وحدت نیوز(آرٹیکل) صورتحال کشیدہ ہے، بارڈر لائن پر فائرنگ جاری ہے ، اندرون ملک سیاسی ہنگامہ آرائی بدستور قائم ہے اور ایسے میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو چھے روزہ دورے پر اتوار کو بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی پہنچ چکے ہیں۔
قارئین کو ایک مرتبہ پھر یاد دلاتے چلیں کہ ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے وقت مسٹر مودی ہی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور اس وقت وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، اس دورے میں نیتن یاہو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور صدر رام ناتھ کوِند سے الگ الگ ملاقات کریں گے۔اس کے علاوہ وہ بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ سی ای او فورم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
بھارت اس سے پہلے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو بھی مکمل اپنی گرفت میں لے چکا ہے،بھارت اور سعودی عرب کے درمیان ۲۰۰۶ء کا ’’معاہدہ دلّی‘‘ اور ۲۰۱۰ء میں طے پانے والا ’’ریاض معاہدہ‘‘ اس قدر اساسی اہمیت کا حامل ہے کہ تجارت کے علاوہ سیکورٹی کے معاملات اور اسلحے کے لین دین کے سلسلے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان انتہائی اہم معاملات طے پا چکے ہیں۔
بعد ازاں نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو مودی کو سعودی عرب کا سب سے اعلیٰ سول اعزاز ’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘ دیا گیا ہے۔
اس وقت نیتن یاھو کے ہمراہ 130 تاجروں ، 100 مختلف کمپنیوں کے سربراہوں اورجنگی طیارے بنانے والی کمپنی ایروناٹکس کے عہدیدار بھی اس عزم کے ساتھ دہلی پہنچے ہیں کہ اس دورے میں چار سے 10 ارب ڈالر کے سالانہ تجارتی معاہدوں کی منظوری دی جائے گی۔
قارئین کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اس دورے کے علاوہ بھی اس وقت بھارت اسرائیلی اسلحے کا دنیا میں دوسر ا بڑا خریدار ملک ہے۔
اسلحے کی اس خریدو فروخت سے عالمِ بشریت کو کسی خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔نیتن یاھو کا یہ دورہ جہاں پاکستان اور کشمیریوں کے لئے حساسیت کا باعث ہے وہیں ہندوستان میں مقیم مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے بھی خطرے کا الارم ہے۔
سب سے بڑھ کر اس وقت کی ضرورت یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام کو اِن لمحات میں ہندوستان و پاکستان کے عوام کی طرف سے ہم آہنگی اور محبت کا پیغام جانا چاہیے۔ ہندوستانی و پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ انسانی اور جمہوری بنیادوں پر فلسطینی عوام کے حق میں اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کریں اور ہندو پاک کے عوام کی طرف سے ، فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں ۔ اس کے علاوہ اسرائیلی و امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لئے بھی عوام میں آگاہی اور شعور کی تحریک چلائی جانی چاہیے۔
ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر دنیا بھر کے عوام فکری اور شعوری طور پر ایک ہوجائیں تو ظالم و جابر حکمران اُن کے سامنے بے بس ہو جائیں گے اور اپنی جارحانہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
ہنداورپاکستان۔۔۔ کھول آنکھ زمیں دیکھ،فلک دیکھ، فضا دیکھ
وحدت نیوز(آرٹیکل)صورتحال کشیدہ ہے، بارڈر لائن پر فائرنگ جاری ہے ، اندرون ملک سیاسی ہنگامہ آرائی بدستور قائم ہے اور ایسے میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو چھے روزہ دورے پر اتوار کو بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی پہنچ چکے ہیں۔
قارئین کو ایک مرتبہ پھر یاد دلاتے چلیں کہ ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے وقت مسٹر مودی ہی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور اس وقت وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، اس دورے میں نیتن یاہو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور صدر رام ناتھ کوِند سے الگ الگ ملاقات کریں گے۔اس کے علاوہ وہ بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ سی ای او فورم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
بھارت اس سے پہلے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو بھی مکمل اپنی گرفت میں لے چکا ہے،بھارت اور سعودی عرب کے درمیان ۲۰۰۶ء کا ’’معاہدہ دلّی‘‘ اور ۲۰۱۰ء میں طے پانے والا ’’ریاض معاہدہ‘‘ اس قدر اساسی اہمیت کا حامل ہے کہ تجارت کے علاوہ سیکورٹی کے معاملات اور اسلحے کے لین دین کے سلسلے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان انتہائی اہم معاملات طے پا چکے ہیں۔
بعد ازاں نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو مودی کو سعودی عرب کا سب سے اعلیٰ سول اعزاز ’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘ دیا گیا ہے۔
اس وقت نیتن یاھو کے ہمراہ 130 تاجروں ، 100 مختلف کمپنیوں کے سربراہوں اورجنگی طیارے بنانے والی کمپنی ایروناٹکس کے عہدیدار بھی اس عزم کے ساتھ دہلی پہنچے ہیں کہ اس دورے میں چار سے 10 ارب ڈالر کے سالانہ تجارتی معاہدوں کی منظوری دی جائے گی۔
قارئین کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اس دورے کے علاوہ بھی اس وقت بھارت اسرائیلی اسلحے کا دنیا میں دوسر ا بڑا خریدار ملک ہے۔
اسلحے کی اس خریدو فروخت سے عالمِ بشریت کو کسی خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔نیتن یاھو کا یہ دورہ جہاں پاکستان اور کشمیریوں کے لئے حساسیت کا باعث ہے وہیں ہندوستان میں مقیم مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے بھی خطرے کا الارم ہے۔
سب سے بڑھ کر اس وقت کی ضرورت یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام کو اِن لمحات میں ہندوستان و پاکستان کے عوام کی طرف سے ہم آہنگی اور محبت کا پیغام جانا چاہیے۔ ہندوستانی و پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ انسانی اور جمہوری بنیادوں پر فلسطینی عوام کے حق میں اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کریں اور ہندو پاک کے عوام کی طرف سے ، فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں ۔ اس کے علاوہ اسرائیلی و امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لئے بھی عوام میں آگاہی اور شعور کی تحریک چلائی جانی چاہیے۔
ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر دنیا بھر کے عوام فکری اور شعوری طور پر ایک ہوجائیں تو ظالم و جابر حکمران اُن کے سامنے بے بس ہو جائیں گے اور اپنی جارحانہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.