وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک شخص کسی بیابان یا صحرا میں تنہا سفر کر رہا تھا کہ اچانک ایک خونخوار شیر کو دیکھا، جو اُس پر حملہ آور ہو رہا تھا، وہ اپنی موت کو نزدیک دیکھ کر وحشت زدہ ہو جاتا ہے، اتنے میں اس کی نظر ایک کنویں کی طرف پڑتی ہے اور اسی کی طرف بھاگ جاتا ہے، لیکن شیر بھی اس کے طرف دوڑتا ہے۔ جب جوان کنویں کے نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ ایک رسی کنویں میں لٹک رہی ہے، وہ فوراً کچھ سوچے سمجھے بغیر رسی کو پکڑ کر کنویں میں اتر جاتا ہے، لیکن رسی آدھے ہی راستے میں تمام ہو جاتی ہے اور وہ بیچ میں لٹک جاتا ہے، اتنے میں شیر بھی وہاں پہنچ جاتا ہے اور شیر کنوں کے دھان پر کھڑے غرانے لگا ہے۔ جوان جب کنویں کے نیچے کی جانب دیکھتا ہے تو اس کے ہوش اڑ جاتے ہیں، کیونکہ ایک بڑا سا اژدھا اپنا منہ کھولے اُس کے گرنے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ ابھی وہ اس وحشت سے نہیں نکل پایا تھا کہ اس کے کانوں میں کسی چیز کی کریدنے کی آواز آتی ہے، اس کی نظر اوپر کی طرف اٹھتی ہے تو دیکھتا ہے کہ دو چوہے رسی کو کاٹنے میں مصروف ہیں۔ نوجوان جب یہ حالت دیکھتا ہے تو اس کا دل حلق میں آجاتا ہے اور اس کا خون رگوں میں منجمد ہو جاتا ہے۔ اسی لمحے میں اچانک اسکی نظریں کنویں کی دیوار پر پڑھتی ہے اور دیکھتا ہے کہ یہاں شہد کی مکھیوں کا چھتا موجود ہے اور اس میں سے کچھ شہد دیوار پر لگا ہوا ہے۔ اس جوان کے دل میں شہد کو چکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ تمام تر خطرات کو بھول جاتا ہے، وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ کنویں کے باہر شیر اور کنوں میں ایک اژدھا اس کا منتظر ہے، وہ ان سب کو فراموش کرکے شہد کی خواہش میں غرق ہو جاتا ہے اور ایک ہاتھ سے رسی کو پکڑتا ہے، دوسرے ہاتھ سے شہد کو چکھنا شروع کر دیتا ہے۔
اس واقعہ میں کنویں کو دنیا سے تشبیہ دی گئی ہے اور رسی انسان کی عمر ہے، یہ دو چوہے دن رات ہیں، جو ہر روز انسان کی عمر کو کم کرتے ہیں، اژدھا قبر ہے اور عسل یعنی شہد اس دنیا کا مال، دولت و لذت و خواہش ہیں اور اس شہد کے چھتے پر موجود مکھیاں اہل دنیا ہیں۔ انسان کی زندگی دنیا میں بالکل اسی طرح ہے اور آج کے دور میں ہم بھی سو فیصد اس نوجوان کی طرح تمام تر خطرات اور حقیقت سے بے خبر ہو کر اس دنیا کی لذت میں مگن ہیں، حالانکہ اس لذت کی عمر کچھ سیکنڈ سے زیادہ نہیں، لیکن اسی لذت اور خواہش نفس کی خاطر ہم دنیا میں ہر وہ کام انجام دیتے ہیں، جو انسانوں کو اشرف المخلوقات کے درجے سے گرا کر حیوان سے بھی بدتر بنا دیتے ہیں۔ دنیا میں آج عدل و انصاف نہیں ہے تو اس کی ایک اہم وجہ ہمارا اپنے فرائض سے غافل ہونا ہے۔ ہم سب صدر سے لیکر چپڑاسی تک اگر اپنی اپنی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیں تو معاشرے اور ملک میں خوشحالی نہ آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن ہم اپنے نفس کو کچھ دیر لذت دینے کی خاطر اپنے فرائض سے غفلت برتے ہیں اور کام چوری کرتے ہیں، اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہیں، دولت و ثروت کو حاصل کرنے کے لئے انسانیت اور اخلاقیات کی حدوں کو پار کر دیتے ہیں۔ جب معاشرے میں افراتفری کا عالم ہو، ہر کوئی اپنی ہوس کو پورا کرنے میں مصروف ہو تو معاشرے سے عدل و انصاف کا خاتمہ ہو جاتا ہے، جب معاشرے سے عدل و انصاف کا خاتمہ ہوتا ہے تو پھر معاشرے میں ایسے درندہ صفت انسان پیدا ہوتے ہیں، جو قصور کے زینب کو سفاکی اور درندگی کا نشانہ بناتے ہیں، لیکن اس سے بڑی سفاکیت یہ ہے کہ ذمہ داران ان ملزموں کو ابھی تک کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام ہیں۔ چونکہ ہم میں سے ہر کوئی کرپٹ اور کام چور ہیں، جب ہمیں کہیں سے کوئی مٹی میں مخلوط شہد ملنے کی امید پیدا ہوتی ہیں تو ہم اپنی انسانیت اور ذمہ داریوں سے دور بھاگتے ہیں۔
زینب کا واقعہ تو ایک ایسا واقعہ ہے، جس پر ملک بھر میں آواز اٹھی ہے، لیکن ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوچکے ہیں اور اُن مظلوموں کی آوازیں ظالموں کے رعب و دبدبہ اور ناانصافیوں میں دب کر رہ گئی ہیں، جس کی وجہ سے آج تک کسی ایک ملزم کو بھی اس کے کئے کی سزا نہیں ملی۔ آخر مجرموں کو کیوں سزا نہیں ملتی؟ اس میں قصور کس کا ہے؟ میرے نزدیک اس میں ہر وہ شخص قصوروار اور مجرم ہے، جس نے مظلوم کی حمایت نہیں کی اور اپنے اپنے مفادات کی خاطر اپنی زبانوں پر تالے لگا بیٹھے ہیں، یا وہ افراد جو مختلف ذریعے سے واقعہ کی حقیقت کو چھپانے اور ملزمان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں، چاہئے وہ قلم و میڈیا کے ذریعے سے ہو یا سفارش و طاقت کے ذریعے سے۔ ہمارے معاشرے کی ایک اہم شخصیت اور صحافی اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ "عوام دس بچیوں کے قاتل کو سرعام پھانسی لگتا دیکھنا چاہتے ہیں"، آگے وہ لکھتے ہیں کہ "سر عام پھانسی دینے سے کیا فرق پڑے گا؟ عمران علی درندہ ہے، لیکن کیا ریاست سرعام پھانسی دے کر خود کو بڑا درندہ ثابت کرنا چاہتی ہے اور کیا ریاستوں کو درندوں کے ساتھ درندگی کا مقابلہ کرنا چاہئے۔۔" اور یہاں سے پھر اس مسئلہ کو کسی اور طرف لئے جاتے ہیں۔۔۔۔ جناب آپ نے دیگر جو تجاویز دی ہیں، وہ بالکل بجا ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن آیا کسی کے کئے کی سزا دینا درندگی ہے؟؟ آپ کی نظر میں ظالم و مظلوم، سزا و جزا میں کوئی فرق نہیں ہے؟ اس طرح نعوذ باللہ جس دین پر آپ یقین رکھتے ہیں، اُس نے آپ کو درندگی کا درس دیا ہے؟۔۔۔۔۔
جب یہ شخص قاتل ہے تو اس کو اس کے کئے کی سزا ضرور ملنی چاہئے اور اسے نشان عبرت بننا چاہئے، اس میں کوئی درندگی کی علامت نہیں ہے، اس کی سزا سے معاشرہ تبدیل ہوگا یا نہیں ہوگا، یہاں پر معاشرے کی تبدیلی اور عمران علی کے ذاتی فعل کی سزا سے کوئی تعلق نہیں ہے، عمران علی کو اس کے کئے کی سزا ملنی چاہئے، کیونکہ سزا و جزا اسلام کا ایک اہم جز ہے اور اگر مجرموں کو ان کے عمل کی سزا نہیں ملے گی تو اس سے جرائم میں مزید اضافہ ہوگا اور جرائم پیشہ افراد کو مزید تقویت ملتی ہے اور مظلوموں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، قرآن مجید سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۷۹ میں خداوند عالم فرماتے ہیں "اور اے عقل مندو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے، تاکہ تم (خونریزی سے) بچو۔" باقی معاشرے سے جرائم کی روک تھام کے لئے جدوجہد حکمرانوں سمیت ہم سب پر فرض ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے معاشرے کو ایک پُرامن اور تہذیب یافتہ معاشرہ بنائیں اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم معاشرے میں علم و آگاہی اور عدل و انصاف کو رائج کریں اور سب اپنی ذمہ داریوں پر دنیا و آخرت کو مدنظر رکھتے ہوئے عمل کریں۔ اس طرح ممکن ہے کہ کچھ عرصے میں ہمارا معاشرہ بھی برائیوں سے پاک معاشرہ بن جائے، لہذا آج سے ہی ہم سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور دیکھیں کہ خود سازی اور معاشرہ سازی میں ہماری غلطیاں کہاں کہاں ہیں اور اس چیز کو فراموش نہ کریں کہ ہماری زندگی بہت مختصر ہے اور یہاں کی لذتیں کچھ لمحے کے لئے ہیں۔
تحریر: ناصر رینگچن