وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک)مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری نے سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد لاہور میں علامہ طاہرالقادری سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم خون کے آخری قطرے تک اہل سنت بھائیوں کے ساتھ ہیں اور اس ظالم حکومت کیخلاف شروع ہونے والی تحریک میں اپنا بھرپور رول ادا کریں گے۔ اس دن سے لیکر آج تک علامہ ناصر عباس ناصرف اس تحریک میں عملی طور پر ساتھ ہیں بلکہ اس تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش میں مصروف ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گذشتہ دو ماہ سے چلنے والی اس تحریک اور اس کے ثمرات پر ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: دھرنا تحریک سے جلسوں میں جانا، اس نئی حکمت عملی سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہ رہے ہیں، دوسرا عوام کا کیا رسپانس مل رہا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: ہماری پاکستان عوامی تحریک کی حمایت ان کی مظلومیت یعنی سانحہ ماڈل ٹاون کے واقعہ کے بعد شروع ہوئی، اس وقت ہم نے اپنے اہلسنت بھائیوں کا ساتھ دیا، جب لاہور میں بدترین ریاستی دہشتگردی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ہم اس وقت ان کی حمایت میں کھڑے ہوئے جب ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی تھی، حتٰی ایف آئی آر تک درج نہیں ہو رہی تھی۔ جب ہم نے دیکھا کہ ظلم ہوا ہے اور ایسی صورتحال بن چکی ہے کہ اگر ہم نے ساتھ نہ دیا تو کوئی دوسرا ماڈل ٹاون سانحہ رونما ہوسکتا ہے۔ اس وقت ہم نے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔ ہمارے اس دھرنے اور احتجاجی تحریک کا مقصد ظالم حکومت کا خاتمہ، الیکشن ریفارمز، اداروں سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ اور عوام کو ان کے حقوق دلانا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دھاندلی سے اقتدار میں آنے والی حکومت کو عوام پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا کہ آج دو ماہ ہوگئے ہیں، لوگ دھرنے کی شکل میں موجود ہیں، ان دھرنوں کے نتیجے میں لوگوں میں حوصلہ پیدا ہوا، مایوسی ختم ہوئی، ناامیدی کا خاتمہ ہوا، لوگوں تک پیغام پہنچا، پارلیمنٹ کے سامنے بیٹھنے والے لوگ پاکستان کے کروڑ عوام کے حقیقی نمائندے ہیں۔
الحمد اللہ ہم نے ان ظالم حکمرانوں کیخلاف ایف آئی درج کرا دی ہے، 31اگست کو دوبارہ حکومت نے ریاستی جبر کا مظاہرہ کیا، وہ سوچ رہے تھے کہ ہم حوصلے ہار کر یہاں سے چلے جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا، لوگوں نے اپنے عزم و حوصلے سے حکومت کو شکست دی ہے، خوف ٹوٹا، مظلوم عوام بیدار ہوئی، اس موومنٹ کے نتیجے میں حکومت اپنے ہر ارادے میں ناکام ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا سب نے دیکھا کہ اس میں عوام کی بات کرنیکی بجائے اپنے اقتدار کو بچانے کی باتیں کی گئیں، اوور بلنگ کرکے ستر ارب روپے کمائے گئے لیکن یہ نام نہاد پارلیمنٹ خاموش رہی، سوائے دھرنے والوں کے کسی سیاسی جماعت نے اس ظلم پر بات نہیں کی، عوام پر مہنگائی کا عذاب نازل کر دیا گیا ہے، کیا یہ عوامی نمائندے ہیں۔ آج ہمارا پیغام گھر گھر پہنچ چکا ہے، آج پورا پاکستان ان کی طرز حکمرانی سے نفرت کر رہا ہے۔
جب انسانوں کے اندر تبدیلی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالٰی بھی مدد کرتا ہے۔ ہمارے دھرنے کی یہی حکمت عملی ہے کہ اس دھرنے کو ملک کے کونے کونے تک لے جائیں، تاکہ حکمرانوں کے مقابلے میں عوام کو کھڑا کیا جائے، گو نواز گو ایک فرد کی بات نہیں ہے، بلکہ اس پورے ظالم نظام کے جانے کی بات جا رہی ہے جہاں فساد ہو، عدالتیں بکتی ہوں، جج بکتا ہو، جہاں تفرقہ پھیلایا جاتا ہو، جہاں اقربا پروری ہو، جہاں کرپشن ہو، ظالم بیورو کریسی ہو، ہم ان سب کے جانے بات کر رہے ہیں، گو نواز گو کا نعرہ اس پورے نظام کیخلاف ہے۔ نواز شریف ظالم نظام کی علامت ہے۔ ہم کہتے ہیں گو پارلیمنٹ گو، گو سینیٹ گو، ایسے عوامی نمائندوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان ایوانوں میں بیٹھے رہیں، جو مظلوم عوام کی آہوں اور سسکیوں کو نہ سن سکیں۔ آپ نے دیکھا کہ ہم اس دھرنا تحریک کو جہاں پورے ملک میں لے جاکر ظالم نظام کیخلاف عوام کو کھڑا کر رہے ہیں، وہیں ہم نے اتحاد و وحدت کو نچلی سطح پر لے کر جا رہے ہیں، ہر جگہ آپ کو وحدت کی بہترین مثالیں ملیں گی۔ اس سے حکمرانوں کی مبقولیت اور بھی ختم ہوتی جائیگی یہاں تک کہ ان کے پاوں تلے زمین نکل جائیگی۔
اسلام ٹائمز: اس وقت وزیراعظم کیخلاف جو فضا بن چکی ہے اور جس طرح سے ان کی مقبولیت کم ہوچکی ہے، کیا وہ بہترین وزیراعظم کے طور پر ذمہ داریاں نبھا سکیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: غیر مقبول حکمران کو ملک پر حکمرانی کوئی حق نہیں ہے، یہ غیر مقبول ہوچکے ہیں، انہوں نے عوام پر ظلم کیا ہے، چودہ ماہ کی ان کی کاکردگی نے ان کے چہروں سے نقاب الٹ دی ہے، یہ عوام کے قاتل ہیں، اس وقت وزیراعظم ایک ملزم ہیں جن پر کئی ایف آئی آرز درج ہوچکی ہیں، اخلاقی طور پر تو وزیراعظم کو اسی دن استعفٰی دے دینا چاہیئے تھا جب سانحہ ماڈل ٹاون ہوا، لیکن نہ تو وزیراعظم نے اس واقعہ کی ذمہ داری لی اور نہ ہی ان کے چھوٹے بھائی قاتل اعلٰی نے ذمہ داری لی۔ ان کو گرنا چاہیے، جب تک یہ شریف برادران حکومت میں ہیں نفرتیں بڑھیں گی، تفرقے پیدا ہوں گے، ملک کی معیشت کا پہیہ بیٹھ جائیگا، مہنگائی کا سیلاب مزید آئیگا۔ اس وقت آپ دیکھیں کہ سیاسی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ہیں، پیپلزپارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ حتیٰ نون لیگ خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ان کے بیانات بتاتے ہیں کہ اندر سے یہ کتنے ٹوٹ گئے ہیں۔ ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کیا کریں۔
اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ دھرنے کے بعد سے جتنے جلسے ہو رہے ہیں، وہ سابقہ تمام ریکارد توڑ رہے ہیں۔ اس پر سب حیران ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: یہی وہ چیز ہے جسے حکمرانوں نے انڈر اسٹیمیٹ کیا تھا، یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن بلائیں گے تو یہ گھر چلے جائیں گے، لیکن سب نے دیکھ لیا کہ ہماری تحریک دن بدن مضبوط ہو رہی ہے۔ ہماری تحریک نے ثابت کیا ہے کہ ملک میں مُک مُکا کی سیاست چل رہی ہے، یہ جعلی اپوزیشن ہے، انہوں نے باریاں لی ہوئی ہیں، اس لئے ایک دوسرے کی نااہلی اور کرپشن کو چھپاتے ہیں۔ پنجاب میں تو آپ نے دیکھ لیا اب آپ اندرون سندھ دیکھیں گے کہ کتنے بڑے جلسے ہونگے۔ پیپلزپارٹی نے اندرون سندھ کوئی کام نہیں کیا، وہان غربت، مہنگائی اور افلاس ناچ رہی ہے، ان لوگوں نے عوام کی فلاح و بہود کیلئے کوئی کام نہیں کیا۔ ان لوگوں نے فقط اپنے بینک بیلنس بڑھائے ہیں۔ ان کی جائیدادیں بڑھی ہیں۔ صحت اور تعلیم سمیت کسی شعبے میں پیپلزپارٹی نے کوئی کام نہیں کیا۔ پاکستان کے عوام اب بدل گئے ہیں، اب کا پاکستان 14 اگست 2014ء سے پہلے والے پاکستان سے بالکل مختلف ہے۔
اسلام ٹائمز: زرداری صاحب آجکل پنجاب میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں، کیا لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کا پنجاب سے پتا صاف ہوگیا ہے یا وہ جماعت کو دوبارہ منظم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: (مسکراتے ہوئے)، بہت دیر کی مہربان آتے آتے، زردار ی صاحب کا پنجاب سے تو پتا صاف ہوگیا ہے، اب ان کا پورے پاکستان سے پتہ صاف ہونے والا ہے، اب یہ لوگ سندھ تک محدود ہوگئے ہیں، وہاں سے بھی ان کا پتہ صاف ہوجائیگا۔ انہیں نواز شریف کی حمایت کی قیمت چکانی ہوگی۔ یہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ مکر و فریب کے ذریعے لوگوں کو پھر دھوکہ دیں لیکن اب ایسا نہیں ہونے والا، کیونکہ عوام باشعور ہوچکے ہیں، اب وہ ان کے دھوکے میں آنے والے نہیں ہیں۔
اسلام ٹائمز: کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دھرنے اور احتجاج کرنے والوں کا اسٹریٹیجک اتحاد وجود میں آچکا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: جی بالکل ایسا ہی ہے، عملی طور پر آپ اس کا مظاہرہ دیکھ سکتے ہیں، یہ جو دھرنے کی تحریک چل رہی ہے یہ قینچی کے دو لبوں کی طرح ہے جو اس پورے ظالم نظام کو کاٹ رہی ہے۔ کتنا اچھا ہے کہ شیعہ سنی، عیسائی، ہندو سب اکٹھے ہوں، یہ ہے اصل پاکستان اور نیا پاکستان، جہاں محبتوں کو فروغ ملے، جہاں تفرقہ ختم کرکے سب اکٹھے ہوجائیں۔ اس نظام نے ہمیں کیا دیا ہے؟ ہم نے اس نظام میں رہتے ہوئے سوائے لاشیں اٹھانے کے کیا حاصل کیا ہے، کیا آج تک کسی ایک بھی قاتل کو سز ا ہوئی؟ اس نظام نے قاتلوں کو رہا کیا ہے، اس نظام نے دہشتگردوں کو فری ہینڈ دیا ہے، اس نظام نے دہشتگردوں کا اسلحہ کا لائسنس دیا ہے، یہ ہے وہ نظام جسے حکمران بچانے پر لگے ہوئے ہیں۔ یہ نظام وطن سے دشمنی ہے، یہ نظام ہمارا نہیں ہے۔ اس نظام کا خاتمہ ہم پر واجب ہوچکا ہے۔ ستر ارب روپے ان لوگوں نے اووربلنگ کے ذریعے حاصل کیا ہے، یہ لوگ غریبوں کا خون چوس رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز: مینار پاکستان کا پروگرام کامیاب ہوپائیگا۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: ہمارے فیصل آباد کے مشترکہ پروگرام نے دنیا کو حیران کر دیا ہے، لاکھوں شیعہ سنی لوگوں کی شرکت نے ثابت کر دیا کہ لوگ حکمرانوں کیخلاف نکل چکے ہیں۔ مینار پاکستان کا اجتماع بھی تاریخی اجتماع ہوگا اور یہ حکومت کیخلاف ریفرنڈم ہوگا، انشاءاللہ دنیا دیکھے گی کہ سب سے بڑا اجتماع ہوا ہے، اس سے نون لیگ کی مقبولیت کا اور اندازہ ہوجائیگا۔ انشاءاللہ دنیا دیکھے گی کہ وطن کے باوفا بیٹے کیسے اکٹھے ہوتے ہیں اور ساتھ ملکر اس وطن عزیز کو بچانے کی تحریک کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ پروگرامات فقط پنجاب تک نہیں بلکہ پورے ملک میں منعقد ہونگے، یہ پروگرام کے پی کے اور سندھ میں بھی کرینگے، گلگت بلتستان میں بھی پروگرامات کرینگے۔ ایک چیز تسلیم کرنے والی ہے کہ ان دھرنوں سے لوگوں کی ملک سے محبت بڑھی ہے، حب الوطنی مزید نکھر کر سامنے آئی ہے، ان لوگوں نے فوج کو متنازعہ کرنیکی کوشش کی، ایک طرف سے فوج پر دہشتگردوں کا پریشر، دوسری طرف سے ریجنل اور عالمی طاقتوں کا پریشر اور ایک طرف سے یہ پریشر ڈال رہے تھے۔ مظلوموں کی جنگ لڑنے کا اسکرپٹ ہمارا ہے اور اس پر ہم باقی ہیں۔
اسلام ٹائمز: ماہ محرم میں دھرنوں اور احتجاج کے حوالے سے کیا حکمت اختیار کرینگے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: جی ہمارے ماہ محرم اور ماہ صفر میں جتنے پروگرام ہوں گے ان مہینوں کے تقدس کو پیش نظر رکھ کر ہونگے۔ کیونکہ یہ دونوں مہینے مظلوموں کی ظالموں کیخلاف جنگ کا نام ہیں، ظالموں کے خلاف قیام کا نام ہیں، حسینیوں کے یزیدیوں سے لڑنا کا نام ہیں۔ اس یاد کو تازہ کرنے کا نام ہے۔ کرپٹ، ظالم، فاجر، عوام کا خون چوسنے والے، قانون و آئین کے قاتل، ان سے ہماری لڑائی ہے۔ محرم و صفر کے تقدس کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری تحریک چلتی رہے گی، ان مہینوں میں ہم اس تحریک کو مزید مہمیز کریں گے۔
اسلام ٹائمز: مرزا اسلم بیگ نے اس تحریک کو امریکہ، کینیڈا، ایران اور لندن کی سازش قرار دیا ہے تو کچھ حلقے اسے مخملی انقلاب سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس پر کیا کہیں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: جو لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں، انہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہونا چاہیے، عوام کے مقدس حقوق کی تحریک چلانا، آئین کی شق نمبر 9 سے 39 تک عوام کے حقوق کی باتیں ہیں، ان شقوں کا نفاذ کرانے کیلئے کوششیں کرنا کیا عالمی سازش ہے،؟ کیا ماڈل ٹاون کا واقعہ عالمی اسٹیبلمنٹ نے کرایا؟، اس کی ایف آئی آر کٹنے میں اتنی تاخیر بھی عالمی طاقتوں کی کارستانی ہے؟، امریکہ سعودی عرب کی 30 سالہ پارٹنرشپ کو توڑنا بھی عالمی طاقتوں کا ایجنڈا ہے یا مخملی انقلاب ہے؟، یہ عوام کی مقدس جدوجہد ہے، عوام نے قیام کیا ہے اور یہ سلسلہ بڑھے گا۔ لگتا ہے کہ جنرل اسلم خواب سے جاگے ہیں، آئی جے آئی کا بانی، جمہوریت کا راستہ روکنے والا، عوام کی حکمرانی کا راستہ روکنے والا، آج بھاشن دے رہا ہے، کہہ رہا ہے کہ ایران اور امریکہ ملکر ایسا کر رہے ہیں، بھائی ایران اور امریکہ کیسے اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں؟، اصل میں جنرل صاحب آگاہانہ یا ناآگانہ طور پر عالمی طاقتوں کے ایما پر یہ کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ سازشی تھیوری کے ذریعے سے اس جدوجہد کو مشکوک بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اب یہ ناکام ہوچکے ہیں، یہ چلے ہوئے کارتوس ہیں، ان کی بات پر اب عوام اعتبار نہیں کرتے، ایسے لوگوں کی باتوں کا جواب ہمارے تاریخی اجتماعات ہیں۔ لوگ بتا رہے ہیں کہ ہم ان کی باتوں پر کان نہیں دھرتے۔
اسلام ٹائمز: ایک طرف ڈرون اٹیکس اور دوسری طرف سے انڈیا ایل او سی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے اندر نظام بدلنے کی بات کی جا رہی ہیں، سرحدوں پر یہ فضا کیوں بن رہی ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: ڈرون حملے ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی ہے، اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں، ہماری فورسز دہشتگردی کے گند کو صاف کر رہی ہیں، لہٰذا امریکہ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہماری سرحدوں کی پامالی کرے۔ امریکہ کبھی دہشتگردوں کو نہیں مارتا، وہ دہشتگردوں کو پالتا ہے، یہ اس کی تاریخ ہے۔ طالبان، القاعدہ اور داعش بنانے والا امریکہ ہے، دنیا میں جتنی دہشتگرد تنظیمیں ہیں سب امریکہ نے بنائی ہیں۔ جس کا مقصد جہان اسلام کو داخلی محاذ پر مصروف رکھنا ہے۔ جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے اور وزیراعظم کی خاموشی ہے تو یہ بات صاف واضح ہے کہ نواز شریف کا بھارت میں بزنس ہے، ایک کمزور حکمران کس طرح وطن کا دفاع کرسکتا ہے، اب تک وزیراعظم کی زبان سے کوئی جملہ ادا نہیں ہوا۔ بھارت یہ بات جانتا ہے کہ نواز شریف ہمارے خلاف نہیں بولے گا۔ انہوں نے سیلابی پانی چھوڑ کر آبی دہشتگردی کی، کیا نواز شریف نے کوئی جملہ بولا۔؟ وہ اسے خوب جانتے ہیں۔ وہ لوگ ہمارے دریاوں پر ڈیمز بنا رہے ہیں، یہ ان کے ساتھ کاروبار کر رہا ہے۔ اب جب ہمارے سیالکوٹ بارڈر پر عید کے دن سے فائرنگ چل رہی ہے، اس پر وزیر دفاع اور وزیراعظم صاحب کہاں ہیں۔؟ اصل بات یہ ہے کہ نواز شریف انڈیا کے ساتھ ملکر پاک فوج کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ یہ پاکستان کی فوج کو پولیس کی طرح رکھنا چاہتا ہے، یہ چاہتا ہے کہ آرمی چیف آئی جی پولیس کی طرح ہو، اور باقی بریگیڈئرز کی ایسے تبدیلیاں کرے جیسے پولیس کی جاتی ہیں۔ پھر وہ ایم این ایز کے پاس جاکر سفارشیں کریں کہ میری وہاں پوسٹنگ کراو اور ترقی کراؤ، کمزور فوج کبھی وطن کا دفاع نہیں کرسکے گی۔