وحدت نیوز(آرٹیکل) ’’پھر ایک وقت ایسا آیاکہ محل کے ایک ادنیٰ ملازم،جس کا کام مکھیاںمارناتھا اس نے مکھی مارنیوالی چھڑی سے مطلق العنان شہنشاہ جس کی جنبش ابرو ایران کاقانون بنتا تھا،جن کی بادشاہت کاڈھائی ہزار سالہ جشن منایا جا رہا تھاکی گردن پر زور سے مارا اور چلًا کے کہااس چھڑی سے میں نے آج بارہ مکھیاںماری ہے کاش تم تیرھویں مکھی ہوتی! شہنشاہ نے بے بسی سے ملازم کی طرف دیکھا،ٹھنڈی آہ بھری اور تھکے تھکے قدموں سے محل کی جانب چل دئیــ‘‘ میرا دوست مجھے ایک ایسی کہانی سنا رہا تھا جس پر یقین نہیں کیاجا سکتا مگر دوست کی آنکھوں میںشرارت یا مذاق کاعنصرنہیں تھا اور ویسے بھی وہ دوست انتہائی راست گو شخص تھا۔
جی ہاں یہ سچی کہانی ایران کے شہنشاہ رضاشاہ پہلوی کی ہے جس کی فولاد جیسے مضبوط بادشاہت کو ایک بوریا نشین نے خاک میںملا دیا اور وہ بادشاہ جو اپنے ہاتھ کی گھڑی کو درست کرنا توہین سمجھ کے ملک کے کیلنڈرمیں ردو بدل کرتاتھا اس پرمحل کے اپنے ایک ملازم نے مکھیاں مارنے والی چھڑی سے حملہ کیا، انقلاب کے بعد اس چھڑی کی باقاعدہ نیلامی ہوئی ایک ایرانی سوداگر نے اس چھڑی کو اچھے خاصے دام میں خرید لیا۔
یہ گذشتہ صدی کی ناقابل یقین واقعات میںسے ایک ہے جب ایک درویش اور بوریانشین شخص نے خودکو خادم مغرب کہلانے والے شہنشاہ کی شہنشایت کو للکارا اور اس بتکوعوامی طاقت سے پاش پاش کر ڈالا،وہ شہنشاہ جو امریکی صدر کو اپنا باس کہتا تھا اور واشنگٹن کو ایران کا دارالحکومت،جس نے ایران میںموجود تمام ا مریکیوں کو سفارتی حیثیت دے دی تھی اس کا خیال تھا کہ امریکہ کی آشیرباد اسے اور اسکی حکومت کوقیامت تک محفوظ بنالیںگے،مگر جب بوریا نشیں خمینی نے اس کا بوریا بسترگول کروادیا تواسی امریکہ نے اسے پناہ دینے سے انکار کردیا ، انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذارتے ہوئے وہ بلآخربہادر شاہ ظفر کا شہرہ آفاق مصرع گنگناتے ہوئے مصر میں دفن ہو گئے۔
آج ایرانی قوم باوقار اور خودمختار قوم بن کے اپنے اس عظیم لیڈر کو سلام پیش کر رہے ہیں اور اس عظیم انقلاب کی چھتیسویںسالگرہ منا رہے جس نے ایران کا سر فخر سے بلند کیا، اگرآج دنیا نے ایران کو پرامن ،خودمختاراور غیرت مندقوم تسلیم کیا ہے تو اسی انقلاب کی مرہون منت ہے،آج اگر ایران پر کوئی عالمی اقتصادی پابندی نہیںہے تو،آج اسرائیل کی قبلہ اول پر ناجائز قبضے کو للکارنے والی واحد اسلامی ریاست ہے تو،آج دنیا میں اتحاد بین المسلمین کی داعی ہے تویہ سب اسی انقلاب کی مرہون منت ہے جو انیس سو اناسی میں بپا ہوا،جسے ناکام کرنے کے لئے اہل مغرب نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر اس مرد آہن کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔
حکیم الامت علامہ اقبال مرحوم سے کسی نے امامت کے بارے میں استفسار کیا،آپ نے اس کی حق میں دعا فرمائی کہ جن رازوں سے میں آشنا ہوں میری دعا ہے کہ حق تعالیٰ تجھ پر بھی وہ راز آشکار کرے، پھر امامت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا
ہے وہی تیرے زمانے کا امام ِبرحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
کیا انیس سو اسی کی دہائی میں ایرانی قوم کو جن چیزوں پر فخر کرنی چاہئے تھی ان سے بیزار نہیں تھے؟کیا اس وقت کے سپرپاورز سے تعلقات سے وہ قوم بیزار نہیں ہوئے؟ پھر آگے حضرت اقبال امامت کی مزیدتشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
موت کے آئنے میں دکھلا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے
کیا آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے دوران وہاں کے نوجوانوں کے لئے زندہ رہنا دشوار بلکہ موت سے گلے لگانا آسان نہیں تھا؟
تاریخ گواہ ہے جہاں بلند نگاہ،آہنی عزم والے مردقلندر نے قیادت کی ، وہاں شہنشائت کے بتوں کو سرنگوں کر دی۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ قوموں کو زندہ رکھنے کے لئے روٹی،کپڑا۔مکان،مشین،فیکٹریاں،سڑکیں،موٹرویز،اورڈالرزضروری ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انا۔ضمیر،اور عزت نفس بھی قوموں کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔انقلاب اسلامی ایران نے دنیا کے مظلومین کو عزت نفس اور غیرت کا درس دیا۔
تو اٹھا قوم کی کشتی کا محا فظ بن کر
تیری تدبیر نے طوفان کا رخ موڑدیا
تحریر: ممتاز حسین ناروی
(This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.)