وحدت نیوز (آرٹیکل) یمن پر سعودیہ کی اپنے اتحادیوں کے ساتھ جاری مسلسل جارحیت میں جو اہداف وہ حاصل کرنا چاہتے تھے شاید ان میں زیرو پیمانے تک بھی کامیاب نہیں ہوسکے نہ تو وہ مفرور سابق صدر کو ریاض سے واپس اب تک یمن بھیج سکے اور نہ ہی حوثیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں سے ایک انچ واپس لینے میں کامیاب ہو سکے۔ سوائے اس کے سعودی جارحیت سے مکانات، اور شاہراہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جس سے حوثی کمزور نہیں ہونگے۔ سعودی عرب نے بہت کوشش کی کہ ان کے ساتھ پاکستان مل کر اس جنگ میں حصہ لے کیونکہ افواج پاکستان دنیا کی ماہر ترین افواج میں شمار ہوتی ہیں اور ہر وقت طرح کے ماحول اور حالات میں لڑنا جانتی ہیں لیکن الحمدللہ پاکستانی قوم کے شعور و بیداری نے حکمرانوں کو افغانستان والا پرانا تجربہ دہرانے نہیں دیا اور ہم ایک پرائی جنگ میں اپنے آپ کو ذلیل کرنے سے بچ گئے۔ پھر آل سعود کی طرف سے حرمین شریفین کا منجن بیچا گیا کہ یمنیوں کی طرف سے حرم کو خطرہ ہے۔ جب کہ یہی وہابی و سلفی ذہنیت کے سعودی حکمران ماضی میں خود حرم خدا پر حملہ کر چکے ہیں اور کئی صحابہ کرام کی قبور کو مسمار کر چکے ہیں ۔ اور سعودیہ نے اپنے مخالفین کو دبانے کے لئے ہمیشہ سے ہی حرم خدا کا سہارا لیا ہے اور جھوٹے پروپیگنڈہ کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین پر چڑھائی کی ہے۔ لیکن الحمداللہ دنیا جانتی ہے کہ حوثی مسلمان ہیں اور ان کے لئے کعبۃاللہ حرمت رکھتا ہے اور وہ اس بارے سوچ بھی نہیں سکتے اور انصاراللہ کے رہنمائوں نے بارحا اس بات کا تذکرہ بھی کیا ۔ اور مختلف سیاسی و مذہبی شخصیات کی طرف سے اس بات کی تردید کی گئ کہ اپنے مقاصد کے لئے لڑی جانے والی سیاسی جنگ کو مذہبی و حرمتی جنگ قرار نہ دیا جائے۔ اور بحمداللہ پاکستانی پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی قرار داد بھی اسی موقف کا عکاسی کرتی ہے۔
جب سعودیہ ہر طرف سے ناامید ہو کے اپنے آپ کو اس جنگ میں پھنستا ہوا دیکھتا ہے تو اس وقت مصالحت کی راہ نکالنے کے لئے مختلف کوششسیں کر رہا ہے جیسا کہ پاکستان و ترکی کی طرف سے دونوں فریقین کو مزاکرات کی میز پر لانے کا موقف سامنے آیا ہے جب کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت کے دونوں ملکوں کے حکمرانوں سعودیہ کے احسانوں تلے دبے ہوئے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ دراصل یہ سعودی خواہش ہے جس کا اظہار یہ ممالک کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کافی سارے ثبوت ہیں جن میں سعودی عرب کی مسلسل کوشش ہے کہ جنگ بندی ہو اور آل سعود کی جعلی عزت و ناموس بھی بچ جائے۔
سعودی عرب كے معروف ٹویٹر اكاونٹ نے ٹویٹ كيا ہے كہ سعوديہ سياسی راه حل نكالنے كے لئے يمنی تحريک انصار الله سے خفيہ رابطے كر رہا ہے.
اور يہ معاہدہ سعودیہ كو حوثيوں كے بڑے دفاعی حملے سے بچائے گا جس كو سعودی افواج روکنے کی طاقت نہیں رکھتی ہیں خصوصا جب پاكستان نے مدد كرنے سے انكار كر ديا ہے.سعوديہ كی پالیسی ميں يہ لچک اس لئے آئی ہے جب خصوصا اس وقت جب فضائی حملوں كو طويل عرصہ گزرنے كے بعد بهی حوثی مسلسل مختلف علاقوں پر قابض ہو رہے ہیں. اور اب ثابت ہوا كہ فقط القاعدة ہی انكا مقابلہ كر سكتي ہے.
امريكہ كے ساتھ ملكر اب كوششيں جاری ہیں كہ يمن ميں مصالحت كے لئے اقوام متحدہ كی سلامتی كونسل كی قرارداد پاس كروا لي جائے.
المجتہد نامی سعودی شخص نے ٹویٹ كيا ہے كہ سعوديہ سلطنت عمان كے ذريعے حوثيوں سے خفيہ رابطوں میں ہے اور سياسي حل نکالنے كي كوشش كر رہا ہے۔ جس ميں حوثيوں کے سیاسی مفادات محفوظ ہونگے ليكن وه اپنے آپ كو فاتح ظاہر نہیں كریں گے.مجتہد کے مطابق ايک يمن كی صدارتی كونسل تشكيل دی جائے گی اور اسكا سربراه وه شخص ہو گا جس كو انصار الله قبول كرے گی. اور حوثيوں كی اس كونسل ميں نمائندگی ہو گی اور جن علاقوں پر حوثی قابض آ چکے ہیں وہاں كے انتظامی امور سنبهالنے میں بهی شريک ہونگے. اور صدارتی كونسل كی سربراہی كے لئے بحاح كا نام سعوديہ عرب نے انصار الله كے لئے حسن نيت كے طور پر پيش كيا ہے كيونكہ ابتدائي مراحل ميں صنعاء ميں داخل ہونے کے بعد یہی بحاح انصار الله كا اميدوار تها.سعودی عرب نے بحاح كی سربراہی ميں ملكي امور چلانے كے لئے صدارتی كونسل ميں انصار الله كی نمائندگی كو قبول كر ليا ہے. اور شمالى علاقوں میں انكے مكمل عسكری وجود كو بهی قبول كر ليا ہے.
مجتهد نے اس بات سے بھی پرده اٹهايا كہ جنوبی ڈویژنز ميں بھی شہروں كے باہر انصار الله كے عسكری وجود كو سعوديہ نے قبول كيا ہے. البتہ حوثيوں كا اصرار ہے كہ جيسے اس وقت انكا عسكری وجود جہاں جہاں پر ہے بعد میں بھی ویسا ہی رہے گا۔
تاوان كے طور پر سعوديہ يمن كوکئی بلین ڈالرز بھی دے گا ليكن انكا عنوان يمن كی تعمير نو ہوگا اور جب حوثی جنوبی شہروں سے اپنا عسكری وجود ختم كريں گے اس وقت يہ رقم ادا ہونا شروع ہو جائے گی۔
اس وقت امريكہ سے سعودیہ کے مذاكرات جاری ہیں تاكہ سلامتی کونسل ميں مذكوره بالا شرائط كے مطابق مصالحت كی قرارداد منظور ہو سکے. اور اس معاہدہ كو بين الاقوامی سرپرستی اور قانونی شكل مل سکے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی