وحدت نیوز (انٹرویو) معروف سکالر اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے فلسطینیوں پہ اسرائیلی حملے کے اسباب پہ ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے کیساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ شام کے اندر وہ علاقے جو اسرائیل کے بارڈر کے ساتھ لگتے ہیں، وہاں مزاحمتی بلاک زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ اسرائیل کی پریشانی اس حوالے سے بڑھ گئی ہے، کیونکہ پہلے لبنان والا اس کا بارڈر غیر محفوظ تھا اور اب شام والا بھی اس کیلئے غیر محفوظ ہوچکا ہے۔ اگر دونوں سرحدوں پہ اسرائیل مخالف قوتیں مضبوط ہوں تو دونوں بارڈر خود اسرائیل کیلئے چکی کے دو پاٹ ثابت ہوتے ہیں، جس میں یہ پس جائیگا۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ ناصر شیرازی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ انکا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، ملت جعفریہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں بھی ناصر شیرازی کا اہم کردار رہا ہے، شیعہ سنی وحدت کیلئے بھی انکی خدمات انتہائی نمایاں ہیں۔ سید ناصر شیرازی مشرق وسطٰی کے موضوع پہ انتہائی گرفت رکھتے ہیں تو ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے نے اسی تناظر بالخصوص فلسطینیوں کیخلاف اسرائیل کی حالیہ بربریت اور شام میں مختلف ممالک کے اہداف اور حالیہ شام اسرائیل جھڑپ کے بارے میں سید ناصر عباس شیرازی کیساتھ ایک تفصیلی نشست کا اہتمام کیا ہے، اس نشست کا تفصیلی احوال انٹرویو کیصورت میں پیش خدمت ہے۔
سوال: اسرائیل نے حال ہی میں فلسطینیوں کیخلاف طاقت کا بے محابہ استعمال کرکے ظلم و بربریت کی ایک نئی مثال قائم کی ہے، اس اسرائیلی جارحیت کے بنیادی مقاصد یا محرکا ت کیا ہیں۔؟
سید ناصر شیرازی: اس کی مختلف وجوہات اور مقاصد ہیں۔ میں مختصر الفاظ میں بتاتا ہوں۔
اول یہ کہ اسرائیل کمزور ہے اور اپنی کمزوری چھپانے کیلئے کمزور پہ طاقت کا استعمال کرکے مرعوب کرنا چاہتا ہے۔اسرائیل کی تزویراتی گہرائی بہت کم ہے۔ اس کا جغرافیہ بہت چھوٹا ہے۔ اس کے پڑوس میں اسکی حمایت نہیں پائی جاتی اور دنیا میں ایسا ملک بدترین بحران کا شکار رہتا ہے کہ جس میں یہ کمزوریاں ہوں اور وہ خطے میں اپنے اتحادی نہ رکھتا ہو۔ اسرائیل نے ہمیشہ اپنی اس کمزوری کو مختلف طریقوں سے کم کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی حمایت اور اس کی ویٹو پاور کے ذریعے اور اپنے جارحانہ کردار کے ساتھ یعنی پڑوسی ممالک کو طاقت کے زور پہ دبا کر اسرائیل نے ان مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔ ابھی تازہ صورت حال کی وجہ یہ بنی ہے کہ اسرائیل کبھی بھی اپنی کمزوری کو آشکارا نہیں کرنا چاہتا کہ وہ کمزور ہو رہا ہے۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی یہ کمزوری آشکار ہونے لگتی ہے تو وہ ایسے جارحانہ اقدامات کے ذریعے یہ باور کراتا ہے کہ وہ کمزور نہیں ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ اسرائیل کمزور ہوچکا ہے، وہ اسرائیل کہ جو گریٹراسرائیل کی بات کرتا تھا، جو دجلہ و فرات کے پانیوں پہ جانے کی بات کرتا تھا، اسے اپنی ہی سرحد پہ دیواریں بنانا پڑ رہی ہیں، یعنی وہ خود محدود ہو رہا ہے۔ اس کی اپنی معاشی استعداد میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے اور معاشی حالت اتنی اچھی نہیں جا رہی۔
مشرق وسطیٰ میں اس کا اپنا سارا منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔ حزب اللہ اس کے اپنے بارڈر پہ پہلے سے بہت طاقتور اور قدرت مند ہوچکی ہے۔ شام میں بشارد اور اس کی اتحادی مزاحمتی قوتیں بہت طاقتور ہوچکی ہیں اور عالمی سطح پہ بھی اس کو درکار حمایت نہیں مل رہی۔ اس کی اپنی کمزوریاں کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئیں تھیں۔ شام کی سرزمین سے اس کے ایف سولہ طیارے کو گرایا گیا، جو کہ غیر متوقع ہے۔ اسی طرح ایف سولہ کے علاوہ ان کے فوجی مقامات پہ حملوں کا ہونا اسرائیلی کمزور ی کا اظہار ہیں۔ جس سے توجہ ہٹانے کیلئے اسرائیل نے فلسطینیوں پہ بدترین حملے کئے ہیں۔ ان پہ ظلم کیا ہے اور بدترین بمباری کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل کا سب سے بڑا دفاع خود امریکہ ہے، جو شام میں مکمل طور پر ناکام ہوا ہے اور شام کے وہ علاقے جو اسرائیل کے بارڈر کے ساتھ لگتے ہیں، وہاں مزاحمتی بلاک زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ اسرائیل کی پریشانی اس حوالے سے بڑھ گئی ہے، کیونکہ پہلے لبنان والا اس کا بارڈر غیر محفوظ تھا اور اب شام والا بھی اس کیلئے غیر محفوظ ہوچکا ہے۔ اگر دونوں سرحدوں پہ اسرائیل مخالف قوتیں مضبوط ہوں تو دونوں بارڈر خود اسرائیل کیلئے چکی کے دو پاٹ ثابت ہوتے ہیں، جس میں یہ پس جائیگا۔ اس کے علاوہ غوطہ جو کہ بشارد حکومت کے خاتمے کیلئے امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کی آخری امید تھی، اس میں
انہیں توقع تھی کہ مشرقی غوطہ کثیر آبادی والا علاقہ ہے۔ اسی کے ذریعے انہیں عوامی حمایت حاصل ہے اور یہاں موجود دہشتگرد جو اسرائیلی ہتھیاروں سے لیس ہیں، ان کے ذریعے دمشق پہ قبضہ کیا جاسکے گا۔ اب یہ امید بھی ٹوٹ گئی اور دمشق کے تمام اطراف مزاحمتی قوتوں کے کنٹرول میں ہیں اور وہاں پہ رٹ آف دی گورنمنٹ قائم ہوگئی ہے۔ اب ان مزاحمتی قوتوں کا اگلا ہدف گولان ہائٹس کے نزدیکی وہ اسٹریٹجک علاقے ہیں، جو اسرائیل کے نزدیک ہیں، جہاں پہ اگر مزاحمتی قوتیں کاملاً اپنا تسلط قائم کر لیں اور وہاں سے دہشتگردوں کو نکال باہر کریں تو اسرائیل کی اپنی بقاء پہ سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔ اسرائیل نے شام کو اس حد تک آفر کی ہے کہ یہاں موجود شدت پسند عناصر کو وہ اپنے علاقے میں جگہ دینے کو تیار ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس علاقے میں لبنانی حزب اللہ اور اسرائیل مخالف مزاحمتی قوتیں نہ آئیں۔ بہرحال مشرقی غوطہ میں ناکامی بڑی وجہ بنی ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پہ اپنا غصہ نکالا ہے۔
غلامانہ ذہنیت کا مالک محمد بن سلمان بھی ایک وجہ ہے
ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ امریکہ و اسرئیل کو عالم اسلام سے اتنی غلامانہ ذہنیت رکھنے والا بندہ نہیں مل سکتا تھا، جیسا انہیں محمد بن سلمان کی صورت میں ملا۔ وہ کام جو امریکہ اپنے نان اسلامک چہرے کی وجہ سے نہیں کرسکتا اور وہ کام کسی اسلامی چہرے سے لیتا ہے یعنی سعودی عرب، جو سب سے زیادہ امریکی اہداف کیلئے کام کرتا ہے، جس میں نام نہاد اسلامی اتحاد کی تشکیل، پھر اسلامی ممالک کی کانفرنس کہ جس کی صدارت ٹرمپ نے کی۔ اس کے علاوہ اسلامی تشخص رکھنے والے معاشرے کو یورپ کی طرز پہ منتقل کرنا، مقدس سرزمین کو فحاشی کے مراکز میں بدلنا، یہ ساری وہ چیزیں ہیں، جو محمد بن سلمان نے کیں۔ انہیں یہ بھی توقع تھی کہ یہ اسلامی دنیا کو محمد بن سلمان کی مدد سے اسی طرح ہینڈل کر لیں گے کہ مخالفت اور مزاحمت دونوں ہی پست ترین سطح تک چلی جائیں اور اب اس سے اگلے مرحلے میں ’’ڈیل آف دی سنچری‘‘ جو کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل کو باضابطہ طور پر ایک ملک کے طور پہ تسلیم کر لیا جائیگا اور اس ملک میں فلسطینیوں کی واپسی کا خواب، خواب ہی رہ جائیگا تو اس تناظر میں اسرائیلی حملوں کی ٹائمنگ انتہائی اہم تھی۔ تاہم یہ ساری منصوبہ بندی اسرائیل اور ان کے ساتھیوں کو الٹ پڑ گئی ہے۔ محمد بن سلمان کو اپنے ملک و خطے میں وہ حمایت حاصل نہیں رہی، یہ محمد بن سلمان کا ہی فقرہ ہے کہ
’’فلسطینی یا تو اسرائیل کی بات مان لیں یا پھر اپنا منہ بند رکھیں۔‘‘
ؓBACK TO PALESTINE MOVEMENT
فلسطینیوں نے ایک تحریک بھی شروع کی ہوئی ہے کہ جس کا عنوان ہے ’’فلسطینیوں کی فلسطین میں واپسی‘‘ اور اس تحریک میں شدت بھی ہونی تھی، کیونکہ ماہ مئی میں ہی فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بیدخل کیا گیا تھا۔ 15 مئی یوم نکبہ ہے۔ فلسطینی اس حوالے سے اپنی تحریک شروع کئے ہوئے تھے، اس میں شدت اور تصادم بھی اس وجہ سے زیادہ تھا کہ ایک طرف یہ نظریہ تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے اور دوسری طرف فلسطینی اپنی زمین پہ واپس جانے کی تحریک شروع کئے ہوئے ہوں اور اسرائیل کے وجود کو ہی تسلیم نہ کر رہے ہوں تو یہ ایک بڑی نظریاتی جنگ تھی اور جب کوئی نظریہ سے ہار جاتا ہے تو بندوق کا سہارا لیتا ہے، یہی کام اسرائیل نے کیا ہے۔ نظریئے سے شکست کھانے کے بعد فلسطینیوں پہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی تحریک پہ بدترین ظلم کیا ہے اور ایک مہینے میں تقریباً پہلے 62 افراد شہید ہوئے اور 15 مئی کے دن 60 افراد شہید ہوئے۔ اسرائیل کو یقین تھا کہ ایسے موقع پہ طاقت کے جابرانہ استعمال سے فلسطینیوں کو جھکا لے گا۔
اسرائیل پہ ٹرمپ کا دست شفقت اور ٹرمپ کا یہودی داماد
حملوں کی وجوہات میں اسرائیل کو حاصل ٹرمپ کی اعلانیہ مدد بھی ہے۔ ٹرمپ کا اپنا داماد جو کہ یہودی ہے۔ یہودی لابی کبھی بھی اتنی طاقتور امریکہ میں نہیں رہی۔ چنانچہ ٹرمپ کا اپنا مزاج، اس کا حکومت میں ہونا بھی اس ظلم کی وجہ بنا ہے۔ اس ظلم کے بعد جو عالمی ردعمل تھا، اس کو کنٹرول کرنے میں بڑی حد تک امریکہ نے تعاون کیا ہے۔ اس معاملے پہ عرب لیگ کا جو اجلاس ہوا ہے، اس میں جی سی سی ممالک کا کوئی سربراہ شریک نہیں ہوا ہے۔ اس ظلم کے خلاف جو قرارداد پیش ہوئی تو اسے بھی امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ اس ظلم کے خلاف جو ردعمل اسلامی دنیا سے متوقع تھا، اسے بھی دبانے میں امریکہ نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یعنی ٹرمپ کی موجودگی بھی اسرائیل کے اس جرم عظیم کی ایک وجہ بنی ہے۔
مزاحمتی بلاک کی سیاسی کامیابیوں سے اسرائیل ناخوش
اس کے علاوہ لبنان میں حزب اللہ کی کامیابی، عراق میں حشدالشعبی کی کامیابی بھی انہیں آئندہ کیلئے ایک بڑے خطرے کے طور پر نظر آرہی ہے، کیونکہ ان کامیابیوں سے عوام میں جو احساس فتح، احساس برتری پیدا ہوا ہے، جس کو کاونٹر کرنے کیلئے نہتے افراد پہ اسرائیل نے طاقت کا استعمال کیا ہے۔ بہرحال طاقت کا استعمال اگر نہتے لوگوں پہ ہوگا تو وہ بربریت کے زمرے میں آتی ہے۔ اس کے علاوہ رہبر معظم نے فلسطینیوں کی جو حمایت کی بات کی اور جو مزاحمتی قوتوں سے جو فرمایا کہ آپ اسرائیل کو ختم ہوتے دیکھیں گے اور فلسطین کی آزادی دیکھیں گے اور بیت المقدس کی آزادی سنت الہیہ میں سے ہے اور 25 سال کی ڈیڈ لائن،جس میں سے چند سال گزر چکے ہیں، وہ بھی چل رہی ہے تو اسرائیلی اس کو نوٹ کرتے ہیں۔ اس فرمان کے نتیجے میں فلسطینیوں میں جو امنگ، احساس فتح تھا، اس کو کاری ضرب لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ظلم میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اصلی روپ دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس ظلم کے خلاف دنیا کی طرف سے جو ردعمل آیا ہے، وہ حوصلہ افزا ہے، گرچہ وہ اتنا نہیں ہے کہ جتنا آنا چاہیئے تھا، مگر اس کے باوجود اس ردعمل سے فلسطینیوں کی کاز کو تقویت ملی ہے۔
سوال: امریکی سفارتخانہ بیت المقدس میں منتقل ہونے سے مقدمہ فلسطین کو کیا نقصان پہنچا۔؟
سید ناصر شیرازی: پہلی بات تو یہ کہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے تحت مذاہب کا مشترکہ ورثہ ہے، جس میں عیسائی، یہودی اور مسلمان شامل ہیں۔ چنانچہ اگر یہ کبھی بنا تو یہ آزاد سٹی بن سکتا ہے کہ جس میں تمام مذاہب اور مسالک کے افراد کو جانے کی اجازت ہوگی۔ چنانچہ یہ آزاد شہر تو ہوسکتا ہے مگر اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر کبھی بھی نہیں ہوسکتا، یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ہے۔ اسرائیل کا جو نظریاتی ہدف ہے کہ جو اس کی ریاست کا دارالحکومت یا پایہ تخت ہے، وہ بیت المقدس یا یروشلم کو ہی بنایا جائے۔ اس کے بعد یہیں سے ہی وہ گریٹر اسرائیل کے خواب کو دیکھتے ہیں۔ ایک ایسا آئیڈیل موقع ان کے ہاتھ لگا ہے کہ ٹرمپ مزاج کے لحاظ سے بھی ان کے ہم آہنگ ہے اور اس کا داماد خود بھی یہودی ہے۔ لہذا اس موقع کو انہوں نے بہترین سمجھا۔ امریکہ نے ستر سال میں اپنے غیر جانبدار ہونے کی دلیل یہی رکھتا تھا، حالانکہ وہ کبھی بھی غیر جانبدار نہیں رہا، مگر غیر جانبدار رہنے کی اس کے پاس اکلوتی دلیل یہی تھی کہ اس نے اپنا سفارتخانہ بیت المقدس میں نہیں بنایا۔ بہرحال ٹرمپ سے یہودیوں نے یہ فائدہ اٹھایا ہے۔ گرچہ یہ ابھی ایک فیصلہ ہے کہ جس میں اس جگہ کی نشاندہی کی گئی ہے کہ یہاں امریکی سفارتخانہ بنے گا اور رفتہ رفتہ یہاں منتقل ہوگا۔ اس امریکی فیصلے میں کئی ناکامیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ امریکی صدر جس نے اس افتتاح میں جانا تھا، وہ نہیں گیا، اس کے خلاف اتنا عالمی پریشر آیا ہے۔ اس منتقلی پہ امریکہ کو درکار حمایت حاصل نہیں ہوئی ہے اور جو قرارداد بھی آئی ہے تو اس میں دنیا کے چند چھوٹے چھوٹے ملک کہ جن کا نام عالمی سیاست میں ہی شامل نہیں ہے، ان کے علاوہ پوری دنیا نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ جس میں یورپ، افریقہ اور دنیا کے دیگر ممالک شامل ہیں۔ یہ امریکہ و اسرائیل کی ناکامی ہے۔ کوئی بھی اقدام جس پہ آپ کو عالمی تائید ملتی ہے تو اسے کامیابی گردانا جاتا ہے، کوئی بھی ایسا اقدام کہ پوری دنیا جس کی نفی کر رہی ہو، اسے ناکامی ہی سمجھا جائے گا۔ ایک مقبوضہ علاقہ ہے، جہاں پہ قوت طاقت کے بل بوتے پہ قابض افواج کا پہرہ ہے۔ وہاں آپ ایک عمارت کو اپنا سفارتخانہ قرار دیتے ہیں تو کئی سوالات آپ پہ ثبت ہوں گے۔ یہ تو ایسا فیصلہ ہے کہ ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ میں جانے والے محمد بن سلمان وغیرہ کو بھی اس کی مخالفت کرنا پڑی ہے۔ جب تک دنیا کے باقی ممالک وہاں اپنے سفارتخانے منتقل نہیں کرتے، وہاں نہ تو سفارتکاری کا ماحول بن سکتا ہے اور نہ ہی عالمی سطح پہ اسے وہ حیثیت حاصل ہوسکتی ہے کہ جو آپ دینا چاہتے ہیں۔ یہ امریکی سفارتکاری کی بہت بڑی ناکامی اور اسرائیل کی دنیا میں تنہائی ہے۔
سوال: اسرائیلی حملوں کیخلاف اوآئی سی سمیت دیگر اسلامک فورمز سے جو ردعمل سامنے آیا، کیا وہ قابل اطمینان ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: اقوام متحدہ تو امریکی کٹھ پتلی تھی۔ ویسے بھی پانچ ممالک کے پاس ویٹو پاور موجود ہے، لہذا ان سے کوئی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیئے، کیونکہ ان میں سے کوئی ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود بھی جنرل کونسل کے اندر جو قراردادیں آئی ہیں تو ان میں اسرائیل کو اور امریکہ کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور عالمی برادری ان کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی ہے۔ لہذا یہ جو فورم ہے، اپنی غیر جانبداری اور اہمیت کھو چکا ہے، مگر مغرب اور امریکہ زدہ سمجھے جانے والے اس فورم پہ بھی امریکہ اور اسرائیل کو حمایت نہیں ملی ہے اور انہیں بدترین تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوسری جانب جب ہم عرب لیگ کی بات کرتے ہیں تو چونکہ اس پہ سعودی اثر غالب ہے اور اس کے علاوہ اس فورم نے ان عرب ممالک کی رکنیت ہی منسوخ کی ہوئی ہے کہ جو اپنے حق کی بات کرتے ہیں، جیسا کہ شام، جو کہ عرب ملک ہے مگر عرب لیگ میں نہیں، اسی طرح یمن ہے، جو عرب ملک ہونے کے باوجود عربوں کے ہی نشانہ پہ ہے۔ عرب لیگ اس وقت جی سی سی کے ہاتھ میں ہے اور جی سی سی سعودی عرب کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ عرب لیگ سے ماسوائے ایک قرارداد مذمت کے اور زیادہ توقع عبث ہے۔ اسرائیل کے خلاف فرنٹ مورچہ تو شام ہے۔ شام اس وقت عرب لیگ کا معطل رکن ہے۔ اب اگر او آئی سی کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ ایک مناسب اقدام ہے کہ او آئی سی نے اس پہ ایک ہنگامی اجلاس بلایا ہے۔ اس اجلاس میں دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک کے سربراہان شریک ہوئے ہیں، البتہ وہ سربراہان شریک نہیں ہوئے کہ جو سعودی اثر میں ہیں۔ ترک قیادت سے ان تمام تحفظات کے باوجود کہ جن میں ترکی کے اندر اسرائیلی سفارتخانے کا قائم رہنا، ان کی تقریبات، ٹریڈ کا جاری رہنا کہ جس کے ذریعے انہوں نے اسرائیل کو قبول کیا ہوا ہے، ان سب کے باوجود ترکی کا اقدام انتہائی مناسب تھا اور او آئی سی نے علامتی طور پر ہی سہی مگر اس معاملے پہ ایک صفحہ پہ ہونے کا اظہار کیا ہے۔
سوال: کثیر الملکی سعودی فوجی اتحاد کا ردعمل کیا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: تمام تر صورتحال میں وہ اسلامی اتحاد بھی اپنے کردار کے لحاظ سے عیاں ہوا ہے کہ اس کا اسلامک مفاد اور اسلامی دنیا کے ایشوز سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ خالصتاً فرقہ وارانہ بنیادوں پہ مزاحمتی ممالک ایران اور اس کے حامیوں کے خلاف مسلکی بنیادوں پہ تشکیل دیا گیا ہے، جو کہ بہت خطرناک ہے اور امت مسلمہ کیلئے بدترین بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ اس میں ایک بدترین چیز پاکستان کے سابق آرمی چیف کا اس کی قیادت کرنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب امت مسلمہ شام میں امریکی حملوں کی مذمت کر رہی تھی تو اس وقت سعودی عرب اور ترکی ان حملوں کی توجیہات پیش کر رہے تھے تو پھر کیسے اور کس منہ سے آپ فلسطینیوں کے حقوق یا ان کی آزادی یا ان پہ اسرائیلی حملوں کے خلاف بات کرسکتے ہیں۔ عرب ملکوں کا معاملے میں کوئی اچھا کردار نہیں رہا۔ وہ مزاحمتی قوتیں کہ جنہوں نے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے، وہاں آنے والی سیاسی تبدیلیاں مزاحمتی عمل کی تائید و حمایت میں جا رہی ہیں۔ جو کہ مشرق وسطیٰ کے مستقبل میں انتہائی اہم اور کارآمد ہیں۔
سوال: شام اور اسرائیل کے مابین جھڑپ سے اسرائیلی دفاع کو نقصان پہنچا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: شام ایک ایسا میدان ہے کہ جہاں روس، امریکہ،حزب اللہ، ایران، ترکی اور کردوں کا مفاد موجود ہے۔ چنانچہ شام میں مختلف قوتوں کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع مل رہا ہے۔ تاہم زمینی حقائق میں بشارد الاسد اور مزاحمتی قوتوں نے ملکر ملک کے بڑے حصے سے دہشتگردوں کو نکال باہر کیا ہے۔ اس کے بعد باقی دنیا کے مفادات یہاں بتدریج کم ہونا شروع ہوئے ہیں یا ان کے حصول کے امکانات بتدریج کم ہوئے ہیں۔ مزاحمتی بلاک کا شام میں طاقتور ہونے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ اندرونی علاقوں کی جنگ سے وہ تقریباً فارغ ہوچکے ہیں اور بیرونی اسٹریٹجک ایریاز میں جنگ منتقل ہونا شروع ہوگئی ہے۔ جیسے گولان ہائیٹس کے نزدیکی علاقے، قونیطرہ، قلمون وغیرہ میں کوئی بڑی تبدیلی واقع ہوتی ہے اور یہاں اگر حزب اللہی قوتیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پھر اسرائیل کی آئندہ شکست میں شام اور ان علاقوں کا بڑا کردار ہوگا۔ اسرائیل نے بھی ان چیزوں کو نوٹ کیا اور ردعمل میں شام کو کئی مقامات پہ ہٹ کیا ہے۔ جس میں ایران کے کئی افراد شہید ہوئے ہیں۔ گرچہ ایران اور شام کے درمیان بہترین ہم آہنگی موجود ہے، مگر چونکہ اسرائیل نے شام پہ حملہ کیا تھا اور اس کا جواب بھی شام سے ہی گیا ہے، تو یہ جواب شام نے ہی دیا ہے۔ ابھی تک ایران نے اس کا جواب نہیں دیا ہے۔ ایران نے واضح کہا ہے کہ جب ہم جواب دیں گے تو اعلان کرکے جواب دیں گے۔ ایران کے پاس جو میزائل سسٹم ہے، اس کیلئے آئرن ڈوم کو ناکام بنانا، جو اسرائیل کا میزائل ڈیفنس سسٹم ہے، بے بس ہے۔ ایران، حزب اللہ اور شام کے مفاد میں یہی تھا کہ جب اسرائیل پریشر کو کم کرنے کیلئے شام میں مختلف مقامات پہ حملے کرے تو یہ اس کو کاونٹر کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیلی ایف سولہ کو مار گرانا، اسرائیل کے فرنٹ مورچوں کو نشانہ بنانا، اسرائیل کے اندر ایک ہنگامی صورتحال کا ہونا، وہاں لوگوں کا زیر زمین بنکرز میں منتقل ہونا اور لوگوں کا وہاں بھی بنیادی ضروریات کا پورا نہ ہونا، اسرائیل کی فوجی طاقت کے غبارے سے ہوا نکلنے کے مترادف ہے۔
سوال: کیا ایران اپنے شہید فوجیوں کا انتقام لے گا۔؟
سید ناصر شیرازی: دونوں جانب سے ہونے والے ان حملوں میں دونوں فریقوں نے اپنے مسلز ٹسٹ کئے ہیں، اسرائیل کو شدت سے اس بات کا بھی احساس ہوا ہے کہ مزید کچھ ہونے کی صورت میں ردعمل کہیں شدید ہوسکتا ہے۔ مزاحمتی بلاک جو شام میں موجود ہے، وہ نہ تو ایف سولہ بنا رہا ہے اور نہ ایف تھرٹی، وہ آئرن ڈوم بھی نہیں بنا رہا ہے۔ تاہم وہ ایسی ٹیکنالوجی پہ ضرور کام کر رہا ہے کہ جو ان تمام ٹیکنالوجیز کو کاونٹر کرکے اسے نیوٹرل کرسکے۔ اس کیلئے گرچہ سرمایہ کم درکار ہے، مگر ردعمل میں چوٹ شدید پہنچا سکتے ہیں اور اسرائیلی حملے کے جواب میں اپنی قوت کا معمولی اظہار انہوں نے کیا ہے۔ یہ کھلا پیغام ہے اسرائیل کیلئے کہ اگر تم ہماری کسی کمزوری کو نشانہ بنانے کی کوشش کرو گے کہ ہم داخلی جنگ میں ہیں تو آپ بدترین بحران سے دوچار ہوں گے۔ سیر کا جواب سوا سیر سے شام اور اس کی اتحادیوں نے دیا ہے۔ اسرائیلی حملے میں ایران کے فوجی شہید ہوئے ہیں اور ایران نے اعلان کیا ہے کہ ان کا انتقام وہ ضرور لے گا مگر اس کیلئے وہ وقت اور جگہ کا انتخاب خود کریگا۔ ایران کا یہ اعلان بھی اسرائیل کیلئے ایک لٹکتی تلوار ہے۔ اب اسرائیل کی کوشش یہی ہے کہ اس ممکنہ ایرانی ردعمل کو کسی طور روکا جاسکے اور اس کی کوئی ممکنہ گارنٹی حاصل کی جا سکے۔
انٹرویوبشکریہ۔۔۔اسلام ٹائمز