وحدت نیوز (آرٹیکل) پشاورکے اسکول میں معصوم بچوں پرجس طرح بہیمانہ ظلم اور ان کو ظالمانہ انداز میں قتل کیاگیااوراسکول میں بے گناہ بچوں پر فائرنگ اور بموں سے حملہ کیا گیا اور ان کے معصوم گلوں کو کاٹا گیاہے اس مذموم اور غیر انسانی عمل نے نہ صرف ہر دردمند انسان کو خون کے آنسوں رلادیئے بلکہ ایک احساس یہ بھی دلایا کہ یہ فعل شقی القلب ، ابتر اور دعی ابن دعی ہی کر سکتے ہیں ان بے نسلوں نے حرملہ ، ابن زیاد ، اور شمر جیسے ملعونوں کے ناپاک کردارپر عمل کرکے دنیا کو وہ ذلیل اور گھٹیا کردار دکھا دیئے کہ جو تاریخ انسانیت میں ہمیشہ انسان کی شرمندگی کا باعث رہے ہیں ان ناپاک نسل کے افراد نے اس عمل سے یہ بھی ثابت کردیا کہ ان کا تعلق انسان نما تاریخ کے کن غلیظ کرداروں سے ہے ۔یقیناًالفاظ ناکافی ہیں اور دل کے جذبات مکمل طور پر پیش نہیں کرپارہے ہیں ۔
وہ معصوم جو اس سردیوں میں صبح صبح اپنے ننھے سے فکر کے ساتھ اپنی کتابوں کے بستے لے کر اسکول گئے اور اپنی اپنی کلاسوں میں تعلیم حاصل کرنے اورچھٹی کے بعد اپنے گھرجانے اور اپنے بابا اور امی کی دل کی ٹھنڈک اور سکون میں اضافے کا باعث بننے کے انتظار میں تھے ، اور کچھ بچے تو اسکول کے بعد کا م پر بھی جاتے تھے ، تو دوسری طرف ماں باپ اپنے لخت جگر کے اسکول سے لوٹنے کے انتظار میں حسب عادت اپنے ہزاروں کاموں کے باوجود ہر وقت اسی طرف متوجہ رہے کہ کب انکے لخت جگر اسکول سے واپس آئیں اور ان کو سکون ملے۔
ایسے میں جب اچانک وحشی درندے کلاس روم میں خطرناک اسلحہ کے ساتھ داخل ہوئے ہونگے اور بربریت کے ساتھ ان معصومون پر فائرنگ کردی ہوگی تو نہ جانے ان معصوم بچوں پر کیا گذری ہوگی اکثر معصوم بچوں کو تو فائرنگ کی آواز کا پتہ بھی نہیں ہو گا کہ یہ کس چیز کی آواز ہے اورجب اسکول میں ہرطرف چیخ و پکار کا سمان ہوگا تو یہ ننھے فرشتے کیا سوچ رہے ہونگے کہ یہ انکل ہمیں کیوں مار رہے ہیں جبکہ ہم نے تو انھیں کچھ بھی نہیں کہا اور پھر جب بھاری اسلحہ کے زوردار دھماکے اور بڑی بڑی گولیاں ان معصوم اور ننھے ننھے جسموں میں لگی ہو نگی جسم سے روح کی پرواز کی اذیت کو کیونکر دل محسوس کر سکی ہوگی بارود اور دھوئیں کے درمیاں اس قوم کے نازک پھولوں کو کیونکر آنکھ دیکھ سکی ہوگی کیونکر انسان نے یہ سب سہن کیا ہوگا ۔
اور جب یہ خبر ماں باپ کوملی ہوگی توان کی پریشانی کا اندازہ ہمیں ان آنسوں بہاتی ماؤں اور روتے ہوئے باپوں کا اسکو ل اور ہسپتال کی جانب دوڑتے ہوئے اس آس میں جانا کہ خدایا سارے جہان کے بچوں کی خیر ہو اور اس کے صدقے میں میرا بچہ بھی خیریت سے ہو کی دعاؤں اور امید وں کے ساتھ جانا بتا رہا تھا کہ یہ کس قرب و اذیت سے گذر رہے ہیں۔ اور جب اسکول سے ایمبولینس کی ہولناک آوازوں میں بچوں کے زخمی جسم اور لاشوں پر نظر پڑی ہوگی تو ان کے دلوں کی کیا حالت ہوئی ہوگی یہ سب بیان سے باہر ہے۔
جانور بھی ایک دوسرے کے سامنے ذبح نہیں کئے جاتے خاص کر کسی جانور کے بچے کو اس کے ماں یا باپ کے سامنے ذبح نہیں کیا جاتا واقعات بتاتے ہیں کہ اونٹ کے بچے کو اونٹ کے سامنے ذبح کیا گیا تو اس کے جگر میں زخم تا حیات رہا۔پھر یہ تو انسانوں کے بچوں کو ان کے ماں باپ کے سامنے بے دردی سے مارا گیا نہ جانے ماں باپ کے جگر میں کس قدر گہرا زخم آیا ہوگا ۔
سلام ہو ان شہید بچوں کی عظمت پر جنھوں نے پھر پاکستان کی سرزمین پر کربلاکی یاد تازہ کرکے اس دور کے حرملہ اور شمر جیسے ملعونوں کو شکست فاش دیکر ان غلیظ کرداروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ۔اور سلام ہو زخمی ہونے والے بچوں پر جنھوں نے شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو ضرب عضب کا سپاہی کہا ۔سلام ہو ان ماں باپ پر جنھوں نے اپنے بچوں کی شہادت پر فخر کیا۔یہاں ان کرداروں کا ذکر اصلاح کی خاطر کررہا ہوں کہ جو اتنا بڑا انسانیت سوز واقع ہونے کے باوجود اپنے جاہلانہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب ایجنسیوں کا کام ہے جو مجاہدوں کو بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
ایسا جملہ کہنا بتا رہا ہے کہ کچھ جاہلوں نے تعصب کے ہاتھوں اپنی انسانیت بیچ دی ہے اور آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھے ہوگئے ہیں اور عقل ہوتے ہوئے بھی فکر سے بے بہرہ ہیں اور دین نے ان کے دلوں اور عقل پر کوئی مثبت اثر نہیں کیا۔جبکہ ان کے ظالم جن کو یہ جاہل مجاہد کہتے ہیں خود اس گھناؤنے جرم کا اعتراف بھی کرلیاہے اور اس میں ملکی اور غیر ملکی دہشت گرد مارے بھی گئے ہیں جن کا تعلق انہی ظالموں سے ہے جس کو جاہل مجاہد کہتے ہیں خدا کے لئے اب تو ہوش کرو اور ان کی حمایت کرنا بند کردو ورنہ یہ ظالم آپ کے بچوں کو بھی نہیں بخشیں گے اور ان کی حمایت کے لئے راہ ہموار کرنے والوں کو بھی پہچا ن لیں کہ وہ آپ کے اور ٓپکے مذہب و ملک کے دشمن ہیں۔
سب سیاستدانوں نے اس واقع پر بڑے بڑے مذمتی بیان دیئے لیکن ان بیانات کے بعد یہ لوگ پھر اپنی انہی پالیسیوں پر لوٹ جائیں گے جہاں دہشتگردوں کو سیاسی پناہ بھی دیتے ہیں اور ان کو اپنا بگڑاہو بھائی بھی کہتے ہیں اور ان کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں یا پھر ان کے لئے سخت کاروائی کی مخالفت بھی کرتے ہیں یا پھر مذہبی لیڈر ان کو مذہب کی آڑ میں چھپاتے ہیں یا پھر سیاستدان دہشتگردوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال بھی کرتے ہیں ، یا پھر کرپٹ بیورو کریسی اپنے مالی مفاد اور بڑی بڑی پوسٹس پر برا جمان ہونے یا کسی عصبیت کی بنیاد پر ان کو ناجائز سپورٹ کرتے ہیں اور اپنے فرائض سے غفلت برتے ہیں اور ایسے واقعات کے موجد بنتے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ سب پارٹیاں مل بیٹھ کر اس دھشتگردی کا حل سوچنے کے لئے کل کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کریں۔ کاش یہ پارٹیوں اور حکومت کو بچوں کی جانیں جانے سے پہلے ہوش آتا مگر کیا ہوگا کل سب بیٹھ کر صرف قرار داد ہی تو پاس کریں گے ۔
کیا جیلوں میں بند تمام دہشتگردوں کو سرعام پھانسی دی جائے گی،کیا اس مکروہ اور گھناؤنے جرم کے ارتکاب کرنے والوں اور ان کے حمایتی نظریات رکھنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا کیا ان ظالمان کو مجاہد کہنے والوں کو پاکستانی قوم کا غدار قرار دے کر سزائے موت دی جائے گی۔ کیا ایسے یا ایسے ہی بڑے بڑے فیصلے یہ چھوٹے لوگ کرپائیں گے۔کیا ضرب عضب کی طرح نظریاتی آپریشن بھی کیا جائے گا تاکہ پھرکوئی ایسی فکر فروغ نہ پاسکے اور پاکستان میں ایسے مولویوں پر پابندی لگائی جائے گی جو ہر جمعہ اور ہر نماز کے بعد کھلے عام ایسے ظالموں کی حمایت میں خطبے دیتے ہیں اور ان کے لئے چندا اکٹھا کرتے ہیں کیا ایسی مساجد و مدارس پر پابندی لگائی جائے گی جو مسلمانوں کے خون بہانے کے عذر تلاش کرکے ظالموں کی حمایت کرتے ہیں اوران کی کامیابیوں کی دعائیں مانگتے ہیں اوران سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور دین کے نام پر ایسے بیہمانہ قتل و غارت کے بازار گرم کئے ہوئے ہیں اور لوگوں کو ان کا حمایتی بنانے کے لئے تگ و دو کرتے رہتے ہیں ۔
کیا یہ کل جماعتی کانفرنس کوئی ایسی پالیسی بناپائے گی جو کہ ملک عزیز میں بجائے نفرت اور دہشت کے امن اور محبت کی طرف لوگوں کو مائل کرے کیا اس کانفرنس کے بعد حکمران ، بیوروکریٹ اور سیاستدان اپنے ذاتی مفادات سے دستبردار ہوجائیں گے اور فقط عوام الناس اور ملک کے بارے میں سوچیں گے کیا اسمبلیوں میں بیٹھنے والے اپنے مال و مفاد سے زیادہ عوام کی جان و مال کی خاطر قانون سازی کریں گے۔یا پھر وہی رسمی طور پر کمیٹیاں بنائی جائیں گی اور مذمتی قرارداد پاس ہوگی ۔اور پھر ویسا ہی سب چلتا رہے گا اور لوگ بھی آہستہ آہستہ سب بھول جائیں گے ۔
لیکن یاد رکھیں نہیں بھولیں گے تو صرف ان بچوں کے ماں باپ اپنے جگر کے زخموں کو نہیں بھولیں گے اور تاریخ نہیں بھولے گی حکمرانوں بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کے کردار وں کو کہ ان اہل اختیار نے انہی ظالموں کے خلاف رسمی سی کاروائی کرکے اپنی حکومت کے لئے جواز ایجاد کیا اور خاموش رہ کرظالموں کی حمایت کی یا مظلوموں کی مدد کی خاطر عملی اقدامات اور قوانین بناکر اس ملک اور قوم کو اس ناسور سے نجات دلائی ۔
ایک اہم ذمہ داری ہم عوام پر بھی ہے کہ ہم ان حکمرانوں بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کی کارکردگی کا جواب کیا دیتے ہیں کیا وہی روایتی انداز میں انہی کو یا ان جیسوں کو حکمران بناتے ہیں یا پھر غیور اور اہل افراد کو اسمبلیوں میں بھیج کر اور کرپٹ بیورو کریٹس نا اہل حکمرانوں کو انکو ان کے عہدوں سے ہٹا کر اپنے ملک اور اپنے بچوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچاتے ہیں ۔یاد رکھیں جب تک ہم روایتی انداز میں سوچتے رہیں گے تب تک ہمارے ساتھ روایتی واقعات پیش آتے رہیں گے۔
ٓتحریر:عبد اللہ مطہری