وحدت نیوز (آرٹیکل) ہم ایک زندہ قوم ہیں، ہمیں ہجوم کہنا ہماری توہین ہے، پاکستان کا وجود ہماری زندگی کی دلیل ہے۔ یہ بڑی بات ہے کہ ہم نے پاکستان کی حفاظت اور بقا کے لئے پیغامِ پاکستان صادر کیا ہے۔پاکستان کے تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے 1829 علمائے کرام کے خودکش حملوں سے متعلق فتوے کی رونمائی کی تقریب ایوان صدر میں کی گئی اور اس فتوے کو'پیغام پاکستان' کا نام دیا گیا ۔
ہمیں دیکھنا یہ چاہیے کہ یہ فتویٰ دینے والے علمائے کرام ہیں کون!؟
کہیں یہ وہی لوگ تو نہیں کہ جنہوں نے بھائی کو بھائی سے لڑوانے کا بیانیہ تشکیل دیا تھا، جنہوں نے گولی اور گالی کا فکاہیہ عام کیا تھا، جنہوں نے کافر کافر کے سرٹیفکیٹ جاری کئے تھے، اگر اس فتوئے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں اور آج پاکستان کے وارث اور مالک بن کر پیغامِ پاکستان صادر کر رہے ہیں تو پہلے تو وہ اپنے آپ کو فرزندِ پاکستان ثابت کریں۔
جن کی تقریروں، تحریروں اور اشاعت شدہ لٹریچر کی وجہ سے ہمارے پولیس و فوج کے قیمتی جوان قتل ہوئے، آرمی پبلک سکول کےنونہال خاک و خوں میں غلطاں ہوئے، مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر تہہ تیغ کیا گیا، نعت خوانوں، قوالوں اور پروفیسرز کا قتلِ عام ہوا، عام پبلک مقامات اور مساجد نیز اولیائے کرام کے مزارات پر دھماکے ہوئے ۔وہ لوگ جن کے دامن پر بے گناہوں کے خون کے دھبے ہیں ، وہ کب سے پاکستان کے وارث بن گئے ہیں اور اب نو سو چوہے کھا کے۔۔۔
یہ یقیناً ایک نئی چال اور ہماری ملت کا نیا امتحان ہے۔ اگر یہ علما ئے کرام اس فتوے کی بنیاد پر ایک ملی بیانیہ تشکیل دینا چاہتے ہیں تو پھر اب تک دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے بے گناہوں کے قاتلوں کے قصاص کے لئے بھی بیانیہ تشکیل دیں۔ آئینِ پاکستان اور بانی پاکستان کو قبول نہ کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی پیغام جاری کریں۔
کیا آج اسلام کے قوانین بدل گئے ہیں کہ قاتل بیٹھ کر اتحاد کی بات کر رہے ہیں اور مقتولین کے قصاص کے مسئلے کو دفن کیا جارہا ہے۔
جب تک بے گناہوں کے خون کا قصاص نہیں لیا جاتا، آئین پاکستان کو قبول نہیں کیا جاتا، بانی پاکستان کو بابائے ملت نہیں مانا جاتا تب تک کسی فتوے پر کوئی اعتبار نہیں جا سکتا اورکسی فتوے کی بنیاد پر کوئی بیانیہ تشکیل نہیں پا سکتا۔ یہ آئندہ چل کر پتہ چلے گا کہ اس فتویٰ سازی کے پردے میں کیا گُل کھلائے جا رہے ہیں۔
اگرچہ ہمارے سیاسی اکابرین خصوصاً صدر مملکت نے اس پیغام سے بڑی امیدیں باندھ رکھی ہیں تاہم ایک پاکستانی باشندہ ہونے کے ناطے ہمارے اپنے تحفظات ہیں جن کا اظہار ضروری ہے۔
اسی طرح دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا کے مطابق ہمارے وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے کہا ہے کہ حج و عمرہ کی طرح شام و عراق اور ایران کی زیارات کو بھی آسان بنایا جائے گا۔ ہم ایک مرتبہ پھر اپنی سرکار سے یہ عرض کریں گے کہ اگر آپ عراق اور ایران کی زیارات کو آسان کرنا ہی چاہتے ہیں تو کم از کم اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر مسائل کو جاننے کی کوشش کریں کہ جوپبلک ٹرانسپورٹ پر زمینی سفر کرتے ہوں اور جنہوں نے عراق و ایران کے زمینی سفر کے مسائل کو درک کیا ہے۔
بند کمروں میں، منرل واٹر پی کر اور ٹشو پیپر کے ساتھ گیلے ہاتھوں کو خشک کر کے ایران و عراق کے زمینی سفر کے مسائل کو نہ ہی تو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس طرح حل کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں قومی مسائل کے حل کے لئے ہر سطح پر سماجی بیانیہ تشکیل دینا ہوگا۔ فتویٰ بھی جب تک عادلانہ بیانیے میں نہ ڈھلے اور ارباب حل و عقد بھی سماجی عدل کے معیارات پر پورے نہ اتریں تو قومی مسائل کے لئے کی جانے والی کوششوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا ہر پاکستانی کا حق بنتا ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.