پشاور، مکتی باہنی کے ہاتھوں ننھے فرشتوں کا قتل عام

18 December 2014

وحدت نیوز (آرٹیکل) اسلام ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ مسلمان کی جان کی حرمت کو کعبہ سے زیادہ محترم قرار دیتا ہے۔ اے خبیث شیطان نما انسانو! تم نے ثابت کیا کہ تم انسانیت کے قاتل ہو اور تم نے کعبہ سے زیادہ محترم انسانوں کی بے حرمتی کی ہے۔ کیا شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے لے پالک اسرائیل نے تمہیں اس قبیح فعل کی تربیت دی یا تم وہ ہو کہ شیطان بھی تم سے پناہ مانگے؟ ہمیں یاد ہے کہ تم نے افغانستان کے علاقے بامیان میں بھی ایک حشر اٹھایا۔ 12 سال سے بڑی عمر کے لوگوں کا قتل عام کیا اور خواتین اور بچوں کو قیدی بنا ڈالا۔ بامیان کے شیعہ مسلمانوں کو غلامی اور کنیزی میں لینے والے ان جانوروں کو ہم سے زیادہ کون جانتا ہوگا؟ اگر اس وقت انسانیت کے نام نہاد علمبردار بے غیرتی نہ کرتے تو اسی وقت طالبان کا کریا کرم اور انتم سسکار ہو جاتا لیکن طالبان کے خلاف کارروائی کا ڈرامہ کرنے والوں کو بامیان میں گوتم بدھ کے بتوں کی بے حرمتی اس کام کے لئے معقول سبب نظر آیا۔


 
16 دسمبر ویسے ہی پاکستانیوں کے لئے ایک سیاہ دن کی یاد کے ساتھ طلوع ہوتا تھا۔ اس کا سبب سقوط مشرقی پاکستان تھا۔ اس میں بھارتی ریاست کی نیابتی جنگ لڑنے والی مکتی باہنی کے دہشت گردوں نے اپنے کندھے فراہم کئے تھے۔ لیکن آج سال 2014ء میں یہ دن پاکستان کی مکتی باہنی یعنی طالبان کے دہشت گردوں کے ہاتھوں پاکستان کے ننھے و معصوم فرشتوں کے سفاکانہ قتل عام کی وجہ سے پاکستانیوں کو سوگوار کر گیا ہے۔ آج پشاور کے پبلک اسکول میں معصوم و نہتے بچوں کے خون کی ہولی کھیلی کر تکفیری طالبان دہشت گردوں نے آج کا دن بھی قومی سانحہ میں تبدیل کر دیا۔ اسکول میں گھس کر ان بد بخت دہشت گردوں نے جو قتل عام کیا، اس پر انسانیت شرما کر رہ گئی اور اسلام پر سوگواری طاری ہوگئی۔ 132 بچوں سمیت 141 انسان، مسلمان شہید کئے گئے ہیں۔

 

جی ہاں! دین اسلام کا نوحہ یہی ہے کہ دنیا کے خبیث افراد اپنی اسلام دشمن سرگرمیوں کو اسلام کا لبادہ اڑھانے کی مذموم کوشش کرنے میں مصروف ہیں۔ زمانہ امن کی تو بات ہی اور ہے، اسلام نے تو جنگ کے دوران بھی خواتین، بچوں، بوڑھوں، مریضوں اور معذوروں کو جنگ سے مستثنٰی قرار دیا ہے۔ کوئی مسلمان ہو اور وہ اسلام پر عمل نہ کرے تو اس کے ضد اسلام فعل سے اسلام کو کیا نسبت؟ فرض کر لیں کہ یہ دہشت گرد افواج پاکستان سے جنگ ہی لڑ رہے ہیں تو کیا بچے، بوڑھے، خواتین، مریض و معذور انسان اس جنگ سے مستثنٰی نہیں؟ اسلامی قوانین کے مطابق تو وہ مستثنٰی ہیں لیکن طالبان اور ان کے ہم فکرافراد کی نظر میں نہیں ہیں، کیونکہ ان لوگوں کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔


 
یہ بچے جو پشاور آرمی پبلک اسکول میں تحصیل علم کے لئے آئے تھے۔ یہ تو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰی (ص) کی حدیث مبارکہ پر عمل کرنے آئے تھے کہ علم حاصل کرو گہوارہ سے قبر تک۔ انہیں تو یاد تھا کہ علم حاصل کرنے کے لئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے یعنی دور دراز کا سفر بھی کیوں نہ کرنا پڑے، تب بھی علم کا حاصل کرنا ان پر فرض ہے۔ علم و حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ یہ بچے پاکستان کا حال ہی نہیں بلکہ اس مستقبل کے معمار بھی تھے، جو حال میں تبدیل ہوکر ملت شریف پاکستان کی زندگی میں ضرور آنا تھا۔ لیکن طالبان نے پاکستان کو بھی کربلا کا میدان بنانے کی سازش کر رکھی ہے۔ ہم سے زیادہ کسے اس درد کا ادراک ہوگا؟ حضرت علی اصغر علیہ السلام و بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا سمیت کتنے بچے تھے جو اموی ملوکیت کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے۔ ہم آج تک انہیں نہیں بھولے، ان بچوں کے والدین کا غم ہم ہی بانٹ سکتے ہیں۔


 
اسلام ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ مسلمان کی جان کی حرمت کو کعبہ سے زیادہ محترم قرار دیتا ہے۔ اے خبیث شیطان نما انسانو! تم نے ثابت کیا کہ تم انسانیت کے قاتل ہو اور تم نے کعبہ سے زیادہ محترم انسانوں کی بے حرمتی کی ہے۔ کیا شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے لے پالک اسرائیل نے تمہیں اس قبیح فعل کی تربیت دی یا تم وہ ہو کہ شیطان بھی تم سے پناہ مانگے؟ ہمیں یاد ہے کہ تم نے افغانستان کے علاقے بامیان میں بھی ایک حشر اٹھایا۔ 12 سال سے بڑی عمر کے لوگوں کا قتل عام کیا اور خواتین اور بچوں کو قیدی بنا ڈالا۔ بامیان کے شیعہ مسلمانوں کو غلامی اور کنیزی میں لینے والے ان جانوروں کو ہم سے زیادہ کون جانتا ہوگا؟ اگر اس وقت انسانیت کے نام نہاد علمبردار بے غیرتی نہ کرتے تو اسی وقت طالبان کا کریا کرم اور انتم سسکار ہو جاتا لیکن طالبان کے خلاف کارروائی کا ڈرامہ کرنے والوں کو بامیان میں گوتم بدھ کے بتوں کی بے حرمتی اس کام کے لئے معقول سبب نظر آیا۔

 

وزیراعظم صاحب! اچھا ہے کہ آپ نے پشاور جانے کا فیصلہ کیا۔ اے وزیراعلٰی پختونخواہ، خدا کا شکر ہے کہ آپ کو بھی پشاور یاد آیا۔ لیکن آپ کا وہاں ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ پاکستان کو ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے کہ جو دہشت گردوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دے۔ آپ کو تو مذاکرات کرنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی تھی۔ اب جب آپریشن ضرب عضب جاری ہے تو وزیراعلٰی پرویز خٹک اسلام آباد میں خٹک ڈانس کرتے دکھائی دیتے تھے۔ کیا ملک کی حکمران سیاسی قیادت نے آپریشن ضرب عضب کی عوامی و سیاسی حمایت کا ماحول بنایا؟ عمران خان کو الیکشن کی دھاندلی کے خلاف دھرنوں اور نواز شریف حکومت کو ان کے جوابات دینے سے فرصت ملے تو قوم کو بتائیں کہ کیا جنگ زدہ ملک کی سیاسی قیادت کی ترجیحات یہ ہوا کرتی ہیں!
 

کیا واہگہ سرحد پر خودکش دہشت گرد حملے کے بعد حکومت نے کوئی سنجیدہ اقدامات کئے تھے۔ یہ حقیقت سب پر آشکار ہے کہ پاکستان میں امن دہشت گردوں کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہی طے کرتے ہیں کہ اگلا حملہ کب کرنا ہے۔ اور دو حملوں کے درمیانی وقفے کو امن کی بحالی سمجھا جاتا ہے۔ کتنے ہی کالعدم دہشت گرد گروہ سرگرم عمل ہیں۔ بعض جگہوں پر انہیں حفاظت کے نام پر سرکاری پروٹوکول فراہم کیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر حکمران جماعتوں نے ان سے مقامی سطح کا اتحاد قائم کر رکھا ہے۔ کیا اس طرح کے سمجھوتوں سے امن قائم ہوسکتا ہے؟ یہ سبھی انتہا پسند و دہشت گرد ایک دوسرے کے اعلانیہ اتحادی تھے اور ہیں۔ پرویز مشرف کے شب خون مارنے سے پہلے اکتوبر 1999ء تک نواز لیگی مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت تسلیم کیا کرتی تھی کہ فلاں دہشت گرد گروہوں کو طالبان دور کے افغانستان سے دہشت گردی کی تربیت دے کر پاکستان میں کاروائیوں کے لئے بھیجا گیا تھا۔


 
شاید حکمرانوں سے سمجھوتے کا نتیجہ ہے کہ طالبان کے اتحادی و حامی دہشت گرد بھی اشک دروغ بہانے میں مصروف ہیں، یعنی مگر مچھ کے آنسو! لیکن کیا قوم بے وقوف بنتی رہے گی۔ آج کیا فاٹا اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے لوگوں کو معلوم نہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو دہشت گردی کر رہے ہیں؟ جب معلوم ہے کہ یہ طالبان اور ان کے اتحادی ہیں اور انہوں نے ماضی میں بھی بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کیا اور اب بھی کر رہے ہیں تو پھر جو کوئی ان کے لئے نرم گوشہ رکھے، اس کا بھی بائیکاٹ شروع کر دیں۔ آج یہ پشاور کے معصوم فرشتہ صفت بچے ہیں، کل کو یہ ہمارے اور آپ کے بچوں کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے۔


 
پشاور خون سے رنگین ہے اور پوری ملت سوگوار۔ غمزدہ خاندانو! ہم سبھی غمزدہ ہیں اور آپ سے شرمندہ بھی کہ مادر وطن پاکستان وہ فلاحی اسلامی مملکت نہیں بن سکا کہ جہاں انسانوں کی جان و مال و عزت محفوظ ہو، جہاں بچوں کی زندگی طالبان ذہنیت کے فروغ کا چارہ بنا دیا جائے۔ 16 دسمبر 2014ء کے سانحہ پشاور سے ثابت ہوا کہ طالبان آج کی مکتی باہنی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج کی اس مکتی باہنی کو الشمس اور البدر کے بعض بزرگان بھی مکتی باہنی ماننے سے کترا رہے ہیں۔ نہیں معلوم کہ ایسا خوف کی وجہ سے ہے یا شوق کی وجہ سے! توجہ فرمائیں یہ بزرگان جن سے بندہ مخاطب ہے۔ طالبان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرنے والوں میں وہ بھی شامل ہیں جو ان کی دہشت گردی کو قتال فی سبیل اللہ کی چادر ڈال رہے تھے۔ جی ہاں! آپ بھی طالبان کے ان گناہوں میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اللہ کی راہ میں لڑنے والوں کی نظر میں بچے جنگ سے مستثنٰی ہیں اور طالبان کی راہ میں پہلی سے دسویں جماعت تک کے طالبعلم بچے بھی واجب القتل ہیں۔ فاعتبرو یا اولی الابصار!
 

تحریر: عرفان علی
(بشکریہ اسلام ٹائمز)



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree