وحدت نیوز(آرٹیکل) مذہبی اسکالر ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی کے خطاب سے اقتباس
تحریر : ناصر رینگچن
✒?اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں اور قارین کی آسانی کے لئے اس موضوع میں بیان ہونے والے کچھ اہم پوائنٹس مندرجہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔
*?الجزائر سے دہشت گردی کیسے ختم ہوئی؟*
*? امریکہ ،فرانس ،اسرئیل اور سعودیہ کا گٹھ جوڑ*
*? عرب سپرنگ کے نام پر دہشت گردوں کو فنڈینگ کس نے کی؟*
*? خطے میں تین بلاکز ، کون کون شامل ہے؟*
? *بن سلمان اور بن زید امریکہ سے کہا چاہتے ہیں؟*
*? ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب سے قطر کو کیا پریشان ہوئی؟*
*? ایران کے مخالف قطر اور سعودیہ کے مابین تنازعہ کیوں؟*
*?پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟*
*? عالمی طاقتوں کا مقصد؟*
*? اتحاد وقت کی اہم ضرورت۔*
*مشرق وسطی کے بدلتے حالات سے پاکستان تک*
مشرق وسطی جو کہ تاریخی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ہر زمانے میں یہ خطہ عالمی طاقتور اور حکومتوں کی نظروں میں رہا۔ اسی طرح آج کے اس جدید ترقی یافتہ دور میں بھی مشرق وسطی کی اہمیت میں کسی طرح کی کمی نہیں آئی بلکہ قدرتی وسائل، جغرافیائی اہمیت اور سیاسی لہذ سے اب بھی عالمی طاقتوں کے مفاداتی جنگ کا میدان ہے جہاں پر ڈائریکٹ انڈائرکٹ تمام طاقتیں موجود ہیں۔ایک بات یاد رکھیں بین الاقوامی سیاست میں کوئی ابدی دوست اور دشمن نہیں ہوتا تمام تر تعلقات مفادات سے وابسطہ ہوتے ہیں۔ یہاں پر مشرق وسطی کے موجودہ حالات پر گفتگو کرنے سے پہلے میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں جس سے آپ کو ان حالات کو سمجھنے اور پس پردہ حقائق کو جانے میں آسانی ہوگی ۔ ڈاکٹر عبدالمجید دشتی کویتی جو کہ کویتی پارلیمنٹ کے سابق ممبر ہیں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا ایک دوست جو الجزائر کا سابق وزیر خارجہ تھا اس کا نام علی بن فلیس ہے ۔ وہ وزیر خارجہ کے علاوہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اس نے الجزائر سے دہشت گردی کیسے ختم ہوئی ؟ مجھے مفصل بتایا اور بیان کیا۔
علی بن فلیس کہتے ہیں کہ 90 کی دہائی میں الجزائیر میں دہشت گردی عروج پر تھی جیسے ابھی شام عراق اور دیگر دہشت گرد متاثرین مملکوں میں ہیں۔90 کی دہائی میں متشدد اسلامی تحریک کی لہر زوروں پر تھی اور ان لہروں کے پیچھے یہی تکفیری آیڈیالوجی کارفرما تھی.اور جس نے الجزائر کے امن کو تباہ و برباد کردیا تھا اور لوگوں کا جینا حرام ہوگیا تھا۔ حکومت پریشان تھی کہ کیسے اس دہشت گردی کی لہر اور سوچ پر قابو پایا جائے مگر ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا تھا۔ ایک مرتبہ الجزائر کا صدر نے مجھے یعنی علی بن فلیس کو طلب کیا اور اسے کہتا ہے کہ اج کچھ خاص مہمان آئنگے لہذا تمھاری شرکت نہایت ضروری ہے۔ علی بن فلیس کہتے ہیں کہ جب وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ صدر کے ساتھ امریکی سفیر اور تین دیگر لوگ بیٹھے تھے جو امریکن سی آئی اے کے عہدہ دار معلوم ہوتے تھے۔ امریکی سفیر نے صدر سے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں آپ کے ملک سے دہشتگردی ختم ہو؟؟ صدر صاحب پہلے سے ہی اس صورت حال سے پریشان تھے باعث حیرانگی کہنے لگے کیا آپ ہمارے ملک سے دہشت گردی ختم کر سکتے ہیں؟؟ سفیر نے کہا جی بلکل مگر کچھ شرائط ہیں !! صدر نے کہا قبول ہے۔ امریکی سفیر نے کہا
اول۔ آپ کے ملک کے تیل کی فروخت کی امدن وغیرہ کے جو نفع ہے اسے امریکی بینکوں میں رکھیں گے۔
دوئم_ اور گیس کی فروخت کی آمدن فرانس کے بنکوں میں رکھیں گے.
سوئم - فلسطین کی حمایت سے ہاتھ اٹھانا ہوگا اور اسرائیلی مفادات کا خیال رکھنا ہوگا۔
چہارم _ ایران اور حزب اللہ سے تعلقات ختم کرنے ہونگے۔
پنجم _ اگر ترکی جیسی اسلامی حکومت تشکیل دینا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا.
اگر آپ ہماری شرطیں قبول کرتے ہیں تو آپکے ملک سے یہ مذھبی دہشتگردی ختم کرنے کی ہم ضمانت دیتے ہیں.
صدر نے کچھ سوچنے کے بعد مطالبات تسلیم کرنے کی حامی بھر دی تو سفیر کہنے لگا ٹھیک ہے پھر ہم اپنے شرکاء اسرائیل، فرانس اور سعودیہ سے بات کریں گے ۔
صدر نے پوچھا کہ ان ممالک کا کیا تعلق ہےامریکی سفیر نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیاکہ دہشت گردوں زیادہ تر اسلحہ فروخت کرنے والا ملک اسرائیل ہے، اور اس اسلحہ کا خریدار یعنی فنڈز فراہم کرنے والا ملک سعودی عرب اور دہشت گردوں تک اسلحوں کو پہنچانے والا فرانس ہے. اسرائیل اسلحہ فرانس بھیجتا ہے اور فرانس کے الجزائر کے بعض فوجی آفیسرز سے تعلقات ہیں جنکےبذریعے یہ اسلحہ مسلحہ گروھوں تک پہنچتا ہے.اس کے بعد سفیر نےتمام معلومات اور حقائق ہمارے سامنے رکھ دئے ، اور کہا کہ ہم فرانس اور اسرئیل کو اس معاہدے سے اگاہ کر دیں گے آپ کسی کو سعودیہ بھیجیں جو سعودی حکومت کوقائل کرے .
اسی دوران صدر نے علی بن فلیس جو کہ وزیر خارجہ تھا کو حکم دیا کہ سعودی عرب سے بارگینگ تم کرو گے۔ علی بن فلیس سعودیہ پہنچتا ہے کنگ عبداللہ سے ملاقات کرتا ہے اور پلینگ سے آگاہ کرتا ہے مگر بادشاہ عبداللہ کسی صورت مانے کو تیار نہیں ہوا بالآخر علی بن فلیس ناکامی کے ساتھ محل سے باہر نکلتا ہے اور امریکی سفیر کو فون کر کے صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں سفیر کہتا ہے تھوڑی دیر انتظار کرو۔ اب تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ملک عبداللہ کا خصوصی ایلچی جلدی سے علی بن فلیس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے بادشاہ نے آپ کو بلایا ہے وہ کہتا جب میں کنگ عبداللہ کے پاس پہنچا تو وہ فورا مجھے مبارکباد دینے لگا ۔ اس کے بعد دہشت گردوں کی لعنت ہمارے ملک الجزائر سے ختم ہو گئی. امیرکن الجزائر میں دہشت گردوں کے مراکز کو جزائیری فوج کے سامنے رکھ ریتے ہیں یوں وہاں کی آرمی امریکیوں کی مدد سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔
خلاصہ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو ظاہری دہشت گرد نظر آتے ہیں یہ ایک روبوٹ کی طرح ہے ان کے پیچھے پورا ایک سسٹم کار فرما ہے جو شاید ہی صرف دہشت گردوں کے لیڈروں کو ہی پتا ہو۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کچھ دن پہلے سعودی عرب میں دہشت گردوں کے تھینک ٹینک اسلامی ممالک کے سربراھان کا اجلاس ہوا اور امریکی سعودی اتحاد سے اس کے سربراہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمان حکمرانوں کو اسلام پر لیکچر بھی دیا. اس کے بعد برادر اسلامی ملک ایران کے خلاف اتحاد کے مقاصد کو بیان کیا گیا . جس کا پہلا اثر ایرانی پارلیمنٹ اور مرقد امام راحل پر دھشتگردی کے حملے کی صورت میں نظر آیا.
اور دوسرا اثر دہشت گردوں کی سب سے زیادہ مالی سپورٹ کرنے والے ممالک قطر ، سعودیہ اور امارات کے ما بین کشیدگی کی صورت میں نظر آ رھا ہے. اب ایران پر حملہ کیوں ہوا؟ پہلا نقطہ تو واضح ہے کہ سعودی اتحاد میں الاعلان کہا تھا کہ اب دہشت گردی کی جنگ کو ایران کے اندر لے جائیں گے۔ دوسرا نقطہ یہ ہے کہ سعودی ولی عہد بن سلمان اور محمد بن زید نے امریکہ کے سے قریبی تعلقات قائم کئے اور امریکہ سے کہا کہ خطے کی چودراہٹ ہمارے ہاتھ میں آنے چاہئیے اور ساتھ ہی خزانوں کی چابیاں بھی دیکھا دیں۔ امریکہ جسے ان دہشت گردوں اور عرب بدووں کی جاہلانہ ذہنیت پر کمانڈ حاصل ہے ، اور ساتھ ہی اپنے مفادات کا بھی خیال تھا. انہوں نے کہا یہ معاہدہ برا نہیں ہے۔ابھی تو فقط امریکہ اور سعودیہ کا پانچ سو ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا ہے. در پردہ 1500 ارب ڈالرز محمد بن سلمان طے کر چکا ہے. اور سعودیہ کی خاطر پہلے امریکہ نے شام کے شعیرات ائیر بیس پر حملہ کر کے ال سعود اور اس کے اتحادیوں کو یہ باور کرایا تھا کہ اگر پیسے دو گے تو ہم یوں بھی کر سکتے ہیں لہذا پیسے دو کام لو۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی اتحاد کو یہ جراءت ہوئی کہ اس نے ایران سے جنگ کا اعلان کیا۔ اسی لئے ہمیں تہران حملے کی نوعیت داعشی اسٹائل سے الگ نظر آتی ہے چونکہ اس منصوبے میں ڈائریکٹ امریکہ اسرائیل بھی موجود ہے۔ دوسری طرف سی آئی اے نے سعودیہ کو گرین سگنل دیا ہے کہ 500 ارب ڈالر کا نتیجہ آرہا ہے۔
یہاں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ ایران پر حملہ دو اہم رموز اور ستونوں پر حملہ ہے .اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلام اور جمہوریت دو اہم ستون اور رکن نظام ہیں. اس لئے حرم امام خمینی کو نشانہ بنانا اسلام ناب اور محمدی اسلام کو نشانہ بنانا ہے اور مجلس شوریٰ اسلامی یا پارلیمنٹ پر حملہ جمہوریت پر حملہ ہے. دوسرے لفظوں میں شام عراق کی شکست انھیں یہاں تک لے آئی ہے . کہ جمہوریت کی خاطر پر امن ممالک کو تباہ کرنے والے جمہوریت پر حملے کر رہے ہیں اور اسلام کے جھوٹے دعویدار اسلام پر ہی حملہ آور ہیں. لیکن ایک بار پھر استعماری طاقتیں اپنے اصل ہدف میں ناکام ہوئے۔
آج مقاومتی بلاک بڑی طاقت میں ہے جس کی وجہ سے شام، لبنان،یمن ، عراق اور ایران میں مضبوط روابط قائم ہیں۔ اسرائیل حزب اللہ جنگ میں اسرائیل کی شرمناک شکست اور پھر شام عراق میں تکفیریوں کی پے درپے شکست سے بلاک مقاومت کی طاقت دنیا بھر میں ظاہر ہوئی. اب امریکہ ڈائرکٹلی مقاومتی بلاک سے ٹکرانے میں احتیاط کرتے ہیں۔ ہم سنتے آرہے ہیں تھے کہ تہران سے بیروت تک اس ہلالی خطے میں شیعہ مظبوط ہونا چاہتے ہیں تو دینا آج دیکھ رہی ہے کہ ہلال شیعہ مکمل ہوچکا ہے آج تہران سے بیروت تک راستہ کلیر ہے اور یہ سب مقاومت کی بدولت ہے۔اس وقت خطے میں تین بلاکز موجود ہیں۔
1_مقاومت کا بلاک: امریکہ و اسرائیل کے خلاف یعنی ہر ظالم کے ظلم کے خلاف اور یہ لوگ خود سے کبھی پہل نہیں کرتے یہ اپنے اصولی موقف کا دفاع کرتے ہیں اگر کسی ملک میں جاتے بھی ہیں تو بین الاقوامی قوانین کا لحاظ رکھتے ہیں اور قانونی طور پر جاتے ہیں یعنی باقاعدہ دفاعی معاہدہ کی صورت میں جاتے ہیں۔ اس بلاک میں جو نمایاں ہیں وہ ایران، عراق، شام، حزب اللہ، انصاراللہ اور الحشد الشعبی ہیں۔ جنہیں عالمی طور پر روس اور چین کی حمایت بھی حاصل ہے.
2۔ سعودی عرب ، خلیجی ممالک اور مصر کا بلاک : جو اپنے آپ کو سنی بلاک کہتے ہیں حقیقت میں تکفیری بلاک ہے. جو امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر ناچتا ہے.
3۔ قطر ، ترکی ، اخوان المسلمین اور حماس کا بلاک : جن کی زیادہ تر مالی معاونت قطر کرتا ہے۔ تکفیری دہشتگردی کی پشت پناہی اور امریکہ و اسرائیل سے تعلقات میں دوسرے اور تیسرے بلاک میں کوئی فرق نہیں. دونوں کی کوشش ہے سنی دنیا کی خلافت وسربراہی فقط اس کے پاس ہو ایک خادم الحرمین کے لقب سے سنی ممالک کا امیرالمؤمنین بننا چاہتا ہے دوسرا خلافت عثمانیہ کے از سر نو احیاء سے مسلمانوں کا امیرالمؤمنین بننا چاہتا ہے. اور اس خلافت کو وہ امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرے اور تیسرے مقامات کا آئڈیولوجی تقریبا ایک ہی مگر نظریاتی و مفادات اختلاف موجود ہیں۔ شام، عراق میں یہ دونوں پہلے والے مقاومت کے خلاف متحد تھے.
جب عراق، شام میں ان تکفیریوں کو شکست ہوئی تو امریکہ اور اسرائیل کو تشویش ہوئی انھوں نے اب ایک نئی ڈرامہ بازی شروع کردی۔ اور شام، عراق، لیبیا وغیرہ کی جنگ میں جو ممالک متحد تھے اور دہشت گردوں کی مالی و نفری مدد کر رہے تھے انہوں نے اپنے الو ٹھیک کرنے شروع کئے ہیں ۔ امریکہ جس کی اقتصاد روز بہ روز تنزلی کی جانب بڑھ رہا تھا اس نے اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور عربوں کے دولت سمیٹنے لگا جس کی پہلی مثال دورہ ٹرمپ اور ٹرمپ کا یہ بیان ہے سعودیہ دودھ دینے والی گائے ہیں جب تک دودھ موجود ہے دودھ دھولو۔
یہاں سے قطر اور سعودیہ کا تنازع شروع ہوتا ہے اول تو مقاومتی بلاک کی وجہ سے اختلافات تھے دوسرا امریکہ سے سعودی قریبی تعلقات سے بھی قطر ناراض تھا اور یہ اختلافات اس وقت شدت اختیار کر گئے .جب سعودی عرب نے قطر کو جگا ٹیکس دینے کا کہا مطلب 1500 ارب ڈالر میں اپنا حصہ دیں قطر کو سعودی شرائط منظور نہیں تھیں لہذا اس نےانکار کردیا۔
یہ بات یاد رہے کہ سعودی قطعی تعلقات خراب کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قطری اچھے ہوگئے ہیں۔ مشرق وسطی میں دہشت گردی کی آگ لگانے اور اس آگ پر مزید تیل چھڑکنے والا ملک قطر ہے۔اور قطری چینل الجزیرہ عرب ممالک کی تباہی کی آگ لگانے جھوٹا پروپیگنڈا کرنے اور مسلمانوں کی قتل وغارت میں دہشتگردوں کا برابر کا شریک ہے. انسانیت کے قتل عام میں قطر نے پانی کی طرح پیسا بہایا عرب سپرنگ کی آڑ میں دہشت گردوں کی خوب پرورش کی لیبیا میں تکفیریوں مکمل مالی تعاون کیا بلکہ امریکن نیٹو کے اخرات بھی قطر دیتا تھا۔ اس کے بدلے میں قطر کا یہ معاہدہ تھا کہ وہ 10 سال تک لیبین تیل کی آمدنی حاصل کرے گا۔
صرف یہ نہیں شام کو عرب لیگ سے نکالنے میں بھی قطر کا ہاتھ ہے۔ خلاصہ یہ کی اب تک بین الاقوامی جنگ قطر لڑ رہا تھا۔ جب قطر نے اپنی ان تمام قربانیوں کے باوجود امریکہ کا سعودی عرب کی طرف جھکاو دیکھا تو اس سے رہا نہیں گیا یوں یاری میں دوریاں پیدا شروع ہوئی۔ شروع میں یہ خیال تھا کہ یہ ننھا قطر گھٹنے ٹیک دے گا مگر ترکی کی طرف سے فوجی، ایران کی طرف سے غذائی مدد پھر روس کی طرف سے بھی آسرا ملنے کے بعد قطر نے اپنی روش میں استقامت پیدا کی ہے۔
لیکن ہمیں غافل نہیں ہونا چاہیے یہ خلافت رسول اللہ کی جنگ نہیں یہ اقتدار بنی امیہ اور بنی عباس کی جنگ ہے اور اللہ کے نیک اور صالح بندے اور ذریت رسول اللہ ان دونوں اقتداروں میں ظلم کی چکی میں پستی رہی. یہ دونوں بلاک ہمارے ابدی دشمن ہیں ہمارے خلاف یہ دونوں ایک ہیں ۔ لیکن ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے اور ان حالات سے فائدہ اٹھانا چاہیے چونکہ دشمن کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا اور ان سے دوستی کرنے میں فرق ہے۔ ہم کبھی بھی قطر اور سعودیہ کے جرائم پر پردہ نہیں ڈالیں گے بلکہ جب بھی موقع ملے گا ان کے جرائم اور مظالم کو آشکار کریں گے۔
پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیں پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں بھی غور و فکر کرنا چاہیے کیونکہ پاکستانی عوام بھی سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہے اور دہشت گردی کے خلاف ہمارے جوانوں نے بے شمار قربانیاں پیش کی ہے۔ لیکن پاکستان میں بھی دہشت گردی کی جڑیں مفادات سے وابسطہ ہیں، اس کے علاوہ تقریبا ہمارے ہر محکموں میں ایک خاص فکر دیوبندیت اور وہابیت سے تعلق رکھنے والے گروہ کا قبضہ ہے۔ اور ان کے منظم شکل کا نام جماعت اسلامی پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام ہے ۔۔جماعت اسلامی پاکستان میں ایسے ہی ہیں جیسے مصر میں اخوانالمسلمین لیکن جماعتی فکر کے لوگ پاکستان کے ہر سرکاری محکموں اور سیاسی پارٹیوں میں موجود ہیں۔ یہی لوگ ملکی نصاب بناتے ہیں تنگی نظری اور تعصب کی ترویج کرتے ہیں. پھر ملک میں فرقہ واریت کو فروغ ملتا ہے۔ جس پاکستان کو ہمارے آباواجداد نے قربانیاں دے کر بنایا اور جن لوگوں نے پاکستان کی مخالفت کی بانی پاکستان کو کافر اعظم کہا آج وہ پاکستان کے خیر خواہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس گروہ نے ہمارے نصاب میں ہر شیعہ دشمن کو ہیرو بنا کر پیش کیا ہے چاہئے وہ محمد بن قاسم ہو یا شاہ ولی اللہ تاریخ کے اندر جو متشدد گزرے ہیں وہ ان کے ہیرو اور آئیڈیل ہوتے ہیں۔ ابھی کی ہی مثال لے لیں اسامہ بن لادن ، صدام، قذافی، ملاں عمر ، مولوی فضل اللہ ، ابو مصعب زرقاوی اور ابو بکر بغدادی یہ سارے ان کے اسلامی ہیرو ہیں۔ اب آپ خود سوچیں جو لوگ دنیا بھر کے دہشت گردوں کے لئے نرم کوشہ رکھتا ہو وہ جب نیشنل ایکشن پلان، ردالفساد ترتیب دینے میں شامل ہوں گے تو یہ آپریشن کیسے کامیاب ہوگا۔
خلاصہ آج ہمیں انتہائی مشکل حالات درپیش ہیں اور ہر رنگ نسل سے تعلق رکھنے والے ظالم و ستمگر ہمارے خلاف متحد ہوچکے ہیں۔ اس وقت عالمی طاقتوں کا مقصد نئے سرے سے اسلامی ریاستوں کی سرحدیں تعین کرنا ہے تاکہ کوئی بھی اسلامی طاقت موجود نہ رہیں اور یہ سارے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بکھر جائے۔ اسلام دشمن عناصر چاہتے ہیں افریقہ، مشرق وسطی، خلیجی ممالک ،ایران ترکی، پاکستان سے لیکر انڈونیشا تک کوئی سالم ملک باقی نہ رہے اور یہ سب فرقوں اور نسلوں میں تقسیم ہوجائیں اور ان کی آئندہ آنے والی نسلیں یہ جنگیں شیعہ سنی، عرب عجم و قوم کے نام پر اپنی گلیوں میں لڑیں۔ لہذا اس خطرناک دور میں ہوشمندی کے ساتھ آپس میں مضبوط اتحاد ضروری ہے اور یہی اتحاد ہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم اسلام تکفیری و اسلامی امریکائی کو شکست دے سکتے ہیں۔ یقینا امام خمینی نے ہمیں اس خطرے سے پہلے ہی آگاہ کیا تھا اور نشاندہی کی کہ تھی شیطان اکبر امریکہ ہے۔ آج اسلامی اتحاد کے نام پر اسلامی امریکی و اسرائیلی کو فروغ دیا جارہا ہے جن کا اصل ہدف یہودی ونصاری کے مفادات کا تحفظ اور حقیقی اسلام کو کمزور کرنا ہے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ خدا نے اس پر خطر دور میں بھی ہمیں رہبر سے یتیم نہیں رکھا آج آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں دشمنان اسلام ہر محاذ پر ناکام ہو رہے ہیں اور ان کے پس پردہ مقاصد عیاں ہو رہے ہیں، آج ہر جگہ مقاومت اسلامی حقیقی اسلام کے مدافعین کو ہر جگہ چاہئے جنگ نرم ہو یا سرد فتح و کامرانی نصیب ہو رہی ہے ہمیں اس نعمت خداوندی کا شکر بجالانا چاہئے۔