وحدت نیوز (آرٹیکل) سید الشہداء ؑ کے حقیقی فرزندقائدِ ملت جعفریہ شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی ملتِ جعفریہ کے باوفا ناصر ومددگار، لاکھوں حسینی نوجوانوں کے دل کی ڈھڑکن، اتحاد بین المسلمین کے داعی، امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ کے سچے پیروکار، مربی اخلاق، پاکیزہ کردار، حریت کا پیامبر، مملکتِ پاکستان میں بسنے والے ہر انسان کے حقوق کے ترجمان، پاسبانِ انقلاب اسلامی، استعماری و استکباری قوتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے سپہ سالار اور معاشرتی برائیوں کے خلاف آوازِ حق بلند کرنے والے تقویٰ گزار اسلامی اور معاشرتی مفکر تھے۔ عالمی استعمار کے اور اس وقت کے آمر حکمران جو غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر اسلام کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی کی سازش کر رہا تھے کے خلاف سرزمیں پاکستان پر آواز احتجاج بلند کرنے کی پاداش میں اس عظیم مجاہد اور روحانی شخصیت کو 5اگست1988کی صبح دورانِ نماز فجر پشاور کے مدرسہ علمیہ جامعہ المعارف میں شہید کردیا گیا اس طرح شہید قائد نے اپنے امامِ برحق علی ابن ابوطالب ؑ کا سنت ادا کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔تاریخ نے ایک پھر خود کو دہرایا اور محرابِ مسجد خونِ ناحق سے رنگین ہوگئی۔ مگر شاید قاتل تاریخ سے ناواقف تھا کہ جب بھی کبھی کسی کو ناحق قتل کیا جاتا ہے تب انقلاب آتا ہے شہید کا خون رایئگاں نہیں جاتا۔ اس آواز کو تو خاموش کیا جا سکتا ہے مگر شہید کے افکار زندہ رہتے ہیں بقولِ شاعر
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
شہید میں قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں اسی لئے قائدِ ملت جعفریہ مفتی جعفرحسین قبلہ مرحوم نے اپنے ساتھ ساتھ ہر قدم پہ علامہ کو رکھاچاہے وہ زکوۃ عشر آرڈنینس ہو یا مکتبِ تشیعوں کے مسائل ہوں یاطلباء کیلئے نصاب کا نفاذ ہو علامہ شہید ہرلمحہ مفتی جعفر حسین کے مجاہدِ ہر اول دستہ اور بہترین مشیر کے طور پر کام کرتے رہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ جب قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین کا وصالِ پر ملال ہوا تو ملتِ جعفریہ کی نظریں علامہ سید عارف الحسینی کی جانب تھی۔ اس وقت کے علماءِ کرام کی بھی نظر میں علامہ شہید سے بہترقیادت سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔بلا شک و شبہ علامہ میں قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی اس لئے متفقہ طور پر 1984میں قوم اور جید علماءِ کرام نے آپ کو قائدِ ملتِ جعفریہ منتخب کرلیا۔
قوم کی قیادت سنبھالتے ہی علامہ شہید اور زیادہ حقوقِ ملت کے لئے جدوجہد کرنے لگ گئے۔ آپ کے سامنے کراچی سے پاراچنار تک کے حالات تھے اس لئے آپ نے پورے ملک کے دورہ جات شروع کردئے اور علماء کرام، ذاکرینِ عظام،عمائدین،زعماء اور عوام سے رابطے شروع کئے۔
علامہ شہیدمیں انکساری اس درجہ تھی کہ خود لوگوں سے ملنے جاتے۔ فنا فی ذات شخصیت تھے کبھی انا پرستی کا شکار نہیں ہوئے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس بات کی تلقین کرتے تھے اگر ملت کے مفاد میں اپنی ذات بھی فنا کرنے پڑے تو گریز نہ کرو۔ یہ قانونِ الہٰی ہے کہ جو خود کو اس کی اس کے رسولﷺ اور اس کے پیاروں کی ذات میں ضم کر لیتا ہے اور اپنا آپ بھول جاتا ہے خدا اس کا تذکرہ بلند فرماتا ہے۔ ایسا ہی شہید قائد کے ساتھ بھی ہوا۔ ان نامساعد حالات میں دن کا یہ مجاہد رات میں پرودگار کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرتا ہوا مصلے پر نظر آتا۔ اور نمازِ شب میں یہ دعا کرتا کہ
(اے امام زمانہ (عج) مجھے ملت کی قیادت میں ثابت قدمی عطا فرما، مجھے
سرزمیں پاکستان اور ملت کے حقوق کے تحفظ کی توفیق عطا فرماپہاڑاپنی جگہ
چھوڑ دیں مگر میرے قدم پیچھے نہ ہٹیں، میرا عزم و حوصلہ متزلزل نہ ہونے پائے)
پھر وہ وقت بھی آیا جب آمرِ وقت نے اعلان کیا کہ پاکستان کے تمام ہوائی اڈے امریکہ کے مشکل حالات میں امریکہ کے حوالے کئے جاسکتے ہیں تو عوام میں اضطرابی کیفیت پائی جانے لگی اور پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ گیا ایسے میں مجاہدِ ملت علامہ عارف حسین الحسینی اٹھ کھڑے ہوئے اور قرآن و سنت کانفرنس کا اعلان کر دیا جو مینارِ پاکستان پہ منعقد ہوئی جس میں علامہ شہید کی قیادت میں لاکھوں فرزندانِ توحید نے پاکستان کے دفاع و سلامتی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا عہد کیا۔عالمی استعمار کے ایوانوں میں اس کانفرنس کے بعد زلزلہ طاری ہوگیااور شہید قائد نے عہد وفا کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔
آج پھر وہی مسائل پاکستان کو درپیش ہیں اور قائد شہید کے حقیقی وارث علامہ راجہ ناصر عباس جعفری یہ نعرہ لگا کر مجلسِ وحدتِ مسلمین پاکستان کا قافلہ لے کر نکلیں ہیں (پاکستان بنایا تھا پاکستان بچائیں گے) اور انشااللہ ہم سب اس قافلے کے راہی ہیں اور آئمہ طاہرین ؑ ،شہید قائداور شہداءِ وطن کی پیروی میں اس مملکتِ خداداد پاکستان اور اس میں رہنے والے محبانِ وطن کے تحفظ کے لئے اپنے خون کے آکری قطرے تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
تحریر: ناصرحسین الحسینی