وحدت نیوز (کوئٹہ) ترقیاتی پروجیکٹس میں سب سے پہلے بلوچستان یونیورسٹی کے ذیلی کیمپس کی تعمیر قابل ذکر ہے، جسکے لئے ابتدائی طور پر 15 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس منصوبے کے تحت 288 آسامیاں پیدا ہونگی، جنکا تعلق بھی شیعہ ہزارہ قوم سے ہوگا۔ مذکورہ یونیورسٹی میں بی ایس اور ایم ایس تک کی اعلٰی تعلیمی کلاسوں کا انعقاد ہوگا، جبکہ وعدے کے مطابق تعمیراتی کام مکمل ہونے کے بعد یونیورسٹی کی انتظامی کارروائی کی تمام ذمہ داری خود ایچ ای سی کے پاس ہوگی، یعنی مذکورہ پروجیکٹ کی رقم مستقبل میں تین ارب روپے سے بھی تجاویز کرسکتی ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں ہر ایم پی اے یعنی رکن اسمبلی کو دو اقسام کے فنڈز دیئے جاتے ہیں، جن میں سے ایک ترقیاتی فنڈ اور دوسرا صوابدیدی فنڈ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ترقیاتی فنڈز کی مد میں ہر ایم پی اے کیلئے سالانہ بیس کروڈ روپے سے زائد کی رقم مختص کی جاتی ہے۔ یہ ترقیاتی فنڈز کسی بھی رکن اسمبلی کے اکاؤنٹس میں براہ راست نہیں بھیجے جاتے، بلکہ انہیں صرف بلاواسطہ طریقے سے ہر سال اسمبلی میں مختلف ترقیاتی اسکیمز یا پروجیکٹز کی شکل میں پیش کیا جاتا ہیں، جو بعدازاں ایک قانونی طریقہ کار سے ہوتا ہوا سول اداروں کیجانب سے تکمیل کے مراحل میں پہنچتا ہے۔ اسکے برعکس صوابدیدی فنڈز کے استعمال کا حق کسی بھی رکن بلوچستان اسمبلی کو ایک حدتک براہ راست ہوتا ہیں، البتہ اسکے لئے بھی بعض قانونی پیچیدگیاں وجود رکھتی ہے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں ہر ایم پی اے کیلئے مذکورہ صوابدیدی فنڈز کی کل رقم سالانہ پانچ کروڈ روپے رکھی گئی تھی، جس سے متعلق وسیع پیمانے پر کرپشن کی خبریں بھی گردش کرتی رہی اور خدشہ ہے کہ شاید نیب (قومی احتساب بیورو) کیجانب سے سابقہ ایم پی ایز کیخلاف قانونی کاروائی بھی عمل میں لائی جائے۔ بہرحال 2013ء میں عام انتخابات کے انعقاد کے بعد ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعلٰی بلوچستان کا عہدہ سنبھالتے ہی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کرپشن کیخلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے صوابدیدی فنڈز کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا۔ اس اعلان پر میڈیا میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب کی تعریفیں بھی ہوئی۔ لیکن اتحادی جماعتوں کے دباؤ کیوجہ سے صوابدیدی فنڈز کو چھے مہینے کے عرصے کے بعد نومنتخب ایم پی ایز کیلئے دوبارہ ریلیز کردیا گیا۔ صوابدیدی فنڈز کے حوالے سے سب سے پہلے تو یہ مسئلہ زیر بحث رہا کہ کس مد میں کتنے پیسے مختص کئے جائے، کیونکہ گزشتہ ادوار کی برعکس موجودہ حکومت نے صوابدیدی فنڈز کی کل رقم کو سالانہ پانچ کروڈ سے کم کرکے تین کروڈ روپے کردیئے۔ یعنی اگر ایک ایم پی اے ایمانداری سے فنڈز کو خرچ کرنا چاہے، تو سالانہ تین کروڈ روپے ایک حلقے کے مسائل کو حل کرنے کیلئے انتہائی ناکافی ہوتے ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے پہلے نومنتخب رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا بھی گزشتہ دو سالوں سے اپنے حلقے کے عوام کی بھرپور نمائندگی کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ چاہے دہشتگردی کا معاملہ ہو یا ملکی سطح پر اپنی ملت کی آواز کو پہنچانے کا معاملہ، سید محمد رضا آغا ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک ایم پی اے ہونے کی حیثیت سے بھی سید محمد رضا آغا اپنے فنڈز کو انصاف کیساتھ استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ جسکا اندازہ درج ذیل دیئے گئے انکی دو سالہ کارکردگی رپورٹ کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔
سید محمد رضا کی گزشتہ دو سالہ ترقیاتی فنڈز کی تفصیلات
ترقیاتی پروجیکٹز میں سب سے پہلے بلوچستان یونیورسٹی کی زیلی کیمپ کی تعمیر قابل ذکر ہے، جسکے لئے ابتدائی طور پر 15 کروڈ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس منصوبے کے تحت 288 آسامیاں پیدا ہونگی، جنکا تعلق بھی شیعہ ہزارہ قوم سے ہوگا۔ مذکورہ یونیورسٹی میں بی ایس اور ایم ایس تک کی اعلٰی تعلیمی کلاسوں کا انعقاد ہوگا۔ جبکہ وعدے کے مطابق تعمیراتی کام مکمل ہونے کے بعد یونیورسٹی کی انتظامی کاروائی کی تمام ذمہ داری خود ایچ ای سی کے پاس ہوگی۔ یعنی مذکورہ پروجیکٹ کی رقم مستقبل میں تین ارب روپے سے بھی تجاویز کرسکتی ہے۔
یونیورسٹی کے مدمقابل ہی ایک ریزیڈینشل اسکول بھی تعمیر کی جارہی ہے۔ جسکا مقصد چھوٹے طالبعلموں کو تعلیم کیساتھ ساتھ مکمل تربیتی ماحول فراہم کرنے ہے۔ مذکورہ پروجیکٹ کیلئے ابتدائی طور پر 4 کروڈ 30 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہے۔
گزشتہ سال حلقہ پی بی 2 میں انتہائی خستہ حال سڑکوں کی تعمیر کیلئے مبلغ 10 کروڈ روپے خرچ کئے گئے۔
چونکہ علمدارروڈ کے علاقے مری آباد کے مکین زیادہ تر پہاڑوں پر آباد ہے، جو کم وسائل ہونے کی وجہ سے زمین پر گھر نہیں بناسکتے۔ مری آباد کے رہائشوں کو پانی کی ترسیل کیلئے انتہائی مشکلات کا سامنا تھا، جسکے مدنظر آغا رضا کیجانب سے مکانوں کے اوپر واٹر اسٹوریج کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا۔ مذکورہ پروجیکٹ کیلئے 8 کروڈ 50 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں اور اسکی تعمیر کا کام شروع ہے۔
اسی طرح حلقہ پی بی 2 میں نیچاری کیمپ اور دیگر ملحقہ علاقوں میں بھی عوام کو پانی کی قلت کا سامنا تھا۔ جسے مدنظر رکھتے ہوئے 1 کروڈ 70 لاکھ روپے کی لاگت سے دو ٹیوب ویلز کی تعمیر کا کام مکمل کرلیا گیا ہے۔ جبکہ ان ٹیوب ویلز کو چلانے کیلئے مزید 2 کروڈ 61 لاکھ کی لاگت سے بوسٹر مشین کی خریداری بھی عمل میں لائی گئی۔
مری آباد کے رہائشیوں کی درخواست پر علاقہ مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک کمیونٹی ہال بھی بنائی جا رہی ہے، جسکی تعمیر کے لئے 1 کروڈ 35 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
ایم ڈبلیو ایم کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا نے اپنے الیکشن مہم کے مطابق پچاس ہزار فٹ زمین مستحق شُہداء کے پسماندگان کیلئے خریدی ہے، جس پر بہت جلد رہائشی پلاٹس تعمیر کرکے اسے شُہداء کے لواحقین میں تقسیم کیا جائے گا۔
ایم پی اے فنڈز سے مالی معاونت کی تفصیلات
ایم ڈبلیو ایم کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا نے پہلے سال یعنی 2013-14ء کے صوابدیدی فنڈز کے ذریعے بھی 416 طلبعلموں کو ایک کروڈ کے اسکالرشپ چیکس تقسیم کئے۔ لیکن پہلی مرتبہ اس اسکالرشپ کی رقم کو ایم ڈبلیو ایم کوئٹہ سیکرٹریٹ کے دفتر میں ہی تقسیم کئے گئے۔ اس حوالے سے شکوک وشبہات کو عوام کے زہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ اسکالرشپ میں ایک طالبعلم کو تین ہزار جبکہ ایک کو دو لاکھ روپے دیئے گئے ہیں۔ جبکہ قانون کے مطابق کسی بھی طالبعلم کے کالج یا یونیورسٹی کی فیس کی رقم کو ہی اسکالرشپ کی مد میں دی جاسکتی ہے۔ یعنی اگر کسی کی فیس تین ہزار ہوگی، تو اسے اتنی ہی دی جائے گی۔ اور اگر کسی طالبعلم کی فیس دو لاکھ ہوگی تو اسے دو لاکھ روپے کا چیک دیا جائے گا۔
اسکے علاوہ سال اول میں آغا رضا کیجانب سے 45 لاکھ روپے 65 مختلف مریضوں کے اعلاج معالجے کیلئے تقسیم کئے گئے، جن میں صرف ایسے مریض شامل ہے جن کے پاس دستاویزات موجود ہیں۔ جبکہ چار لاکھ چھیاسی ہزار ایسے مستحق مریضوں کو بھی نقد پیسے دیئے گئے ہیں، جن کے پاس کوئی قانونی دستاویزات موجود نہیں تھے اور انہیں اس لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔
مختلف اسپورٹس کلبوں کو کل مبلغ 15 لاکھ روپے گزشتہ سال امدادی رقوم دیئے گئے۔
جبکہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی کل 426 طالبعلموں میں ایک کروڈ روپے کی اسکالرشپ رقم تقسیم کئے گئے۔
ان تمام پروجیکٹز سے متعلق ہر قسم کی دستاویزات ثبوت ایم ڈبلیو ایم کوئٹہ سیکرٹریٹ میں موجود ہے۔ بلوچستان کی مخدوش صورتحال اور تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی ایم پی اے کو کام کرنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ڈپٹی کمشنر کوئٹہ میں حلقہ پی بی 2 سے متعلق جمع کئے گئے قانونی دستاویزات کو دیکھ کر انکے تاثرات بھی یہی تھے کہ صوبے کی تاریخ میں اس قدر صاف وشفاف فنڈز کی تقسیم وترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کا کام پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، جسکے لئے سید محمد رضا انتہائی تعریف کے مستحق ہے۔