وحدت نیوز (آرٹیکل) شہيد منٰی، علامہ ڈاكٹر غلام محمد فخرالدين کی شخصيت اور خدمات كو بہت سے دوستوں نے اپنے انداز میں مرقوم كيا ہے، ان كی شهادت كی يقينی خبر آنے كے باوجود مجھ پر بے يقينی کی سی کیفیت طاری ہے اور چونكہ مجھے ايک لمبے عرصے تک شہيد كے ساتھ مختلف امور ميں كام كرنے كا موقع ملا اور ميں نے نزديک سے ان کے اخلاق اور کام کرنے کی روش كو ديكھا اور ان سے بہت كچھ سيكھا ہے، لہذا میں چاہتا ہوں کہ ان کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا جائے، تاکہ ان کی روش اور طریقہ کار اور ان کے اخلاق کو میدانِ عمل میں زندہ رکھا جاسکے۔ يہ كوئی 8 سال پہلے كی بات ہے، ان كے قريبی رشتہ دار حجۃ الاسلام آقای مختار مدبری كے توسط سے شہيد منٰی نے بنده حقير كو اپنے ساتھ اجتماعی، دينی، سياسی، ثقافتی، علمی اور فكری كاموں ميں حصہ لينے كے لئے اپنے سیٹ اپ setup ميں شامل ہونے كی دعوت دی۔ اگرچہ مرحوم نے بچپنے سے اپنے آپ كو انہی كاموں كے لئے وقف كر ركھاتھا ليكن قم المقدس ميں وه بعض دوستوں سے ملكر مذكوره كاموں ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ ميری ان كے ساتھ پہلے سے اچھی خاصی جان پہچان تھی اور ميرے دونوں بڑے بھائيوں كے ساتھ ان كی كالج كے زمانے سے اچھی دوستی تھی اور ميرے والد صاحب اور وه ايک دوسرے كو اچھی طرح جانتے تھے۔
جب ان كے ساتھ ہماری پہلی نشست ان كے قدیمی دوست حجۃ الاسلام والمسلمين آقای عبدالكريم قاسمی كے گھر ميں ہوئی تو ميرے ساتھ دو اور دوست حجۃ الاسلام آقای احسان دانش (چنداه) اور حجۃ الاسلام آقای تقی مطہری بھی مدعو تھے۔ نشست كا آغاز كلام الٰہی سے ہوا، اس كے بعد انهوں نے سب سے پہلے اپنے اغراض و مقاصد كو سامنے ركھا اور ہم سے كوئی چيز مخفی نہيں ركھی۔ باقی اغراض و مقاصد کی وضاحت كے بعد انہوں نے كہا کہ اس سياسی چپٹر (chapter) کی جب ہم تشريح كرتے ہيں تو بہت سے دوست شامل ہونے سے كتراتے ہيں اور معذرت چاہتے ہيں، يہ کہہ كر انہوں نے وضاحت شروع کی کہ ہمارا ہدف اور مقصد كسی کی مخالفت نہيں ہے۔ ہمارے لئے سب علماء، بزرگان، قابل احترام ہيں، ليكن جب بھی علاقے ميں كوئی سياسی اور دينی ايشو (issu) پيش آتا ہے تو ہماری ٹيم مل بيٹھ كر ديكھتی ہے کہ آيا ہماری كوئی ذمہ داری بنتی ہے يا نہيں، جب ہم تشخيص ديتے ہيں تو يہ نہيں ديكھتے کہ فلاں ساتھ دے رہا ہے يا نہيں۔
انہوں نے شہيد ضياءالدين کی نصاب تحریک كا حوالہ ديتے ہوئے كہا کہ اگرچہ سياسی طور پر ہم آغا شہيد ضياءالدين اعلی الله مقامہ سے اختلاف نظر ركھتے تھے، ليكن نصاب کی تحریک اس مرد مجاہد كا خالص الٰہی كام اور جائز مطالبہ تھا، كوئی ساتھ دے نہ دے ہم نے كھل كر ساتھ ديا۔ اسی طرح حجۃ الاسلام آغا راحت الحسينی کی رہائی كے لئے جو تحريک چلائی گئی، اس ميں بھرپور حصہ لينے كا بھی حوالہ ديا۔ اسی طرح چند اور ايشوز issues كا بھی حوالہ ديا۔ خلاصہ ان کی وضاحت كا نچوڑ يہ تھا کہ ہم اپنے وظيفے کی ادائيگی ميں كسی قسم كي بھی مصلحت كا شكار نہيں ہونگے، چاہے كوئی ہم سے ناراض ہی كيوں نہ ہو جائے۔ شہید نے اس موقع پر وضاحت کی کہ ہمارا ذاتی اور شخصی كسی كے ساتھ اختلاف نہيں ہے، اختلاف نظرياتی اور فكري ہے، ہم سب كے احترام كے قائل ہيں، بس ہمارا قصور یہی ہے کہ ہم انجام مسئولیت كے لئے كسی سے ڈكٹيشن (dictation) نہيں ليتے، اسی لئے ہمارے قابل احترام بزرگان ہم سے خفا رہتے ہيں۔ اس وضاحت كے بعد انہوں نے شامل ہونے اور نہ ہونے کا اختیار ہمیں دے دیا اور كہا کہ چونکہ يہ ايک فكری اور نظرياتی تنظيم ہے، جس كے لئے اگر آپ سو فيصد اتفاق كرتے ہيں تو شامل ہوسكتے ہيں۔
اس كے بعد ہميں موقع ديا گيا اور ہم ميں سے بھی ہر ايک نے اظہار خيال كيا، چونكہ ان کی گفتگو اس قدر معقول، مدلل اور قانع كننده تھی کہ ہمارے لئے كوئی سوال اور عذر كی گنجائش باقی نہيں رہی تھی۔ سب نے شامل ہونے كا اصولی فيصلہ كرليا۔ اس دن سے ميرا اس عالم مبارز اور مرد مجاہد كے ساتھ تنظيمی سفر شروع ہوا۔ شروع ميں اكثر دوستوں کی رائے سے اس سیٹ اپ كا نام مركز تعليمات و تبليغات اسلامی ركھا گيا، بعد ميں جب 1388 شمسی كو ايران كے صدارتی اليكشن كے بعد اٹھنے والے فتنے كے بعد جب رہبر انقلاب اسلامی آيت الله خامنہ ای نے خواص كو اپنے اندر بصيرت پيدا كرنے کی تاكيد فرمائی تو شہيد نے خواہش ظاہر کی کہ مركز تعليمات و تبليغات اسلامی كا نام تبديل كركے بصيرت آرگنائزيشن ركھنا چاہيئے۔ اس پر سب دوستوں نے اتفاق كيا۔ وه چند سال اسی سیٹ اپ كے صدر رہے اور سب دوستوں کی خواہش تھی کہ وه ہميشہ صدر رہيں، ليكن شہيد كا اصرار تھا کہ ہر ايک كو موقع دينا چاہيئے، سب كو مديريت سيكھنے كا موقع ملنا چاہیئے۔ يہ درست نہيں کہ ايک آدمی تنظيم کے سياه و سفيد كا مالک بنا رہے (ہمارے ہاں عام طور پر یہی ہوتا ہے)۔ انكے انكار كرنے پر ہم نے شہيد كو تنظيم كا سرپرست اعلٰی بنايا۔
اگر میں شہید کے ساتھ اپنے تنظیمی تجربے کو بیان کرنا چاہوں تو بلا مبالغہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ان میں خوبيوں كے علاوه كچھ نہيں ديكھا، وه ہميشہ اپنے ارادے ميں پكے نظر آئے، وه اپنے زمانے كے مالک اشتر تھے، وه كبھی مصلحت كا شكار نہيں ہوئے، وه ہميشہ ذاتی اور شخصی مفاد پر دينی اور قومی مفاد كو آگے ركھنے كے قائل تھے۔ ہمارے تنظيمی ہفتہ وار پروگرام ميں مختلف كتابوں كے مباحثے كا سلسلہ ہوتا تھا، اس ميں سب دوستوں کی خواہش ہوتی تھی کہ شہيد پڑھیں اور ہم سب استفاده كريں جبکہ شہيد كا اصرار ہوتا تھا کہ پڑھانے اور اسٹيج پر جانے کی عادت سب میں ہونی چاہيئے، اسی لئے وه صرف اپنی باری كے دن پڑھتے تھے اور دوسروں کی باری كے دن انتہائی توجہ كے ساتھ سنتے تھے اور تقريری باری كے دنوں ميں بھی وه ايک انٹرنيشنل ليول (LEVEL) كے خطيب ہونے كے باوجود اپنی باری كے دن انتہائی منظم انداز ميں خطابت كرتے تھے اور اور دوستوں كي گفتگو كو بھی انتہائی متانت سے سنتے تھے، وه تنظيمی دوستوں كے ساتھ انتہائی خنده پيشانی سے پيش آتے تھے اور بہت مہربان تھے، ان کی عدم موجودگی مٹينگوں اور پروگرامز کی بےرونقی كا سبب بنتی تھی۔
وه ہميشہ نظریئے اور فكر کی بات كرتے تھے، وه نظريہ ولايت فقيہ كے حقيقی مبلغ اور عاشق تھے، وه نظريہ فروشوں كے بڑے مخالف تھے، ہميشہ علمی بنيادوں كو مضبوط كرنے کی تلقين كرتے تھے، ان کی نظر ميں ظاہری القابات کی كوئی اہميت نہيں تھی اور اس سے خوش بھی نہيں ہوتے تھے۔ ايک دفعہ حوزه علمیہ كے طلّاب کی حاليہ خامياں بيان كرتے ہوئے انہوں نے كہا کہ آج كل طلّاب اپنے آپ كو حجۃ الاسلام كہلوانے سے زياده ڈاكٹر كہلوانا پسند كرتے ہيں، مختلف علوم ميں مهارت حاصل كرنا اچھا اقدام ہے، ليكن ڈگري لينا ہی حوزه والوں كا مقصد اور ہدف بن جائے، يہ زيب نہيں ديتا۔ وه ہميشہ وقت كے پابند تھے، وه كبھی بھی تنظيمی پروگراموں ميں معقول عذر كے بغير غير حاضر نہيں رہتے تھے، اكثريت کی رائے كا احترام كرتے تھے، وه منبر كي زينت تھے، ایک ايسا توانا خطيب تھے کہ ہر بات دليل اور تحليل كے ساتھ بيان كيا كرتے تھے۔ مختصر یہ کہ ان کی زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت تھی اور ان کی موت بھی حج کی عظیم اسلامی تحریک سے وصل ہوئی، گویا ایک متحرک زندگی ایک متحرک موت سے گلے مل گئی۔ خدا ہميں ان کی امانت (فكر اور مشن) كو لے كر پايہ تكميل تک پہنچانے کی توفيق عطا فرمائے۔
دور تک جاده كردار ميں سناٹا ہے
اب تو اس راه ميں تا حد نظر كوئی نہيں
تحریر۔۔۔۔۔محمد علی شریفی