وحدت نیوز(آرٹیکل) ربیع الاول کا مہینہ ہے،مسلمان ایک دوسرے کو اپنے نبیﷺ کی ولادت کی مبارکباد دینے میں مشغول ہیں،ایسے میں امت مسلمہ کو حلب کی آزادی کی خوشخبری بھی مل گئی ہے۔جب حلب کی آزادی کی بات آتی ہے تو میری طرح بہت سارے لوگ پریشان ہوجاتے ہیں کہ حلب کس سے آزاد ہوا!؟بعض کو تو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ حلب واقع کہاں ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟!لہذا حلب کے بارے میں مختصرا عرض کرتا چلوں کہ ملک شام کے دارالحکومت دمشق کے شمال میں حلب واقع ہے۔اہمیت کے اعتبار سے یہ شام کا تجارتی دارالحکومت کہلاتاہے۔اسی طرح یہ شہر ترکی سے بھی صرف ۶۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اوردریائے فرات اور بحیرہ روم بھی اس کے ساتھ لگتے ہیں نیز یہ مشرق وسطیٰ کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتاہے۔سال ۲۰۱۰سے ۲۰۱۲ کے درمیانی عرصے میں کچھ لوگ طاقت اور اسلحے کے زور پر اس شہر میں داخل ہوئے۔یہ اسلحہ بردار اجنبی ،اس شہر کے ساتھ بڑی بے دردی سے پیش آئے،انہوں نے غنڈہ گردی کی انتہا کرتے ہوئے اس شہر کی رونقوں کو وحشت میں تبدیل کردیا،بازار قبرستان بن گئے،عمارتیں کھنڈر بن گئیں اور لوگ اپنے ہی شہر میں بے گھر ہوگئے۔
حملہ آوروں کو بڑی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل تھی،چنانچہ مقامی لوگوں کی چیخ و پکار کو میڈیا نے بھی کوریج نہیں دی اور عالمی برادری نے بھی نوٹس نہیں لیا۔
حملہ آور اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے اور اس شہر کو اپنی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا مرکز بنانا چاہتے تھے۔انہوں نے مقامی لوگوں کو دبانے کے لئے تمام جنگی حربے اختیار کئے،مسلکی تعصبات کو بھڑکایا،نہتے لوگوں پر شب خون مارا اور حلب کے نقشے کو زیروزبر کرنے کی پوری سعی کی۔
ان چھ سالوں میں حلب جلتارہا،عصمتیں لٹتی رہیں،انسانی حقوق پامال ہوتے رہے،درندے لوگوں کی لاشوں کو بھنبھوڑتے رہے،مارکیٹیں بند رہیں اور بازار سنسان پڑے رہے۔ان چھ سالوں میں کسی نے حلب کا نوحہ نہیں لکھا،حملہ آوروں کو بے نقاب نہیں کیا،ظلم اور بربریت کرنے والے وحشیوں کو برا نہیں کہا۔۔۔
چھ سال تک حلب کے مقامی لوگ اجنبیوں کے ظلم کے مقابلے میں ڈٹے رہے اور حملہ آوروں کی جارحیت کے سامنے نہیں جھکے۔ چھ سال کے بعد ۲۰ نومبر ۲۰۱۶ کو شام کی فوج نے اپنے اس شہر کو حملہ آوروں سے آزاد کروانے کے لئے ایک فوجی کاروائی کا آغاز کیا۔پھر یہی فوجی کاروائی شہر حلب کی آزادی پر منتہج ہوئی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کاروائی میں شام کی فوج نے اپنے ہی ملک کے دوسرے بڑے شہر کو حملہ آوروں سے آزاد کروایاہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالمی برادری اور خصوصا امت مسلمہ کی طرف سے اہل شام کو اپنا شہر آزاد کروانے پر مبارکباد دی جاتی اوردنیا میں جہاں جہاں اسلحہ بردار ڈاکو اور غنڈے نہتے لوگوں پر حملہ آور ہیں ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی لیکن یہ دوغلے پن کی انتہا ہے کہ میڈیا نے اورغنڈووں کے ہم فکر و ہم نوالہ و ہم پیالہ ٹولوں نے عوام النّاس کو اصل صورتحال سے ابھی تک لاعلم رکھا ہوا ہے۔
جولوگ شہر حلب کو غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا مرکز بنانا چاہتے تھے،اب شہر حلب کی آزادی سے انہیں شدید دھچکا لگاہے۔ان میں سے بعض کو تو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ شہر حلب کا نوحہ لکھیں تو کیسے لکھیں،وہ بار بار یہی کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس افسوس کرنے کے لئے الفاظ ہی نہیں۔
ایسے ناسمجھ افراد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ افسوس کا مقام نہیں بلکہ خوشی کا موقع ہے،جب کوئی قوم اپنی سر زمین پر حملہ آوروں کو شکست دیتی ہے تو اس کی استقامت کو سراہا جاتاہے،اس کے جوانوں کو شاباش دی جاتی ہے اور اس کی شان میں قصیدے لکھےجاتے ہیں۔
حلب کی مظلومیت کا دوراب گزر گیا ہے، اب دنیا حلب اور اہل حلب کی شان میں قصیدے لکھے گی۔اب جہاں بھی دہشت گردوں اور غنڈوں کا منہ چڑھانا ہوگا لوگ حلب کا ذکر کیا کریں گے۔
حلب اپنے امتحان میں کامیاب ہوگیاہے۔اب حلب ہمیشہ سربلند و سرخرو ہی رہے گا۔حلب کی آزادی دنیا بھر کے غنڈوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ تم طاقت اور اسلحے کے ساتھ وقتی طور پر کسی کا حق چھین تو سکتے ہو ،کسی کو عارضی طور پر دبا تو سکتے ہو لیکن انسانی اقدار اور شرافتِ بشر کو شکست نہیں دے سکتے۔
اب دنیا کے اطراف و کنار میں جب تک ایک بھی شریف انسان موجود ہے وہ حلب شہرکی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے دہشت گردی اور غنڈہ گردی کے خلاف ڈٹا رہے گا۔
نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.