وحدت نیوز (آرٹیکل) حدیث ثقلین ان متواتراحادیث میں سےایک ہے جسے اہل تشیع و اہل تسنن دونوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ اس معروف حدیث کا متن یہ ہے :{یاایہا الناس انی تارک فیکم الثقلین ،کتاب الله و عترتی ، اہل بیتی ماان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی ابدا و انہما لن یفترقا حتی یرداعلی الحوض ،فانظروا کیف تخلفونی فیہما }1پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اے لوگو:میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔اگر تم ان کےساتھ تمسک کئے رہو گے توکبھی گمراہ نہ ہوگے ۔ان میں سے ایک کتابخداہے اور دوسری میریعترت۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں ۔تم خود سوچو کہ تمہیں ان دونوں کے ساتھ کیا رویہ رکھنا چاہیے ۔
حدیث ثقلین کی سند کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ حدیث ایک سو سے زیادہ مرتبہ اور تقریبا 35 اصحاب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہے ۔2یہ حدیث، حدیث ثقلین کے نام سے مشہور ہے، ثقلین، تثنیہ کا صیغہ ہے کہ جو دو پر دلالت کرتا ہے،اور لغت میں ثقل سے مرادوہ چیز ہے کہ جو مسافر اپنے ساتھ سفر پر لے کر جاتا ہے۔
کتاب القاموس المحیط کے مطابق ثَقَل سے مراد مسافر کا سامان اور ہر وہ قیمتی و نفیس شئی ہے جسے چھپا کر محفوظ طریقے سے رکھا جاتا ہے۔3 ابن منظور اس بارے میں لکھتاہے:{سمیا ثقلین لان االاخذ بہما ثقیل و العمل بہما ثقیل ، قال : و أصل الثقل أن العرب تقول لکل شیء نفیس خطیر مصون ثقل ، فسماہما ثقلین إعظاما لقدرہما و تفخیما لشانہما}کتاب خدا اور عترت کو ثقلین کہا جاتا ہے، کیونکہ ان دو سے تمسک کرنا اور ان دو پر عمل کرنا، سنگین و وزنی ہے، اور اسکے علاوہ عرب ہر قیمتی اور مہم چیز کو ثقل کہتے ہیں۔ پس قرآن اور اہل بیت کو ثقل کہنا، ان دونوں کے بلند و بالا مقام کی وجہ سے ہے۔4
لفظ ثقل کا لغوی معنی، حدیث ثقلین کے ساتھ زیادہ مناسب ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر آخرت پر جانے سے پہلے دین خدا کی بقاءاور امت کی ہدایت اور نجات کی خاطر دومہم ترین چیزیں چھوڑ ے جا رہے ہیں ۔اپنی امت کو یہ وصیت کرتے ہیں کہ ان دونوں سے ہمیشہ متمسک رہنا اور ان سےدور نہ ہونا، کیونکہ لوگوں کی ابدی ہدایت و نجات ان دونوں کی پیروی اور اتباع کرنے میں ہے۔ یہ حدیث قرآن اور اہل بیت کی بغیر کسی قید و شرط کے مطلق پیروی و اتباع کو ہر انسان پر واجب قرار دیتے ہیں، لہذا اس حدیث سے اہل بیت کی امامت و خلافت بھی ثابت ہوتی ہے، کیونکہ مطلق اطاعت اور امامت و خلافت کے درمیان ناقابل انکار تلازم و رابطہ موجود ہے۔
اہل بیت سے مراد وہ لوگ ہیں جو امت اسلامی کی ہدایت اور رہبری کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی خطا، گناہ اور گمراہی سے پاک اور دور ہیں۔ ثقل اکبر یعنی قرآن بھی ایسی ہی صفات کے حامل ہے اور امت اسلامی کی نجات، ہدایت اور سعادت کا ضامن ہے، لیکن غیر معصوم افراد قرآن کے ساتھ ذکر ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے علاوہ بر این تمام امت اسلامی کی ہدایت اور راہنمائی کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔بنابرین حدیث ثقلین میں اہل بیت سے مراد، وہ افراد ہیں جنہیں خداوند نے سورہ احزاب ، آیت 33 میں ہر ناپاکی اور گناہ سے پاک و منزہ قرار دیا ہے۔
حدیث ثقلین مندرجہ ذیل نکات پر دلالت کرتی ہے:
1۔اہل بیت پیغمبرعلیہم السلا م کی اطاعت واجب ہے اوروہ دینی معارف و احکام میں مرجعیت کا مقام رکھتےہیں کیونکہ کتاب و سنت سے تمسک سے مراد ان کے فرامین پر عمل کرنا ہے ۔ اہل بیت پیغمبرکی عصمت اور مرجعیت علمی پربھی اس حدیث کی دلالت واضح ہے کیونکہ اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ تمسک ،قرآن کے ساتھ تمسک کی طرح گمراہی سے نجات کا باعث ہے۔ لہذا جس طرح قرآن کریم خطا و انحراف سے محفوظ ہے { لَّایاتِيہِ الْبَاطِلُ مِن بَينْ يَدَيْہِ وَ لَا مِنْ خَلْفِہ}5{جس کے قریب ،سامنے یا پیچھے ،کسی طرف سے باطل نہیں آ سکتا }اسی طرح اہل بیت علیہم السلام کے اقوال و اعمال بھی خطا اور انحراف سے منزہ ہیں اور ان دونوں کی عدم جدائی اس چیز کو بیان کرتی ہے کہ قیامت تک قرآن کے ساتھ ساتھ اہل بیت علیہم السلام کے فرامین پر بھی عمل کرنا چاہیے یعنی قیامت تک اہل بیت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہبری موجود رہےگی اور یہ خصوصیت ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کسی اورپرمنطبق نہیں ہوتی کیونکہ خاندان پیغمبرمیں ائمہ اطہار علیہم السلام اور حضرت زہراءسلام اللہ علیہاکے علاوہ کسی نےبھی مقام عصمت کا دعوی نہیں کیا ہے ۔اس نکتے کو اہل سنت کے علماءنےبھی بیان کیا ہے جیسا کہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں :{ الا تری انہ{ص}قرنہم بکتاب الله تعالی فی کون التمسک بہما منقذا من الضلالۃ ولا معنی للتمسک بالکتاب الا الا خذ بما فیہ من العلم و الہدایۃ فکذا فی العترۃ }6 کیا تم نے نہیں دیکھا کہ حضرت ؐنے اہل بیت کو قرآن کا قرین و مصاحب قرار دیا اور حکم دیا کہ کہ ان دونوں کے ساتھ تمسک اور وابستگی گمراہی سے بچانے والی ہے ۔ قرآن کے ساتھ تمسک کرنے کے معنی سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اس سے علوم ومعارف اور ہدایت حاصل کئےجائیں اور یہی معنی عترت کے ساتھ تمسک کرنے کے ہیں۔
2۔اہل بیت پیغمبرعلیہم السلا م تمام گناہوں سے منزہ اورمعصوم ہیں کیونکہ اولاً:اہل بیت پیغمبرعلیہم السلا م کو قرآن کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح قرآن کریم ہر قسم کے انحرافات اور باطل امورسے محفوظ ہےاسی طرح اہل بیت علیہم السلام بھی تمام خرابیوں سے منزہ ہیں ۔
ثانیاً: اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام سے تمسک بغیرکسی شرط و قید کے گمراہی سے نجات دلاتا ہے جس طرح قرآن کریم گمراہی سے نجات دلاتا ہے ۔واضح ہے کہ اگر اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام کے گمراہ ہونے کا احتمال ہوتو وہ ضلالت اور گمراہی سے نہیں بچا سکتے۔
ثالثا: یہ لوگ قرآن سے کبھی جدا نہیں ہوں گے چونکہ قرآن کریم میں کوئی انحراف نہیں ہے لہذا عترت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی کوئی انحراف نہیں ہے۔
3۔ اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام کے کسی فرد کا ہر زمانے میں بعنوان امام و رہبر ہونا ضروری ہے ۔آپ ؐنے فرمایا کہ عترت کبھی قران سے جدا نہیں ہوں گے لہذا قرآن کریم بھی عترت کے بغیر ہرگز موجود نہیں ہوگا ۔لہذا اس حدیث کی روشنی میں قیامت تک ہر زمانے میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے کسی نہ کسی فرد کا ہونا ضروری ہے جوآج امام زمانہ عج ہیں7،کیونکہ خاندان پیغمبر میں گیارہویں امام کے بعد آپ ؑکے علاوہ کوئی عصمت کے درجے پر فائز نہیں ہے ۔ا س بات کا اعتراف مشاہیر علماء اہل سنت نے بھی کیا ہے جیسے سمہودی لکھتے ہیں :اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت طاہرہ علیہم السلام میں سے وہ لوگ جو تمسک کے اہل ہیں ان کا وجود ہر ایک زمانہ میں تاقیام
قیامت رہے گا اور اسی صورت میں اس کے ساتھ تمسک کرنے کا حکم صادق آئے گا جس طرح قرآن قیامت تک باقی رہے گا ،لہذا یہ لوگ زمین والوں کے لئے امان ہیں اور اگر یہ دنیا سے اٹھ جائیں تو ان کے ساتھ ہی اہل زمین بھی ختم ہو جائیں گے ۔8
۴۔ حدیث ثقلین کے بارے میں مختلف شواہد موجود ہیں جو ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیاسی رہبری پر دلالت کرتی ہیں ۔پہلا شاہد یہ ہے کہ حدیث ثقلین کی بعض عبارتوں میں جوکہ مختلف ذرائع سے نقل ہوئی ہیں لفظ {خلیفتین} استعمال ہواہے جیسے:{انی تارک فیکم خلیفتین: کتاب الله،حبل ممدود من السماء ﺇلی الارض،وعترتی،اہل بیتی، فانہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض}9میں تم میں دو خلیفہ و قائم مقام چھوڑے جاتا ہوں کتاب خدا ، جو آسمان سے زمین تک لٹکی ایک رسی کی مانندہیں اور دوسری میری عترت یعنی اہلبیت اور یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے۔
دوسرا شاہد یہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاس حدیث کوبیان کرنے سے پہلے اپنی قریب الوقوع رحلت کی خبر دی اور آپ ؐنے فرمایا:{یوشک أن یاتینی رسول ربی فاجیب}عنقریب میرے پروردگار کا پیغام رسان میرےپاس آئے اور میں اس کا جواب دوں۔ واضح ہے کہ جب بھی کوئی رہبر اپنی موت کے بارے میں لوگوں کو خبر دیتا ہے اور لوگوں کو کسی فرد یا افراد کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے تو یقینا اس سے مراد معاشرے کی سیاسی رہبری ہے ۔ علاوہ از ایں مسلم 10کے نقل کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث ثقلین کو غدیر کے دن بھی ارشاد فرمایاجیساکہ بعض نسخوں میں یہ جملہ {من کنت مولاہ فعلی مولاہ} بھی موجود ہے جبکہ اس جملے کو پیغمبراسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن فرمایا ہے ۔ بنابریں غدیر خم کے دن دو مطالب بیان ہوئے:الف: حضرت علی علیہ السلام کی امامت بطورخاص بیان ہوئی ب:باقی ائمہ اطہار علیہمالسلام کی امامت بطور عام بیان ہوئی ۔
یہاں اگر ہم اس فرض کو بھی قبول کریں کہ حدیث ثقلین ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی علمی رہبری ا ورمرجعیت کو بیان کرتی ہے تب بھی تمام مسائل میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے نظریے پر عمل کرنا چاہیے ۔حتی امت کی رہبری اور امامت کےبارے میں بھی ان کی رائے معیار ہونا چاہیے جبکہ ائمہ علیہم السلام ہمیشہ اموی و عباسی حکمرانوں کےخلافت کوناجائز قرار دیتےتھے اور اپنی حقانیت پر تاکید فرماتے تھے۔1 1 اصولی طور پر خلفاء کی خلافت کے زمانے میں بھی علمی مرجعیت عملا حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں تھی اور شرعی مسائل و اختلافات ،آپ ؑکے ذریعے حل ہوتے تھے۔ حقیقت میں جس دن اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کو امت کی قیادت و رہبری سے جدا کیاگیا،اسی دن سے فرقہ گرائی بھی شروع ہوئی اور یکے بعد دیگرے کلامی فرقے وجود میں آتے گئے۔12
تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1۔حدیث ثقلین مختلف عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے لیکن مذکورہ عبارت مشہور نقل کے مطابق ہے ۔
2۔ عبقات الانوار ،جلد حدیث ثقلین ،غایۃ المرام ،ص 211۔
3۔فیروز آبادی القاموس المحیط: ج3 ص353، المؤسّسۃ العربیہ ـ بیروت
4۔محمد بن مکرم بن منظور الأفریقی المصری، الوفاۃ: 711 ، ج 11 ص 88، دار النشر : لسان العرب دار صادر - بیروت ، الطبعۃ : الأولی.
5۔ فصلت،42۔
6۔ شرح المقاصد،ج5، ص 303،منشورات الشریف الرضی قم ۔
7۔نفخات الازہار فی خلاصۃ عبقات الانوار ،ج2 ،ص247 – 269۔
8۔نور الانوار ترجمہ عبقات الانوار، ج2 ،ص33۔جواہر العقدین، ج2 ،ص94۔
9۔مسند احمد بن حنبل ،ج5 ،ص122۔
10۔ صحیح مسلم،ج4،ص1873،باب فضائل علی ابنابی طالب ،حدیث 2408۔
11۔ دلائل الصدق،ج12،ص 477۔
12۔ عقا ئد امامیہ ،جعفر سبحانی،ص226۔