروری ہوگا۔
 

تحریر۔۔۔۔این اے بلوچ

وحدت نیوز (آرٹیکل) انسان کی زندگی میں کچھ حادثے ایسے ہوتے ہیں جو انسان کے قلب و احساس پر گہرے نقوش چھوڑ دیتے ہیں۔ انسان چاہے بھی تو اُن کو فراموش نہیں کرسکتا۔ اسی طرح کچھ انسان بھی ایسے ہوتے ہیں کہ جو ساری زندگی دوسرون کے دل و دماغ پر چھائے رہتے ہیں۔ تاریخ ایسی شخصیات اور ایسے حادثوں سے بھری پڑی ہے۔ اگر یہ حادثے تازہ ہوں تو درد و رنج بھی تازہ ہوتا ہے، انہیں تاریخی حادثوں میں سے ایک حادثہ، فاجعہ منٰی ہے، جس نے نہ صرف عالم اسلام کو متاثر کیا بلکہ ہر صاحب شعور چاہے کسی مذہب و مسلک سے اُس کا تعلق ہو اور جو انسانیت کو سب سے بڑا مذہب و مکتب سمجھتا ہو، متاثر ہوا ہے۔ فاجعہ منٰی میں سات ہزار حجاج کرام کہ جن کو مہاجر الی اللہ کہا جاتا ہے، کا شہید ہونا، پوری ملت و اسلام  کے لئے باعث درد و الم بنا اور اس سے پوری ملت اسلام کو بہت بڑا نقصان ہوا چونکہ اس میں کچھ شخصیات ایسی تھیں جو کہ بین المللی تھیں اور جن کی ابھی انسانیت کو بہت ضرورت تھی۔ اُن شخصیات میں سے ایک شخصیت مہاجر الی اللہ، عالم مبارز، استاد بزرگ، خطیب توانا، دوست مخلص، مدافع ولایت فقیہ، مبلغ اعظم، انسان دوست، شہید ڈاکٹر غلام محمد فخر الدین تھے۔

غلام محمد فخرالدین شہید کسی تعارف کے محتاج نہیں، چونکہ وہ ایک ہمہ جانبہ Multi-dimensional personality- تھے۔ علاقائی سیاست ہو یا قومی اور بین الاقوامی سیاست، داخلی ایشوز (issues) ہوں یا خارجی۔ تعلیم و تربیت کے مسائل ہوں یا فرہنگی و اجتماعی ہر میدان میں وہ صف اول میں نظر آتے تھے، شہید کا تعلق پاکستان کے پسماندہ اور دُور افتادہ علاقہ گلگت بلتستان سے تھا۔ شہید اپنے بوڑھے والدین کے اکلوتے بیٹے اور اکلوتا سہارا تھے۔ شہید نے اپنی زندگی کی ابھی 44 بہاریں بھی پوری طرح نہیں دیکھی تھیں۔ اس دار فنا سے دار بقا کی طرف لبیک  ا۔۔۔ لبیک کہتے ہوئے قضائے الٰہی کو لبیک کہہ دیا اور اپنے فیملی پسماندگان کے علاوہ ہزاروں لوگوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہمیں یوں ہی اچانک شہید کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھونا پڑے گا۔
کہاں خبر تھی چمن یوں اُداس ہوجائے
یوں تجھے کھونے کا بے حد ملال باقی ہے

شہید سے بندہ حقیر کی ملاقات ایران کی مقدس سرزمین قم المقدس، جوار حرم حضرت معصومہ (س) میں دفتر مجلس وحدت مسلمین میں چار سال قبل ہوئی تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں مجھے احساس ہوا تھا کہ یہ ایک معمولی عالم نہیں، اُن کی گفتگو، ان کا اخلاق، بات کرتے ہوئے لبوں پر دائماً ایک میٹھا سا تبسم، یہ سب کچھ ایسا تھا کہ میں اُن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے پر مجبور ہوا۔ اُسی وقت میرے ساتھ آقائے شاہد حسین عرفانی جو کہ رشتے میں میرے ماموں لگتے ہیں، اور وہ مسلسل شہید مظلوم  سے بلا جھجک گپ لگا رہے تھے، میں نے فرصت ملتے ہی اُن سے پوچھ لیا کہ یہ آغا صاحب کون ہیں اور کہاں سے ان کا تعلق ہے۔ تو ماموں نے تعجب سے کہا کہ عجیب ہے آپ ان کو نہیں جانتے، مجھے بڑی شرمندگی ہو رہی تھی، میں نے اثبات میں سر ہلا دیا، پھر ماموں شہید سے مخاطب ہوئے اور کہا یہ ہر دلعزیز، عالم مبارز، غلام محمد فخر الدین صاحب ہیں اور اُن کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور پھر میری طرف اشارہ کرکے فرمایا یہ میرا بھانجا ہے عاشق حسین، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کے شاگرد خاص ہیں۔ پھر شہید مجھ سے مخاطب ہوئے اور بڑی اپنائیت سے کچھ سوالات کئے۔ اُن کے ساتھ ایک اور شخص بزرگوار بھی تھے، اُن سے بعد میں تعارف ہوا وہ آقائے حسن باقری صاحب تھے۔ ماموں شاہد حسین عرفانی نے بعد میں بتایا ان دونوں کی جوڑی بہت پکی ہے۔ بڑے صمیمی دوست ہیں بلکہ کہا کہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں، جہاں فخر الدین صاحب ہوں گے، وہاں حسن باقری صاحب اور برعکس آپ کو نظر آئیں گے۔

اس پہلی ملاقات میں ہی قلباً میں اُن کے بہت قریب ہوچکا تھا۔ آہستہ آہستہ شہید سے مختلف جگہوں پر ملاقائیں ہوتیں رہیں، بلکہ ڈاکٹر کرار کے گھر کئی دفعہ اُن سے خصوصی گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ گلگت بلتستان کے مسائل پر ہماری اکثر اوقات گپ شپ ہوتی رہتی تھی، یہاں تک کہ آغا شہید MWM قم کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ دفتر میں اُن سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ شہید نے ایک دن دفتر میں بلایا اور شعبہ رواط و شعبہ سیاسیات کی مسئولیت سنبھالنے کا کہا۔ میں نے صاف الفاظ میں معذرت کی، لیکن شہید نے میری باتیں سُنی ان سنی کر دیں اور مجھے بالآخر اس مسئولیت کو انتخابات کے نتیجے میں قبول کرنا پڑا۔ یوں شہید کے ساتھ مل کر دفتر میں کام کرنے کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ کہ ایک شب شہید نے موجودہ قائم مقام سیکرٹری جنرل گلزار جعفری صاحب، مجھے اور کچھ اور دوستوں کو بلایا، کافی گپ شپ ہوئی۔ اپنی ساری ذمہ داریاں گلزار جعفری صاحب کو سونپی، دفتری کاموں کو بطریق احسن انجام دینے کی نصیحت کی اور کہا کہ وہ کافی لمبے عرصے کے لئے عازم پاکستان ہیں۔ جب میں نے اُن سے پوچھا آغا آپ دوبارہ کب تشریف لائیں گے، تو مسکرا کر فرمایا، آگے کا کچھ پتہ نہیں، انشاءاللہ اگر زندگی رہی تو دوبارہ ملاقات ہوگی۔ بہرحال شہید کو رات کے تقریباً ایک بجے ہم نے خدا حافظ کہہ دیا۔ میں نے اُن سے کہا آقا اگر اجازت ہو تو میں آپ کو موٹر سائیکل پر گھر چھوڑ دوں، کافی دیر ہوچکی ہے تو آقا نے فرمایا نہیں مختار مطہری صاحب مجھے گھر ڈراپ کریں گے، آپ چلے جائیں۔ مختار مطہری آفس سیکرٹری تھے۔ آغا شہید اُن سے بے حد پیار کرتے تھے۔ حتی آخری دنوں میں بھی  whatsupp پر سعودیہ سے مختار مطہری صاحب سے رابطے میں تھے۔ میں خدا حافظ کرکے گھر آیا، لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ شہید آغا سے میری آخری ملاقات ہوگی اور یوں پردیس میں جاکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہ واپس نہیں آئیں گے۔

معصوم (ع) سے روایت ہے "و اذا مات العالم ثُلم فی الاسلام ثلمۃ لا یسدُّھا شئی الی یوم القیامۃ" معصوم (ع) فرماتے ہیں، جب کوئی عالم اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو اسلام میں ایک ایسی دراڑ پڑ جاتی ہے، ایسا خلا واقع ہوتا ہے کہ قیامت تک اُس خلا کو کوئی چیز پُر نہیں کرسکتی۔ شہید ڈاکٹر فخرالدین اس حدیث کے کماحقہ مصداق تھے۔ شہید اخلاق میں، شجاعت میں، خلوص میں، پرہیزگاری میں، اُنس و محبت میں، عمل میں، کوشش و تلاش میں، سیاست میں صداقت میں، امانت میں، سخاوت میں، تعلم و تربیت میں، قومی مسائل میں، عقاید میں، تزکیہ نفس، کوئی بھی مشکل اور ایشو ہو سب سے آگے نظر آتے تھے۔ سانحہ راولپنڈی ہو یا سانحہ کوہستان، سانحہ راولپنڈی ہو یا سانحہ تفتان، سوریہ کی جنگ ہو یا عراق و یمن، مسئلہ نصاب ہو، سانحہ 1988ء، مشکل کی ہر گھڑی میں ظلم و استبداد کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا ضروری سمجھتے تھے اور عملاً ہر میدان میں موجود ہوتے تھے، وہ اپنی سیاسی بصیرت اور شجاعت میں منفرد تھے۔
تو منفرد تھا شجاعت میں شرافت میں
ہر ایک زبان پر تیری مثال باقی ہے
اُن کی شخصیت میں اعتدال تھا، اگرچہ وہ کام مجلس وحدت مسلمین میں کرتے تھے، لیکن کبھی بھی اپنی زبان سے، اپنے عمل و اخلاق سے کسی اور کو اذیت نہیں کی یہی وجہ ہے کہ آج ہر پارٹی سے تعلق رکھنے والے مذہبی اور سیاسی لوگ اس غم میں برابر کے شریک ہیں، وہ عملاً ہر چیز سے بالاتر ہوکر اخوت، محبت اور بھائی چارے کے قائل تھے۔

نہج البلاغہ اور قرآن سے اُنہیں ایک منفرد لگاؤ تھا۔ مجتمع عالی امام خمینی میں باقاعدہ نہج البلاغہ کی تدریس کرتے تھے۔ امام علی (ع) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں "خالطوا الناس مخالطۃ اِن متّم معھا بکوا علیکم و ان عشتم ھَنو الیکم" امام فرماتے ہیں کہ لوگوں کے بیچ اس طرح سے زندگی گزارو، اگر مرجاؤ تو لوگ تم پر گریہ کریں اور اگر زندہ رہو تو لوگ آپ کی زیارت کے مشتاق ہوں۔ شہید منٰی امام (ع) کے اس قول کے واقعاً مصداق تھے۔ اُن کی شہادت کے بعد آج ہزاروں لوگ اُن پر گریہ کرتے ہیں، اُن کے لئے کف افسوس ملتے ہیں اور جب تک وہ زندہ تھے مجھ جیسے حقیر، اُن کی زیارت کے مشتاق رہتے تھے، وہ ہمیشہ دفتر میں کہتے تھے کہ جو بھی بات کرنے ہی اخلاق کے دائرے میں رہ کر کریں، تاکہ آپ کے عمل اور زبان سے کسی کو اذیت نہ ہو۔ دفتر میں اُن کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا، سیاسی فرہنگی اور دوسرے قومی مسائل پر اُن سے گفتگو کرنا ہمیشہ ہماری آرزو ہوا کرتی تھی۔ اُن کے ساتھ بیٹھنا ہم اپنے لئے باعث شرف اور افتخار سمجھتے تھے۔ جیسا کہ معصوم فرماتے ہیں مجالسہ اہل الدین شرف الدنیا و الآخرہ (کافی، ج۱، ص ۳۸) اہل دین (علماء) کے ساتھ معاشرت دنیا اور آخرت دونوں میں باعث شرف و افتخار ہے، شہید بہ عنوان ایک عالم دین ایسے ہی تھے کہ ہم اُن کے ساتھ بیٹھنا اپنے لئے باعث افتخار اور شرف سمجھتے تھے۔

شہید کی شہادت سے نہ صرف اُن کے بچے اپنے شفیق باپ سے محروم ہوئے، والدین نہ صرف اپنے اکلوتے بیٹے کو کھو چکے ہیں، طلباء نہ صرف اپنے مخلص اُستاد کو کھو چکے ہیں بلکہ پورے مکتب تشیع کو بڑا نقصان ہوا ہے، خاص طور پر مجلس وحدت مسلمین کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے، چونکہ وہ وحدت مسلمین کے اثاثی ستونوں میں سے ایک تھے۔ اس طرح سرزمین بے آئین 68 سالوں  سے اپنے سیاسی، آئینی اور انسانی حقوق سے محروم، گلگت بلتستان کی عوام کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے، چونکہ مجھ جیسے کئی لوگ اُن کو گلگت بلتستان کا آئندہ اور مستقبل سمجھتے تھے اور میرے سمیت کئی مجھ جیسوں کو اُن سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔
چلا گیا ہے تو محفل سے اے اُمید شمال
ابھی قوم کی تقدیر کا سوال باقی ہے
اُن کی شہادت سے گلگت بلتستان اپنے ایک عظیم فرزند اور قائد سے محروم ہو گیا ہے۔
درد میں ڈوبا ہے گلشن تمہاری فرقت میں
تیرے افکار کا جاہ و جلال باقی ہے
تو جو پردیس میں جاکر نہیں آیا واپس
زبان گنگ ہے تیرا خیال باقی ہے

شہید جس طرح سے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں منفرد تھے، جس طرح سے شجاعت و سخاوت و عبادت، اخلاص و عمل اور اخلاق میں دوسروں سے الگ تھے، شہادت میں بھی دوسروں سے منفرد رہے، مہاجر الی اللہ کا شرف حاصل کیا اور قرآن کی اس آیت کا حقیقی مصداق ٹھہرے: "ومن یخرج من بیتہ مہاجراً الی اللہ و رسول، ثم یدرکہ الموت فقد وقع أجرہ علی اللہ و کان اللہ غفوراً رحیما" (سورہ نساء، آیت ۱۰۱) اور جو شخص خدا کی راہ میں گھر بار چھوڑ جاتے ہیں، وہ زمین میں بہت سی جگہ اور گشائش پائے گا اور جو شخص خدا اور رسولؐ کی طرف ہجرت کرکے گھر سے نکل جائے، پھر اُس کو موت آپکڑے تو اُس کا ثواب خدا کے ذمے ہوچکا اور خدا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ ایک عالم دین، عالم مجاہد اور مبارز ہونے کے ناطے وہ کبھی ایک جگہ نہیں رکتے تھے، ہمیشہ مسلسل سفر میں ہوتے تھے اور اکثر تبلیغ دین کے سلسلے میں ہمیشہ سفر پر ہوتے تھے۔ قم سے چار پانچ ماہ پہلے تبلیغ کے لئے پاکستان گئے تھے۔ اُن کے بچے قم میں تھے اور ابھی بھی یہی پر ہیں، ان چار پانچ مہینوں میں اُن کو ایران آنے کی فرصت ہی نہیں ملی، تبلیغ میں موفق اور کامیاب تھے اور اس کی وجہ اُن کی بصیرت اور اخلاق تھا۔ اُن کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی کشش تھی، وہ جو بات کرتے تھے، وہ دل میں اُتر جاتی تھی چونکہ وہ عالم باعمل تھے اور کوئی بھی جب اُن سے ملتا تھا متاثر ضرور ہوتا تھا۔
جہاں جہاں سے تو گزرا تھا ہر طرف پھیلا
تیرے کردار کا حسن و جمال باقی ہے

لیکن افسوس آل یزید (لعن) نے اس مرد حر اور مرد مجاہد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا کر دیا۔ خدا اس خبیث نسل (آل یزید) کو دنیا اور آخرت میں ذلیل و رسوا کرے، اُن کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچا دے، شہید کے درجات کو بلند فرمائے اور شہید کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ شہید راہ حق تمہاری عظمتوں کو سلام
آل یزید (لعن) کا ابھی زوال باقی ہے
بہت سارے دوستوں نے شہید کے بارے میں  تفصیلاً لکھا، لیکن چند اشعار جو میں نے شہید کے بارے میں لکھے ہیں، آپ کے حضور عرض کرتا ہوں، شاید آپ کو بھی ایک آدھا ٹوٹا پھوٹا شعر اِن اشعار میں سے پسند آجائے اور مجھے دعا دیں، یہ اشعار شہید کے بارے میں میرے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
میرے عظیم برادر میرا سلام تجھ پر
فخر دین قوم کے یاور میرا سلام تجھ پر
تیرے بچھڑنے کا انداز کچھ الگ ہی رہا
اے عزم و صبر کے پیکر میرا سلام تجھ پر
قوم و ملت کو تمہاری بہت ضرورت تھی
اے حوصلوں کے سمندر میرا سلام تجھ پر
بہت امیدیں تھیں وابستہ تم سے اے بھائی
تو تھا ارمانوں کا محور میرا سلام تجھ پر
تمہاری جرأت و ہمت تمہارا حسن سلوک
محبتوں کے پیمبر میرا سلام تجھ پر
کسے خبر تھی کہ ایک پل میں سب ختم ہوگا
نہیں ہوتا ہمیں باور میرا سلام تجھ پر
تیرے بغیر گلستان میں گھپ اندھیرا ہے
کہاں سے لائیں تجھے گھر میرا سلام تجھ پر

 

تحریر۔۔۔۔عاشق حسین آئی آر

 

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree