ظلم کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی تحریک اور شیعہ سنی وحدت

21 October 2014

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) وطنِ عزیز پاکستان کا قیام شیعہ اور سنی مشترکہ جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ لیکن آزادی کے حصول کے فوری بعد یہ دونوں مکاتبِ فکربوجوہ اپنا سیاسی کردار ادا کرنے سے قاصر رہے اور بتدریج پاک وطن اُن مذہبی انتہا پسندوں کے نرغے میں چلا گیا کہ جو روزِ اول سے پاکستان کے قیام کے مخالف تھے۔ ان گروہوں نے مختلف سیاسی مذہبی جماعتوں کی تشکیل کر کے قومی سیاست میں موثر کردار ادا کرنا شروع کیا اور تدریجاً ملک کی سول و ملٹری بیوروکریسی پر حاوی ہوتے چلے گئے۔ یوں ایک ایسے اسلام کی حکومتی سطح پر ترویج کا عمل شروع ہوا کہ جس میں دوسرے مکاتبِ فکر کو اختلاف رائے کے حق کی آزادی کا تصور موجود نہیں تھا۔ اس غیر فطری نظریہ کی حامی جماعتیں اس قدر رسوخ حاصل کر گئیں کہ خود حکومتی دفاتر و مراکز اس مخصوص طرزِ تفکر کے اسلام کے تبلیغی مراکزبن گئے اور ملک میں طاقت کا توازن درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ حقیقی شیعہ اور سنی پس منظر میں چلے گئے اور ریاستی جبر اور دبائو کے نتیجے میں وطن عزیز کی اس غالب اکثریت کو دیوار سے لگا دیا گیا۔ اس کیفیت کا عملی اظہار جنرل ضیاء کے دور سے شروع ہوا اور ان گروہوں کی طاقت کا عروج اس وقت دیکھا گیا کہ جب 90ہزار شہیدوں کے اعلانیہ قاتل تحریک طالبان وطنِ عزیز کے خلاف عسکری جنگ شروع کئے ہوئے تھی اور ملک کی اہم رفاہی تنصیبات،  اسٹرٹیجیک(Strategic ) اثاثے، اہم فوجی اور مذہبی و سیاسی شخصیات اور شیعہ سنی مراکز مسلسل ان کے حملوں کی زد میں تھے اور ایک عام انسان کیلئے ایسے درندوں سے نرم گوشہ رکھنا بھی ناقابلِ تصور تھا ۔ چند مذہبی جماعتیں ان کی وکالت کر رہی تھیں، ان کو مذاکرات کے نام پر قومی دھارے میں لانا چاہ رہی تھیں اور وطنِ عزیز کے فیصلہ سازی کے مراکز میں ان کو حصہ دلوانا چاہ رہی تھیں۔ وطن دشمنوں سے اس قدر عقیدت کا عملی اظہار صرف اس لئے ممکن ہوا کہ ان طاقتوں کو یقین تھا کہ وہ پاکستان کے فیصلہ سازی کے مراکز پر اس قدر مسلط ہیں کہ وہی ہو گا جو وہ چاہیں گے۔ یہ جماعتیں اورگروہ کہ جن میں سے اکثرکے علمی و دینی مراکز ہندوستان یا پھر سعودی عرب میں ہیں،  مذکورہ ممالک کی پاکستان میں مفادات کی نگہبانی بھی کرنے لگے۔ یوں پاک سرزمین پر بالواسطہ اور بلاواسطہ ان ممالک اور ان کے عالمی سرپرست ممالک اور حمایتی حکومتوں کا نفوذ تیزی سے بڑھنے لگا۔

                       
              وطنِ عزیز کی سلامتی، وقار، Solidarity پر یہ کاری ضرب تھی۔ بدقسمتی سے اس دورانیہ میں بدترین دھاندلی کرذریعے 8 سال سعودی عرب کی گود میں پلنے والے شریف خاندان کو پاکستان میں حکومت پر مسلط ہونے کا موقع مل گیا۔ یوں اس وسیلہ سے مشرقِ وسطیٰ میں منافرت کی آگ بھڑکا کر مسلمانوں کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے والے عرب شہنشاہوں کو پاکستان پر بالواسطہ تصرف میسر آیا۔ 14ماہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے عہد میں وطنِ عزیز کے طول و عرض میں اہلِ تشیع اور اہلِ تسنن کا قتل عام کیا گیا۔ ان کے اکابرین کو شہید کیا گیا،اولیاء کرام کی درگاہوں پر حملے کئے گئے اور ان کے تقدس کو پامال کیا گیا۔ جبکہ مخصوص تکفیری گروہ حکومتی سرپرستی میں ان کی گود میں بیٹھ کر یہ سارا کھیل رچاتے رہے۔ ریاست ماں کا کردار ادا کرنے کی بجائے مخصوص گروپوں کی ترجمان بن کر رہ گئی۔ سانحہ عاشور راولپنڈی میں ریاستی تعصب اس کی روشن مثال تھی۔ جبکہ 100سے زائد شیعہ و سنی اکابرین کے اعلانیہ قاتل پنجاب حکومت اور مرکزی حکومت کی حفاظت میں ملک کے طول و عرض میں دندناتے رہے۔ مسئلہ صرف ملکی سطح کا نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر آلِ سعود کی ہدایت پر شریف خاندان نے وطنِ عزیز کو سعودی مہرہ بنانے کا عمل شروع کر دیا۔ جس کی بدترین مثال 40 سال بعد بحرین کے قاتل بادشاہ کا تمام سفارتی آداب اور تقاضوں کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے استقبال تھا۔ شام کے مسئلہ پر آلِ سعود کی خوشنودی کیلئے دہشتگردوں کی سفارتی حمایت کا اعادہ کیا گیا اور عراق میں عوام کی منتخب شدہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ یوں پاکستان کی غیر جانبداریت کا امریکی استعمار اور اس کے مقامی پٹھووئوں کے ہاتھوں سودا کر دیا گیا۔ یہی وہ دوراہا ہے جب مجلس وحدت مسلمین کے ارباب حل و عقد اور اداروں نے مسائل کی مکمل شناخت اور ادراک کرتے ہوئے ایک طویل مدت پالیسی کی تدریجاً منظوری دی جس میں ابتداً سیاسی مورچہ میں واردِ عمل ہو کر اپنی اجتماعی قوت کا اظہار کرنا اور اپنی سیاسی تنہائی کو ختم کرکے پاکستان بچانے کیلئے بھر پور فعال کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور بعد ازاں حقیقی شیعہ سنی وحدت کے ذریعے ملک کی اکثریت کو بیدار کر کے پاکستان کی سلامتی کو درپیش تاریخ کے اس سخت ترین چیلنج میں عوامی جد وجہد کا آغا زبھی کیا گیا ۔ 11 مئی 2013ء کے بعد سے اب تک تیس اہلِ سنت جماعتوں کے مرکزی اتحاد اور وطنِ عزیز میں اہلِ سنت کی فعال ترین سیاسی جماعت سنی اتحاد کونسل کے ساتھ الائنس قائم کرکے مشترکہ جدوجہد شروع کر دی گئی ۔ اس اتحاد نے ثابت کیا کہ حقیقی اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کی وحدت وطنِ عزیز کو درپیش تمام مسائل کے حل کی کنجی بھی ہے اور مضبوط ترین اسلامی رشتہ بھی۔ یوں گلگت بلتستان ، فیصل آباد ، اسلام آباد، کوئٹہ ، خیر پور میرس اور کراچی سمیت ملک کے طول و عرض میں پہلی مرتبہ شیعہ سنی مشترکہ جلسوں کا انعقاد شروع ہوا۔ یہ امر تکفیری گروہوں اور جماعتوں کیلئے ناقابلِ برداشت تھا۔ سانحہ راولپنڈی اس وحدت کو توڑنے کی گہری سازش تھی۔ لیکن شیعہ سنی وحدت نے ہی اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ یوں یہ اتحاد قوی تر ہوتا چلا گیا ۔ سانحہ راولپنڈی کے فوراً بعد دوسرا بڑا گروہ جو تکفیری عزائم کے مدِ مقابل شیعہ سنی وحدت کا علمبردار بن کر سامنے آیا وہ پاکستان عوامی تحریک کی منظم جماعت تھی۔ جس کے قائد علامہ ڈاکٹر طاہر القادری بیرون ملک مقیم تھے لیکن اس کے باوجود فکری ہم آہنگی نے رنگ دکھایا۔ یوں مجلس وحدت مسلمین ، سنی اتحاد کونسل اور پاکستان عوامی تحریک کی  صورت میں ایک منظم، مضبوط اور فعال اشتراک، تکفیریت اور مذہبی انتہاء پسندی کے مقابل، وطنِ عزیز کے سیاسی منظر نا مہ میں سامنے آیا جو عالمی استعمار اور اس کے مقامی ایجنٹوں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔

 

لبیک یا حسینؑ کے نعرے پر شہادت
     17جون کو علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی بیرونِ ملک موجودگی میں ماڈل ٹائون میں ریاستی دہشتگردی کا وہ بھیانک چہرہ سامنے آیا کہ جس میں 15گھنٹوں کی مسلسل فائرنگ اور حملوں کے بعد وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کی خاص ہدایت پر چودہ بے گناہ افراد کی جانیں لی گئیں۔ جبکہ 100کے قریب افراد شدید زخمی کر دئیے گئے۔ واحد ہدف ڈاکٹر طاہر القادری کو پاکستان آنے سے روکنا یا شدید دبائو کا شکار کرناتھا تاکہ پاکستان میں شیعہ سنی الائنس کو مضبوط ہونے سے پہلے توڑاجاسکے۔ فوری اہداف میں عوامی تحریک کے کارکنوں کوہراساں کرنا اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادی کے بڑے بیٹے ڈاکٹر حسن محی الدین کی جان لینا تھا۔ جس کا روشن ثبوت ان کا گولیوں سے چھلنی بیڈروم ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے ایک پڑوسی جاوید سانحہ ماڈل ٹائون کے عینی شاہد ہیں (جو کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت کے رکن نہیں ہیں) نے حلفاً یہ بات بتائی کہ جس خاتون کو ڈاکٹر صاحب کے گھر کے دروازے القادریہ کے سامنے شہید کیا گیا اس خاتون نے مرنے سے پہلے تین مرتبہ بلند آواز سے لبیک یا حسینؑ اور لبیک یا علیؑ کی صدا بلند کی اور ن لیگ کے پالتو پولیس آفیسر نے تینوں مرتبہ اس کا سر زور سے زمین پر مار کے کہا کہ بلائو اپنے علی ؑ اور بلائو اپنے حسینؑ، کو تیسری پکار کے بعد اس خاتون کے منہ میں گولی مار کر اسے شہید کر دیا گیا۔ ان کیفیات اور حالات کے تناظر میں مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی کابینہ نے اپنے سیاسی شعار اور امیر المومنینؑ کی وصیت ’’ ہمیشہ ظالم کے دشمن بن کر رہنا اور مظلوم کے حامی بن کر رہنا‘‘ اور امام راحل امام خمینیؒ کے فرمان ہم ہر ظالم کے دشمن ہیں چاہے وہ خود کو شیعہ ہی کیوں نہ کہلواتا ہو اور ہر مظلوم کے حامی ہیںچاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، کی روشنی میں فرزندِ علیؑ و حسینؑ بن کر ظالم کے مقابل مظلوم کا مضبوط ساتھی بننے کا فیصلہ کیا اور طے کیا کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔

 

آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای کے دل کی تمنا اور اتحاد اسلامی
     رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای مدظلہ تعالیٰ کی یہ نصیحت اور کیفیت کہ جس میں انہوں نے شیعہ سنی وحدت کو اتنی اہمیت دی کہ اسی راہ کا شہید بننے کی تمنا کی، پر عمل کرتے ہوئے طے کیا گیا کہ موجودہ کیفیت میں اہلِ سنت بھائیوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہوکر وطن عزیز کو تکفیری گروہوں کے چنگل سے نکالا جا سکتا ہے اور پاک وطن کو بیرونی دبائو سے آزاد ایک خود مختار ریاست بنایا جا سکتا ہے۔لہٰذا علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کئی مذاکراتی نشستوں کے بعد مجلس وحدت مسلمین نے سنی اتحاد کونسل، پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستانی عوامی تحریک کے ساتھ مشترکہ نکات پر مشترکہ جدوجہد کا اعلان کر دیا۔

 

مجلس وحدت مسلمین کے اضافی نکات جو اب چارٹر کا حصہ ہیں
     ان مشترکہ نکات میں دس نکات کہ جن کا تعلق آئین میں دئیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہے ،میں مجلس وحدت مسلمین کے چار مزید نکات کو شامل کیا گیا۔ یوں ایک بارہ نکاتی نیا مسودہ ترتیب دیا گیا جس میں مجلس وحدت مسلمین کے پیش کردہ چاروں نکات بھی شامل تھے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے پیش کردہ اضافی نکات جو چارٹر کا حصہ بنے وہ یہ ہیں۔
۱۔    گلگت اور  بلتستان کو مکمل آئینی صوبہ بنا کر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں مکمل نمائندگی دینے کی مشترکہ جدوجہد ۔
۲۔    تکفیریت کو آئینی جرم قرار دیا جائے گا۔اور آئینی ترامیم کے ذریعے شیعہ یا سنی مُسلَّمہ اسلامی مکاتب فکر میںسے کسی کی بھی تکفیر کو ملک سے بغاوت کے ضمن میں رکھا جائے گا۔ تکفیری اورملک کے باغی کی سزا ایک جیسی ہوگی۔
۳۔    دہشتگردوں اور ان کے سیاسی سرپرستوں کو ایک جیسا مجرم قرار دیتے ہوئے عبرت ناک سزا ئوں کے مرحلہ تک پہنچوا نا۔
۴۔    شیعہ اور سنی اوقاف کی تشکیلِ نو تاکہ دونوں مکاتبِ فکر اپنے سے مربوط اوقاف کے وسائل کو اپنی مکتبی و فقہی ضروریات پر صرف کرسکیں۔
    علاوہ ازیں مجلس وحدت مسلمین ، سنی اتحاد کونسل اور پاکستان عوامی تحریک نے ایک اور نقطہ پر بھی اتفاق کیا اور وہ نقطہ یہ تھا کہ وطنِ عزیز میں انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت کرائے جائیں۔ جبکہ مشترکہ جدوجہد کا فریم ورک اور طریقہ کار بھی طے کیا گیا جس میں مشاورت کے اصول پر فیصلہ سازی کا مشترکہ اختیار کور کمیٹی کو دیا گیا جس پر تا دم تحریر عمل ہو رہا ہے اوریہ اشتراکِ عمل ایک قلبی وحدت اور حقیقی شیعہ سنی اتحاد کی عملی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کور کمیٹی میں چاروں قومی جماعتوں کی برابر کی نمائندگی موجود ہے

 

علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے بعض خاص امتیازات
    علامہ ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان میں چند خصوصی امتیازات کے حامل ہیں:
۱۔    ڈاکٹر صاحب تمام اہلِ سنت اکابر میں وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے عملی بنیاد پر دہشتگردی کو رد کیا ہے اور دہشتگردی کے خلاف 600 صفحات پر مشتمل تفصیلی فتویٰ جاری کیا جو عالمی حیثیت رکھتا ہے۔
۲۔    ڈاکٹر صاحب کا تحریکی نظام ملک گیر ہے۔ وطنِ عزیز میں کوئی اہلِ سنت مذہبی و سیاسی جماعت ملک گیر حیثیت کی حامل نہیں ہے۔ کم و بیش ملک کے طول و عرض میں اور اکثر اہم مقامات پر پاکستان عوامی تحریک کا تشکل موجود ہے۔
۳۔    علامہ صاحب اور ان کی جماعت مروجہ شیعہ شعائر پر معترض نہیں بلکہ عملاً ان کو اپنی محافل میں وسعت ظرفی سے قبول کرتے ہیں مثلاً ڈاکٹر صاحب کا امام بارگاہ میں جا کر مجلس عزا سے خطاب کرنا اور حالیہ دھرنے، ریلیوں اور اجتماعات میں علم مبارک کا احترام اور موجودگی رسمی شیعہ شعائر کیلئے احترام کی دلیل ہے۔
۴۔    پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے ملک بھر میں موجود سیٹ اپ شیعہ حلقوں سے بہترین روابط میں ہیں اور عملاً یہ اشتراکِ عمل عوامی سطح پر شیعہ سنی قلبی وحدت کو جنم دے سکتا ہے۔ ( مجلس وحدت مسلمین نے اس قلبی وحدت کو مجسم کرکے دکھا دیا ہے)۔
۵۔    ڈاکٹر صاحب اور ان کی جماعت فکری اور عملی طور پر سعودی لابی کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے اور وطنِ عزیز کی وہ واحد اہلسنت سیاسی مذہبی قوت ہے جو اہل تشیع کے ساتھ مل کر ملک گیر تحریک چلانے کی پوزیشن میں ہے اور شیعہ سنی وحدت کے ذریعے وطنِ عزیز کو مسلط شدہ انتہا پسند لابی کے چنگل سے نکالنے کی توانائی رکھتی ہے۔


شہید قائد کے خواب کی عملی تعبیر
    ان بیان کردہ امتیازات، مسلم لیگ ن کا طرزِ عمل، شیعہ سنی وحدت کی فوری ضرورت اور قابلِ عمل اتحاد کے امکانات اوروطنِ عزیز کے فیصلہ سازی کے مراکز پر تکفیری گروہوں کا جاری تسلط وہ فوری وجوہات تھیں کہ جن کی بنیاد پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی  ؒ کے اس خواب کی عملی تعبیر کے آغاز کا سفر شروع کیا کہ جس کے نتیجہ میں وطنِ عزیز میں کوئی فیصلہ سازی، قانون سازی اور پالیسی سازی مکتبِ اہل بیتؑ کو اعتماد میں لئے بغیر نہ کی جاسکے۔ اس سفر میں پہلا بڑا چیلنج 10اگست کو شہدائے ماڈل ٹائون کا چہلم تھا۔ چاروں جماعتوں کا سربراہی اجلاس مورخہ 5اگست کو مجلس وحدت مسلمین کے پولیٹیکل سیکرٹریٹ لاہور میں ہوا کہ جس کا آغاز شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینیؒ کے یوم شہادت کی مناسبت سے ان کے تذکرہ اور فاتحہ سے ہوا۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے کھل کر اعلان کیا کہ وہ پوری توانائی سے اپنے مظلوم اہلسنت بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور خون کے آخری قطرے تک ان کا ساتھ دے کر وفا اور کامیابی کی نئی مثال رقم کریں گے ۔ 6اگست سے 10 اگست تک پورا ملک ریاستی دہشتگردی کی ایک نئی قسم کا شکار ہوا اور 5 روز تک ملک کے کروڑوں باسیوں کو ملک کے طول و عرض میں کنٹینر لگا کر اپنے ہی گھروں اور شہروں میں مقید کرکے آئین شکنی اور بنیادی حقوق کی پامالی کی ایک نئی مثال رقم کی گئی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ نہ کوئی عدالتی از خود نوٹس سامنے آیا اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت اس زیادتی پر سراپا احتجاج ہوئی۔ 10اگست تک نہ تو مدعیان کی FIR درج کی گئی اور نہ ہی کوئی ایسا قدم عدالتوں کی طرف سے اٹھایا گیا کہ جو عوام کو اور مقتولین کو ریلیف فراہم کرتا۔ بدترین تشدد،جبر، ظلم، لاٹھی چارج، 25ہزار سے زائد مشترکہ کارکنوں کی گرفتاریوں، ٹیلی فونوں کی بندش، ماڈل ٹائون کے محاصرے، دسیوں ہزار کنٹینروں کی رکاوٹوں، جعلی FIR اور جھوٹے پرچوں کے باوجود حکومت عوام کی بڑی تعداد کو ماڈل ٹائون پہنچنے سے نہ روک سکی۔ یوں 10 اگست کو 14 اگست کیلئے اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کر دیا گیا۔ اس تمام کڑے وقت میں مجلس وحدت مسلمین شجر سایہ دار کی طرح اپنی حلیف جماعتوں کی پشت پناہی کرتی رہی۔ اس کی مرکزی قیادت مسلسل محاصرے کے عالم میں عوام کے درمیان موجود رہی اور یوں اس تحریک کو سمت عطا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

 

جاری تحریک میں مجلس وحدت مسلمین کےحاصل شدہ اہداف
    مجلس وحدت مسلمین نے اس تحریک میں جو اہداف معین کئے تھے 14 اگست کو لانگ مارچ شروع ہونے تک مجلس وحدت مسلمین ان میں سے اکثر اہداف کو کامیابی سے حاصل کر چکی تھی۔ ان حاصل کردہ اہداف میں اہم نکات یہ ہیں۔
۱۔    شیعہ سنی مذہبی و سیاسی الائنس کی تشکیل ، وطنِ عزیز کی قومی سیاست میں مثبت دخالت اور موثر کردار
۲۔    شیعہ سنی عوامی وحدت اور مشترکہ جد وجہد کی عملی شکل۔
۳۔    شیعہ قومی مفادات کہ جو دراصل وطنِ عزیز کے باوفا بیٹوں کے مفادات ہیں اور جو پاکستانی مفادات ہیں نہ کہ فرقہ وارانہ، کو قومی سیاست کے مرکزی دھارے میںلانا۔ ( مثلاً گلگت  بلتستان کی آئینی حیثیت، تکفیریت کے خلاف قانون سازی وغیرہ)۔
۴۔    شیعہ قومی جماعت کو فرقہ وارانہ بنیاد سے ہٹ کر ملکی سیاست کے منظر نامے میں مرکزی کردار کی حیثیت دلانا تاکہ فیصلہ سازی کے مراکز میں شیعہ دشمنی کو ختم کرکے اعتدال پسندی پر مبنی پالیسی کو لاگو کروایا جاسکے اور وطنِ عزیز کی درست سمت میں رہنمائی کی جاسکے۔
۵۔    تکفیریت اور تکفیری گروہوں کو عوامی، سیاسی محاذ پر تنہا کرنا اور میڈیا میں بے نقاب کرنا۔
۶۔    پاکستان میں ہم فکر سیاسی جماعتوں میں اپنے منطقی و استدلالی موقف کی ترویج اور بہتر باہمی روابط کے ذریعے تکفیریت کا راستہ تنگ کرنا اور ہم آہنگ لابیز کی تشکیل ۔

 

انقلاب مارچ:
    14 اگست کو دن ساڑھے گیارہ بجے انقلاب مارچ کا سفر شروع ہوا۔ جذبوں نے ریاستی طاقت کو مات دے دی۔ لاکھوں فرزندانِ توحید،عاشقان مصطفی ؐ اور اہلبیت ؑ نے ریاستی رکاوٹوں کو روندتے ہوئے نئی تاریخ رقم کردی۔ 52گھنٹوں کے اسلام آباد تک کے سفر کی روداد بیان نہیں کی جاسکتی لیکن پورے GT روڈ پر جس طرح لاکھوں لوگوں نے والہانہ طور پر ہر اہم مقام پر اس مارچ کے شرکا ئ، قائدین اور بالخصوص مجلس وحدت مسلمین کی قیادت کا نام لے کر شکریہ اداکیا اور استقبال کیا وہ دیدنی تھا۔ ایک طرف مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، شیعہ علماء کی دست بوسی کرتے رہے، دعا دیتے رہے اور دوسری طرف شیعہ سنی وحدت ملک کے دشمنوں کو زخم چاٹنے پر مجبور کرتی رہی۔ مجلس وحدت مسلمین شیعیت کے اس وقار کی بحالی پر بجا طور پر مبارکباد کی مستحق ہے۔ اسلام آباد آبپارہ کے مقام پر دھرنے کا منظر تاریخی تھا۔ میلوں تک پر جوش مجمع تھا۔ لبیک یا حسین ؑ کے نعرے تھے۔ عورتیں لبیک یا زینب ؑ کے شعار بلند کر رہی تھیں۔ حسینیت ؑ کے پرچم دور تک بلند تھے اور جیسے ہی کوئی شیعہ عالم دین دھرنے کی کسی بھی طرف سے داخل ہوتا، لبیک یا حسین ؑ کے نعروں سے ایک سماں بندھ جاتا۔ لوگ شیعہ علماء کی تکریم کرتے نہ تھکتے تھے جبکہ سٹیج پر بھی مکتب اہل بیت ؑ کے پیرو کاروں کی موثر ترین نمائندگی موجود تھی۔ یوں پیغام رسانی کا موثر انداز بھی نظر آتا رہا۔ مجلس وحدت نے خوراک، ادویات اور بنیادی ضروریات کے  کیمپ لگا کر شرکاء کے دل جیت لئے۔ اس کا عملی ثبوت وہ سینکڑوں انٹرویو ہیں جو اہلسنت علمائ، عمائدین اور شرکاء دھرنا کے مجلس وحدت مسلمین کی قیادت اور کردار کے بارے میں مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر جاری کئے جا چکے ہیں۔

 

حرفِ آخر:
دھرنا تا حال جاری ہے۔ آبپارہ سے قومی اسمبلی تک دھرنے کی منتقلی کے باوجود حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ مطالبات کی منظوری کے لئے دھرنے کا رخ سیکرٹریٹ اور وزیرِ اعظم ہائوس کے باہر سڑک کی طرف موڑ دینا حکمرانوں کیلئے ناقابلِ برداشت ٹھہرا۔ یوں ریاستی دہشتگردی کا ایک اور باب رقم ہوا۔ گولیوں نے ہزاروں سینے چھلنی کئے۔ ہزاروں مائوں کے لعل زخموں سے چور ہوئے۔ 42 ہزار پولیس کے جوانوں کو ن لیگ کا غلام بنا کے غیر آئینی اقدام پر مجبور کیا گیا تھا۔ دودنوں میں آئی جی سمیت 4دیگر اعلیٰ افسران نے استعفیٰ دے دیا اور مظاہرین پر طاقت کے غیر قانونی استعمال کو رد کر دیا تو مرضی کے افسران کی تعیناتی کے ذریعے عوام پر شب خون مارا گیا لیکن عزم پھر غالب آیا اور دو دن کی مسلسل فائرنگ ، لاٹھی چارج ، گیس شیلنگ اور گرفتاریوں کے باوجود عوام نے عزم و حوصلہ کی مثال رقم کر دی۔ تمام شرکاء دھرنا اس امر پر متفق تھے کہ جس قاتل اعلیٰ کے دور میں FIR درج نہ ہو اور مقتولین کے لواحقین کو قاتل لکھا جا رہا ہو وہاں تختِ حکومت پر ایسے شخص کی موجودگی میں کوئی JIT اور کوئی جوڈیشل کمیشن اور کوئی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کا امکان نہیں ہے۔ لہٰذا نام نہاد چیف منسٹر شہباز شریف کا استعفیٰ دیگر مطالبات میں سرِ فہرست رہا۔ بعد ازاںتین روز تک جاری مسلسل بارش، بیماریوں اور غذائی کمی کے باوجود دھرنے کی استقامت نے اس تحریک کو ڈیڈ لائنز کی قیدسے آزاد کرکے حق کی وصولی تک جدوجہد جاری رکھنے کے مرحلے میں داخل کر دیا جو حکومت کیلئے مسلسل دردِ سر اور وطن عزیز کی اجتماعی سیاست کی تاریخ میں منفرد اضافہ ہے۔


    چوروں کی پارلیمنٹ میں دوسروں کی باری کی حفاظت کیلئے 14ماہ بعد وزیرِ اعظم کی شرکت خود اعترافِ شکست تھا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جس کا واحد ہدف شرکاء دھرنا کے مقابل صف آرائی اور مشترکہ محاذ بنانا تھا، خود اپنی لگائی ہوئی آگ کا شکار ہو گیا۔ داخلی اختلافات بھی کھل کر سامنے آگئے اور یہ چیز بھی روشن ہو گئی کہ کیسے حکومت اور نام نہاد اپوزیشن تمام جرائم کا اعتراف کرنے کے باوجود عدل اور انصاف کی طرف ہاتھ بڑھانے کیلئے تیار نہیں۔ ایک دوسرے کی باری کی حفاظت کرنے میں تمام اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر دھاندلی، کرپشن، بد اخلاقی اور جعلی پارلیمنٹ کا دفاع ہی جب ہدف ٹھہرے تو اس حمام کے سارے ننگوں سے خیر کی توقع رکھنا ہی عبث ہوتا ہے۔ ملک کی کروڑوں عوام نے پارلیمنٹ کا یہ چہرہ اور کھلا تضاد پہلی بار یوں لمحہ بہ لمحہ مشاہدہ کیا۔ رہی سہی کسر آزادی اور انقلاب مارچ کے دھرنے کے مقررین نے پوری کر دی۔ یوں بھان متی کا یہ حکمران کنبہ اور نام نہاد اپوزیشن بے نقاب ہوئی۔ لوگوں کی مزید ہمدردیاں دھرنا دینے والوں کے ساتھ ہوئیں۔ اور تادم تحریر لوگوں کی بڑی تعداد ازسرِ نو دھرنوں کا رخ کر رہی ہے۔ جو وطنِ عزیز کے سیاسی افق پر کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔ جلد یا بدیر حکمرانوں کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ عوام جتنا زیادہ بیدار ہوں گے ، حکمرانوں کا یوم حساب اتنا ہی زیادہ قریب ہوتا جائے گا۔ ممکن ہے دھرنوں اور لانگ مارچ کے تمام مبینہ اہداف پورے نہ ہوسکیں لیکن چند حقیقتوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ۔ اور یہ بیان کردہ نتائج براہِ راست یا بالواسطہ طور پر اس تحریک کا ہی نتیجہ ہیں۔

 

بالواسطہ یا بلاواسطہ حاصل شدہ نتائج
۱۔    ملک میں عملاً شیعہ سنی وحدت کا ماحول قائم ہو چکا ہے۔ قلبی وحدت روز افزوں ہے۔
۲۔    تکفیری گروہ بدترین تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کی عوامی و سیاسی پذیرائی پر کاری ضرب لگی ہے۔
۳۔    مکتب اہلبیت ؑ کی نمائندہ سیاسی جماعت ملک میں طاقتور قومی جماعت کے روپ میں سامنے آئی ہے جو انتہائی امید افزاء ہے کیونکہ اس کے روابط تمام ملک گیر جماعتوں سے مستحکم ہیں اور وہ ملی وقار، قومی شعار اور دینی اقدار کے تحفظ کے لئے فعال ہے۔
۴۔    پاکستان مسلم لیگ ن کی فاشسٹ حکومت کا جعلی مینڈیٹ اور آمرانہ طرزِ عمل بے نقاب ہو چکا ہے۔
۵۔    حکومت، اپوزیشن کی مفادات کی ملی بھگت بھی عوام کے سامنے کھل کر آچکی ہے۔ پارلیمنٹ میں عوامی مفاد کی ایک مسئلہ پربھی بات نہیں کی گئی۔


۶۔    سانحہ ماڈل  ٹائون کے ضمن میں شہدائے ملت جعفریہ کے معاملات کو مرکزی دھارے میں لایا جا چکا ہے اور مظلومین کا فطری اتحاد تشکیل پا رہا ہے جو آئندہ کے سیاسی منظر نامہ میں اہم کردار کرے گا۔
۷۔    عوامی تحریک، سنی اتحاد کونسل پاکستان اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی قیادت کا استقلال، ثابت قدمی اور میدان میں موجودگی ثابت ہوچکی ہے۔ حکومت وقت کے مقابل قیام کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔ عوام کو نیا اعتماد اور حوصلہ ملا ہے۔ حکمران  De-moralize    ہیں ان کی سیاسی ساکھ کمترین نقطہ پر پہنچ چکی ہے۔
       حقیقی FIR سمیت بعض اہم مطالبات پر ایسی پیش رفت ہوچکی ہے جو بتدریج وزیرِ اعلیٰ کے گلے کا پھندا بن سکتی ہے اوریوں پہلی مرتبہ ریاستی دہشتگردوں کو  نشانہ عبرت بنانے کے امکانات عملی ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

 

حالیہ تحریک میں مجلس وحدت مسلمین کی امریکہ مخالفت
    یاد رہے کہ جماعتِ اسلامی، ایم کیو ایم، عوامی تحریک، تحریک انصاف سمیت کئی دیگر جماعتوں نے 14 اگست کی اپنے اپنے انداز میں کال دی تھی اور مختلف تحریکیں شروع کرنے کے اعلانات بھی کئے تھے لیکن عوامی تحریک اور اس کے اتحادیوں نے لانگ مارچ اور دھرنے کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جو اس موقع پر مظاہروں کے مخالف تھے انہوں نے بھی مقابلہ کے مظاہرے اور دھرنوں کے اعلانات کئے۔ عملاً ملک دو گروہوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک معتدل اور تمام مکاتبِ فکر پر مشتمل تبدیلی کیلئے اور اصلاحات کے ایجنڈا پر عمل پیرا اتحاد جس میں مجلس وحدت مسلمین ، سنی اتحاد کونسل پاکستان، پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان عوامی تحریک شامل تھے اور تحریک انصاف بھی عملاً اسی صف میں نظر آتی تھی جبکہ دوسری طرف انتہا پسندوں اور تکفیری گروہوں کا غیر اعلانیہ اتحاد تھا جس کو امریکہ اور سعودی عرب کی کھلی تائید حاصل تھی اور جن کی صفوں میں لشکرِ جھنگوی، جند اللہ، سپاہِ صحابہ اور جیش محمد جیسے کالعدم دہشت گرد گروہ بھی فعال تھے اور جو طالبان نواز اور طالبان سرپرست جمیعت اہلحدیث، JUI(F) ، JUI(S)، اور ن لیگ جیسی سیاسی جماعتوں کا اتحاد تھا، موخر الذکر گروہ کے مفادات کی سیاست کی وجہ سے ANP، MAP اور بعض دیگر قوم پرست جماعتوں نے بھی اپنا وزن اس میں ڈالا۔


یوں امریکہ اور سعودی عرب کے نظریاتی مخالفین کیلئے صف آرائی کا بہترین موقع میسر آیا۔ دوسری طرف وہ لوگ بھی بے نقاب ہوئے جو اپنے طرزِ عمل یا رویوں کی وجہ سے امریکی لابی کی مضبوطی کا سبب بن رہے تھے۔ مجلس وحدت مسلمین کو ایک بار پھر یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے پاکستان میں امریکی سفیر کی مسلم لیگ ن کے حق میں بیان بازی اور ملاقاتوں اور بعد ازاں امریکی دفتر خارجہ سے ن لیگ حکومت کی تائید میں جاری ہونے والے بیان کو پاکستان کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور ملک میں امریکی مفادات اور امریکی پٹھوئوں کے مقابل ہر سطح پر جدوجہد کا اعادہ کیا کہ یہی وہ راستہ ہے جو وطنِ عزیز پاکستان کو صحیح معنوں میں آزاد،خود مختار اور غیر جانبدار ریاست بنا سکتا ہے۔

 

انقلاب مارچ کے موضوع پر موصول ہونے والے بعض اہم سوالات کے مختصر جوابات
               سیاسی موضوع پر موصول ہونے والے بعض اہم سوالات کے مختصر جوابات کا فیصلہ کیا گیا ہے تا کہ اشتباھات کو دور کرنے کیلئے درست معلومات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ ممکنہ طور پر بعض سوالات کا MWM کی پالیسی سے براہِ راست تعلق نہیں لیکن پھر بھی اہم سمجھا جا رہا ہے کہ متعلقہ معلومات درست تجزیہ کیلئے فراہم کی جائیں۔  (ادارہ)

 

۱۔     علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نظامِ مصطفٰوی کی بجائے امریکہ یا یورپی جمہوریت کی بات کیوں کرتے ہیں؟
                علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بعض ملاقاتوں اور اسلام آباد آبپارہ اور پھر بعد ازاں پارلیمنٹ ہائوس کے روبرو براہِ راست نشر ہونے والی دو تقاریر میں اپنی جدوجہد کا ہدف مصطفٰوی انقلاب کو قرار دیا اور تمنا ظاہر کی کہ ان کی تحریک (منہاج القرآن) امام زمان ؑ کی سپاہ میں شامل ہو سکے۔ انہوں نے آئمہ طاہرین ؑ ، اہلبیتؑ اور پاک صحابہ کی زندگی اور سیرت نبویؐ پر مشتمل نظام کیلئے جدوجہد کو ہی اپنی زندگی کا حاصل قرار دیتے ہوئے کہا کہ مغربی دنیا کی موجودہ ترقی کے بعض پہلو اور مغربی جمہوریت میں بعض اصول دراصل اسلامی اصولوں اور اقدار سے اخذ کردہ ہیں۔ لہٰذا مغربی معیارات سے ان کی مراد مروجہ معیار ہیں نہ کہ حقیقی اور ان کی حالیہ تحریک مصطفٰوی انقلاب کیلئے ہے نہ کہ مغربی انقلاب کیلئے۔

 

۲۔    علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلاب کی ماہیت کیا ہے اور مجلس وحدت مسلمین کا اس سے کیا تعلق ہے؟
          علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا نظریٔہ انقلاب مجلس وحدت مسلمین کے رہنمائوں کی نظر میں اصلاحاتی ایجنڈا ہے نہ کہ جمہوری اسلامی میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب کا متبادل۔انقلاب مارچ، لانگ مارچ کےلئے ایک مناسب عنوان ہے۔ پاکستان کے آئین کہ جس کے سرنامہ میں تحریر ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیـں بن سکتا۔ اس کے احیاء کی کوشش ایک فریضہ ہے۔ کیونکہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح ہر مسلک سے تعلق رکھنے والےا فراد کیلئے ان کی فقہ کے مطابق ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب کا اصلاحاتی ایجنڈا انتہائی احسن اور وطنِ عزیز کی ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔ مجلس وحدت مسلمین ان 12 نکات پر اس چار جماعتی اتحاد کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کے عنوان کے تحت شریک ہے اور کسی گرینڈ الائنس کا حصہ نہیں ہے ۔

۳ ۔مجلس وحدت مسلمین اس تحریک کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟حالیہ دھرنوں کا مستقبل کیا ہے؟

 

 حالیہ دھرنے پاکستان کی پر امن احتجاجی تحریک کا روشن باب ہیں۔ مزاحمت کی علامت اور ظلم کے خلاف استقامت کا استعارہ ہیں۔ عوام کے عزم، حوصلہ اور استقلال کی روشن دلیل ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین اپنے مقرر کردہ معیارات پربیشتر اہداف کامیابی سے حاصل کر چکی ہے۔ اور ملکی سیاسی منظرنامہ میں نئی تبدیلی کو اپنی، ملت پاکستان کی اور وطنِ عزیز کی کامیابی کی سمت ایک بڑے قدم کے طور پر دیکھتی ہے۔

 

۴ ۔       حالیہ تحریک، ملٹری Establishment کے کہنے پر چلائی گئی؟ مجلس وحدت مسلمین ایسی تحریک کا حصہ کیوں بنی؟
    حالیہ تحریک کا ملٹری یا سول بیوروکریسی کے کہنے پر چلایا جانا کئی وجوہات کی بناء پر ایک مفروضہ ہے۔ اول یہ کہ طاقتور ملٹری بیوروکریسی اگر اس تحریک کی معاون یا حتی کہ حامی بھی ہوتی تو کئی مرتبہ اس تحریک کے دوران ایسے مواقع موجود تھے جب کسی بھی عسکری مداخلت کا موقع موجود تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مثلاً ماڈل ٹائون محاصرہ، ملک بھر میں کینٹینروں کی تنصیب کے ذریعے اہم شاہرائوں کی بندش اور نظام زندگی کا معطل ہونا، سیکرٹریٹ کے باہر قبضہ، حتیٰ کہ جب ملٹری چیف کی اپوزیشن سے ملاقاتیں ہوئیں تب بھی یہی سمجھا جا رہا تھا لیکن ایسا کچھ نہ تھا نہ ہوا۔ دوم یہ کہ امریکہ اور سعودی لابی اعلانیہ ن لیگ کی حمایت کر رہی تھی۔ امریکی سفیر اور دفترِ خارجہ نے واضح بیانات جاری کئے۔ کیا پاکستانی بیوروکریسی Establishment ،امریکی اور سعودی لابی کے خلاف کھڑی ہے؟  اگر ایسا ہے تو پھر حتماً امریکہ کے مقابل ملکی لابی کی حمایت کی جانی چائیے۔ سوم یہ ہے کہ ملٹری اور حکومت کے درمیان اختلافات موجود ہیں اور ایسا محسوس بھی ہوتا ہے لیکن اگر واقعاً ایسا ہے تو پھر شہباز شریف کس حیثیت سے اور کیوں آٹھ روز میںچوتھی آرمی چیف سے ملا ہے؟ اگر اختلافات ہیں جو حکومتی بدنظمی کا براہِ راست نتیجہ ہو سکتے ہیں تو اس میں حکومت کی غلطی تو ہوسکتی ہے یہ انقلاب مارچ کے شرکاء کی سازش کا نتیجہ ہر گز نہیں ہو سکتا۔ مجلس وحدت مسلمین اس تحریک کا حصہ ہے کیونکہ یہ وطن دشمنوں، ظالموں، ریاستی دہشتگردوں، امریکی و سعودی عزائم کے مقابل پاکستانی عوام کی تحریک ہے اور اگر کبھی ایسا موقع آ جائے کہ ملکی مفاد اور Establishment ایک صفحہ پر آجائیں تو ایسی صورت میں ملکی مفاد کی حمایت میں کھڑے ہونا Establishment کی حمایت نہیں بلکہ ملکی مفاد کی حفاظت ہے۔ اور اگر مفروضہ صورت پیدا ہوجائے اور Establishment عوامی حمایت میں کھڑی ہو جائے تو یہ صورت وطنِ عزیز کیلئے مفید ہے لیکن تا دم تحریر ایسی صورتحال مفقود ہے البتہ ہر وہ کام جس سے وطن، دین، ملت اور قوم مضبوط ہو ، مجلس وحدت مسلمین اس کاساتھ دینا ضروری سمجھتی ہے۔

 

۵۔    4جماعتی اتحاد سے تشیع کی ہویت اور شناخت ختم ہو گئی ہے؟
    4جماعتی اتحاد سے تشیع کی طاقت اور اس کے موقف کی سربلندی ثابت ہوئی ہے۔ کیا لاکھوں لوگ کا لبیک یاحسینؑ اور لبیک یازینبؑ کے شعار کے ساتھ شیعہ قائدین کا استقبال اس ہویت کو ختم کرنے کا سبب بنا یا تشیع کی شناخت میں بے بدل اضافہ کا موجب بنا ہے؟ کیا ملت جعفریہ کے شہداء کے انتقام کے لئے 4جماعتی اتحاد کا بولنا تشیع کی ہویت کو محفوظ کرنے کا سبب بنا ہے یا کمزوری کا؟ کیا کسی سنی نے اپنا مکتب تبدیل کیا یا شیعہ نے اپنے عقائد کو ترک کیا ہے؟ کیا اس ساری تحریک میں درجنوں مرتبہ اہل سنت نے شیعہ علماء کی امامت میں نماز یں نہیں پڑھیں؟ کیا یزیدیت مردہ باد کے نعرے نہیں لگے، کیا شیعہ سنی وحدت کے ذریعے رہبر معظم کی قلبی آرزو کو پورانہیں کیا گیا؟ کیا علمِ عباسؑ کے سائے میں اہلسنت برادران نے یذیدیت کے مقابل قیام کا عہد نہیں کیا؟ وہ کون ہے جو شیعہ سنی اتحاد کو تشیع کی ہویت اور شناخت ختم ہونے کے مترادف قرار دے کر امریکہ اور اس کے حواریوں کو تقویت دینے کا سبب بن رہا ہے؟ شیعہ قومی جماعتوں کا قومی دھارے میں موثر کردار کس باشعور کو قابل قبول نہیں؟ لوگوں کا پرچم عباسؑ کے سائے میں ظالم حکمرانوں کے مقابل قیام کا عہد کس کو پسند نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ غیر متعصبانہ نگاہ بتاتی ہے کہ تشیع اپنی ہویت اور شناخت کے ساتھ قوی تر ہوئی ہے۔ اس کے اتحادیوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس نے اپنی سیاسی شناخت کو بھی برقرار رکھا ہے اور اپنی دینی شناخت کی بھی حفاظت کی ہے۔ خدا اس شیعہ سنی اتحاد کو نظرِ بد سے محفوظ رکھے۔ مجلس وحدت مسلمین اس اتحاد کو عملی شکل دینے پر مبارکباد کی مستحق ہے۔

 

۶۔    ڈاکٹر طا ہر القادری نے 40گھنٹے شیعت کی تکفیر پر تقاریر کی ہیں؟ کیا وہ  شیعت کے مطالبات کی حمایت کرتے ٹھیک لگتے ہیں؟
    ڈاکٹر طاہر القادری کی شیعت کی تکفیر پر تقاریر ثابت نہیں ہیں لیکن وہ ایک اہل سنت رہنماء ہیں اور ان کے عقائدوہی ہیں جو اہل سنت کے مروجہ عقائد ہیں۔ اضافی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی بھی اسلامی مکتب فکر کی تکفیر کے قائل نہیں اور دہشتگردی کو حرام سمجھتے ہیں۔ علاوہ ازیں تمام مردوں میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ اور خواتین میں جناب سیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا کی افضلیّت کے قائل ہیں۔ علامہ صاحب نے تقریباً18سال پہلے تحریک جعفریہ کے ساتھ ایک اعلامیہ وحدت پر دستخط کئے تھے جس پر تکفیری گروہ ان کے دشمن ہو گئے تھے۔ یہ تشیع کی بطور مسلمہ اسلامی مکتبِ فکر قبولیت کا ثبوت ہے۔ حالیہ مشترکہ اعلامیہ جس پر مجلس وحدت مسلمین اور عوامی تحریک کی قیادت کے دستخط ہیں میں تحریر ہے۔


    ’’شیعہ و سنی مسلّمہ اسلامی مکاتب فکر ہیں۔ ان میں سے کسی کی بھی تکفیر حرام اور غیر آئینی ہے۔ آئین میں ترامیم کے ذریعے کسی بھی مکتبِ فکر کی تکفیر کرنے والوں کو ملک کے باغیوں کے برابر سزا (سزائے موت) دی جائے گی‘‘۔
    دھرنے کی تقاریر میں ڈاکٹر صاحب نے تکفیریت کو عالمی فتنہ اور دجالیت سے تعبیر کیا ہے۔ تمام تکفیری گروہوں کے مقابل ڈاکٹر صاحب کا شیعہ قومی جماعت سے اتحاد اسلام دشمنوں کے دل کا خار بن گیا ہے اور اگر بغرض محال ایک لمحے کے لئے یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ کسی مرحلہ پر ماضی میں ڈاکٹر صاحب شیعت کی تکفیر کے قائل تھے (جو کہ ناممکن ہے) پھر بھی آج مجلس وحدت مسلمین کی دینی سیاست کے نتیجہ میں ان کا شیعت کو مسلّمہ اسلامی مکتبِ فکر کے طور پر قبول کر نا عظیم کامیابی اور پھر ڈاکٹر صاحب کو تکفیریت کے مقابل کھڑا کرنا اس سے بھی بڑی فتح ہے۔ اس پر ہر اس شخص کو جو وحدت اسلامی کے لئے درد رکھتا ہے کو مجلسِ وحدت کی پالیسی کا شکر گزار ہو نا چائیے اور جھوٹے پروپیگنڈوں کہ جو براہِ راست عالمی استعمار کی تقویت کا سبب بنتے ہیں سے اجتناب کرنا چائیے۔
اسلام زندہ باد        پاک وطن پائندہ باد

 

ضروری نوٹ:
    قارئین سیاسی و اجتماعی معاملات پر مجلس وحدت مسلمین کی پالیسی جاننے اور ملکی و عالمی حالات سے درست آشنائی کےلئے سوالات بھیج سکتے ہیں۔ ادارہ کوشش کرے گا کہ سیاسی شعبہ ان کے جوابات یا ضروری معلومات درست تجزیہ کے لئے آئندہ شمارے میں شائع کرے۔ سوالات درج ذیل ای میل پر بھیجے جاسکتے ہیں جبکہ ادارہ کو براہِ راست خط بھی ارسال کیا جا سکتا ہے۔

 

تحریر:سید ناصرشیرازی


برادر ناصر شیرازی مرکزی سیکریٹری سیاسیات مجلس وحدت مسلمین پاکستان
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.   
دفتر شعبہ سیاسات مجلس وحدت مسلمین  ۔پاکستان
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
پوسٹل ایڈریس: ہائوس 18 Aسالک سٹریٹ فیض روڈ اولد مسلم ٹائون لاہور



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree