وحدت نیوز (آرٹیکل) انسان کی زندگی میں کچھ حادثے ایسے ہوتے ہیں جو انسان کے قلب و احساس پر گہرے نقوش چھوڑ دیتے ہیں۔ انسان چاہے بھی تو اُن کو فراموش نہیں کرسکتا۔ اسی طرح کچھ انسان بھی ایسے ہوتے ہیں کہ جو ساری زندگی دوسرون کے دل و دماغ پر چھائے رہتے ہیں۔ تاریخ ایسی شخصیات اور ایسے حادثوں سے بھری پڑی ہے۔ اگر یہ حادثے تازہ ہوں تو درد و رنج بھی تازہ ہوتا ہے، انہیں تاریخی حادثوں میں سے ایک حادثہ، فاجعہ منٰی ہے، جس نے نہ صرف عالم اسلام کو متاثر کیا بلکہ ہر صاحب شعور چاہے کسی مذہب و مسلک سے اُس کا تعلق ہو اور جو انسانیت کو سب سے بڑا مذہب و مکتب سمجھتا ہو، متاثر ہوا ہے۔ فاجعہ منٰی میں سات ہزار حجاج کرام کہ جن کو مہاجر الی اللہ کہا جاتا ہے، کا شہید ہونا، پوری ملت و اسلام کے لئے باعث درد و الم بنا اور اس سے پوری ملت اسلام کو بہت بڑا نقصان ہوا چونکہ اس میں کچھ شخصیات ایسی تھیں جو کہ بین المللی تھیں اور جن کی ابھی انسانیت کو بہت ضرورت تھی۔ اُن شخصیات میں سے ایک شخصیت مہاجر الی اللہ، عالم مبارز، استاد بزرگ، خطیب توانا، دوست مخلص، مدافع ولایت فقیہ، مبلغ اعظم، انسان دوست، شہید ڈاکٹر غلام محمد فخر الدین تھے۔
غلام محمد فخرالدین شہید کسی تعارف کے محتاج نہیں، چونکہ وہ ایک ہمہ جانبہ Multi-dimensional personality- تھے۔ علاقائی سیاست ہو یا قومی اور بین الاقوامی سیاست، داخلی ایشوز (issues) ہوں یا خارجی۔ تعلیم و تربیت کے مسائل ہوں یا فرہنگی و اجتماعی ہر میدان میں وہ صف اول میں نظر آتے تھے، شہید کا تعلق پاکستان کے پسماندہ اور دُور افتادہ علاقہ گلگت بلتستان سے تھا۔ شہید اپنے بوڑھے والدین کے اکلوتے بیٹے اور اکلوتا سہارا تھے۔ شہید نے اپنی زندگی کی ابھی 44 بہاریں بھی پوری طرح نہیں دیکھی تھیں۔ اس دار فنا سے دار بقا کی طرف لبیک ا۔۔۔ لبیک کہتے ہوئے قضائے الٰہی کو لبیک کہہ دیا اور اپنے فیملی پسماندگان کے علاوہ ہزاروں لوگوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہمیں یوں ہی اچانک شہید کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھونا پڑے گا۔
کہاں خبر تھی چمن یوں اُداس ہوجائے
یوں تجھے کھونے کا بے حد ملال باقی ہے
شہید سے بندہ حقیر کی ملاقات ایران کی مقدس سرزمین قم المقدس، جوار حرم حضرت معصومہ (س) میں دفتر مجلس وحدت مسلمین میں چار سال قبل ہوئی تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں مجھے احساس ہوا تھا کہ یہ ایک معمولی عالم نہیں، اُن کی گفتگو، ان کا اخلاق، بات کرتے ہوئے لبوں پر دائماً ایک میٹھا سا تبسم، یہ سب کچھ ایسا تھا کہ میں اُن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے پر مجبور ہوا۔ اُسی وقت میرے ساتھ آقائے شاہد حسین عرفانی جو کہ رشتے میں میرے ماموں لگتے ہیں، اور وہ مسلسل شہید مظلوم سے بلا جھجک گپ لگا رہے تھے، میں نے فرصت ملتے ہی اُن سے پوچھ لیا کہ یہ آغا صاحب کون ہیں اور کہاں سے ان کا تعلق ہے۔ تو ماموں نے تعجب سے کہا کہ عجیب ہے آپ ان کو نہیں جانتے، مجھے بڑی شرمندگی ہو رہی تھی، میں نے اثبات میں سر ہلا دیا، پھر ماموں شہید سے مخاطب ہوئے اور کہا یہ ہر دلعزیز، عالم مبارز، غلام محمد فخر الدین صاحب ہیں اور اُن کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور پھر میری طرف اشارہ کرکے فرمایا یہ میرا بھانجا ہے عاشق حسین، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کے شاگرد خاص ہیں۔ پھر شہید مجھ سے مخاطب ہوئے اور بڑی اپنائیت سے کچھ سوالات کئے۔ اُن کے ساتھ ایک اور شخص بزرگوار بھی تھے، اُن سے بعد میں تعارف ہوا وہ آقائے حسن باقری صاحب تھے۔ ماموں شاہد حسین عرفانی نے بعد میں بتایا ان دونوں کی جوڑی بہت پکی ہے۔ بڑے صمیمی دوست ہیں بلکہ کہا کہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں، جہاں فخر الدین صاحب ہوں گے، وہاں حسن باقری صاحب اور برعکس آپ کو نظر آئیں گے۔
اس پہلی ملاقات میں ہی قلباً میں اُن کے بہت قریب ہوچکا تھا۔ آہستہ آہستہ شہید سے مختلف جگہوں پر ملاقائیں ہوتیں رہیں، بلکہ ڈاکٹر کرار کے گھر کئی دفعہ اُن سے خصوصی گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ گلگت بلتستان کے مسائل پر ہماری اکثر اوقات گپ شپ ہوتی رہتی تھی، یہاں تک کہ آغا شہید MWM قم کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ دفتر میں اُن سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ شہید نے ایک دن دفتر میں بلایا اور شعبہ رواط و شعبہ سیاسیات کی مسئولیت سنبھالنے کا کہا۔ میں نے صاف الفاظ میں معذرت کی، لیکن شہید نے میری باتیں سُنی ان سنی کر دیں اور مجھے بالآخر اس مسئولیت کو انتخابات کے نتیجے میں قبول کرنا پڑا۔ یوں شہید کے ساتھ مل کر دفتر میں کام کرنے کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ کہ ایک شب شہید نے موجودہ قائم مقام سیکرٹری جنرل گلزار جعفری صاحب، مجھے اور کچھ اور دوستوں کو بلایا، کافی گپ شپ ہوئی۔ اپنی ساری ذمہ داریاں گلزار جعفری صاحب کو سونپی، دفتری کاموں کو بطریق احسن انجام دینے کی نصیحت کی اور کہا کہ وہ کافی لمبے عرصے کے لئے عازم پاکستان ہیں۔ جب میں نے اُن سے پوچھا آغا آپ دوبارہ کب تشریف لائیں گے، تو مسکرا کر فرمایا، آگے کا کچھ پتہ نہیں، انشاءاللہ اگر زندگی رہی تو دوبارہ ملاقات ہوگی۔ بہرحال شہید کو رات کے تقریباً ایک بجے ہم نے خدا حافظ کہہ دیا۔ میں نے اُن سے کہا آقا اگر اجازت ہو تو میں آپ کو موٹر سائیکل پر گھر چھوڑ دوں، کافی دیر ہوچکی ہے تو آقا نے فرمایا نہیں مختار مطہری صاحب مجھے گھر ڈراپ کریں گے، آپ چلے جائیں۔ مختار مطہری آفس سیکرٹری تھے۔ آغا شہید اُن سے بے حد پیار کرتے تھے۔ حتی آخری دنوں میں بھی whatsupp پر سعودیہ سے مختار مطہری صاحب سے رابطے میں تھے۔ میں خدا حافظ کرکے گھر آیا، لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ شہید آغا سے میری آخری ملاقات ہوگی اور یوں پردیس میں جاکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہ واپس نہیں آئیں گے۔
معصوم (ع) سے روایت ہے "و اذا مات العالم ثُلم فی الاسلام ثلمۃ لا یسدُّھا شئی الی یوم القیامۃ" معصوم (ع) فرماتے ہیں، جب کوئی عالم اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو اسلام میں ایک ایسی دراڑ پڑ جاتی ہے، ایسا خلا واقع ہوتا ہے کہ قیامت تک اُس خلا کو کوئی چیز پُر نہیں کرسکتی۔ شہید ڈاکٹر فخرالدین اس حدیث کے کماحقہ مصداق تھے۔ شہید اخلاق میں، شجاعت میں، خلوص میں، پرہیزگاری میں، اُنس و محبت میں، عمل میں، کوشش و تلاش میں، سیاست میں صداقت میں، امانت میں، سخاوت میں، تعلم و تربیت میں، قومی مسائل میں، عقاید میں، تزکیہ نفس، کوئی بھی مشکل اور ایشو ہو سب سے آگے نظر آتے تھے۔ سانحہ راولپنڈی ہو یا سانحہ کوہستان، سانحہ راولپنڈی ہو یا سانحہ تفتان، سوریہ کی جنگ ہو یا عراق و یمن، مسئلہ نصاب ہو، سانحہ 1988ء، مشکل کی ہر گھڑی میں ظلم و استبداد کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا ضروری سمجھتے تھے اور عملاً ہر میدان میں موجود ہوتے تھے، وہ اپنی سیاسی بصیرت اور شجاعت میں منفرد تھے۔
تو منفرد تھا شجاعت میں شرافت میں
ہر ایک زبان پر تیری مثال باقی ہے
اُن کی شخصیت میں اعتدال تھا، اگرچہ وہ کام مجلس وحدت مسلمین میں کرتے تھے، لیکن کبھی بھی اپنی زبان سے، اپنے عمل و اخلاق سے کسی اور کو اذیت نہیں کی یہی وجہ ہے کہ آج ہر پارٹی سے تعلق رکھنے والے مذہبی اور سیاسی لوگ اس غم میں برابر کے شریک ہیں، وہ عملاً ہر چیز سے بالاتر ہوکر اخوت، محبت اور بھائی چارے کے قائل تھے۔
نہج البلاغہ اور قرآن سے اُنہیں ایک منفرد لگاؤ تھا۔ مجتمع عالی امام خمینی میں باقاعدہ نہج البلاغہ کی تدریس کرتے تھے۔ امام علی (ع) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں "خالطوا الناس مخالطۃ اِن متّم معھا بکوا علیکم و ان عشتم ھَنو الیکم" امام فرماتے ہیں کہ لوگوں کے بیچ اس طرح سے زندگی گزارو، اگر مرجاؤ تو لوگ تم پر گریہ کریں اور اگر زندہ رہو تو لوگ آپ کی زیارت کے مشتاق ہوں۔ شہید منٰی امام (ع) کے اس قول کے واقعاً مصداق تھے۔ اُن کی شہادت کے بعد آج ہزاروں لوگ اُن پر گریہ کرتے ہیں، اُن کے لئے کف افسوس ملتے ہیں اور جب تک وہ زندہ تھے مجھ جیسے حقیر، اُن کی زیارت کے مشتاق رہتے تھے، وہ ہمیشہ دفتر میں کہتے تھے کہ جو بھی بات کرنے ہی اخلاق کے دائرے میں رہ کر کریں، تاکہ آپ کے عمل اور زبان سے کسی کو اذیت نہ ہو۔ دفتر میں اُن کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا، سیاسی فرہنگی اور دوسرے قومی مسائل پر اُن سے گفتگو کرنا ہمیشہ ہماری آرزو ہوا کرتی تھی۔ اُن کے ساتھ بیٹھنا ہم اپنے لئے باعث شرف اور افتخار سمجھتے تھے۔ جیسا کہ معصوم فرماتے ہیں مجالسہ اہل الدین شرف الدنیا و الآخرہ (کافی، ج۱، ص ۳۸) اہل دین (علماء) کے ساتھ معاشرت دنیا اور آخرت دونوں میں باعث شرف و افتخار ہے، شہید بہ عنوان ایک عالم دین ایسے ہی تھے کہ ہم اُن کے ساتھ بیٹھنا اپنے لئے باعث افتخار اور شرف سمجھتے تھے۔
شہید کی شہادت سے نہ صرف اُن کے بچے اپنے شفیق باپ سے محروم ہوئے، والدین نہ صرف اپنے اکلوتے بیٹے کو کھو چکے ہیں، طلباء نہ صرف اپنے مخلص اُستاد کو کھو چکے ہیں بلکہ پورے مکتب تشیع کو بڑا نقصان ہوا ہے، خاص طور پر مجلس وحدت مسلمین کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے، چونکہ وہ وحدت مسلمین کے اثاثی ستونوں میں سے ایک تھے۔ اس طرح سرزمین بے آئین 68 سالوں سے اپنے سیاسی، آئینی اور انسانی حقوق سے محروم، گلگت بلتستان کی عوام کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے، چونکہ مجھ جیسے کئی لوگ اُن کو گلگت بلتستان کا آئندہ اور مستقبل سمجھتے تھے اور میرے سمیت کئی مجھ جیسوں کو اُن سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔
چلا گیا ہے تو محفل سے اے اُمید شمال
ابھی قوم کی تقدیر کا سوال باقی ہے
اُن کی شہادت سے گلگت بلتستان اپنے ایک عظیم فرزند اور قائد سے محروم ہو گیا ہے۔
درد میں ڈوبا ہے گلشن تمہاری فرقت میں
تیرے افکار کا جاہ و جلال باقی ہے
تو جو پردیس میں جاکر نہیں آیا واپس
زبان گنگ ہے تیرا خیال باقی ہے
شہید جس طرح سے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں منفرد تھے، جس طرح سے شجاعت و سخاوت و عبادت، اخلاص و عمل اور اخلاق میں دوسروں سے الگ تھے، شہادت میں بھی دوسروں سے منفرد رہے، مہاجر الی اللہ کا شرف حاصل کیا اور قرآن کی اس آیت کا حقیقی مصداق ٹھہرے: "ومن یخرج من بیتہ مہاجراً الی اللہ و رسول، ثم یدرکہ الموت فقد وقع أجرہ علی اللہ و کان اللہ غفوراً رحیما" (سورہ نساء، آیت ۱۰۱) اور جو شخص خدا کی راہ میں گھر بار چھوڑ جاتے ہیں، وہ زمین میں بہت سی جگہ اور گشائش پائے گا اور جو شخص خدا اور رسولؐ کی طرف ہجرت کرکے گھر سے نکل جائے، پھر اُس کو موت آپکڑے تو اُس کا ثواب خدا کے ذمے ہوچکا اور خدا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ ایک عالم دین، عالم مجاہد اور مبارز ہونے کے ناطے وہ کبھی ایک جگہ نہیں رکتے تھے، ہمیشہ مسلسل سفر میں ہوتے تھے اور اکثر تبلیغ دین کے سلسلے میں ہمیشہ سفر پر ہوتے تھے۔ قم سے چار پانچ ماہ پہلے تبلیغ کے لئے پاکستان گئے تھے۔ اُن کے بچے قم میں تھے اور ابھی بھی یہی پر ہیں، ان چار پانچ مہینوں میں اُن کو ایران آنے کی فرصت ہی نہیں ملی، تبلیغ میں موفق اور کامیاب تھے اور اس کی وجہ اُن کی بصیرت اور اخلاق تھا۔ اُن کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی کشش تھی، وہ جو بات کرتے تھے، وہ دل میں اُتر جاتی تھی چونکہ وہ عالم باعمل تھے اور کوئی بھی جب اُن سے ملتا تھا متاثر ضرور ہوتا تھا۔
جہاں جہاں سے تو گزرا تھا ہر طرف پھیلا
تیرے کردار کا حسن و جمال باقی ہے
لیکن افسوس آل یزید (لعن) نے اس مرد حر اور مرد مجاہد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا کر دیا۔ خدا اس خبیث نسل (آل یزید) کو دنیا اور آخرت میں ذلیل و رسوا کرے، اُن کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچا دے، شہید کے درجات کو بلند فرمائے اور شہید کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ شہید راہ حق تمہاری عظمتوں کو سلام
آل یزید (لعن) کا ابھی زوال باقی ہے
بہت سارے دوستوں نے شہید کے بارے میں تفصیلاً لکھا، لیکن چند اشعار جو میں نے شہید کے بارے میں لکھے ہیں، آپ کے حضور عرض کرتا ہوں، شاید آپ کو بھی ایک آدھا ٹوٹا پھوٹا شعر اِن اشعار میں سے پسند آجائے اور مجھے دعا دیں، یہ اشعار شہید کے بارے میں میرے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
میرے عظیم برادر میرا سلام تجھ پر
فخر دین قوم کے یاور میرا سلام تجھ پر
تیرے بچھڑنے کا انداز کچھ الگ ہی رہا
اے عزم و صبر کے پیکر میرا سلام تجھ پر
قوم و ملت کو تمہاری بہت ضرورت تھی
اے حوصلوں کے سمندر میرا سلام تجھ پر
بہت امیدیں تھیں وابستہ تم سے اے بھائی
تو تھا ارمانوں کا محور میرا سلام تجھ پر
تمہاری جرأت و ہمت تمہارا حسن سلوک
محبتوں کے پیمبر میرا سلام تجھ پر
کسے خبر تھی کہ ایک پل میں سب ختم ہوگا
نہیں ہوتا ہمیں باور میرا سلام تجھ پر
تیرے بغیر گلستان میں گھپ اندھیرا ہے
کہاں سے لائیں تجھے گھر میرا سلام تجھ پر
تحریر۔۔۔۔عاشق حسین آئی آر