وحدت نیوز (آرٹیکل) خداوند متعال کا ارشاد پاک ہے: قل انمااعظکم بواحدۃ ان تکون للہ مثنیٰ و فرادیٰ
خداوند تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہمارا قیام اللہ کے لئے ہونا چاہئے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمام انبیاء اور اولیاء کا قیام اللہ کے لئے تھا اور یہی چیز مکتب تشیع میں مبارزہ اور جدوجہد کی اساس اور بنیاد کو تشکیل دیتی ہے۔مقصد کے حصول کے لئے نیت اور عمل میں خلوص اور پاکیزگی کے ساتھ بصیرت کا ہونا بھی بہت ضروری ہے تا کہ حق اور باطل کے درمیان فرق واضح کیا جا سکے۔آج اگر ہمارے معاشرے اور سوسائٹی اسی طرح ہمارے ممالک غیروں کے اختیار میں چلے گئے ہیں، ہمارا استقلال ختم ہو چکا ہے،ہماری سالمیت نہیں رہی، آزادی ختم ہوئی ہے، عالمی طاقتوں کا نفوذ بڑھ چکا ہے اور ہمیں اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اس کی بنیادی وجہ ہماری جدوجہد میں خلوص کا نہ ہونااور بصیرت کا فقدان ہے۔اس کے لئے ہمیں اپنی تربیت پر توجہ دینے کے ساتھ اپنی مبارزاتی تاریخ کا مطالعہ بھی ضروری ہےکہ ہم نے کہاں سے سفر کا آغاز کیا او ر اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔ حکومت کی باگ ڈور طول تاریخ میں اکثر مکتب خلافت کے ہاتھ میں رہی۔ جتنی بھی فتوحات جہان اسلام میں ہوئیں تقریباًساری کی ساری مکتب خلافت کے دور میں ہوئیںاور مسلمان ایک بہت بڑی طاقت میں تھے ۔مکتب امامت کا نقش اور رول اپوزیشن کا تھا جو کہ مکتب امامت کے لئے نہایت مشکل دور تھا۔ہمیں اس مسئلے کوایک حدتک بیان کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے مسلمانوں کی طاقت، اسلام دشمنوں کے مقابلے میں کمزور ہوجائے یا ختم ہوجائے۔یہی چیز مکتب امامت کی روح کو تشکیل دیتی ہے جس کا صحیح معنوں میں ادراک کر کے عملی جامہ پہنانا بہت مشکل کام ہے۔مکتب تشیع کے اجتماعی مبارزات کی بنیاد سیدہ کونین سلام اللہ علیہانے رکھی ہے۔
اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مکتب امامت میں خیانت نام کی کسی چیز کا وجود ہی نہیں ہے اسی لئے پوری تاریخ اٹھا کر دیکھیںہم نے کبھی مسلمانوں کے ساتھ خیانت نہیں کی باوجود اس کے کہ ہمیں بے دردی سے مارا گیا، ہمارے گھروںکولوٹا گیا،ہمیں دیواروں میں زندہ چنوا دیاگیا، زندان کی تاریک کوٹھڑیوں میںبند رکھا گیا اور وہی سے ہمارے جنازے نکلے، تاریخی ہجرت اور جلاوطنی اختیار کرنا پڑی ۔کون سا ظلم اور تشدد تھا جو مسلمان حکمرانوں نے ہم پر روا نہیں رکھاہو۔اس کے باوجود کہیں بھی ہماری طرف سے خیانت نظرنہیں آئی ۔ دشمن کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کی طاقت ٹوٹ جائے اور مسلمان دشمن قوتوں کے مقابلے میں کمزور اور ضعیف رہیں لیکن مکتب امامت نے بصیرت کے ساتھ دشمن کی اس سازش کو ناکام بنایا ہے۔ تاریخ کو اگر خلاصہ کے طور پر پیش کریں تو یہی چیز آپ کو نظر آئے گی جس میں مظلومیت کی داستان بھی ہے ،استقامت بھی ہے،صبر بھی ہے،برداشت اور بردباری بھی ہے،تمام کے تمام اعلیٰ ترین قدریں اور فضیلتیں مکتب امامت کے پروانوں میں نظرآتی ہیں۔ہماری تاریخ مشکل اور کٹھن ادوارسے گزر کریہاں تک پہنچی ہے۔
اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ جنرل ضیاالحق کے زمانے سے ریاست نے ہمیں کچلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، لیکن ہم نے کبھی بھی ریاستی دشمنوںکے تحفظات نہیں منوائے،کسی پاکستان دشمن قوت کے ساتھ اپنے رشتے استوار نہیں کیے ۔یہ ہماری تاریخ ہے ہم نےکبھی فوج کونہیں مارا ،پولیس کو نہیں مارا، ریاست کو کمزور نہیں کیا ۔ریاست کوانہی لوگوں نےکمزورکیا جن کو ریاست نے پالا تھا۔پوری تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو خیانت دوسروں کی طرف سے نظر آئے گی ہماری طرف سے نہیں۔مسلمانوں کی سرحدیں یورپ کے قلب تک جا پہنچی تھیں چنانچہ آپ دیکھتے ہیں تقریباً1492ءمیںا سپین مسلمانو ں کے ہاتھوںسے نکل گیا۔بہانااور عذرپیش کیا گیا تھاکہ اسپین اسلام کے مرکز سے بہت دور تھاجس کی وجہ سے ہم اپنا دفاع نہیں کرسکتے تھے لہٰذااسپین سے ہاتھ دھونا پڑا۔تقریباً400یا 600 سال عثمانی خلافت رہی جس میں مسلمان ایک بڑی طاقت بن کر دنیا کے نقشے میں ظاہر ہوئے تھے۔اسلام دشمن قوتوں نے اس کوبھی توڑنا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں خانہ کعبہ ہاتھ سے نکل گیا۔عالمی اور استعماری قوتیں برطانیہ ،اسپین ،فرانس،جرمنی اور دیگر ممالک بھی اس مہم میں ساتھ شامل ہوگئے۔چھینتے چھینتےنوبت یہاں تک پہنچی کہ 1967میںمسلمانوں کو فلسطین سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔وہ فلسطین جو مسلمانوں کا قلب شمار ہوتا تھا، جس میں قبلہ اول تھا۔ مسلمانوں کے پاس اس کے بارے میں کیا بہانااور عزر ہے کہ فلسطین کیوں چھینا گیا؟فلسطین کا چھینا جانا اس بات کی دلیل تھی کی مسلمانوں کی طاقت صفر ہوگئی ہے۔قبلہ اول چھیننے سے پہلے عالمی استعماری قوتوں نے عثمانی خلافت سے مکہ اور مدینہ چھینا یوں 1967ءمیں مسلمانوں کے اقتدار اور قدرت کا سورج غروب ہوگیا اور مسلمانوں کی طاقت ختم ہو گئی۔
1979ءمیں شیعہ مرجعیت کے ہاتھوں انہی قوتوں کے خلاف جنہوں نے مسلمانوں سےان کی طاقت چھینی تھی ایران میںانقلاب آتا ہے۔ یہ انقلاب در حقیقت اسلام کو اس کا کھویا ہوا وقار اور تشخص لوٹانے کے لئے تھا۔ لہٰذا یران میں شیعہ مرجعیت انہی قوتوں کے خلاف انقلاب لاتی ہے جنہوں نے مسلمانوں کی طاقت چھین کر انہیں ذلیل و رسوا کردیاتھا۔ ایک مرجع اور ایک فقیہ اسرائیل کے سفارت خانے کو بند کرتا ہے اور وہاںپرفلسطین کا سفارت خانہ کھول دیتا ہے جنہوں نے قبلہ اول چھینا تھا ۔غاصبوں کا سفارت خانہ بند کر کے مظلوموں کا سفاتخانہ کھول دیتا ہے۔مسلمانوں کے دوبارہ طاقتور بنانے کی تحریک کا پرچم ان کے ہاتھ میں آتا ہے جنہیں 1400سال کچلاگیا،ان کو مارنے والے باہر سے نہیں آتے تھے بلکہ اندرسے پیدا کئے جاتے تھے۔حجاج ابن یوسف کوئی عیسائی یا یہودی نہیں تھا اس کی ظلم بھری داستانیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
ہم تاریخ میں ہمیشہ دین، مکتب ، مظلوموںاور مسلمانوں کے وفادار رہے ہیں ۔اسلامی انقلاب ایران کے بعد مسلمانوں کو طاقتوربنانے کی نشات ثانیہ شروع ہوئی۔نئے سرے سے مسلمانوں کو طاقتور بنانا ہے اور ان قوتوں سےطاقت چھین لینی ہےجنہوں نے مسلمانوں سے طاقت کو چھیناتھا۔اس وقت مسلمانوں کوطاقتوربنانے کی تحریک کاپرچم شیعہ مرجیعت اور فقہاء کے ہاتھ میں ہے۔ پوری دنیا کی مقتدر قوتیں جنہوں نے مسلمانوں کی طاقت توڑنے میں نقش اور رول پلے کیا تھا مل کر مقابلہ کرتی ہیںکہ کسی طرح اس آواز کو کچل دیا جائے۔ لہٰذا ہر طرف سے حملہ آور ہوتیں ہیں۔ 8سال جنگ مسلط کی جاتی ہے ۔جہاںکہیں سےبھی اس تحریک کا آغاز ہوتا ہے اسے وہی پر کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔بندے مارے جاتے ہیں،72،72شہید کئے جاتے ہیں، وزیر اعظم ، صدر اور وزراء بم دھماکے میں مارے جاتے ہیں،شخصیات کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔خودکش حملے شروع کئے جاتے ہیں، اندر سے بغاوتیں شروع کرائیں جاتیں ہیں، بیرونی حملے شروع کروا دیئے جاتے ہیں، عالمی سطح پہ پابندیا ں لگا دیں جاتیں ہیں، پوری دنیا روس ،آمریکہ اور دیگر استعماری طاقتیں مل کر مقابلے میں آجاتیں ہیں کہ کسی طرح سے اس تحریک اور اس سے مربوط افرادکچل دئے جائیںاور اس آواز کو دبا دیا جائے ۔یہ وہ تحریک تھی جس کا ہمارے پاس 1400سال کا تجربہ تھا۔ہمارے پاس 1400سال کا شعور اور بصیرت تھی، ہمارے پاس 1400سال کی عقلانیت تھی ۔ جب ہم نے اس مومنٹ کا آغاز کیا، اندرونی طور پر شیعہ سنی اختلاف شروع کرائے۔ہم بلا تفریق شیعہ و سنی،مسلمانوں کوطاقتور بنانا چاہتے ہیں۔ابتداء سے سامراج کی یہ پالیسی رہی ہے کہ جنہیںہم طاقتوربنانا چاہتے ہیں انہی کو ہمارے مقابلے میں کھڑا کیا جائے۔اس طرح ہماری تکفیر شروع ہوئی۔کفر کے فتوے شروع کروائے گئے۔یہ کام انہی قوتوںنےکیا جنہوں نے مسلمانوں سےان کی طاقت اور قدرت چھینی تھی۔اب ہم دوبارہ مسلمانو ں سے کھوئی ہوئی قوت چھین کر مسلمانوں کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔لہٰذااندرونی وبیرونی مختلف قسم کےحملے شروع ہوئے۔دنیا کی سپر طاقتیں صدام کو سپر بنا کر میدان میں اتریں تھیں آٹھ سال تک ان سے جنگ لڑنا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ہم نے اس راہ میں لاکھوں شہید اور زخمی دئے۔جب لاکھوںکی تعداد میں شہید اور زخمی ہیں تواس کا مطلب ہے لاکھوں گھراس راستے میں قربان اورفدا ہوئے ہیں ۔اس جنگ کو وطن عزیزپاکستا ن میںبھی لایا گیا اور ہمیں یہاں بھی خون دینا پڑا اور اب تک دیتے آرہے ہیں۔ ہم نےیہاں بھی استقامت دیکھائی اور مقاومت کی۔ شیعو ں کے اندر بھی اختلاف اور مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ اندر سے انہیں تقسیم کر دیا جائے،ہم آپس میں الجھ جائیںاور شیعوں کے اندر سے ایسی گفتگوئیں کرائیں جائیں کہ جس کی وجہ سے انہیںکافر کہنا اور لوگوں کو دھوکہ دینا آسان ہوجائے۔اس مقصد کے لئے منبر کا سہارا لیا گیا اورایسے لوگ ہمارے اندرپروان چڑھائے گئےتاکہ انہیںاپنے مزموم عزائم پرآسانی سے کامیاب ہونے کا موقع فراہم ہو سکے۔
خمینی ؒبت شکن کی بصیرت، استقامت ، ارادے کی مظبوطی ، صبر اور حوصلے کو سلام کہنا چاہیے۔عالمی قوتوں کے مقابلے میں اٹھا اوران کا دبائو برداشت کرتا رہا۔لوگ اس کے ساتھ کھڑے رہے۔میں نہیں کہتا سارے ایرانی کھڑے ہوئے بلکہ جو مخلصین تھے وہ کھڑے ہوئے۔ایران عراق جنگ میں شہید ہونے والے ایرانیوںمیں 72فیصد کی عمریں 14سے 24 سال کے درمیان ہیں ۔بالکل نوجوان بچے سا تھ کھڑے ہوئے۔ رہبر انقلاب جب ایران کے صدر بنےتو ان کی عمر 41سال تھی اورجب امام خمینی ؒ کے ساتھ ملے تو اس وقت نوجوان لڑکے تھے۔ روایت ہے کہ ایک صحابی بصرہ میں امام ؑ کے پاس گیااور گفتگو سے پتہ چلتا ہےکہ امام ؑ کا مبلغ بھی ہے۔امام ؑ نے اس سے پوچھا کہ بصرہ کے لوگوں کا ہماری امامت اور ہمارے بارے میں کیا تجزیہ ہے؟کتنی تبلیغ کررہے ہو؟کیا صورت حال ہے؟صحابی سے جواب دریافت کرنے کے بعدامام ؑ نے فرمایا کہ بوڑھوںکو چھوڑ دو اور جوانوں کی طرف توجہ کروکیونکہ جوان ہر نیک کام کی طر ف تیزی سے بڑھتے ہیں۔سب سے پہلے امام رضوان اللہ تعالیٰ کے ساتھ لبنان کھڑا ہوا؟ پاکستان کی سرزمین پرشہید عارف حسین الحسینی نے اس تحریک کا پرچم اپنے ہاتھ میں لیا۔شروع شروع میں ہم لبنانیوں سے طاقتور تھے۔لبنانی اس وقت بہت کمزورتھے۔لبنان کے شیعہ نےتسلسل رکھا آہستہ آہستہ اتنے طاقتور ہو گئےکہ وہ اسرائیل جوپوری دنیا میںشر شیطان کا مرکز اور محور تھااس کے آگے بند باندھ دیا،اسکی فتوحات کا راستہ روک دیا۔وہ اسرائیل جوخانہ کعبہ اور قبلہ اول پر قبضہ کرنے کے بعدمسلمان ممالک اور ان کی علامتوں اور زمینوںپر قبضہ کرنے کےلیےآگے بڑھنا چاہتا تھااوربڑھ رہا تھا۔اس کے ناقابل شکست ہونے کا طلسم ہم نے توڑا۔فلسطین کے اندریاسر عرفات کی جو مومنٹ نیشنلزم کی بنیاد پرتھی جو نہیںچل پا رہی تھی اور اسرائیل کا مقابلہ نہیںکر سکتی تھی ۔اس کے نام پر جہا داسلامی اور حماس بنیں۔ہم نے ان کی مدد کی اور ہم سے انہیں حوصلہ ملا۔اگر ہم 35روزہ جنگ میں اسرائیل کو شکست نہ دیتےتو غزہ کےفلسطینیوں کو حوصلہ نہ ملتا کہ اسرائیل کو شکست بھی دی جاسکتی ہے۔یہ مسلمانوں کو دوبارہ طاقتور بنانے کی تحریک تھی۔فلسطین میں شیعہ نہیں ہیں اہلسنت ہیں۔ہم مخلص ہیںمسلمانوں کے لیےہمارا دل دھڑکتا ہے۔ ہمارے سامنے بڑے بڑے چلینجز کھڑے کیےگئے،ہمیںدہشتگردی میں الجھایا گیا اور تقسیم کرنے کوشش کی گئی۔ جب ہم نے ان قوتوں سے مسلمانوں کے اقتدارکوچھیننا شروع کیا جو غاصب تھیں اورجنہوں نے مسلمانوں کو کمزورکیا تھا ہمارے خلاف سازشیںشروع کرائی گئی۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ ہمیشہ فرنٹ لائن پر رہے ہیں۔ساتھ ہی شیعہ سنی اتحاد کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔اگر شیعہ سنی متحد ہوجائے،اسلام دشمن قوتوں سے اپنا کھویا ہوا وقار اور اقتدارچھینا جا سکتا ہے۔دشمن طاقتوں نےوحدت کے مقابلے میں تفرقہ اور تکفیر شروع کی اور جب تفرقہ اور تکفیرکارگاہ ثابت نہ ہوئی تو پھر دہشتگردی شروع کروائی ۔پوری دنیا میں القاعدہ بنا دی گئی، طالبان ،داعش،لشکر جھنگوی اور سپا ہ صحابہ اور۔۔۔ بنایا گیا۔اسلام دشمن طاقتوں نے ہمارے خلاف اتنی وسیع سرمایہ گزاری کی۔ہمارے اندر سے خائن تلاش کیے اوران کو مسلح کیا اور ہمارے سامنے لاکے کھڑا کیا۔مکتب تشیع گزشتہ 1400سال کی تاریخ میں اس وقت تاریخ کے بہترین دورسے گزر رہا ہے۔یہ دور مشکل ہےلیکن بہترین بھی ہے۔ ہم نہ ہوتے تو اس وقت جہان اسلام پر اسرائیل اور امریکہ کا قبضہ ہوتا۔قبلہ اول کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ اور مدینہ بھی یہودیوں کے ہاتھ میں ہوتا۔یہ تحریک چل رہی ہےجس کا ہم حصہ ہیں، جس میں تشیع آگے ہے ۔یمن میں تکفیریت اور دہشتگردوںکے مقابلے میں کون کھڑا ہے؟یمن میں ہم اس تحریک کو لیڈ کر رہیں ہیں۔عراق کے اندر داعش اسی لیے لائی گئ ہے تاکہ ہماری طاقت کوتوڑا جائے۔ ہماری اس جدوجہد کےنتیجہ میں رزسٹنس کاجو بلاک وجود میں آیا ہے جس میںایران ،شام ، لبنان اور بعض دیگر ممالک ہیںاس میںشام کو اسی لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ نہیں تھا۔90ملکوں کے دہشتگردبشارالاسد کے ہاتھوں شکست کھا گئے ۔انہوں نے لبنان میں مار کھائی، عراق میںبھی مار کھا رہے ہیں۔ یہ لوگ عراق میں داعش کو لے کے آئے لیکن الحمداللہ آج داعش کے غبارے سےدن بدن ہوا نکل رہی ہے ۔ ان کوایسی مار پڑ رہی ہےکہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔انہوں نے تکفیریت کوہمارے مقابلے میں تیا ر کیا تھا لیکن خداوند متعال نے ایک قانون بنایا ہے کہ جوکسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے۔یہ تکفیریت اب ان کے گلے میں پڑی ہوئی ہے۔یہ تکفیریت کے گڑھے میں خود گریں گے۔ یہ اللہ کا قانون ہے ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ لوگ اس میں نہ گریں۔آپ دیکھیںگے سعودی عرب تکفیریت کے اس گڑھے میںگرے گا،اردن گرے گااور جو بھی اس کے حامی ہیں وہ سب اس میں گریں گے۔پاکستانی تکفیریت ہمارےخلاف تیا ر کی گئ تھی جنہوں نے اسے تیا ر کی تھی اب انہی کے گلے پڑی ہوئی ہے۔اب وہ تکفیریت، داعش اور القاعدہ کی صورت میں سعودی عرب کے گلے پڑی ہوئی ہے،اردن کے گلے پڑی ہوئی ہے۔انشاءاللہ ان سب کے گلے پڑے گی جن کا کسی طرح اس کے بنانے میں ہاتھ تھا۔انہوں نے داعش کا گڑھا ہمارے لیے کھودا تھا انشاءاللہ وہ خود اس میں گریں گے۔ہم تو مردوں کی طرح مقابلہ کرلیں گے۔ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا، عراق میں وحدت پیدا ہوئی، پولیٹیکل یونٹی پیدا ہوئی۔ وہ کام جو صدام کے بعد انہیں کرنے چاہیے تھے،نہیں کیئےاب انہوں نے کر لیئے۔تمام صدام کے حامیوںکوفوج سے نکالا،سکیورٹی ایجنسی سے نکالا،انہیں جیلوں میں ڈالا،انہیں گرفتا ر کیا۔وہاں پرعوامی فوج تیا ر کی گئی جیسے ایران میں انقلاب کے بعد تیار کی گئی تھی جس نے صدام کا مقابلہ کیا تھا۔آج وہاں پر جیش شعبی کے نام سے عوامی فوج تیار ہے جو دہشتگردوںسے لڑنے اوروطن کا دفاع کرنے کے لئے ہے۔ یہ فوج شام تک جاچکی ہے۔ دولاکھ کے قریب شام میںعوامی فوج تیار ہوئی ہے۔یہ رزسٹنس کی بنا پر گزشتہ 35سالوں میں ثابت کیا ہے۔جس مشکل میں بھی ڈالا گیا ہے جب اس مشکل سے باہر نکلاتوطاقتور ہو کر نکلا ہے۔ ایران 8سال حالت جنگ میں رہا لیکن 8سال جنگ کے بعد ایران اب اتنا طاقتور ہوگیا ہےکہ اس پر کوئی حملہ نہیں کرسکتا۔حزب اللہ کواسرائیل کے ساتھ لڑنا پڑا ۔اس مشکل سے اتنی طاقتور ہو کر باہر نکلی کہ آج اسرائیل میںجرأت نہیں ہے کہ وہ اس پر حملہ کرے۔شام بھی ایسے ہی بنتا چلا جارہا ہے۔عراق اور یمن میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ آج الحمداللہ یمن کے شیعہ اتنے طاقتور ہیںاگر چاہیں تو ایک ہفتہ میں سعودی عرب کی نجدیت کی حکومت گرا سکتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کہہ رہے تھے کہ یمن کے شیعہ اتنے زبردست ہیں ان کا ایک مجاہد حزب اللہ کے چھ مجاہدوں کے برابر ہے۔اس وقت پوری دنیا میں القاعدہ اور تکفیری عناصر اور ان کے حامیوں سے عملی میدان میںہم مقابلہ کر رہے ہیں۔یہ ہمارے لئےایک سنہری دور ہے جس میں ہمارا ایک مؤثر سیاسی کردار ہے۔ہم نے ہر حال میں مسلمانوں کو طاقتور بنانا ہے۔امریکہ نےپاکستان، لبیا اور مصر کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیاہے؟ ان تکفیریوں کے ذریعےان ممالک کو کھوکھلا کرکے رکھ دیاہے ۔رزسٹنس بلاک کی وجہ سے دنیا بدل رہی ہے،امریکہ اب پہلے والا امریکہ نہیں رہا۔کسی بھی ملک کے طاقت کے چار ستون ہوتے ہیں۔اس ملک کی طاقت کے لئےیہ چار ستون بہت اہم ہوتےہیں ۔ ایک عسکری طاقت، دوسری معاشی طاقت، تیسرا اقوام عالم میں نفوز جتنا زیادہ ہوتا ہے اتنا طاقتور ہوتا ہےاور چوتھااس کے اپنے سسٹم کے اوپر عوام کا اعتماد۔یہ چار اہم ستون ہوتے ہیںکسی بھی ملک کی طاقت کے۔امریکہ کی اب پہلے والی طاقت نہیں رہی۔کوئی اس سے ڈرتا ہی نہیںہے، کسی کو اس سےپرواہ ہی نہیں ہے ۔امریکہ کہتا ہے کہ میں 60 ملکوں کا نائب بن کر عراق میں داعش کے خلاف آیاہوں لیکن نہ تو کوئی امریکہ سے ڈر رہا ہے اور نہ ہی اب اس کی فوجی طاقت کا روپ اور دبدبہ رہا۔معاشی طاقت میں امریکہ دنیا کا مقروض ترین ملک ہے وہاں پر باقاعدہ معاشی مشکلات بہت حد تک و سیع پیمانے پر چلی گئیں ہیں۔اقوام عالم میں کھوکھلا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس وقت امریکہ دنیا کے اقوام کے اندر منفور ترین ملک ہے۔ اگر لوگوں کاان کے اپنے سسٹم پراعتماد ہوتاتو وہاں لوگ سڑکوںپر مظاہرہ کرتے نظر نہیںآتے ۔امریکی لوگوں کااپنے سسٹم پر اعتماد ختم ہوگیاہے۔ وہاں آئے دن نژاد پرستی کی بنیاد پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے۔ جو حشر روس کا ہوا وہی یورپ اور امریکہ کا بھی ہوگا۔کیا ممکن ہے کہ یہ لوگ دنیا کےمختلف ممالک میںظلم کریں گے، قتل وغارت گری کروائیں گے،خیانتیں کروائیں گے،انہیں پریشان کریں گے،ان کو لوٹیں گے اورپھر ان کو دنیا میں سزا نہیں ملے گی۔ اگر روس ٹوٹ سکتا ہے تو امریکہ کیوں نہیں ٹوٹ سکتا؟یورپ کیوں نہیں ٹوٹ سکتا؟۔نئی طاقتیں دنیا میں ابھر رہیں ہیں ۔ رزسٹنس کابلاک جوایران ،عراق،شام، لبنان اورفلسطین تک پھیلا ہوا تھااس کا دائرہ مزید وسیع اور طاقتور ہوگا۔ اس بلاک کو طاقتور ہم نے بنایا ہے۔ فلیسطینوں کی اسرائیل سے 50یا 55روزہ لڑائی ہوئی ہے،غزہ چاروں طرف سے محاصرے میں ہے ۔غزہ میں موجود فلسطنیوں کووسائل کس نے فراہم کئے؟ انہیں کس نے لڑنا سکھایا ؟کوئی دنیا کا عرب اسلامی ملک اسرائیل سے لڑنے کے لئے انہیں دو گولیاںتک نہیں دے سکتا۔ہم نے انہیں سپورٹ کیا اور انہیں طاقتور بنایا۔ ہم نے انہیںان قوتوں کے خلاف جنہوں نے مسلمانوں سے طاقت چھینی تھی مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیا۔ہماری تاریخ گواہ ہے ہم نے کبھی کسی سے خیانت نہیں کی۔ہم مسلمانوں کے ساتھ باوفا ہیںجس کے نتائج سب کے سامنے ہیں ۔آج اسرائیل وہ پہلے والا نہیں ہے۔ رہبر معظم انقلاب فرماتے ہیںکہ وہ اسرائیل جوپہلے نیل اور فرات کی باتیں کرتا تھاآج اپنے ارد گرد دیواریں کھڑی کر رہا ہے۔اسرائیل کو اس پوزیشن میں کس نے لا کے کھڑا کیا؟اس میں نہ تو سعودی عرب کا کوئی کردار ہے نہ مصر کا اور نہ ہی ترکی کا بلکہ یہ ہماری مقاومت کا نتیجہ ہے کہ آج اسرائیل اپنے گرد دیواریں کھڑی کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ہم نے فلسطین کے مظلموں کو سپورٹ کیا ۔ہم وہ ہیں جسے امامؑنے کہا تھا کہ ظالموں کے دشمن اور مظلموں کے ہمدرد بن کے رہنا۔ہم ہر ظالم کے دشمن ہیں خواہ وہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو۔ہر مظلوم کے حامی ہیں خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ہم نے دنیا کے حالات کا رخ بدل دیا ہے۔وہ مرجع عالیقدر جوپوری دنیا کے طاغوت اور یزیدوں کے مقابلے میں اٹھا تھا،مسلمانوں کو دوبارہ طاقتور بنانے کی اس نے تحریک شروع کی تھی آج اس تحریک کا پرچم ایک فقیہ کے ہاتھ میں ہے۔جو گزشتہ تقریباًتین دھائیوں سے ہر محاذپر امریکیوں کے حملے کو شکست دے رہا ہے ۔جس نے لبنان کے شیعوں کو طاقتور بنایا۔سید حسن نصراللہ کہہ رہے تھے کہ حزب اللہ کی ایک ایک اینٹ مقام معظم رہبری نے اپنے ہاتھوں سےرکھی ہے۔اس بابصیرت قیادت نے لبنان میں حزب اللہ کو طاقتور بنایا،فلسطینوں کو طاقتور بنایا،یمن کے شیعوںکوطاقتور بنایا،شام میں بشارالاسد کو سپورٹ کیا کہ اس کی حکومت نہ گرے ۔ابھی جب عراق پر حملہ ہوا تو آگے بڑھ کر اسی نے ان کے حملہ کو روکا۔ سب سے پہلے جو وہاں بندے پہنچے یا ایران کے جنر ل سلیمانی تھے یا حزب اللہ کے کمانڈر اور مجاہدجنہوں نہ صرف داعش کے بڑھتے ہوئے قدموں کو نہ روکا بلکہ ان کے پائوں توڑ ڈالے ۔اسی طرح افغانستان میں بھی شیعہ طاقتور ہیں،عراق میں طاقتور ہیں، لبنان میں طاقتور ہیں ۔بحرین میں مشکلات تھیں لیکن جب سے انہوں نے دفاعی تحریک شروع کی اب وہ بھی طاقتور ہو کر سامنے آرہے ہیں۔اسی طرح شیعہ یمن میں بھی بہت زیادہ طاقتور ہیں۔ یمن کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں شیعہ سنی اتحاد ہے۔ جن دنوں ہم نے اسلام آباد میں دھرنا دیا ہوا تھاانہوں نےبھی وہاں مشترکہ طور پر دھرنا دیا ہوا تھا۔ شیعہ سنی نے مشترکہ نماز جمعہ پڑھی تھی۔ اس نما ز جمعہ میں ڈیڑھ بلین کے قریب لو گ شریک ہوئے تھے۔سعودی عرب کی انیس ملین آبادی میںسے 38فیصد شیعہ ہیں۔ بحرین سے چلتے چلتے یمن تک حساس علاقوںمیںشیعہ آباد ہیں ۔اسی فیصد تیل اس پورے ریجن میں شیعہ علاقوں میں ہے ۔دنیا کا اہم جغرافیائی اور انرجی کے ذخائر سے مالا مال خطہ ہمارے پاس ہے۔ ہم چاہتے تو خطے میں بڑی تبدیلیاں واقع ہو سکتی تھیں لیکن ہمارا دین، مذہب اور دینی لیڈرشپ ہمیں اجازت نہیں دیتی۔ ہماراہدف صرف یہ ہے کہ مسلمان اس خطے میں طاقتور ہو جائیں۔ اسی فلسفہ کی بنیاد پر ہم اٹھے ہیں، مسلمانوں کو طاقتور بنانے کے لیے ہم نے سپورٹ کیا ہے۔اسی لئے ہم نے شروع سے ہی فلسطین میں حماس کی حمایت کی اور انہیں سپورٹ کیا۔ ہمارا سپورٹ کرنا شیعہ بنیاد پر قطعا نہیں ہے۔ ہم خطے میں اسلام کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں، ہم مسلمانوں کو اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس دلانا چاہتے ہیں۔ہم ہر جگہ کھڑے ہو دشمن کا مقابلہ کر رہیں ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔میںنے ایک جگہ CIAکی رپورٹ پڑھی جس میں لکھا ہوا تھا کہ پاکستان میں پونے پانچ کروڑ شیعہ ہیں۔الحمد للہ ہم یہاں بھی طاقتور ہیں لیکن جس طرح ہمیں طاقتور ہونا چاہئے تھا نہیں ہیں۔مجھے سید حسن نصرا للہ کہہ رہےتھےکہ ہم لبنان میں چٹکی کے برابر نہیں ہیں ۔ یہاں شیعوں کی آبادی بارہ لاکھ ہے ۔جس دن پاکستان کے شیعہ اکھٹے ہوکرایک طاقت بن جائیں گے اس دن پوری دنیا کے حالات بدل دیں گے ۔اس کے لئے بیداری،بصیرت،حوصلہ ،ہمت اور شعور و آگاہی کی ضرورت ہے۔اگر لبنان کے بارہ لاکھ شیعہ یمن ، سعودیہ، شام، بحرین اور عراق کوسپورٹ کر سکتے ہیں توہم پانچ کروڑ پاکستانی شیعہ پوری دنیا کے مظلوموں کی مدد کیوں نہیںکر سکتے ہیں ۔ جب سے مجلس وحدت شروع کی تب سے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کیوں دشمن نے شہید قائد کو مارا گیا۔شہید قائدؒاگر زندہ ہوتے اس وقت ہم ایران کے بعد دنیاکی سب سے بڑی طاقت ہوتے۔ اس وقت لوگوں نے انہیں نہیں پہچانا لیکن دشمن نے پہچان لیا اور شہید کر دیا۔ہمیں اپنے آپ کو سمجھنا ہوگا۔اسوقت ہم نے دنیا کے اندر ایک تحریک شروع کی ہے۔ 35سال سےہم شہید دے رہے ہیں اور دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ہمیں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا دشمن کون ہے ؟ہماری تکفیر کیوں ہوتی ہے؟ ہمارے مملک میں دہشتگردی کی وارداتیں کیوں ہوتیں ہیں ؟ ہم نے ان سب کا مقابلہ کیسے کرنا ہے ؟ ہما را مشن بہت مقدس ہے۔ ہم نے مسلمانوں کو دوبارہ طاقتور بنانا ہے۔ مسلمانوں کو دوبارہ طاقتور وہی بنا سکتا ہے جو خود طاقتور ہو اور کمزور نہ ہو۔آج 1400ءسال بعدجہان اسلام کی رہبری کا پرچم ہمارے ہاتھ میں ہے اوراس وقت ہم مظلوموں کو لیڈ کررہیں ہیں ۔جو آگے کھڑا ہوتا ہے اس میں آگے کھڑے ہونے کی لیاقت اور صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔ اس لئے ہمیں بہت زیادہ تیاری کی ضرورت ہے ،آمادگی کی ضرورت ہے،اکھٹے ہونے کی ضرورت ہے ، باہمی رواداری کی ضرورت ہے، حالات سے با خبر رہنے کی ضرورت ہے ،اپنےآپ کو ہر لحاظ سےبہتر بنانے کی ضرورت ہے جس امت کا امام علیؑ ہووہ امت، امتوں کی امام ہونی چاہیے۔امام وہ ہوتا ہے جو عادل ہوتا ہے تو علی ؑ کے ماننے والے بھی دوسروں سے عادل ہونے چاہیں ۔اخلاق، سیرت، کردار، انسانی صفات اور افکارو نظریات میں اعلیٰ ترین ،عقائد کے حوالے سے سب سے بہترین غرض ہر لحاظ سے شیعیان علی ؑ کودوسروں سے بہتر ہونا چاہیے ۔
اس وقت پاکستان میں اللہ نے ہمیں وہ دن دکھائے ہیں جس کا چوتھے امامؑ دعا کیا کرتے تھے : ’’اے خدا ظالموں کو ظالموں سے لڑا‘‘ خدابہت کریم ہے آٹھ سال صدام نے جنگ کی امریکہ اس کی مدت کرتا رہا پھر اللہ نے امریکہ کے ذریعہ اسے مروایا ۔پھر وہاں داعش لے کے آگئے ۔داعش کے آنے کے بعد وہاں ان سے لڑنے جنرل قاسم سلیمانی اور حزب اللہ چلی گئی۔ امریکہ کسی قیمت پر نہیں چاہتا تھا کہ ایران اور حزب اللہ عراق آئیں۔ اس کائنات پر اللہ کانظام حاکم ہے یہ بھی چال چلتے ہیں پھر اللہ بھی چال چلتا ہے اوراللہ بہترین چال چلنے والا ہے ۔پاکستان میں بھی اللہ نے ظالموں کو ظالموں سے لڑا دیا ہے ۔کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ نواز شریف کی حکومت میں طالبان کے خلاف آپریشن ہوگا اور وہ مولوی جو کہتے تھے کہ طالبان ہمارے بچے ہیں یہ کہتے نظر آئیں گے کہ ہمیں ان کا ابو نہ کہیں ۔دشمن اور اس کی سازشوں سے آگاہی اور شناخت بہت ضروری ہے۔مجھے یاد ہے ہم اکیلےکہا کرتے تھے کہ مذاکرات نہیں آپریشن ہونا چاہیے۔ہم نے نشتر پارک میں عظمت ولایت کانفرنس میں بھی کہا تھا کہ آپریشن ہوناچاہیے مذاکرات نہیں ہونے چاہیں ۔افسوس کا مقام ہے کہ ہمیں اپنے بعض مومنین نےبھی کہا کہ آپ کیوں مذاکرات کی خلاف ورزی کرتے ہیں؟ اس سے ہمارا نقصان ہوگا ۔میں نے کہا کہ عجیب نہیں ہےکہ ہم اپنے قاتلوں کے خلاف بھی نہ بول سکیں اور ان کا نام بھی نہ لے سکیں ۔ہم بزدل نہیں ہیں جو ہمیں قتل کرے،ہمیںمارے،ہمارے گھروں کو لوٹے،ہمارے گھروں کو لٹوائے اورہم اس کا نام بھی نہ لیں ایسا ممکن نہیں ہے۔لہٰذا ہم نے برملا کہا کہ ان کے ساتھ مذاکرات نہیں آپریشن ہونا چاہیے۔الحمداللہ کل ہم اکیلے تھے اللہ تعالیٰ نے اسی نواز شریف سے پارلیمنٹ کےذریعے قوانین میںترمیمات کروائیں اور قانون بنوائے جس کو برسر اقتدار لانے کے لئے انہوں نے سپورٹ اور سعودی عرب نے سرمایا لگایا تھا۔نوازشریف سعودی عرب کا اسٹریٹجیک پارٹنر ہے۔ اس نے پاکستان کو اسی کے ذریعےقبضے میں لینا ہے ؛ لیکن پاکستان میں اب تک جو ہوا ہے وہ ان کی پالیسی کے خلاف ہوا ہے۔اللہ کےمقرر کردہ قوانین ہیں دیکھیںآگے کیا ہوتا ہے۔اب بہترین وقت ہے ہمیں اپنےآپ کوسدھارنے اورتیار کرنے کا۔ ہمیں اکھٹے اور منظم ہونے کی ضرورت ہے۔نوجوانوں کی تربیت پر توجہ دینے اور انہیں علم و عمل اور عصری تقاضوںسے مزین کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے کردار مضبوط ہوں، صفات مضبوط ہوں اور ہم پاکیزہ بنیں ۔بہترین وقت ہے اپنے آپ کو تیار کرنے کا۔اللہ نے دشمنوں کو دشمنوں سے لڑایا ہے۔ البتہ اس راستے میں مشکلات ہیں جن سے نہایت بردباری اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔کراچی میں خاص طور پر مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ جس طرح بلوچستان کے رئیسانی کو گرانے کے لئے ہم منظم ہو کر میدان میں نکلے تھے اسی طرح سندھ کے رئیسانی زرداری اور قائم علی شاہ کے خلاف بھی میدان میں نکلنے کی ضروت ہے۔ وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہمیں مار کریا ڈرا کردیوار سے لگائیں گے،ہم پوری دنیا میں انہیں گھیر سکتے ہیں اورپوری دنیا میں ان کاتعاقب کر سکتے ہیں۔ مکتب تشیع ایک قوم نہیں ہے بلکہ تشیع ایک مکتب اورآیئڈیولوجی کا نام ہے۔اس مکتب میں موجود ولایت کا نظریہ ہمیںپوری دنیا میں ایک دوسرے سے مربوط رکھتا ہے۔اس مکتب سے تعلق رکھنے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جو آپ کو دنیا کے ہر ملک اور اس کے ہر شہر میں نظر آئیں گے۔ جگہ جگہ اہل تشیع کے مظلوموں کابہتاہواخون ناقابل برداشت ہے۔ ہمیشہ انتظامیہ کی طرف سے ایک جواب ملتا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیںہمارے لئے یہ جواب کافی نہیں ہے ۔ہما رے رینجرز کے لوگ مارے جارہے ہیں، پولیس کے بھی مارے جارہے ہیں ساتھ کوشش بھی ہو رہی ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ کوشش نہیں ہو رہی لیکن جس طرح سے کوشش ہونی چاہئے اس طرح نہیں ہو رہی ہے۔
دوستوں جب تک ہم امام زمانہ (عج) کے دئے ہوئے نظام سے مربوط نہیں ہو جائیں گے ہماری مشکلات میں ہر آئے دن اضافہ ہوتا جائے گا۔ آج امام زمانہ (عج) کے نائب برحق نے ثابت کر کے دکھایا ہے کہ امامؑ کا دیا ہوا نظام ہی ہماری بقاکا ضامن ہے ۔ جو بھی ولایت فقیہ کے نظام سے متصل ہوںگےوہ عزت پائیں گےاورجو بھی اس سے کٹ جائیں گے وہ بھیڑیوں کا شکار ہوںگے ۔ جوبھی مرجیعت سے کٹا وہ دنیا پرست بھیڑیوں کا شکار ہوگیا۔جب ہمارا سلسلہ نائب امامؑ سے کٹ جائے گا تو یقینا کسی کا نواز شریف کے ساتھ سلسلہ جوڑ جائے گا، بعض کا زرداری صاحب کے ساتھ، بعض کا عمران خان کے ساتھ اور بعض کا الطاف حسین کے ساتھ تعلق جوڑ جائے گا۔نہایت ہی افسوس اور تعجب کا مقام ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعلق جوڑا جا رہا ہے جن کا ذرہ برابر بھی امام ؑ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔تشیع کی مرکزیت کا نام مرجعیت ہے۔ ہم ان کے پیرو ہیں۔ ہم ان دنیاپرستوں اور قاتلوں کے پیرو نہیں ہیںبلکہ ہم نائب اور مرجعیت کے پیرو ہیں جس نےطول تاریخ تشیع کو مختلف بحرانون سے نکالا ہے اورموجودہ دور میں عزت کی اونچائی تک پہنچایا ہے۔اگر مرجعیت نہ ہوتی تو آج عراق سیاسی بحرانوں کا شکار ہوتا اور وہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہ ہوتی۔ پاکستا ن میں بہت کوشش کی گئی کہ ہمیں مرجیعت اور فقہا سے کاٹ کر الگ تھلگ کر دیا جائے ۔یہ سلسلہ ٹوٹنے نہیں دینا چاہیے ۔ائمہ معصومین نے کہا ہے کہ عصر غیبت میں فقہاء سے راہنمائی لینی ہے۔
رسولؐخدا جب اس دنیا سے گئے تو امت میں نظام امامت متعارف کراکے گئے جبکہ ہمارےبعض اہل سنت بھائی کہتے ہیں کہ رسول خدا کوئی نظام نہیں دے کر گئے نظام کو ہم نے خود بنانا ہے ۔میرا اپنے دوستوں سے سوال ہے کہ جب بارہویں امام ؑ غیبت کبرا میں گئےتو کوئی سسٹم دے کر گئے ہیںیا نہیں؟ یا ہمارے اہل سنت بھائیوں کی طرح مرضی کا نظام اور اس نظام کی رہبری کرنے والے رہبر کا اپنی مرضی سے انتخاب کرنا ہے؟ ہمارا عقیدہ ہے کہ نہ تو رسول خدا امت کو لیڈر اور رہبر کے بغیر چھوڑ کےگئے ہیں اور نہ ہی بارہویں امامؑنے غیبت کبرا کے زمانے میں لوگوں کواپنے حال پر چھوڑا ہے ۔جیسے رسول پاکؐجانے کے بعد سسٹم دے کر گئے ہیں ایسے ہی بارہویں امامؑ بھی مرجیعت اور فقہا کا سسٹم دے کر گئے ہیں ۔ہم نے لوگوں کواس سسٹم سے مربوط کرنا ہے۔علما ء نے اس کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ شیعہ فقہاء اور مراجع کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے ۔شہید ثانی، شہید ثالث، ہزاروںکی تعداد میںعلماء شہید ہوئےہیں۔بعض علماء ایسے بھی ہیں کہ جن کی لاشوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا ہے اور زندانوں کی تاریک کوٹھڑیوں میں مکتب آل محمدؐکی فقہ کی کتابیں لکھی ہیں۔ہماری فقہ کی معروف کتاب ’’لمعہ‘‘ جسے شہید اول نےزندان میں تحریر فرمایاجبکہ حوالے کے لئے ایک بھی کتاب موجود نہیں تھی۔ پھر شہید ثانی نے اس پر شرح لکھی جو’’ شرح لمعہ‘‘ کے نام سے معروف ہے ۔یہ دونوں بزرگوار شہید ہوئے۔ فقہاء نے راہ امامت کو زندہ رکھنے اور مکتب امامت کو آگے لےکر بڑھنے کے لیےخون جگر دیا ہے۔اس مکتب میں بعض علماء ایسے بھی گزرے ہیںجنہوں نے فقہ کی عظیم الشان کتاب تحریر فرمائیں ہیں۔ جب انہیں خبر ملتی ہے کہ اس کا بیٹا فوت ہو گیا ہےتو وہ بیٹے کے جنازے میں کھڑے ہوکر فقہ کی کتاب کا ایک صفحہ تحریر فرماتے ہیں اور ثواب کو بیٹے کے نام پر ہدیہ کرتے ہیں۔ہماری تاریخ اس طرح کے واقعات سےبھری پڑی ہے کہ علماء نے غربتوں کے عالم میں جنازوں پر کھڑے ہوکرعلوم آل محمدؐکومحفوظ کیا ہے۔ آج جاکر نجف دیکھیں وہاں پر کیاحال ہےتو آج سے دوسو سال،تین سو سال یا آٹھ سوسال پہلے نجف کا کیا حال ہوگا۔بھوک اورافلاس کے عالم میں میراث آل محمدؐکو آئندہ نسلوں تک منتقل کرتے رہے ۔ فقہی، اصولی، تفسیری، لغوی، رجالی اسی طرح فلسفہ، عرفان اور کلام پر مشتمل عظیم علمی میراث مکتب تشیع کے فقہاء نے ہمارے پاس پہنچائی ہے ۔تاریخ اسلام کی سب سے بڑی تفسیر ہمارے فقہا نے لکھی ہے ۔تفسیر المیزان لکھنے والا کتنا غریب لیکن کتنا عظیم فقیہ تھا۔ان کی زندگی عبادت ہے ۔میں آیت اللہ مرعشیؒکے بارے میں پڑھ رہا تھاوہ اپنے بیٹے کو وصیت میں لکھتے ہیں کہ مجھے ساری زندگی بہت شوق تھا حج کرنے کامیرے پاس پیسے نہیں تھےاگر تیرے پاس پیسے ہوں تو میر ی نیابت میں حج کروا دینا۔آیت اللہ کاظم تبریزی قم میں فوت ہوئے ان کی سینکڑوں عظیم علمی کتابیں جوان کی حیات میں نہ چھپ سکیںکسی نےان سے سوال کیا کہ آپ ان کتابوں کو کیوں نہیں چھپواتے؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس خمس کے پیسے آتے تھےان سے تو میں اپنی کتابیں نہیں چھپوا سکتا تھا۔ فقہاء عظیم سرمایہ ہیں جو ہمیں عصر غیبت میںامام زمانہ (عج) سے مربوط رکھتے ہیں۔
ہمیں بیدار اورآگاہ رہناہے۔ پچھلے چند سالوں میں ہم نے شیعہ سنی کواکھٹا کیا ہے۔آج تکفیریت کو ہم نے تنہا کر دیا ہے ۔ہم نے اپنی مظلومیت کو طاقت میں بدلنا ہے۔ہم عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنے ملک کا مقدر بدل سکتے ہیں۔ہم نے مختلف ایشوز میں مقاومت دکھائی اور میدان میں ڈٹے رہےوہ میڈیا جو ہماری آواز نہیں آنے دیتا تھا، ہمیں ٹائم نہیں دیتاتھا کئی کئی گھنٹے لائیو دکھانے پر مجبور ہوا جو ہماری وحدت اور طاقت کا نتیجہ تھا۔ ہم نے مزید طاقتور بننا ہے آل محمد ؐ کی ولایت کا وزن کمزور لوگ نہیں اٹھا سکتے ۔مشکلات اور سختیاں آئیں گی انہیں جھیلنا ہے۔امام ؑ کا فرمان ہے کہ جو ہم سے محبت کرتا ہے وہ امتحان اور مشکلات کے لیے تیار ہو جائے۔آل محمد (ص) سے محبت کرنے والے ہمیشہ میدان میں ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سامرہ میں ایران کا ایک بہت بڑا کمانڈرامین تقوی امامین عسکریینؑ کے حرم کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوا ہے ۔کافی عمر رسیدہ تھے ۔ انہوں نے آٹھ سال ایران عراق جنگ میں بھی مجاہدانہ کردار ادا کیا تھا۔اسی طرح آئے دن عظیم لوگ کربلا کی سرخ تاریخ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور اس پر ہمیں فخر ہے کیونکہ شہادت ہماری میراث ہے۔ڈاکٹر مصطفی چمران کا جملہ ایک دن پڑھ رہا تھااپنے پائوں اوربدن سے باتیں کر رہا رتھاتم تھک جاتے ہو، تم پرزخم آجاتےہیں، تمہیںسختی میں رہنا پڑتا ہے؛ لیکن میں کیا کروں میں حسین ؑ کاعاشق اور کربلا کا مسافر ہوںکسی ایک جگہ ٹھہرنہیں سکتا تمہیںکچھ دیر اور سختیاں جھیل لینی ہو گی۔ عنقریب تجھے خاک کا نرم بستر مل جائے گا۔پھر کہتا ہے اے خدا تو کتنا کریم ہے جب عزت سے جینے کے سارے راستے بند ہوجائیں تو تونے عزت سے مرنے کادروازہ شہادت کھول دیا۔کبھی کہتا ہے اے خدا تو کتنا کریم ہے کہ تونے مجھے غریبی اور فقر سے نوازا؛اے خدا اگر میں غریب اور فقر نہ ہوتا توکیسے میں یتیموں، بیوائوںاور مسکینوں کی آہوں اور سسکیوں کو محسوس کرتا۔سندھ چلے جائیں کتنے لوگ بھوک سے مرتے ہیں ۔طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلاء ہیں ۔پڑھائی نہیں ، روزگار نہیں اور وہاں پر جو مبلغین کام کر رہے ہیں ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کسی فیکٹری کے مزدور ہیں۔وہ محرومیت میں بھی مکتب تشیع کو پھلا رہے ہیں ۔لہٰذا یہ سفربہت کٹھن سفر ہے ۔اس سفر کو نہایت ہی بردباری، صبر و تحمل، کربلائی بصیرت اور کربلائی عزم کے ساتھ طے کرنا ہے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ ناصر عباس جعفری
سکیرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان