وحدت نیوز (آرٹیکل) تاریخِ بشریت شاہد ہے کہ افراد، ممالک اور معاشروں کی طرح اقوام بھی زندگی اور موت سے دوچار ہوتی ہیں، شکست و ریخت کا سامنا کرتی ہیں، عروج و زوال کی منازل طے کرتی ہیں، امارت و غربت کا ذائقہ چکھتی ہیں، عزّت و ذلت کو لمس کرتی ہیں اور فتح و شکست کی وادیوں سے گزرتی ہیں۔ چونکہ اقوام کے باہمی تعلقات بھی افراد، معاشروں اور ممالک کی طرح کے ہی ہوتے ہیں، چنانچہ اقوام بھی آپس میں مذاکرات، جنگیں، صلح، افکار کا تبادلہ، نظریات کا پروپیگنڈہ، تہذیبی یلغار اور ثقافتی جارحیت کرتی ہیں۔ کسی بھی قوم کی تہذیب و ثقافت کسی ایک خاص معاشرے کو جنم دیتی ہے اور پھر قومی سطح کی تہذیبی و ثقافتی جنگیں معاشرتی محاذوں پر لڑی جاتی ہیں۔ معاشرے کی حدود، اقوام و ممالک اور افراد کی نسبت وسیع و عریض ہونے کے باعث، معاشرتی سطح پر لڑی جانے والی جنگوں کے اثرات بھی کئی گنا زیادہ وسیع پیمانے پر مرتّب ہوتے ہیں۔ معاشرتی سطح پر لڑی جانے والی تہذیبی و ثقافتی، نظریاتی اور فکری یلغار اتنی موثر اور غیر محسوس ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے بغیر اسلحہ اٹھائے اور ایک قطرہ خون گرائے ممالک کے جغرافیے، افراد کے دماغ اور اقوام کی قیادتیں تبدیل کی جاسکتی ہیں۔
اگر ہم اتنے بڑے دعوے کے حق میں تاریخ کے قبرستان سے کوئی پرانا مردہ لانے کے بجائے، عصرِ حاضر کی کوئی زندہ و تابندہ گواہی پیش کرنا چاہیں تو وہ سرزمینِ پاکستان کی گواہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے خلاف معاشرتی سطح پر جو ثقافتی و فکری جنگ لڑی گئی، وہ اتنی غیر محسوس اور موثر تھی کہ چند سالوں کے اندر ہی افراد کے اذہان اس طرح تبدیل کئے گئے کہ لوگ باہم دست و گریباں ہوگئے، قوم میں فکری خلاء اس قدر پیدا کیا گیا کہ امت واحدہ کا نعرہ لگانے والے، پنجابی اور بنگالی، مہاجر اور مقامی کے نعرے لگانے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی افرادی قوّت تقسیم ہوگئی، ملّی وحدت پارہ پارہ ہوگئی، نت نئی قیادتیں وجود میں آئیں اور پاکستان کا جغرافیہ تبدیل ہوگیا۔ یاد رہے کہ اتنی بڑی جنگ میں پاکستان کے کسی بھی دشمن ملک کی براہِ راست ایک پائی بھی خرچ نہیں ہوئی، پیسہ خرچ ہوا پاکستانیوں کا، خون گرا پاکستانیوں کا اور ملک ٹوٹا پاکستان۔
آج ہر باشعور انسان یہ سمجھتا ہے کہ اتنی بڑی اور کامیاب جنگ فوج کے ذریعے نہیں لڑی جاسکتی اور اس طرح کی اتنی بڑی تبدیلی بارود کے دھوئیں سے عمل میں نہیں آسکتی۔ اگر ہم اتنی بڑی تبدیلی کے عمل کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جو لوگ دوسرے افراد کے مال و اسباب کو لوٹنا چاہتے ہیں یا کسی دوسرے ملک پر اپنا تسلط جمانا چاہتے ہیں یا پھر کسی دوسری قوم کو شکست دینا چاہتے ہیں، وہ کسی مخصوص علاقے میں فوج اور اسلحہ جمع کرکے اپنے منصوبے کے مطابق پیش قدمی کرتے ہیں، لیکن جو لوگ بغیر کوئی نقصان اٹھائے، ایک ہی وقت میں کسی قوم کو شکست دے کر اس کے ملک پر اپنا تسلط جماکر اس کے مال و متاع کو لوٹنا چاہتے ہیں، وہ فوج اور اسلحہ جمع کرکے بارڈروں پر حملہ نہیں کرتے بلکہ وہ غیر محسوس انداز میں لوگوں کے دماغوں پر فکری اور ثقافتی حملہ کرتے ہیں۔ اس لئے کہ جو لوگ فکری طور پر ہتھیار پھینک دیں اور میدان خالی چھوڑ دیں وہ عملی زندگی میں بھی ہتھیار پھینک دیتے ہیں اور میدان خالی چھوڑ دیتے ہیں۔
جو لوگ عسکری طاقت اور فوجی لائو لشکر کے ساتھ دوسری اقوام پر شب خون مارتے ہیں اور دوسرے ممالک کو فتح کرنے کے چکر میں رہتے ہیں، وہ چنگیز خان، ہلاکو اور صدام کی طرح اپنے پیچھے غم ناک کہانیاں، دلخراش قصّے اور تباہی و بربادی کے صرف آثار چھوڑ جاتے ہیں، لیکن جو لوگ ممالک کے بجائے معاشروں کو مسخر کرنے کے لئے نکلتے ہیں، وہ اپنے پیچھے صرف اچھے یا برے اثرات نہیں چھوڑتے بلکہ اپنے افکار بھی چھوڑ جاتے ہیں، ان کے افکار وقت کے تندور میں دبی ہوئی چنگاری کی طرح ہمیشہ سلگتے رہتے ہیں اور وقت آنے پر شعلہ بن کر بھڑک اٹھتے ہیں۔ زمانے کی راکھ سے شعلہ بن کر بھڑکنے والے یہ افکار اگر مثبت ہوں تو سید قطب، موسیٰ صدر، بہشتی، چمران، مودودی اور اقبال کی طرح صدیوں پر محیط معاشروں کی اصلاح و تعمیر کرتے ہیں، لیکن اگر یہ افکار منفی ہوں تو میکیاولی،لاک اور لینن کی طرح معاشروں کی دنیا میں ایٹم بم کی طرح پھٹتے ہیں اور زلزلے کی طرح بربادی لاتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ بشریت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بغور مطالعہ کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ قومی اور ملکی سطح پر بادشاہ اور سپہ سالار جنگیں لڑتے ہیں، لیکن معاشرتی محاذوں پر لڑائی صرف اور صرف علماء، فقہاء، صاحبان قلم، دانشمندوں اور مفکرین کے درمیان ہوتی ہے۔
اگر کوئی قوم اپنی عسکری طاقت کے بل بوتے پر دوسری اقوام کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے، لیکن اس کا دامن صاحبانِ علم و اجتہاد اور اربابِ فکر و دانش سے خالی ہو تو ایسی قوم جیتنے کے باوجود ہارنے والوں کی طرح زندگی گزارتی ہے اور فتح پانے کے باوجود اپنے آپ کو شکست خوردہ اقوام کی صف میں پاتی ہے۔ لیکن اگر کسی قوم کا دامن اربابِ فکر و دانش سے پُر ہو اور اسے کوئی دوسری قوم تلوار اور طاقت کے زور سے شکست بھی دیدے تو ایسی قوم بہت جلد اپنی شکست کو فتح میں بدل کر اپنی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کو بحال کرسکتی ہے۔ جس قوم میں مفکرین اور صاحبان علم و اجتہاد ہوتے ہیں، وہی قوم آگے بڑھ کر دوسری اقوام کی قیادت کرتی ہے اور جس قوم میں صاحبان علم و دانش کی کمی ہوتی ہے، وہ دوسری اقوام کے پیچھے پیچھے چلتی ہے اور ان کی تقلید بلکہ اندھی تقلید کرتی ہے۔
تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جب تک دنیاء اسلام میں علم و تحقیق کا دور دورہ رہا، معصومین کی بالواسطہ یا بلاواسطہ درسگاہوں سے کئی مکاتب کے امام، کئی علوم کے بانی اور کئی ایجادات کے موجد نکلتے رہے، لیکن جب دنیاء اسلام پر مسلط بادشاہت و ملوکیت نے علمی مراکز کے گرد دائرہ تنگ کرنا شروع کر دیا، علماء کو بادشاہوں کے دروازوں پر جھکانے کی کوششیں کی جانے لگیں، فقہاء کے لئے شاہی دستر خوان سجنے لگے، شعراء، نوابوں کی شان میں قصیدے لکھنے لگے اور مورّخین شاہی حویلیوں سے وظیفے لینے لگے تو پھر عالمِ اسلام میں علمی و فکری زوال کی ایسی آندھیاں چلیں کہ امت مسلمہ کی شاندار تہذیب و ثقافت کی عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی۔ کچھ ہی عرصے میں مسلمان قوم سے اقوام کی رہبریت چھن گئی اور مسلمان بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح ذلت و رسوائی کے صحرا میں خاک چھاننے لگے۔
وہی مسلمان جن کی درسگاہیں اقوامِ عالم کی علمی و سیاسی سربراہی کر رہی تھیں، اب دنیا بھر میں گدائی کا کشکول لئے پھرنے لگے اور پھر عالمِ اسلام پر ایسا وقت بھی آیا کہ عربستان کا مسلمان، عرب قومیت کے بت کو پوجنے لگا، ایران کے مسلمان نے شہنشاہیت کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیا، افغانستان کا مسلمان اپنی انا کے خول کے اندر بند ہوگیا، ترکی کے مسلمان نے سیکولر اسٹیٹ کی عبا اوڑھ لی اور ہندوستان کا مسلمان، تاجِ برطانیہ کی ہوس کا نوالہ بن گیا۔ یعنی یہ وہ زمانہ تھا جب پورے عالمِ اسلام پر غیر مسلموں کی علمی، فکری، ثقافتی، سیاسی اور عسکری یلغار بغیر کسی مزاحمت کے جاری تھی، مغل اقتدار کو اس کے درباری دانشمند لے ڈوبے تھے اور خلافتِ عثمانیہ کے تابوت میں اتاترک نے آخری کیل ٹھونک دی تھی۔
اس وقت جب امتِ مسلمہ کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا تو کسی تاج محل نے عالمِ اسلام کے سر پر شفقت کا سایہ نہیں ڈالا، کسی نور جہان کے باغ نے عالمِ اسلام کے دکھوں کا مداوا نہیں کیا، کسی بہادر شاہ کی بہادری ملتِ اسلامیہ کے کام نہیں آئی اور کسی شاہ جہان نے دم توڑتے اسلام کو اپنا خونِ جگر نہیں پلایا۔ جی ہاں! جب اسلامی ممالک پے در پے ٹوٹتے جا رہے تھے، مسلمان قوم مسلسل غلامی کی زنجیروں میں جکڑتی چلی جا رہی تھی اور اسلامی معاشرہ رو بہ زوال تھا تو پھر جمال الدین افغانی، الطاف حسین حالی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور علامہ محمد اقبال جیسے دانشمندوں نے ہی آگے بڑھ کر اسلام اور مسلمانوں کو سہارا دیا۔ ان مفکرین نے ایسے زمانے میں عالمِ اسلام کی خدمت کی، جب مدارس خانقاہوں میں تبدیل ہوچکے تھے، فکریں بک چکی تھیں اور قلم خرید لئے گئے تھے۔
امت مسلمہ اور اسلامی معاشرے کی تعمیرِ نو اور اِحیا کے لئے فکری، علمی اور عملی جدوجہد کرنے والی اہم شخصیات میں سے ایک اہم شخصیت علامہ محمداقبال کی ہے۔ ہم لوگ کہنے کو تو اقبال کے علمی و فکری وارث ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ ابھی تک فکرِ اقبال کی "الف ب" سے بھی آشنا نہیں ہیں۔ اغیار اقوام، نسل در نسل اقبالیات پر تحقیق و تالیف و تراجم اور سیمینارز میں مشغول ہوکر مسلسل اقبال کے علمی و فکری سرچشمے سے سیراب ہو رہی ہیں جبکہ ہم نے آج تک اقبال کو صرف ایک شاعر سمجھ رکھا ہے، حتّٰی کہ اگر ہم اقبال پر کوئی مقالہ لکھنے یا تحقیق کرنے بیٹھتے بھی ہیں تو اقبال کے صرف چند اشعار کو جوڑ توڑ کر اپنی تحقیق یا مقالہ ختم کر دیتے ہیں اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے فکرِ اقبال پر کام کر لیا ہے۔ حالانکہ اقبال کسی رومانوی شاعر کے بجائے ایک عملی مجاہد تھے، اسی لئے اقبال خود بھی خود کو فقط شاعر کہلوانا پسند نہیں کرتے، جیسا کہ سید سلمان ندوی کے نام ایک خط میں آپ نے لکھا ہے: "میرا شعر کہنے کا مقصد ہرگز ادب برائے ادب نہیں کیونکہ مجھے اتنی فرصت نہیں کہ فنّی نزاکتوں کی طرف توجہ دوں۔ میرا مقصد صرف انقلابی افکار کو ظاہر کرنا ہے، چاہے آنے والے مجھے شاعر ہی نہ سمجھیں۔" ١
ہم اس مقالے میں حتّی المقدور امت مسلمہ کے مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں اقبال کے افکار کے ساتھ ساتھ اقبال کے عملی اقدامات کا بھی ذکر کریں گے۔ چونکہ ہمارے ہاں عمومی طور پر اقبال کو صرف ایک شاعر یا پاکستان کا قومی شاعر کہنے پر اکتفاء کر لیا جاتا ہے، اقبال کو صرف شاعر کہنا اور سمجھنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے شہید مطہری کے بارے میں یہ کہا جائے کہ آپ بہت اچھے خطیب تھے، یا پھر حضرت امام خمینی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ آپ باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے۔۔۔ اقبال صرف شاعر نہیں تھے اور نہ ہی اقبال کی حقیقی شناخت شاعری ہے، جیسا کہ خواجہ حسن نظامی کے نام ایک اور خط میں بھی آپ نے لکھا ہے: "آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھتا اور شاعری کو کبھی بھی ایک فن کے طور پر نہیں لیا ہے۔" ٢
اقبال کی ساری زندگی، انتھک محنت اور استعمار کے خلاف جدّوجہد سے بھری پڑی ہے۔ اگر ہم فکرِ اقبال سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کے مسائل اور ان کا حل کیا ہے تو ہمیں پہلے اقبال شناسی کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا۔ اقبال کی معرفت کے بغیر فکر اقبال کو سمجھنے کی کوشش کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی نابینا انسان کسی لمبے سفر پر نکل پڑے۔ اقبال کی معرفت لائبریریوں میں سجے ہوئے کتابوں کے ڈھیر پڑھنے سے یا پھر اقبال کے اشعار اکٹھے کرنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اقبال تو ایک مجاہد انسان ہے اور ایک مجاہد کی معرفت مجاہدین کی بزم سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ عصرِ حاضر میں اگر ہم کسی مردِ مجاہد کی زبانی اقبال کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای سے یہ معرفت حاصل کریں جو یہ فرماتے ہوئے ہوئے نظر آتے ہیں: "من مریدِ اقبال ہستم"
اسی طرح ڈاکٹر علی شریعتی کی شہادت کے موقع پر جب کسی نے آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے یہ سوال کیا کہ کیا ڈاکٹر شریعتی کا اقبال یا سید جمال الدین افغانی اسد آبادی کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے؟ تو اسوقت انہوں نے جو جواب دیا اس کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ شریعتی نے نسلِ نو کی فرہنگ (تہذیب) کے مطابق اسلام کو منظرِ عام پر ضرور لایا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم شریعتی کا موازنہ اقبال اور سید جمال الدّین سے کرنے لگ جائیں، سید جمال الدین وہ شخصیت ہے، جس نے سب سے پہلے"اسلام کی طرف واپس پلٹنے" کے مسئلے کو اٹھایا، سید جمال الدّین نے جو کام کیا، اس سے دنیا میں تین فکری انقلاب آئے، ایک ہند میں، دوسرا مصر میں اور تیسرا ایران میں۔ اقبال نے بھی دو فکری انقلاب لائے، ایک مغربی تہذیب و ثقافت سے رہائی کا اور دوسرا خود اسلام کی یعنی مشرقی تہذیب و ثقافت کی طرف پلٹنے کا اور یہ وہ فکر ہے جو کئی سال بعد شریعتی جیسے لوگوں نے ایران میں عام کی، شریعتی جو اپنی "خودی" کی طرف پلٹنے کی بات کرتا ہے، یہ وہ بات ہے جو 1930ء میں اقبال نے شریعتی سے 40 سال پہلے ہندوستان میں کر دی تھی اور خودی کے اشعار کے ذریعے ایک ملت کو وجود دے دیا تھا، جو ملتِ پاکستان ہے۔ شریعتی خود کو اقبال کا شاگرد سمجھتے تھے، وہ لوگ جنہوں نے شریعتی کی زبانی اقبال کا ذکر سنا ہے، ان پر واضح ہے کہ شریعتی کا اقبال سے موازنہ ٹھیک نہیں ہے۔
٣اگر ہم سید علی خامنہ ای کے علاوہ کسی اور دانشمند کی زبانی اقبال فہمی کا مرحلہ طے کرنا چاہتے ہیں تو مولانا مودودی اقبال کے بارے میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں: مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کی منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ جب اس کی تہہ میں پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔ ٤
اب آیئے شناختِ اقبال کے بعد یہ دیکھتے ہیں کہ فکرِ اقبال میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل کیا تھا۔ ہم فکر اقبال کے تناظر میں امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کو مندرجہ ذیل دو حصّوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
1۔ ایسے مسائل جنہیں حل کرنے کے لئے اقبال نے فکری کاوشوں کے سمیت عملی اقدامات بھی کئے۔
2۔ ایسے مسائل جو اقبال کے نزدیک نہایت اہمیت کے حامل تھے لیکن اقبال کی عمر نے وفا نہیں کی اور اقبال کو انھیں عملی طور پر انجام دینے کی فرصت نہیں ملی۔ لہذا ان مسائل کا حل ہم فقط اقبال کے اشعار و مضامین یعنی افکار میں ڈھونڈتے ہیں۔
جب ہم فکر اقبال کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو سمجھنا ہوگا اور جب ہم فکر اقبال کو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقبال فقط گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں۔ اقبال نے جو سمجھا اور جو کہا اس پر خود بھی عمل کیا ہے۔ اقبال نے فلسفیوں کی طرح نہ ہی تو محض نظریہ پردازی کی ہے اور نہ ہی سیاستدانوں کی طرح فقط زبانی جمع خرچ سے کام لیا ہے بلکہ فکرِ اقبال میں جو امت مسلمہ کو درپیش مسائل تھے، اقبال نے انھیں حل کرنے کے لئے عملی طور پر کام کیا ہے اور خدمات انجام دی ہیں اور جن مسائل کو حل کرنے کی زندگی نے اقبال کو فرصت نہیں دی، اقبال نے ان کا حل تحریری صورت میں نظم و نثر کے قالب میں بیان کیا ہے۔ یادرکھیے! اقبال کی ایک خاص خوبی جس کے باعث اقبال کا آفتابِ فکر ہر دور میں عالم بشریت کے افق پر جگمگاتا رہے گا، یہ ہے کہ اقبال نے صرف امت کے مسائل نہیں اچھالے بلکہ ان کا حل بھی پیش کیا ہے اور صرف حل ہی پیش نہیں کیا بلکہ عملی طور پر ان مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد بھی کی ہے۔
اب آیئے اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کے مسائل کا حل دیکھتے ہیں۔
اقبال کے زمانے میں سیاسی و اجتماعی شعور کو کچلنے کے لئے استعمار سرگرمِ عمل تھا اور یہ مسئلہ فوری توجہ کا طالب تھا۔ لہذا اس مسئلے کو ہم سب سے پہلے بیان کر رہے ہیں۔
1۔ مسلمانوں کا اپنی حقیقی شناخت اور خودی کو کھو دینا اور اس کا حل
اقبال کے زمانے میں استعمار کی سازشوں کے باعث مسلمانوں میں اجتماعی شعور کے فقدان کا مسئلہ اس قدر سنگین تھا کہ مسلمان اپنی خودی اور شناخت تک کھوتے چلے جا رہے تھے۔ چنانچہ بانگِ درا میں جوابِ شکوہ کے سترہویں بند میں اقبال کہتے ہیں:
شور ہے ہوگئے دینا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو!
اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی مثال اس ماہی کی سی تھی، جو علم و حکمت کے سمندروں میں پلی بڑھی تھی، لیکن غفلت نے اسے اس مقام پر لاکھڑا کیا تھا کہ اسے یہ احساس ہی نہیں تھا کہ وہ جس سمندر کی طلب کر رہی ہے، خود اسی سمندر میں اب بھی غوطے کھا رہی ہے۔ اقبال کے نزدیک امت مسلمہ علوم و فنون کے بحرِ بیکراں کی پروردہ ہونے کے باعث ہر لحاظ سے دوسری اقوام سے بے نیاز اور غنی ہونے کے باوجود بھٹکتی ہوئی پھر رہی تھی اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کے لئے دوسروں سے رہنمائی اور مدد کی طالب تھی۔ چنانچہ بالِ جبریل میں مسلمانوں کی غفلت کی تصویر اقبال نے ایک شعر میں کچھ یوں کھینچی ہے:
خضر کیونکر بتائے، کیا بتائے؟ اگر ماہی کہے، دریا کہاں ہے
اقبال نے امت کی حقیقی شناخت کھو جانے کا حل امت کی خودی کو زندہ کرنے میں ڈھونڈا ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
خودی ہے زندہ تو ہے موت اِک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات
خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا
ترے فراق میں مضطر ہے موجِ نیل و فرات
خودی ہے مردہ تو مانندِ کاہِ پیشِ نسیم
خودی ہے زندہ تو سلطانِ جملہ موجودات
اقبال جہاں خودی کو زندہ کرنا چاہتے ہیں، وہاں یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ کسی علاقائی، جغرافیائی یا لسانی خودی کو زندہ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ امت کا ہر فرد مسلمان ہونے کے ناطے اپنی خودی اور شناخت کو زندہ کرے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے ٥
اقبال کے نزدیک ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اصلی مقام کو سمجھے اور غلامی کا طوق اپنے گلے میں دیکھ کر شرمندگی محسوس کرے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
اے کہ غلامی سے ہے روح تیری مضمحل
سینہء بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام ٦
اقبال نے صرف خودی کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی خودی کو واپس لانے کے لئے آپ عملی فعالیت کے ذریعے 1926ء میں پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ فکرِ اقبال کے ساتھ جب ہم اقبال کی ذات کو رکھ کر دیکھتے ہیں تو ایک یہ بات سامنے آتی ہے کہ باصلاحیت اور دانشمند حضرات گوشوں میں بیٹھ کر صرف افکار کی کھچڑی تیار کرنے کے بجائے عملی طور پر میدان میں اتریں اور قوم کی رہنمائی کریں۔
2۔ مسلمانوں میں جراتِ اظہار اور فکری تربیت کا اہتمام نہ ہونا اور اس کا حل
اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ انگریزوں کے مظالم اور ہندووں کی سازشوں نے مسلمانوں کو ان کے اپنے ملک میں ہی غلام بنا کے رکھ دیا تھا، مسلمان اپنی آواز کو نہ ہی تو غاصب حکمرانوں کے سامنے بلند کرنے کا سلیقہ جانتے تھے اور نہ ہی ان کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے فکری و نظریاتی تربیت کا کوئی سلسلہ موجود تھا، چنانچہ اب اس مسئلے کے حل کے لئے اقبال نے خود اپنی سرپرستی میں 1934ء میں لاہور سے روزنامہ احسان کے نام سے ایک اخبار نکالا، جس میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی ترجمانی کی جاتی تھی اور جس کا اداریہ تک آپ خود لکھتے تھے اور اس اخبار میں نوجوانوں کی فکری و سیاسی اور نظریاتی تربیت کے لئے آپ کے مضامین و نظمیں شائع ہوتی تھیں۔ ٧
اس جراتِ اظہار کے باعث اقبال کہتے ہیں:
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مسلمانوں میں جراتِ اظہار اور فکری تربیت کی مشکل کو حل کرنے کے لئے اقبال نے خود عملی طور پر میڈیا کے میدان میں قدم رکھا، ایک اخبار نکالا اور اس طرح مسلمانوں کو اقوامِ عالم کے درمیان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کے بجائے اپنے مقام، اپنے دین اور اپنے جذبات کے اظہار کا ہنر سکھایا۔ آپ شاعری کی زبان میں "مسلمان" کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ تو جرات اور تڑپ کے ساتھ اپنی خودی، شناخت اور مقام کو آشکار کر، تاکہ تو اور تیری آئندہ نسلیں غیروں کی غلامی کو قبول نہ کریں۔ چنانچہ اقبال کہتے ہیں:
کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر
اسی طرح امت کی فکری تربیت کے لئے اقبال نے بے شمار مضامین اور اشعار لکھے ہیں، ہم ان میں سے نمونے کے طور پر چند اشعار اس وقت پیش کر رہے ہیں:
آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے
کھو گیا کس طرح تیرا جوہرِ ادراک
کس طرح ہوا کند تیرا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک ٨
قوم کو فکری طور پر عقائد کی پاسداری کی ترغیب دینے کیلئے ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں:
حرف اس قوم کا بے سوز، عمل زار و زُبوں
ہوگیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر ٩
اقبال اسی طرح پورے عالمِ اسلام کے جذبات کی بھی ترجمانی کرتے تھے، مثلاً فلسطین، طرابلس، کشمیر اور افغانستان کے بارے میں اقبال کا ایک ایک شعر بطورِ نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
ہے خاکِ فلسطیں پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا ١٠
اسی طرح 1912ء میں جنگِ طرابلس میں غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہونے والی فاطمہ کے بارے میں اقبال لکھتے ہیں:
فاطمہ! تو آبرُوے اُمّتِ مرحوم ہے
ذرّہ ذرّہ تیری مُشتِ خاک کا معصوم ہے١١
کشمیر کے بارے میں ارمغان حجاز میں اقبال فرماتے ہیں:
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر کل
جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر١٢
افغانستان کے بارے میں بالِ جبریل میں لکھتے ہیں:
قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند ١٣
3۔ کسی متحدہ پلیٹ فارم کا نہ ہونا اور اس کا حل
اقبال، پورے عالم اسلام کے لئے ایک مرکز اور پلیٹ فارم کے خواہاں تھے آپ کے بقول:
قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی ١٤
لیکن اس وقت بہت سارے لوگ لندن اور جنیوا کو اپنا قبلہ اور مرکز بنا چکے تھے، انھیں جو کچھ ادھر سے حکم ملتا تھا، وہ اسی کے سامنے سرخم کرتے تھے۔ چنانچہ اقبال نے مسلمان قوم کو مخاطب کرکے کہا:
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہء یہود میں ہے ١٥
اقبال کی دوراندیشی کا یہ عالم تھا کہ آپ اس زمانے میں تہران کو ایک عالمی اسلامی مرکز کے طور پر دیکھ رہے تھے، اس لئے آپ نے کرہ ارض کی تقدیر بدلنے کی خاطر اقوام مشرق کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ لندن اور جنیوا کے بجائے تہران کو اپنا مرکز بنائیں۔ جیسا کہ آپ ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں:
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے ١٦
آپ کے نزدیک خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ ان کے پاس ایک متحدہ پلیٹ فارم کا نہ ہونا تھا، آپ نے اس سلسلے میں لوگوں کو صرف اشعار اور نظمیں نہیں سنائیں بلکہ آپ نے ایک عالمی اسلامی پلیٹ فارم کی تشکیل کے لئے ابتدائی طور پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرکے فعال کردار بھی ادا کیا اور اس طرح مسلم لیگ کو ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک قومی پلیٹ فارم بنا دیا۔
4۔ ذمہ داری اٹھانے سے گریز کرنا
اس زمانے میں خصوصیت کے ساتھ امت مسلمہ کو جو مسئلہ درپیش تھا، وہ باشعور قیادت و رہبری کا فقدان تھا، جس کے باعث بعض تنگ نظر، کم فہم اور مغربی تہذیب و ثقافت سے مرعوب لوگ، شعوری یا لاشعوری طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی دینی و ثقافتی روایات کو پامال کرنے میں غیروں کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ جیسا کہ اقبال ایک جگہ پر فرماتے ہیں:
فتنہء ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے! ١٧
اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
یہ مصرعہ لکھ دیا
کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گرگئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا
نااہل رہبروں کی رہبری کے بارے میں ضربِ کلیم کے صفحہ 112 پر نفسیاتِ غلامی کے عنوان سے ایک نظم میں اقبال کہتے ہیں:
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
ضربِ کلیم کے ہی صفحہ171 پر اقبال فرماتے ہیں:
خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو وہ سجدہ
جس میں ہے ملّت کی زندگی کا پیغام
ذمہ داری سے گریز کرنے کے مسئلے کا حل اقبال کچھ اس طرح سے بتاتے ہیں:
خودی میں ڈوب زمانے سے ناامید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمامِ رفو
رہے گا توہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اتر گیا جو تیرے دل میں لا شریکَ لہ
اقبال نے امت مسلمہ میں قیادت کے فقدان، خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں میں پائے جانے والے والے اس خلاء کو پر کرنے کے لئے صرف نوحہ اور آہ و بکا نہیں کی، بلکہ آپ نے اس ذمہ داری کو اپنی توان و صلاحیت کے مطابق نبھانے کے لئے مسلم لیگ کی صدارت کی ذمہ داری کو قبول کیا۔ اسی طرح آپ نے 1931ء میں دوسری گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے لئے شرکت بھی کی۔
5۔ باصلاحیت اور قابل افراد کی ناقدری اور اس کا حل
جو قومیں اپنے صاحبانِ فن کی قدر نہیں کرتیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے دوسروں کے پیچھے چلتی ہیں اور دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کئے رکھتی ہیں، ایک تو ان کا دامن صاحبانِ فن و ایجاد سے خالی ہوجاتا ہے اور دوسرے وہ ہمیشہ سوالی بنی رہتی ہیں۔ چنانچہ اقبال کہتے ہیں:
جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اس وقت اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کا ایک مسئلہ باصلاحیت اور قابل افراد سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے کا بھی تھا، جس کی وجہ سے کوئی ایسی قیادت بھی وجود میں نہیں آرہی تھی، جو انگریزوں اور ہندووں کی سیاسی یلغار کے سامنے ڈٹ سکے، اس کے لئے اقبال نے جہاں اشعار میں اس مسئلے کا حل بتایا ہے، وہیں جب امت مسلمہ کی قیادت کی اہلیت بیرسٹر محمد علی جناح میں دیکھی تو فوراً انھیں مسلم لیگ میں شمولیت اور قیادت کی دعوت دی۔ سچ بات تو یہ ہے کہ محمد علی جناح کو اقبال کی بروقت فعالیت نے ہی قائد اعظم بنایا ہے۔ فکرِ اقبال کی روشنی اور قائدِ اعظم کی مسلم لیگ میں شمولیت کے سلسلے میں اقبال کی کاوشوں سے پتہ چلتا ہے کہ امت مسلمہ کے مسائل کا ایک حل یہ بھی ہے کہ امت غیروں کو اپنا رہبر و رہنما بنانے کے بجائے اپنے لائق، ذہین اور باصلاحیت افراد کو خدمت و قیادت کا موقع دے اور ان پر اعتماد کرے۔
6۔ مسلمانوں کے سامنے کسی واضح منزل کا نہ ہونا
اقبال کے نزدیک امتِ مسلمہ کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ خود مسلمانوں پر واضح نہیں تھا کہ وہ کیا کریں اور انہیں کیا کرنا چاہیے، اس کے لئے اقبال نے نہ ہی تو شاعروں کی طرح رومانوی ماحول ایجاد کیا، نہ فلاسفروں کی طرح اپنی تحریروں اور نہ گفتگو میں فلسفہ جھاڑ کر اپنی جان چھڑائی، نہ سیاستدانوں کی طرح دوہری باتیں کیں اور نہ مکاروں کی طرح پلورل ازم کا سہارا لیا، بلکہ اقبال نے صاف و شفاف الفاظ میں خطبہ اِلہ آباد میں ایک اسلامی ریاست کا واضح نقشہ پیش کیا۔
7۔ مسلمانوں کا استعماری سازشوں کے باعث اسلامی تعلیمات سے دوری اختیار کرنا
اقبال کے نزدیک امت کی زبوں حالی کی ایک وجہ مسلمانوں کا استعماری سازشوں کے باعث اسلامی تعلیمات سے دوری اختیار کرنا بھی تھا۔ اس سلسلے میں اقبال یہ چاہتے تھے کہ مسلمان غیر مسلموں کی سازشوں میں آنے کے بجائے اپنی خبر لیں اور اپنے آپ کو پہچانیں۔ چنانچہ ضربِ کلیم میں آپ فرماتے ہیں:
افرنگ از خود بے خبرت کرد
وگرنہ اے بندہ مومن! تو بشیری، تو نذیری
اسی طرح آپ نے اپنے ایک مضمون میں اس مسئلے کا ذکر بھی کیا ہے اور اس کا حل بھی وہیں پر لکھا ہے: "ایک سبق جو میں نے تاریخِ اسلام سے سیکھا، یہ ہے کہ آڑے وقتوں میں اسلام نے ہی مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا، مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی۔ اگر آپ اپنی نگاہیں اسلام پر جما دیں اور اس کے زندگی بخش تخیّل سے متاثر ہوں تو آپ کی پراگندہ اور منتشر قوتیں ازسرِ نو جمع ہوجائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ ہوجائے گا۔" ١٨
8۔ مغربی تہذیب و ثقافت سے مسلمانوں کا مرعوب ہونا اور اس کا حل
انگریزوں نے مادی تسلط حاصل ہونے کے ساتھ ہی مسلمانوں کو فکری طور پر بھی مغلوب کرنا شروع کر دیا تھا، اس کے لئے انھوں نے اپنی سرپرستی میں کئی تعلیمی ادارے کھلوائے، کتابیں لکھوائیں اور اخبار نکلوائے۔ اس کے علاوہ کئی افراد کو یورپ لے جاکر وہاں ان کی مغربی فکری خطوط پر تربیت بھی کی، لیکن اقبال استعمار کی اس فکری یلغار کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے رہے اور آپ نے عملی طور پر یورپی فکری یلغار کا مقابلہ کیا۔ چنانچہ آپ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں:
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ ِ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک ِمدینہ و نجف
اسی طرح بالِ جبریل میں فرماتے ہیں:
عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے
حرم کا راز توحید امم ہے
تہی وحدت سے ہے اندیشہء غرب
کہ تہذیبِ فرنگی بے حرم ہے
یا پھر ضربِ کلیم میں اقبال ایک مسلمان سے جو گلہ کرتے ہیں، اس کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گِلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں ١٩
افرنگی تہذیب و ثقافت سے مرعوبیت کا علاج اقبال نے ضربِ کلیم کے ص556 پر کچھ یوں بتایا ہے:
کل ساحلِ دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے
تو ڈھونڈ رہا ہے سَمِ افرنگ کا تریاق
اک نکتہ میرے پاس ہے شمشیر کی مانند
برّندہ و صیقل زدہ و روشن و برّاق
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
یعنی اقبال کے نزدیک سَمِ افرنگ کا تریاق یہ ہے کہ انسان مومن بنے، ورنہ وہ جب تک کافر یا کافر نما رہے گا، یورپ کی تہذیب کے طلسم میں کھو کر حیراں و سرگرداں ہی رہے گا۔
9۔ دینی مدارس اور علمائے کرام میں سیاسی و اجتماعی شعور کا فقدان
اقبال کو جو سب سے بڑی مشکل نظر آرہی تھی، وہ امتِ کی دینی قیادت یعنی علماء میں سیاسی و اجتماعی شعور کا فقدان تھا، ان کے نزدیک مدارس میں شاہین بچوں کو خاکبازی کا درس دیا جانا ملت کے ساتھ بہت بڑی خیانت تھی۔ اس لئے کہ انہی بچوں نے آگے چل کر ملت کی قیادت اور سیادت سنبھالنی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اکثر علماء انگریزوں کی غلامی اور ہندووں کی بالا دستی کو دل و جان سے قبول کرچکے تھے۔ ایسے علماء کا خیال تھا کہ ہمیں مذہبی رسومات کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ہندو اور انگریز ہمارے ساتھ تعاون بھی کرتے ہیں، اس لئے ہمیں ان کے خلاف مزاحمت کے بجائے ان سے ہمکاری کرنی چاہیے، چنانچہ اس صورتحال پر رنجیدہ ہو کر ایک مقام پر اقبال فرماتے ہیں:
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد! ٢٠
بانگِ درا میں شمع کے عنوان سے لکھی گئی ایک نظم میں اقبال علمائے کرام کے مصلحت آمیز رویّے، برہمنوں کی سازشوں اور کھوکھلی نمازوں کی منظر کشی کچھ یوں کرتے ہیں:
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بَن ہوگئیں
سَطوَتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نمازیں ہند میں نذرِ برہمن ہوگئیں
اسی طرح ارمغانِ حجاز میں اقبال کہتے ہیں:
مُلّا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے مئے خانہء صوفی کی مئے ناب ٢١
وہ ایسا دور تھا کہ بعض نام نہاد علماء حضرات نے استعمار کے اشارے پر مسلمانوں میں موجود عقابی روح کو مسخ کرنے کے لئے اسلامی افکار و نظریات اور عقائد کی تردید کرنی شروع کر دی تھی۔ چنانچہ اقبال طنزاً ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ
کچھ غم نہیں جو حضرتِ واعظ ہیں تنگ دست
تہذیبِ نو کے سامنے سر اپنا خم کریں
ردِّ جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا
تردیدِ حج میں کوئی رسالہ رقم کریں
علماء سے اقبال کو یہ شکایت تھی کہ انھوں قوم کی قیادت و رہنمائی کرنے کے بجائے قوم کو مغربی افکار سے مرعوب کرنا، فرقہ وارانہ مباحث کو فروغ دینا اور عقیدتی و کلامی بحثوں کو چھیڑنا اپنا معمول بنا رکھا ہے، جبکہ ملّت دن بدن غلامی کے نشے میں مست ہوتی جا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ توحید جو امت کی طاقت تھی، علماء نے اسے صرف علمِ کلام کا ایک مسئلہ بنا کے رکھ دیا ہے اور واعظین ِ قوم میں اتنی پختہ خیالی بھی نہیں ہے کہ وہ اِدھر اُدھر کی مصروفیات چھوڑ کے، اسلامی تہذیب و ثقافت اور تمدّن کو زندہ کرنے کی فکر کریں، وہ تعویز گنڈے، جادو کے توڑ، تجوید، روخوانی اور اذان و نماز سے آگے بڑھیں اور معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانے کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کریں۔ چنانچہ بانگِ درا میں وہ کہتے ہیں:
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برقِ طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے
علماء کی اس بے حسی اور کم فہمی کے علاج کے طور پر اقبال نے امت کو علماء کی بے حسی سے آگاہ کیا ہے۔
10۔ مسلمانوں میں علاقائی نیشنلزم کا فروغ
استعمار نے ہندوستانی مسلمانوں میں جب انقلاب اور آزادی کی تڑپ دیکھی، خصوصاً تحریکِ خلافت، ہندوستان چھوڑ دو تحریک، تحریک ریشمی رومال، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے افکار وغیرہ تو اس وقت استعمار نے مسلمانوں میں اسلامی ملی وحدت کو توڑنے کے لئے علاقائی نیشنلزم کو فروغ دینا شروع کر دیا، مسلمانوں میں یہ طرز فکر رشد کرنے لگی تھی کہ ہم اصل میں ہندی ہیں اور اتفاق سے مسلمان بھی ہیں۔ چنانچہ اقبال اس نیشنلزم کے مقابلے میں قیام کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اُن کی جمعیّت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعِیّت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیّت کہاں
اور جمعیّت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
اسی طرح نیشنلزم کے بت کے پجاریوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
نہیں تجھ کو تاریخ سے آگاہی کیا
خلافت کی کرنے لگا تو گدائی
خریدیں نہ جس کو ہم اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی ٢٢
لیکن جب نام نہاد علماء کرام استعماری نیشنلزم کو منبروں سے فروغ دینے لگے تو ایک مرتبہ اقبال نام لینے پر مجبور ہوگئے اور آپ نے سرزمینِ دیوبند میں منبر سے نیشنلزم کی تبلیغ کرنے والے مولوی کو مخاطب کرکے کہا:
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ
از دیوبند حسین احمد این چہ بو العجبی است
سرود برسرِ منبر کہ ملّت از وطن است
چہ بے خبر از مقامِ محمدِۖ عربی است
بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بو لہبی است ٢٣
11۔ امت کے مسائل اور اقبال کی مناجات
عام طور پر اقبال کی ذات کے اس پہلو کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ اقبال ایک پکے موحد اور عاشقِ رسول تھے، چناچہ اقبال نے امت کے مسائل کو حل کرنے کا راستہ خدا اور رسولۖ کے ساتھ مناجات اور عشق میں ڈھونڈا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اقبال امت مسلمہ کے لئے خدا کی بارگاہ میں کس طرح مناجات کرتے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے ٢٤
امتِ مسلمہ کی خاطر اقبالۖ بارگاہِ پیغمبرِ اسلام میں اس طرح گریہ و زاری کرتے ہیں۔
اے بادِ صبا! کملی والے سے جاکہیو پیغام مرا
قبضے سے امّت بیچاری کے دیں بھی گیا، دنیا بھی گئی ٢٥
اسی طرح ایک اور مقام پر کہتے ہیں:
قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدۖ سے اجالا کر دے
ایک نمونہ اور ملاحظہ فرمایئے:
حضورۖ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنّت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تیری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں ٢٦
ایک اور مقام پر یوں فرماتے ہیں:
کل ایک شوریدہ خواب گاہِ نبیۖ پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بِنائے ملّت مٹا رہے ہیں
یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
غضب ہیں یہ مرشدانِ خودبیں، خدا تیری قوم کو بچائے
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزّت بنا رہے ہیں ٢٧
نتیجہ:
عصرِ حاضر میں جب ایک مرتبہ پھر امتِ مسلمہ مغربی تہذیب و تمدّن سے مرعوب ہے اور اسلامی ممالک کے اکثر سیاسی و مذہبی رہنما اسلام کی آفاقی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر یہود و ہنود کی خوشامد کرنے میں مصروف ہیں تو ایسے میں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم علامہ محمد اقبال کو اپنے معاشرے میں ویسے ہی متعارف کروائیں، جیسے کہ وہ تھے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہم اقبال کے افکار کو ان کی عملی زندگی کے ہمراہ نسلِ نو میں منتقل کریں اور اقبال کے افکار کو عمل کے ترازو میں تول کر منظرِ عام پر لائیں، تاکہ ملت جلوہ دانش فرنگ سے مرعوب ہونے کے بجائے خاکِ مدینہ و نجف کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنائے۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.