وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ الله تعالیٰ کا نظام ہے کہ وہ معاشروں میں اعتدال قائم رکھنے کے لئے انسانوں کی تعداد میں مختلف حوالوں سے ایک توازن رکھتا ہے۔ جیسے مرد و زن کی تعداد میں ایک قدرتی توازن برقرار رہتا ہے اسی طرح معاشروں میں عقل و دانش اور ضروری ہنر و فن کی صلاحیت رکھنے والے افراد کی تعداد میں بھی ایک توازن برقرار رہتا ہے- مرد و زن کی تفریق اور دیگر صلاحیتوں کو متوازن رکھنے میں فرق صرف یہ ہے کہ مرد و زن کو ظاہری جسمی علامتوں سے تشخیص دینا آسان ہے جبکہ دیگر صلاحیتوں کے حامل افراد کی شناخت کرنا قدرے محنت طلب کام ہوتا ہے۔ نظام تعلیم جہاں انسانی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے وہاں ان صلاحیتوں کے حامل افراد کی شناخت میں مدد بھی دیتا ہے۔
آج کی دنیا میں ہمارا خطہ دو قسم کے بنیادی تعلیمی نظاموں میں تقسیم ہے_ انگریزی (جو دنیاوی علوم کے نام سے مشہور ہے) اور عربی (جو دینی علوم کے نام سے مشہور ہے)- میں انگریزی نظام تعلیم اس لئے کہتا ہوں کہ انگریز سرکار کے غلبہ کے بعد اس نظام کو رائج کیا گیا اور سر سید احمد خان کی حکیمانہ جدوجہد کے بعد مسلمانوں نے اسے وقت کی ضرورت کے تحت قبول بھی کر لیا جبکہ اس سے پہلے جو نظام تعلیم رائج تھا اس کی بنیاد وہ مسلمان بادشاہ تھے جنہوں نے صدیوں اس زمین پر اپنی حکومت قائم رکھی- اس نظام تعلیم کی بنیاد عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں رائج تعلیم کا سلسلہ تھا اور انہی تین زبانوں اور مقامی سنسکرت و ہندی کے امتزاج کے ساتھ اردو زبان معروف وجود میں آئی جو مسلمانوں کی زبان بن گئی اور اب ایک ورثہ کے طور پر ہمارے ہاتھوں میں ہے-
انگریزی نظام تعلیم رائج کرنے والوں کی نظر میں یہ ہدف تھا کہ معاشرے کی ضرورت کے مطابق اسی معاشرے سے امور مملکت چلانے کے لئے افراد مہیا کئے جائیں جبکہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والوں کے پیشِ نظر اچھے روزگار کا حصول اور مالی پریشانیوں سے پاک زندگی کا حصول تھا جو آج تک قائم ہے- اسی دور میں عربی نظام تعلیم بھی متبادل کے طور پر چلتا رہا اور ان اداروں کو مدارس کا نام دے دیا گیا جبکہ انگریزی تعلیم کے ادارے اسکول و کالج کہلائے- عربی مدارس میں قرآن و حدیث کی تعلیم لازمی تھی لہذا انہیں دینی مدارس بھی کہا جانے لگا- یہی وہ وقت ہے جب دینی اور دنیاوی علوم کی تقسیم ہوئی- دینی علوم کے مدارس سے فارغ ہونے والے عوام کی دینی ضروریات جیسے نکاح و طلاق، امامت نماز، تراویح و خطبہ جمعہ کو پورا کرنے دھن میں لگ گئے جبکہ دنیاوی علوم نے اچھے کھاتے پیتے مغرب سے متاثر افراد تیار کرنے شروع کر دئے-
انگریزی نظام تعلیم نے معاشرے کے اعلیٰ اذہان کو فلٹر اور جذب کرنا شروع کر دیا- گویا اس نظام نے معاشرے کے اعلیٰ اذہان کو چنا اور انہیں اپنے نظام کو چلانے کے لئے استعمال کیا- جب معاشرے کے بہترین ذہن انگریزی تعلیم کی طرف چلے گئے تو دینی مدارس کے پاس متوسط یا کمزور اذہان کے طالب علم آئے- البتہ چند استثنائات کو چھوڑ کر-
یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا جس کے تدارک کے لئے ابھی تک کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا ہے- اگر آج ہمارے مشاہدے میں آتا ہے کہ منبر رسول اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے ایک دوسرے کو گالیاں دی جاتی ہیں یا تفرقہ بازی کی باتیں ہوتی ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ دینی علوم سے معاشرے کے بہترین اذہان کو دور رکھا گیا ہے بلکہ ان دو نظام تعلیم کی تقسیم نے مہذب اور غیر مہذب افراد کو بھی الگ الگ کر دیا ہے۔
آج کا دور اپنی ساخت کے اعتبار سے ایک منفرد دور ہے کیونکہ اس دور میں دین شناسی کی تڑپ میں اضافہ ہوا ہے- اس دور میں دینی علوم کے ماہرین سے دینی ہدایت اور راہنمائی طلب کی جا رہی ہے گویا ہدایت کا جو پیغمبرانہ کام تھا اس کا تقاضا کیا جارہا ہے- اب منبرِ رسول سے حکمت و دانش کی باتوں کی امید کی جا رہی ہیں- دینی راہنماؤں سے امت کو لڑانے کے بجائے انہیں جوڑنے کی فرمائش کی جا رہی ہے- دین کی ان تعبیروں کو زندہ کرنے کی ضرورت کا احساس بڑھ رہا ہے جو ایک صاف ستھرے اور مہذب معاشرے کی تشکیل کی بنیاد فراہم کرتا ہے-
میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں میں ہمارے ملک پاکستان میں عوامی اور ملکی سطح پر مذہبی رجحان بہت زیادہ بڑھا ہے۔ اس رجحان میں اضافے کی وجہ سے دینی ہدایت اور دینی راہنمائی اور قیادت کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جانے لگی ہے۔
کیا ہمارے آج کے دینی مدارس اس ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا نفی میں جواب دینے میں شاید ہی کسی ذی فہم کو تامل ہو لیکن اگر ہم اس نظام تعلیم کی اصلاح کر سکیں جس کے ذریعے معاشرے کے بہترین اذہان کو ان علوم کی طرف مائل کر سکیں اور معاشرے کے مہذب گھرانوں کے افراد کی پہلی ترجیح دینی علوم کو بنا سکیں تو شاید یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا- کیونکہ ہدایت کا کام الله تعالیٰ نے ہمیشہ معاشرے کے بہترین انسانوں سے لیا ہے-
دنیاوی علوم کے مقاصد کو بھی صرف اچھے روزگار کے حصول سے موڑ کر کائنات کی حقیقت، اس کی ابتدا و انتہا اور اس دنیا میں ایک سعادت مند زندگی کے معیارات سمجھنے کا ذریعہ بھی بنانا ہو گا- آج کا دور معاشرے کے لئے بابو تیار کرنے کا دور نہیں ہے بلکہ دین فہم ، معاشرہ ساز ہادی بنانے کا دور ہے جو اصل میں انسان کا کام ہے-
تحریر۔۔۔پروفیسر سید امتیاز رضوی